چوتھی قسط
ہم نے فوجی عدالت کو عدالت ماننے سے انکار کردیا،میں نے بھٹو صاحب سے کہا آپ آئندہ حکمران ہوں گے،معروف صحافی اردو ڈائجسٹ کے مدیر الطاف حسن قریشی سے اے اے سید کا مکالمہ
سوال:بھٹو دورِ حکومت میں آپ کی گرفتاریاں ہوئیں،اس کا کیا پس منظر تھا؟
الطاف حسن قریشی: جناب ذوالفقار علی بھٹو جب خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان صاحب کی حکومت میں وزیر خارجہ تھے، تب میں نے ان کا انٹرویو جون1966ء کے اردو ڈائجسٹ میں شائع کیا تھا۔ یکم جون کو روزنامہ The Pakistan Times نے پہلے صفحے پر آٹھ کالمی سرخی کے ساتھ اس انٹرویو کے اقتباسات شائع کردیئے۔ اس وقت پاکستان میں ’’پاکستان ٹائمز“ انگریزی کا سب سے بڑا اخبار تھا، جو فوج میں تو پڑھا ہی جاتا تھا،لیکن سول بیوروکریسی اور بااثر طبقوں میں بھی کافی مقبول تھا۔
میں ساڑھے آٹھ بجے صبح اپنے دفتر آیا تو دیکھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بج رہی ہے۔ میں نے لپک کر ریسیور اٹھایا تو دوسری طرف سے کسی نے کہا کہ’’کون بات کررہا ہے؟‘‘میں نے کہا کہ ’’الطاف حسن قریشی بات کررہا ہوں‘‘۔
وہ صاحب کہنے لگے: ’’میں راولپنڈی ایوانِ صدر سے بات کررہا ہوں اور وزیر خارجہ ذوالفقارعلی بھٹو صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ اور ساتھ ہی بھٹو صاحب لائن پر آگئے اور کہنے لگے:’’الطاف، یہ تم نے کیا کردیا؟ میں نے جو باتیں آف دی ریکارڈ کی تھیں، وہ بھی تم نے چھاپ دی ہیں، یہ تو بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے اور صدر صاحب اس پر بہت سخت ناراض ہیں اور وہ آپ کے خلاف ایکشن لینا چاہتے ہیں، آپ کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں، اپ کا پرچہ بند کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
دراصل اس انٹرویو میں مَیں نے بھٹو صاحب سے ایک سوال یہ بھی کیا تھا کہ ’’کیا بھارت واقعی دل سے پاکستان سے دوستانہ تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے؟‘‘ جس کے جواب میں بھٹو صاحب نے کہا تھا:’’میرے خیال میں بھارت کی طرف سے دوستانہ تعلقات کی یہ باتیں ایک فریب ہے۔ ہماری شدید خواہش ہے کہ ہمسایہ ملک سے ہمارے تعلقات نہایت اچھے ہوں، لیکن بھارت کی نیت ٹھیک نہیں لگتی۔ ہندو ذہنیت کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ اس نے برصغیر میں ہر نئی ابھرنے والی تہذیب کو اپنے اندر جذب کرکے اس کی انقلابی اور تحریکی قوت ختم کر ڈالی۔ اس ہندو تہذیب نے بودھ مت کو نگلا، جین مت کی روح کھینچ لی، اور پھر یہی سلوک اسلامی تہذیب کے ساتھ بھی کرنا چاہا۔ لیکن اسلامی تہذیب اتنی جان دار ثابت ہوئی کہ ہندو تہذیب کے تمام حربے ناکام رہے۔ برہمن قیادت نے پاکستان کا وجود کبھی تسلیم نہیں کیا۔ تاہم اب اس کی مسلم کُش پالیسی نے نیا روپ دھار لیا ہے۔ ہم نے ان پر بار بار واضح کیا ہے کہ تعاون صرف دو برابر ملکوں کے درمیان ہوسکتا ہے۔ تم جب تعاون کی بات کرتے ہو، تب تمھارے پیش نظر پاکستان کو ہڑپ کرنا ہوتا ہے۔ ہم انڈیا کے دام فریب سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اگر بھارت نے ہمیں للکارنے کا ارتکاب کیا تو ہم ان شاء اللہ حق اور صداقت کی فیصلہ کن جنگ لڑیں گے۔‘‘
یہ بات بھٹو صاحب نے انٹرویو میں مجھ سے کہی تھی اور شمارہ مارکیٹ میں آتے ہی یہ بات روزنامہ ’’پاکستان ٹائمز‘‘ نے خوب نمایاں کرکے شائع کردی۔ معاملہ دراصل یہ تھا کہ صرف پانچ ماہ پہلے جنوری 1966ء میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان اشراکی روس کی میزبانی میں جو ’’معاہدہ تاشقند‘‘ ہوا تھا، اس میں یہ طے پایا تھا کہ ’’ایک دوسرے کے خلاف کوئی بات نہیں کی جائے گی‘‘۔ جب کہ یہ بات تو بجا طور پر مگر کھلم کھلا بھارت کے خلاف تھی، اس لیے صبح صبح ہی صدر ایوب خان صاحب نے بھٹو صاحب سے کہا’’تم نے یہ کیا کہا ہے؟ یہ تو ہماری پالیسی کے خلاف ہے۔ اب ہم ان کو کیا جواب دیں گے؟’’بھٹو صاحب نے ایوب خان صاحب سے کہا: ’’میں نے تو ان سے ایسی کوئی بات کی ہی نہیں تھی، انھوں نے غلط لکھا ہے‘‘۔ حالانکہ بھٹو صاحب نے یہ بات انٹرویو کے دوران اسی اسلوب اور اسی لہجے میں کی تھی۔
بھٹو صاحب فون پر ابھی مجھ سے یہ بات کررہے تھے کہ فون کی لائن ڈراپ ہوگئی اور فون کی ٹون بند ہوگئی، جس کے دس پندرہ منٹ کے بعد سمن آباد جہاں ہمارا دفتر تھا، اس سے پانچ سات فرلانگ کے فاصلے پر علامہ علاء الدین صدیقی صاحب کی رہائش گاہ تھی۔ اُن کے گھر فون آیا کہ ’’الطاف قریشی کو اپنے گھر کے فون پر لائیں، تاکہ یہاں سے ہم بات کرسکیں‘‘۔ علاءالدین صاحب کا خادم بائیسکل بھگاتے ہوئے میرے پاس آیا اور بتایا کہ ’’ایوانِ صدر سے فون آرہا ہے آپ وہاں چلیں‘‘۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، لیکن چلنے سے پہلے ازراہِ احتیاط اپنا ٹیلی فون چیک کیا تو ہمارے ٹیلی فون کی ٹون بحال ہوگئی تھی۔ اس پر میں نے علامہ صاحب کو فون پر ہی کہہ دیا کہ ’’میں یہاں سے ہی فون پر بات کرلیتا ہوں‘‘۔ تو وہ کہنے لگے کہ ’’ٹھیک ہے اگر بات نہ ہوسکے تو ہمارے ہاں آجائیے گا۔‘‘
میں نے کال بک کرائی اور دس منٹ بعد لائن مل گئی۔ دوسری طرف بھٹو صاحب ملے، مگر اب بھٹو صاحب کا لب و لہجہ کافی بدلا ہوا تھا۔ انھوں نے کہا: ’’الطاف صاحب میں نے تو آپ کو مشورہ دیا ہے کہ تردید کردیں۔‘‘ میں نے کہا: ’’جو کچھ آپ نے کہا تھا میں نے وہی شائع کیا ہے اور اگر آپ کے کہنے پر میں تردید کرنا بھی چاہوں تو اگلے پرچے میں ہی شائع کرسکتا ہوں، اس طرح مہینے سے پہلے تردید نہیں ہوسکے گی‘‘۔ جواب میں انھوں نے کہا: ’’جو آپ کو بہتر لگے وہ کرلیں، لیکن آپ کو انٹرویو دینے کی وجہ سے صدر صاحب نے مجھے اپنی کابینہ سے نکال دیا ہے۔ اب میں کابینہ کا حصہ نہیں رہا۔ میں نے صدر صاحب سے کہا ہے کہ وہ آپ کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیں۔ امید ہے کہ آپ وقت پر تردید وغیرہ شائع کردیں گے‘‘۔ میں نے کہا ’’چلیے اچھا ہی ہوا، اگر آپ نے ہمت سے کام لیا تو آئندہ حکمران آپ ہی ہوں گے‘‘۔ بھٹو صاحب نے اس بات کا جواب دینے کے بجائے صرف ’’خدا حافظ‘‘ کہنے پر اکتفا کیا اور فون بند کردیا۔
سوال: یہ تو ہوئی پہلے کی بات، جو بڑی اہم ہے، لیکن اس کے چھے سال بعد وہ کیوں آپ کے بارے میں سخت گیر ہوئے؟
الطاف حسن قریشی: یہ وجہ تھی بھٹو صاحب کے ساتھ ہمارے تعلقات ٹھیک نہ رہنے کی۔ دراصل انھوں نے یہ سمجھا کہ میں نے انھیں کابینہ سے نکلوا دیا ہے۔ چنانچہ جب 1970ء کے انتخابات کا مرحلہ آیا تو وہ اپنے جلسوں میں ہمارے خلاف کہتے رہے کہ جب میں اقتدار میں آجائوں گا تو الطاف قریشی کو Fixup کردوں گا‘‘۔ اور پھر جب وہ اقتدار میں آگئے تو اُس زمانے میں میں نے سقوط مشرقی پاکستان کے اسباب و محرکات پرقسط وار مضامین لکھنا شروع کیے کہ یہ کیوں ہوا؟ اور اس کے کون ذمہ دار ہیں؟ جنوری 1972ء میں پہلی قسط آئی۔ فروری میں دوسری، مارچ میں تیسری اور اپریل میں چوتھی قسط شائع ہوئی۔
جب اپریل میں قسط شائع ہوئی تو اس میں بھٹو صاحب کے رویّے پر بھی بحث کی گئی تھی، جو ان کو بہت ناگوار گزری۔ اگرچہ وہ پہلے بھی ہم سے ناراض تھے، مگر اب انہوں نے مجھے اور بڑے بھائی ڈاکٹر اعجاز حسن صاحب کو اور مجیب الرحمٰن شامی صاحب کو جو اُس وقت ہفت روزہ ’زندگی‘ کے ایڈیٹر تھے،گرفتار کرلیا۔ اس سے اگلے دن انہوں نے Punjab Punch کے ایڈیٹر حسین نقی صاحب اور ان کے پبلشر مظفر قادر کو بھی گرفتار کرلیا۔ اس طرح ہم پانچ آدمیوں کی گرفتاری بھٹو صاحب کے اقتدار سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد ہوگئی۔ مارشل لا کی عدالت میں مقدمہ چلا اور ہم نے اپنے بیان میں اس فوجی عدالت کو عدالت ماننے سے انکار کردیا۔ خصوصی عدالت میں مقدمات چلتے رہے، جنھوں نے قید کی سزا دے دی اور یہ بھی پابندی لگادی کہ آئندہ اخبار کی ایڈیٹر شپ نہیں کرسکیں گے۔ ہائی کورٹ نے ان سزائوں کو غیر قانونی قرار دیا اور رہائی ممکن ہوئی۔
رہائی پانے کے اس زمانے میں بھٹو صاحب کے وفاقی مشیر اطلاعات مولانا کوثر نیازی صاحب تھے۔ وہ ایک زمانے میں جماعت اسلامی میں بھی رہے تھے اور تب میرے بڑے بھائی اعجاز صاحب بھی جماعت اسلامی میں مل کر کام کرتے رہے تھے، اور مصطفےٰ صادق صاحب بھی جماعت اسلامی میں تھے۔ اس وجہ سے ہمارا کوثر صاحب اور مصطفےٰ صاحب سے ایک تعلق قائم تھا۔ جماعت اسلامی سے اگرچہ وہ الگ ہوچکے تھے، مگر سماجی ربط قائم تھا۔ جب ہماری گرفتاری ہوئی تو کوثر نیازی صاحب نے خود سوچا، یا انھیں خیال آیا، یا کسی نے خیال دلایاکہ یہ تو غلط کام ہوگیا ہے کہ شروع ہی میں صحافیوں اور اخبارات کے ایڈیٹروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے، جس سے حکومت کی بدنامی ہورہی ہے۔ پھر یہ تو وہ لوگ ہیں جو متوازن دلائل سے بات کرتے ہیں۔
چنانچہ کوثر نیازی صاحب نے روزنامہ ’’وفاق‘‘کے ایڈیٹر مصطفےٰ صادق صاحب کے ذریعے بھٹو صاحب کے ساتھ جون یا جولائی1972ء میں جب کہ وہ ابھی صدرتھے اور راولپنڈی میں قیام پذیر تھے، ملاقات کا اہتمام کیا۔ ہم شام کو وہاں پہنچے۔ بڑی سخت گرمی تھی۔ بھٹو صاحب کے ملازموں نے ہمیں برآمدے میں بٹھادیا۔ ہم پسینے میں شرابور ہوچکے تھے۔ تھوڑی دیر بعد بھٹو صاحب ہمارے پاس آکر اسی برآمدے میں بیٹھ گئے جس میں کوئی پنکھا تک نہیں تھا، اور انھوں نے بیٹھتے ہی مسلسل گفتگو شروع کر دی۔
انہوں نے براہِ راست اس جملے سے بات کا آغاز کیا کہ’’ایوب خان تو الطاف کو گرفتار کرنا چاہتے تھے مگر میں نے ان سے بچایا اور اب میرے احسان کا بدلہ یہ دے رہے ہیں کہ مجھ پر اپنے قلم سے بار بار حملے کررہے ہیں۔ میری حکومت پر بڑی سخت تنقید کرتے ہیں اور بڑا تنگ کررکھا ہے۔ صادق صاحب یہ لوگ کیسے آپ کے دوست ہیں؟‘‘ پھر ہر پانچ جملوں کے بعد وہ اپنا یہ جملہ دہراتے’’یہ کیسے آپ کے دوست ہیں؟‘‘ میں ان کی مسلسل اور یک طرفہ گفتگو برابر سنتا رہا، لیکن جب پانچویں مرتبہ انھوں نے یہ بات دہرائی تو میں نے کہا: ’’بھٹو صاحب، بات یہ ہے کہ اب ریکارڈ درست کرنے کا وقت آگیا ہے کہ آپ اس بات کو بار بار دہرا رہے ہیں اور اس سے یہ ثابت کررہے ہیں کہ ظالم میں ہوں اور مظلوم آپ ہیں، حالانکہ مظلوم میں ہوں۔ جس بات کا آپ مجھ پر احسان جتارہے ہیں، یہ احسان مجھے جتانا چاہیے کہ میرے اس انٹرویو کی وجہ سے آج آپ اس کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ انٹرویو نہ چھپتا تو آپ کابینہ سے باہر نہ آتے، آپ الیکشن نہ لڑتے اور آپ کامیاب نہ ہوتے تو اس منصب پر کیسے ہوتے؟ اس لیے آپ کو تو میرا شکر گزار ہونا چاہیے، بجائے اس کے آپ بار بار یہ بات کہہ رہے ہیں۔‘‘ جیسا کہ پہلے بتا چکا ہوں، یکم جون 1966ء کو جب انھوں نے فون پر مجھ سے کہا تھا کہ ”ایوب خان نے مجھے کابینہ سے نکال دیا ہے“ تو میں نے بھٹو صاحب سے یہ کہا تھا کہ ’’چلیے اچھا ہی ہوا، اگر آپ نے ہمت سے کام لیا تو اب آئندہ حکمران آپ ہی ہوں گے‘‘۔ اسی لیے میں نے کہا کہ اس انٹرویو کی وجہ سے آپ حکمران بنے ہیں۔
اس مکالمے کے بعد بھٹو صاحب ٹھنڈے پڑ گئے اور کہنے لگے کہ ’’یار معاف کرنا‘‘۔ انہوں نے مجھ سے کہا: ’’میں آپ سے ایک مشورہ چاہتا ہوں‘‘۔ میں نے کہا: ’’میں تو ایک صحافی ہوں، آپ مجھ سے کیا مشورہ چاہتے ہیں حالانکہ آپ خود بہت بڑے سیاست دان ہیں اور بڑے کٹھن مراحل سے گزر چکے ہیں‘‘۔ کہنے لگے: ’’نہیں نہیں میں آپ سے مشورہ چاہتا ہوں۔ بتائیں اپوزیشن کے ساتھ مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘‘ دراصل اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں کو انہوں نے گرفتار کرکے مری بھیجا ہوا تھا۔
میں نے ہنس کر کہا: ’’دیکھیے یہ تو بڑی سادہ سی بات ہے، حالانکہ میں کوئی سیاست دان نہیں ہوں، لیکن ایک عام شہری کی حیثیت سے میرے ذہن میں فوری طور پر ایک ہی بات آتی ہے اور وہ یہ کہ آپ بھی سیاسی لیڈر ہیں اور وہ لوگ بھی سیاسی لوگ ہیں، آپ کو آپس میں مذاکرات کرنے چاہئیں، ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے، اگرچہ اختلافات بھی ہیں۔ وہ آپ پر الزام لگارہے رہیں کہ مشرقی پاکستان توڑنے میں آپ کا بڑا ہاتھ ہے۔ یہ الزام در الزام ایک جذباتی لہر کی صورت چلیں گے، پھر وہ سیاست دان بھی کامیاب ہوکر آئے ہیں، آپ بھی کامیاب ہوکر آئے ہیں۔ ملک ٹوٹا ہوا ہے، آئین بنانا ہے، لوگ بہت پریشان حال ہیں کہ ہمارا کیا بنے گا؟ مگر آپ نے لڑائی شروع کررکھی ہے۔ دیکھیں، آپ کی اپوزیشن کے پاس کیا طاقت ہے؟ وہ ہیں ہی کتنے لوگ اس پوری 138 ارکان کی اسمبلی میں؟ یہی کوئی ڈیڑھ دو درجن لوگ ہیں۔ اس کے برعکس آپ کے پاس اتنی بڑی اکثریت ہے، آپ کو پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ ان سے بات کریں اور انہیں مذاکرات کی دعوت دیں۔‘‘
انہوں نے ملازم کو آواز دی کہ: ’’چائے پانی وغیرہ تو لے آئو‘‘۔ اتنی دیر تک ان کو چائے کا خیال نہیں آیا کیونکہ وہ غصے اور پریشانی سے مغلوب تھے۔ ملازم گیا اور کچھ دیر کے بعد چائے، بسکٹ اور پانی لے آیا۔ بھٹو صاحب نے بڑے نرم لہجے میں مجھ سے پوچھا کہ ’’آپ کا کیا خیال ہے، میں انھیں دعوت دوں گا تو وہ مان جائیں گے؟ اگر وہ مذاکرات کی دعوت قبول نہ کریں گے تو اس سے میری بڑی بے عزتی ہوگی‘‘۔ میں نے کہا: ’’براہِ راست ان میں سے کسی سے میرے رابطے تو نہیں ہیں، لیکن میں نے جتنے عرصے کام کیا ہے اور اس وقت جو صورت حال ہے، اس میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ خلوص کے ساتھ دعوت دیں گے تو وہ ضرور مان جائیں گے اور مذاکرات شروع ہوجائیں گے‘‘۔ کہنے لگے: ’’اچھا، تم واقعی یقین دلاتے ہو‘‘۔ میں نے کہا:’’اپنی چھٹی حس اور تجربے کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ مذاکرات شروع ہوجائیں گے‘‘۔
اس طرح قدرے پُرسکون ماحول میں ملاقات ختم ہوئی اور چائے پی کر ہم وہاں سے اپنے ہوٹل آگئے، اور یہ کوئی شام پونے چھ بجے کا وقت ہوگا۔ راولپنڈی انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل میں میں اور مصطفےٰ صادق صاحب ٹھیرے ہوئے تھے۔ ہم جب کمرے میں داخل ہوئے تو ٹی وی پر چھے بجے کی خبریں شروع ہورہی تھیں۔ ٹیلی ویژن پر پہلی خبر یہ نشر ہوئی کہ ’’صدر بھٹو صاحب نے حزب اختلاف کے لیڈروں کو مذاکرات کی دعوت دی ہے‘‘۔ اندازہ کیجیے، دس منٹ کے اندر مذاکرات کی دعوت دے دی! مجھے یقین ہی نہیں تھا کہ تجویز پر وہ اتنی جلدی عمل درآمد کرسکیں گے۔ ہمیں کوئی سات آٹھ منٹ لگے ہوں گے وہاں سے اپنے ہوٹل تک پہنچنے میں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ہی ہم نکلے تو انہوں نے اپنے ملٹری سیکریٹری کو کہا ہوگا کہ ف”وراًاپوزیشن لیڈر وںسے بات کرائو‘‘۔ انہوں نے بات کرائی ہوگی اور اسی وقت انہوں نے جواب بھی دے دیا:’’ہم آپ کو بتاتے ہیں‘‘۔
سوال:بھٹو صاحب کے مزاج کا آپ نے یہ حیرت انگیز پہلو بیان کیا ہے۔ مگر اس کے بعد بھی تو آپ گرفتاری اور سزا سے دوچار رہے۔
الطاف حسن قریشی: اس کے بعد بھی ہماری گرفتاریاں ہوتی رہیں، مقدمے چلتے رہے اور ہم سزائیں بھگتتے رہے۔ میں تقریباً دو سال تک بھائی جان کے ہمراہ، بھٹو صاحب کے زمانے میں جیل میں رہا۔ بھٹو حکومت نے’’اردو ڈائجسٹ‘‘کو معاشی اعتبار سے بالکل ختم کردینے کی کوشش کی۔ ہمارا پریس ضبط کرلیا اور ڈیکلیریشن بار بار منسوخ کرتے رہے۔ یہ اللہ کا شکر ہے کہ ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود ہم کسی نہ کسی طرح ’’اردو ڈائجسٹ‘‘شائع کرتے رہے۔ کسی نہ کسی نام سے ہمارا پیغام لوگوں تک پہنچتا ہی رہا۔
سوال: پھر رہائی ہوگئی؟
الطاف حسن قریشی: جی! آخرکار اللہ تعالیٰ نے ہماری رہائی کا راستہ پیدا کیا۔ جیل میں ہماری قید کے دوران میں بھائی جان آئینی و قانونی نکتوں پر غور کرتے رہتے تھے۔ انہیں ایک دن خیال آیا کہ آئین میں جو ترمیم ہوئی تھی، اس میں یہ درج ہے کہ ٹریبونل کی سزا کے خلاف کہیں اپیل نہیں ہوسکے گی، مگر اس ٹریبونل کے ہوتے ہوئے بھی ہم ہائی کورٹ میں جاسکتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے اسی خیال کی بنیاد پر وہیں جیل سے ایک درخواست لاہور کے چیف جسٹس صاحب کے نام بھیج دی اور اس میں تمام واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ہمیں یہ سزا ملی ہے اور اس قانون کے تحت میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ جو سزا ہمیں دی گئی ہے آپ اس پر نظرثانی فرمائیں۔ چنانچہ چیف جسٹس صاحب نے اس درخواست کو ہی پٹیشن بنادیا اور اس کی سماعت کے لیے ڈویژنل بینچ مقرر کردیا۔ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی صاحب ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔ ڈویژنل بینچ نے ان کی باتیں سنیں اور اس بنا پر انہیں رہا کردیا کہ آپ کی بات درست ہے اور یہ فیصلہ خلافِ قانون ہے۔ میں اس وقت میو اسپتال میں زیر علاج تھا کہ آٹھ دس دن کے بعد اسی بنیاد پر میں نے بھی درخواست دی اور میری بھی رہائی ممکن ہوئی۔
سوال: آپ کی پیرپگارا سے ایک ملاقات ہوئی، جس میں آپ سے مارشل لا جو لگنے جارہا تھا اس پر حمایت کی بات کی گئی۔ اس کی کیا تفصیلات ہیں؟
الطاف حسن قریشی:1977ء میں بھٹو حکومت کے خلاف عوامی تحریک زوروں پر تھی، اور اسی دوران رہا ہوتے ہی میں اسلام آباد گیا، جہاں حزبِ اختلاف کے بھٹو صاحب سے مذاکرات ہورہے تھے۔ راولپنڈی میں چودھری ظہور الٰہی صاحب کی رہائش گاہ پر حزبِ اختلاف کے سبھی لوگ ملتے تھے۔ حزبِ اختلاف عملی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوچکی تھی: ایک حصہ یہ چاہتا تھا کہ بھٹو صاحب کے ساتھ جو مذاکرات ہورہے ہیں اور ان میں جو بنیادی نکات طے ہوچکے ہیں، ہمیں اسی کو آگے بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ان پارٹیوں میں جماعت اسلامی، پاکستان جمہوری پارٹی اور جمعیت العلماء اسلام کی قیادت پیش پیش تھی، دوسرا حصہ یہ کہتا تھاکہ ’’بھٹو ایک قابل اعتبار انسان نہیں ہے، اس کے کسی وعدے پر ہم اعتبار نہیں کرسکتے۔ اس لیے ہمیں جو کچھ کرنا ہے ابھی کرنا چاہیے۔ اس گروپ میں تحریک استقلال، جمعیت علمائے پاکستان اور نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی (نیشنل عوامی پارٹی کا دوسرا نام)، مسلم لیگ اور خاکسار تحریک شامل تھیں، جبکہ سردار عبدالقیوم خان مسلم کانفرنس کی پوزیشن دونوں کے درمیان اور غیر واضح تھی۔
میں اس وقت اپنے ایک دوست کے ہاں اسلام آباد میں ٹھیرا ہوا تھا کہ مسلم لیگ کے سربراہ مردان شاہ پیر پگارا صاحب نے پیغام بھیجاکہ وہ مجھ سے ملنا چاہتے تھے۔ جس روز جنرل محمد ضیاء الحق نے مارشل لا لگایا، یہ اس سے دو دن پہلے کی بات ہے۔ میں پیر پگارا صاحب کے پاس ملاقات کے لیے اسلام آباد میں حاضر ہوا۔ شام کا وقت تھا، وہ بڑے تپاک سے ملے۔ خیروعافیت معلوم کرنے کے بعد کہنے لگے: ’’میں نے آپ کو اس لیے بلایا ہے کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ بھٹو ایک ناقابل اعتبار شخص ہے اور اس صورت حال کا واحد علاج مارشل لا ہے۔ مارشل لا لگےگا تو یہ سارے مسائل حل ہوں گے۔ مارشل لا نہیں لگے گا تو یہ اسی طرح ہمیں خراب کرتا رہے گا‘‘۔ پیرپگارا صاحب نے مزید فرمایا:’’میں چاہتا ہوں کہ آپ میری طرف سے ایک ایسا بیان لکھیں، جس میں دلائل کے ذریعے یہ ثابت کریں کہ فوج کا مداخلت کرنا ہی قوم کے بہترین مفاد میں ہے اور اس قدم کے اٹھانے میں کوئی تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔‘‘ وہ بہت زور دے کر مجھے یہ بات سمجھانے کی کوشش کرتے رہے، جبکہ میرا نکتہ نظر اس کے بالکل برعکس تھا۔
میں نے کہا: ’’محترم پیر صاحب،میری رائے تو آپ کی رائے سے یکسر مختلف ہے۔ اس لیے کیسے لکھ سکتا ہوں جب کہ اس تجویز پر یقین ہی نہیں رکھتا!‘‘ انہوں نے فرمایا: ’’آپ کے خیالات آپ کی مرضی ہیں، لیکن میں آپ کو بتارہا ہوں کہ یہی ہوگا اور یہی ہمارے حق میں بہتر ہے۔ آپ ایسا کریں کہ اس بات پر غور کرلیں اور غور کرکے پھر آجائیےگا، اور اگر آپ پسند کریں تو لکھ دیجیے گا‘‘۔ اور میں پیر صاحب کے ہاں سے واپس آگیا۔ چونکہ ان کی تمام باتوں سے میرا نقطۂ نظر مختلف تھا، لہٰذا میں دوبارہ ان کی مجلس میں نہیں گیا۔ اگلے روز انہوں نے کسی اور سے وہ بیان لکھوالیا اوراس سے اگلے روز جنرل محمد ضیاء الحق صاحب کا مارشل لا لگ گیا۔
سوال:آپ کی قید کے دوران مولانا مودودی کا کوئی پیغام ملا ؟
الطاف حسن قریشی: جی ہاں! مولانا ہماری صحت کے بارے میں فکرمند تھے۔ ان کے نیک تمنائوں کے پیغامات ملتے رہتے تھے، جس سے ہمیں بہت تقویت ملتی۔ انہوں نے صفدر علی چودھری اور سلیم منصور خالد کے ہاتھوں مجھے خاص طور پر تفہیم القرآن کا سیٹ بھیجا، بیکری سے کھانے پینے کی اشیا کے ساتھ پھل بھی بھیجے، حوصلہ بھی بڑھایا۔ درحقیقت وہی ہمارے فکری رہنما تھے اور عملی رہنما بھی وہی تھے۔ معاملات پر تدبر کرنا اور صبر کرنا بھی انھوں نے ہی سکھایا تھا۔ مولانا مودودی شفقت اور حسنِ سلوک کے شجرِ سایہ دار تھے۔
سوال: آپ کے خیال میں جماعتِ اسلامی کیوں خاطرخواہ انتخابی کامیابی حاصل نہیں کرسکی؟
الطاف حسن قریشی:اس کے ایک سے زیادہ اسباب ہیں۔ ایک وجہ یہ محسوس ہوتی ہے کہ جماعت کی قیادت عوامی زندگی کے حقیقی مسائل پر کم توجہ دیتی آئی ہے۔ نظریاتی اور اخلاقی تربیت پر تو بجا طور پر بہت کام ہوا، لیکن عوام کن مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں اور طبقاتی تقسیم کیا غضب ڈھا رہی ہے، ان امور میں جماعتِ اسلامی کم ہی دلچسپی لیتی رہی ہے۔ عملی طور پر وہ ایسے منصوبے نہیں بنا سکی جو عوام کو ان کی روزمرہ کی مشکلات اور معاشی استحصال سے نجات دلا سکیں اور اُن طبقوں کو چیلنج کرسکیں جو عوام کے حقوق غصب کیے ہوئے ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ جماعتِ اسلامی زیادہ تر نظریاتی زبان استعمال کرتی ہے جس میں عوام کے معاشی اور سماجی مسائل کا کم کم ذکر آتا ہے۔ اس نے بلاشبہ خدمتِ خلق کے بڑے قابلِ قدر کام کیے ہیں، لیکن ان کارناموں کے باوجود وہ بڑے پیمانے پر عوام سے سیاسی زبان میں اس طرح مخاطب نہیں ہوئی کہ وہ سمجھتے کہ ہمیں سرداروں، وڈیروں اور سنگ دل استحصالی طبقوں سے نجات ملے گی۔ میں یہ بات نہیں کہہ رہاکہ اس میدان میں جماعتِ اسلامی نے سرے سے کوئی کام نہیں کیا، بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ ان امور پر توجہ کم دی گئی اور تربیتی اور نظریاتی پہلو زیادہ اہمیت اختیار کیے رہے۔ اسی وجہ سے عوام ان کے اس طرح قریب نہیں آسکے کہ وہ جماعت کو اپنی نجات دہندہ اور اپنے دکھوں کا مداوا کرنے والی تحریک خیال کرتے۔
سوال: آپ کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے معروضی حالات میں مولانا مودودیؒ کی فکری اور علمی تحریک، سیاسی طور پر ناکام رہی؟
الطاف حسن قریشی:میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا اور نہ ایسا سمجھتا ہوں۔ صرف یہ بتانے کی کوشش کررہا ہوں کہ مولانا مودودیؒ کی توجہ لوگوں کی اخلاقی، دینی اور فکری تربیت پر زیادہ تھی جس میں یقیناً بڑی کامیابی ہوئی۔ مثال کے طور پر یہ بات کہ ’’اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے‘‘ اس جملے کو اس عہد میں محاورہ بنا دینا مولانا مودودیؒ کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ پہلے لوگ یہی سمجھتے تھے کہ چند عبادات اور کچھ رسوم کا نام اسلام ہے، مگر اس کا جو ایک عظیم الشان معاشی، سیاسی، اخلاقی، روحانی اور بین الاقوامی تعلقات کا ایک مربوط نظام ہے، اس کی تفصیلات مولانا نے اپنی ابتدائی تحریروں اور تقریروں ہی میں بیان کردی تھیں۔ ان کے انقلاب آفریں تصوّرات کو بڑی پذیرائی ملی اور مغربی ممالک میں ان پر سنجیدگی سے سوچ بچار بھی ہورہا ہے۔ بنیادی طور پر جماعتِ اسلامی صالحین کی جماعت تھی جس کا ہر شخص رکن نہیں بن سکتا تھا۔ اس میں عوام کو خوش کرنے کے لیے نعرےبازی اور جھوٹے دعووں کی سرے سے کوئی گنجائش نہیں۔ اس لیے وہ عوامی جماعت نہیں بن سکی اور نہ رائے دہندگان کو اپنی طرف بڑے پیمانے پر کھینچ سکی۔
سوال: صوبہ سندھ میں سندھی پیپلز پارٹی اور پنجاب میں پنجابی ن لیگ اور چند مخصوص برادریاں غالب ہیں۔ بلوچستان میں سردار بہت طاقت ور ہیں۔ یوں پاکستان کئی حلقوں اور سیاسی دھڑوں میں بٹا ہوا ہے۔ اس صورتِ حال میں آپ جماعتِ اسلامی کے کیا امکانات دیکھتے ہیں؟
الطاف حسن قریشی: ہمارے ملک میں ایک انتہائی خوفناک برادری سسٹم حاوی ہے، مگر بادی النظر میں جماعتِ اسلامی نے اس کا سنجیدگی سے مطالعہ کرنے اور اس کے اندر مثبت تبدیلی لانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ یہ برادری سسٹم انتخابات پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتا آیا ہے اور مہلک امراض کا گڑھ ہے۔ اب تقریروں میں فقط یہ کہتے رہنے سے کہ برادری سسٹم سوسائٹی کے لیے تباہ کن ہے، کوئی بڑی سماجی تبدیلی نہیں آسکتی۔ اس کے لیے پورے عزم کے ساتھ اعلان کرنا ہوگا کہ ہم برادری سسٹم کو جڑ سے اکھاڑ کر دم لیں گے اور سائنسی بنیادوں پر ایسے منصوبے تیار کرنا ہوں گے جو پوری طرح نتیجہ خیز ثابت ہوسکتے ہوں۔
طبقاتی تقسیم کی جماعت ِ اسلامی بات ضرور کرتی ہے، لیکن اس پہلو پر قرار واقعی تحقیق نہیں ہوئی کہ اس نظام نے جو پنجے گاڑ رکھے ہیں وہ کیسے ختم ہوسکتے ہیں۔ طاقت ور طبقات کی نفسیات، ان کے طریقِ واردات اور ان کے ظلم پر کوئی قابلِ قدر عملی کام نہیں ہوا۔ مجھے یقین ہے کہ جب جماعتِ اسلامی ان موضوعات پر گہرائی اور گیرائی کے ساتھ تحقیقی اور عملی کام کرے گی، تو جس طرح مولانا مودودی نے بڑی کامیابی سے اسلام کو ایک نظامِ حیات کے طور پر متعارف کرایا ہے، بالکل اسی طرح سفاک برادری اور طبقاتی نظام کے خلاف ایک زبردست اور طاقت ور تحریک اٹھ سکے گی۔
سوال: قاضی حسین احمد صاحب کے دورِ امارت میں یہ الزام گردش کرتا رہا کہ آپ، جناب مجیب الرحمٰن شامی اور جناب محمد صلاح الدین نے مل کر، اُن پر دبائو ڈالنے اور ان کے خلاف مہم چلانے کی کوشش کی۔ اس میں کتنی صداقت ہے؟
الطاف حسن قریشی: مہم چلانے کی بات ایک شرانگیز افسانہ اور سخت افسوس ناک بہتان ہے۔ اس مرحلے میں ہمارا تجزیہ تھا کہ مسلم لیگ کے ساتھ انتخابی اتحاد قائم کرلینے سے جماعتِ اسلامی کی انتخابی قوت میں اضافہ ہوگا۔ ماضی میں ان دونوں جماعتوں کے درمیان اتحاد ہوجانے سے جماعتِ اسلامی کے زیادہ ارکان اسمبلیوں میں پہنچ گئے تھے جن کی پارلیمانی کاوشوں کی اصحابِ نظر تعریف و توصیف بھی کرتے رہے۔ ان کے بارے میں قومی سطح پر عمومی تاثر یہ پیدا ہوا کہ وہ پوری تیاری سے ایوان میں آتے اور عوام کے مسائل بڑی جرأت اور مہارت سے اٹھاتے ہیں۔ اس طرح مختلف انتخابی حلقوں میں ان کا اثر رسوخ بڑھنے لگا تھا۔
قاضی صاحب کا مؤقف یہ تھا کہ ہم بے اصول اور ناقابلِ اعتبار مسلم لیگ سے انتخابی اتحاد نہیں کریں گے۔ جبکہ ہم تینوں شدت سے محسوس کررہے تھے کہ یہ سوچ جماعت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی اور اس کا جو سیاسی اور انتخابی دائرہ قدرے وسیع ہوا ہے، اس میں مزید وسعت اسی صورت میں آسکتی ہے کہ دونوں جماعتوں یا دیگر دینی اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ انتخابی اتحاد ہوجائے۔ قاضی صاحب نے ایک مجلسی گفتگو میں ہمارے اس استدلال سے اتفاق نہیں کیا۔ دراصل یہ ملاقات کسی کے اشارے کے بجائے ہم تینوں کے باہمی مشورے سے ہوئی تھی۔ ایک مرحلے میں قاضی صاحب نے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا۔ اس سیاسی سانحے پر مَیں نے جماعت ہی کے مخلص کارکنوں کو یہ کہتے سنا کہ ہم نے پانچ سال کی شبانہ روز محنت سے اپنے انتخابی حلقوں میں پوزیشن مستحکم کی تھی اور جماعت کا دائرۂ اثر وسیع ہوتا جارہا تھا، لیکن انتخابات کے بائیکاٹ سے وہ ساری محنت ضائع ہوجائے گی اور آئندہ ہمارے لیے عوام کے اندر سیاسی کام کرنا دشوار ہوجائے گا۔ یہ ایک فطری ردِعمل تھا جس کا محترم قاضی صاحب کے خلاف مہم چلانے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پورے غوروخوض کے بعد ہماری سمجھ میں جو بات آتی، ہم پوری دیانت داری سے اُس کا اظہار کرتے اور بڑے محتاط انداز میں لکھتے بھی تھے۔
سوال: آپ جیسی محترم اور جہاندیدہ شخصیت کے لیے نوازشریف صاحب سے ہمدردی کرنے کا کوئی جواز بنتا ہے جو مسلم لیگ کو اپنی زبان سے ’’نون لیگ‘‘ کہتے ہیں؟
الطاف حسن قریشی: وہ ہمارے آئیڈیل نہیں تھے، لیکن چند عوامل نظرانداز نہیں کیے جا سکتے تھے۔ ایک یہ کہ نوازشریف کو عوامی حمایت حاصل تھی جس کی تشکیل میں خود جماعتِ اسلامی کا بھی کردار تھا۔ دوسرا ان کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ وہ بےلگام سیکولر اور لبرل عناصر کے برعکس اسلام سے رغبت رکھتے ہیں۔ اگر ان کے ساتھ جماعتِ اسلامی چلتی رہتی، تو اس قربت سے نواز لیگ کی اخلاقی حالت بہتر ہوسکتی تھی۔ اس معاملے میں بنیادی بات یہ ہے کہ جماعتِ اسلامی ایک دعوتی تحریک ہے جو اپنے دروازے کسی پر بند نہیں کرسکتی۔
سوال: سوچنے کی بات ہے کہ یہ دعوت کے دروازے کھولنے کی تلقین اور دلیل پیپلز پارٹی کے لیے کیوں موزوں نہیں؟
الطاف حسن قریشی: دعوت پیپلزپارٹی کو بھی ضرور دینی چاہیے، مگر اس میں اور مسلم لیگ میں بڑا فرق ہے۔ مسلم لیگ نون نے کبھی نظریاتی محاذ پر جماعتِ اسلامی کی مخالفت نہیں کی، جب کہ پیپلز پارٹی نے کھلے بندوں اس کے خلاف ایک شرمناک محاذ کھول رکھا تھا اور اسلام کی معاشی تعلیمات سے کھلا انحراف کیا تھا۔ بعد میں ”اسلامی سوشلزم‘‘ کی اصطلاح ایجاد کی تھی۔ اس کے باوجود پاکستان کی سیاسی جماعت کی حیثیت سے پیپلز پارٹی سے مکالمہ ضروری ہے۔ اسی حکمت عملی کے باعث مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی مسٹر بھٹو کی حکومت کے خاتمے تک اُنھیں اپنے مشوروں سے نوازتے اور سیاسی عمل کا تسلسل قائم رکھنے کے لیے تعاون بھی کرتے رہے۔ (جاری ہے)