جی ٹوئنٹی ملکوں کے نام ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کھلا خط

دستاویزی ثبوتوں اور واقعاتی شہادتوں کے ساتھ جاری ہونے والے اس خط نے آج کے کشمیر کے حالات کی بھرپور منظرکشی کی ہے

حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اِس ماہِ ستمبر میں بھارت میں منعقد ہونے والی جی ٹوئنٹی کانفرنس کے رکن ممالک، کانفرنس میں شریک مہمان ملکوں اور تنظیموں کے نام جاری کیے گئے ایک کھلے خط میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں رکوانے کے لیے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یہ خط کئی دوسری عالمی اور علاقائی تنظیموں کی تائید اور دستخطوں سے جاری کیا ہے جن میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے علاوہ ایشین فیڈریشن اگینسٹ انولنٹری (AFAD)، ایشین فورم فار ہیومن رائٹس اینڈ ڈویلپمنٹ فورم ایشیا،CIVICUS، ورلڈ الائنس فار سٹیزن پارٹیسپیشن، فرنٹ لائن ڈیفینڈر اور کشمیر لا اینڈ جسٹس پروجیکٹ (KLJP)شامل ہیں۔

یہ مشترکہ کھلا خط اس موقع پر جاری کیا گیا جب جی ٹوئنٹی ملکوں کی کانفرنس میں چند دن باقی ہیں۔ یہ خط ایک تاریخی دستاویز ہے جس میں مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جابرانہ اقدامات کا بہت مختصر اور جامع انداز میں جائزہ لیا گیا ہے۔ جی ٹوئنٹی ملکوں کو یہ یاد دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ بھارت کی میزبانی اور انتظامات کی چکاچوند میں انسانی حقوق اور کشمیر جیسے اہم مسئلے کو فراموش نہ کریں۔ اس کھلے اور مشترکہ خط میں جی ٹوئنٹی کانفرنس کے شرکاء پر زور دیا گیا ہے کہ وہ کانفرنس کے موقع پر کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کا مسئلہ اُٹھائیں اور بھارت پر قانونِ بین الاقوام کے تحت عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے دبائو ڈالیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ چار سال سے کشمیریوں کو آئینی حقوق سے محروم رکھنے کے ساتھ ہی بھارت نے اپنی ظالمانہ پالیسیاں بھی جاری رکھی ہیں جن میں آزادیٔ اظہار کے حق کو سلب کرنا، پُرامن اجتماع اور احتجاج کا حق سلب کرنا شامل ہیں۔ بھارتی حکومت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ان واقعات کی آزادانہ تحقیقات کرانے میں ناکام واقع ہوئی ہے جن میں اس کے فوجی، نیم فوجی اور پولیس اہلکار یا دوسرے عناصر شامل ہوتے ہیں۔ خط میں کہا گیا کہ بھارتی حکومت دہشت گردی کی روک تھام اور ریاستی سلامتی کے قوانین کا ناجائز استعمال کررہی ہے۔ ان قوانین میں یواے پی اے اور پبلک سیفٹی ایکٹ شامل ہیں۔ یہ قوانین انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے اداروں اور شخصیات کے خلاف بھی استعمال ہورہے ہیں۔ نومبر 2021ء میں بھارت کی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (NIA) نے حقوقِ انسانی کے ایک کارکن خرم پرویز کو یو اے پی اے کے قانون کے تحت غیر قانونی طور پر گرفتار کیا۔ خرم پرویز جموں وکشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی کے کوآرڈی نیٹر جبکہ ایشین فیڈریشن اگینسٹ انولنٹری ڈس اپیرنسز(گم کردہ لوگوں کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم) کے چیئرپرسن اور انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل بھی ہیں، جنہیں ان کی قید کے دوران ہی 2023ء میں حقوقِ انسانی کے محافظ کے طور پر مارٹن اینلز ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔ کھلے خط میں کہا گیا ہے کہ اب نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی خرم پرویز کی تنظیم سے وابستہ دوسرے افراد کے خلاف بھی کارروائیاں کررہی ہے جس کی مثال مارچ 2023ء میں گرفتار کیے جانے والے کشمیری صحافی اور حقوقِ انسانی کے کارکن عرفان معراج ہیں جنہیں صرف خرم پرویز سے تعلق کی بنا پر گرفتار کیا گیا۔ اب یہ دونوں دہلی کی روہینی جیل میں بند ہیں۔ کھلے خط میں گزشتہ برس اقوام متحدہ کی رپورٹر میری زالور کی رپورٹ کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ خط میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں صحافیوں کو ہراساں کیا جارہا ہے، یو اے پی اے کے تحت کشمیری صحافی فہد شاہ اور سجادگل پابندِ سلاسل ہیں۔ صحافیوں کے کاموں میں خلل ڈالنے کے لیے انٹرنیٹ کی بندش، انہیں سفری سہولیات سے محروم اور ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ کھلے خط میں رواں برس سری نگر میں منعقد کی جانے والی جی ٹوئنٹی ٹورازم کانفرنس کا حوالہ بھی دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ بھارت نے اس کانفرنس کو کشمیر کے حالات کو نارمل دکھانے کے لیے استعمال کیا۔

بھارت میں جی ٹونٹنی کانفرنس ایسے وقت میں منعقد ہورہی ہے جب کشمیر میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں جن میں غیر قانونی گرفتاریاں، سیاسی مقدمات کا اندراج اور میڈیا کو دبانے کے اقدامات زوروں پر ہیں۔ بھارت انٹرنیشنل کنویننٹ آن سول اینڈ پولیٹکل رائٹس(ICCPR) کے رکن کے طور پر اس بات کا پابند ہے کہ وہ بنیادی آزادیوں کو یقینی بنائے اور سول سوسائٹی کے کام کے لیے سازگار ماحول فراہم کرے۔ 2019ء میں جاپان میں ہونے والے جی ٹوئنٹی ملکوں کے اجلاس میں سوک اسپیس کے تحفظ کو تسلیم کیا گیا ہے اور اسے گلوبل چیلنجز سے نمٹنے کے ایک حل کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ سوک اسپیس 2020ء اور2021ء کے جی ٹوئنٹی اجلاسوں کا اہم موضوع رہا ہے۔ جی ٹوئنٹی سوک اسپیس ورکنگ گروپ نے ممبر ممالک پر سوک اسپیس کے تحفظ، وسعت اور سیاسی حقوق کے احترام پر زوردیا تھا۔ کھلے خط میں بھارت پر زور دیا گیا ہے کہ خرم پرویز اور عرفان معراج پر بے بنیاد مقدمات ختم کرکے انہیں رہا کیا جائے اور کشمیر میں انسانی حقوق کے دوسرے علَم برداروں کے خلاف اقدامات کو روکا جائے۔ اقوام متحدہ کے رپورٹر اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو صحافیوں اور سیاسی قیدیوں تک رسائی دی جائے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دوسری معتبر عالمی تنظیموں کی طرف سے اس اہم موقع پر جسے بھارت اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کررہا ہے، دستاویزی ثبوتوں اور واقعاتی شہادتوں کے ساتھ جاری ہونے والے اس خط نے آج کے کشمیر کے حالات کی بھرپور منظرکشی کی ہے۔ بھارت اپنے مصنوعی امیج، اقدامات اور معاشی استحکام کی چکاچوند میں جن حقائق کو قالین تلے چھپانے کی کوشش کرتا ہے وہ قالین کے کسی نہ کسی کونے سے نمودار ہوکر دنیا پر حقیقتِ حال واضح کردیتے ہیں۔ گزشتہ برس اقوام متحدہ کی رپورٹ نے بھی بھارت کو عالمی اور سفارتی سطح پر ایک ہزیمت کا سامنا کرنے پر مجبور کیا تھا۔بھارت نے اس رپورٹ کو مسترد کیا تھا، مگر استرداد مسائل کا حل نہیں۔اب ایک بار پھر جی ٹوئنٹی کانفرنس کی اہم ترین سرگرمی کے موقع پرایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے معتبر ادارے کے تعاون سے جاری ہونے والا خط بھی کسی فردِ جرم سے کم نہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ عالمی ادارے اور ممالک اس اہم دستاویز کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔