پاکستان میں بجلی کے بلوں کا بحران

معیشت کو درست کرنے کے لیے سب سے پہلے ان سفید ہاتھیوں یعنی نجی پاور کمپنیوں کو کسی نئے دائرئہ کار میں لانا ہوگا

ظلم و استبداد ریاستوں کو ہر طرح سے تباہ کردیتا ہے۔ جدید ریاستوں کے قیام کے بعد سے لے کر آج تک سمجھا یہی جاتا رہا ہے کہ جدید ریاست کی بنیاد جن ستونوں پر رکھی گئی ہے اُن میں سے ایک اہم ترین ستون نظامِ عدل بھی ہے۔ مغرب کے نظامِ عدل و انصاف کا دنیا میں چہار جانب ڈنکا بج رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ محض یہ ہے کہ مغرب نے اپنی ریاستوں میں اس پر خصوصی توجہ دی ہے، لہٰذا ان ریاستوں میں محض ریاست کے باشندوں کی حد تک یہ بات بعض استثنا کے ساتھ درست ہے، یعنی یہ استثنا خود مغرب کا نظامِ عدل کے بارے میں بیان کردہ فلسفہ ہے۔ اس فلسفے سے اختلاف ممکن ہے، لیکن جو بھی اصول اس فلسفے میں وضع کردیے گئے ہیں مغرب ان پر اپنا نظامِ عدل قائم کیے ہوئے ہے۔ ان اصولوں میں سب سے اہم بات بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ہے۔ چاہے مغرب کے انسانی حقوق کے معیارات ہمارے نزدیک باطل ہی کیوں نہ ہوں لیکن ان حقوق کی حفاظت کا ذمہ ریاست کا ہے، لہٰذا ان حقوق کے ضمن میں روٹی، کپڑا، مکان، صحت، تعلیم کے ساتھ ساتھ روزگار بھی شامل ہے۔ نیز ان اصولوں کو قانونی تحفظ بھی حاصل ہے، یعنی اگر کسی بھی فرد کو کوئی مشکل درپیش ہو تو وہ ریاست کی جانب دیکھتا ہے، اور ریاست ان حقوق کی حفاظت کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ اس کے لیے بنیادی انسانی ضروریات کا بھی اہتمام کرتی ہے۔

ان باتوں کی جانب توجہ دلانے کی اصل وجہ وطنِ عزیز میں اِس وقت بجلی کی ہوش اڑا دینے والی مہنگائی ہے، اور سستی ترین بجلی پیدا کرنے کے نظام ہائیڈل پاور (پانی سے بجلی پیدا کرنا) کے باوجود بھی وطن عزیز میں بجلی کے نرخ امریکہ سے بھی زائد ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ بجلی کے بل تنخواہ سے بھی بڑھ گئے ہیں اور وطنِ عزیز میں بدترین استحصال بجلی کے بلوں کی صورت میں جاری ہے۔ 6 روپے فی یونٹ والی بجلی اس وقت 30 روپے سے زائد پر فروخت کی جارہی ہے اور پورا ملک بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کے ضمن میں گھر میں بجلی اور گیس کا استعمال ایک مسلمہ حقیقت ہے، اور اسی لیے پورے مغرب میں کوشش یہ کی جاتی ہے کہ بجلی، گیس کے بل عوام کی پہنچ سے دور نہ جائیں اور اگر کوئی ایسی صورت بن جائے جیسا کہ توانائی کی حالیہ قیمتوں میں اضافے کے بعد بنی تھی تو ریاست خود اپنے باشندوں کو سستی بجلی و گیس کی سپلائی کا اہتمام کرتی ہے۔ اس ضمن میں باقاعدہ ہر صارف کو چاہے وہ اس ملک کا قانونی شہری ہو یا نہ ہو، بلاتفریق ایک رقم بجلی و گیس کے بلوں کی مد میں جاری کی گئی۔ یہ معاملہ پورے یورپ کا ہے لیکن صرف برطانیہ میں سال 2022ء اور 2023ء میں بجلی و گیس کے بلوں کی مد میں فی گھر 400 برطانوی پائونڈ حکومت کی جانب سے ادا کیے گئے۔ یہ ادائیگی بلاتفریق تھی، یعنی ہر گھرانے نے اس سے فائدہ حاصل کیا۔ اسی طرح کم آمدنی والے افراد یا وہ جو بے روزگار ہیں، ان کے بجلی و گیس کے بلوں کا بوجھ بھی ریاست خود برداشت کرتی ہے۔ اس حوالے سے ریاست یہ اقدامات اس لیے کرتی ہے کہ یہ یہاں بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے اور ہر فرد کی ذمہ دار ریاست ہے کہ اس کو زندگی گزارنے کی ہر سہولت بہم پہنچائی جائے۔

اس وقت پاکستان میں بجلی کے بلوں کا جو بحران سر اٹھائے کھڑا ہے اس کی بنیادی وجہ بجلی کی پیداوار اور اس کی تقسیم کار کمپنیاں ہیں۔ اس وقت پاکستان میں بجلی کی پیداوار واپڈا کے علاؤہ 90 نجی کمپنیوں کے سپرد ہے جن کا کام بجلی پیدا کرنا ہے، اس کے بعد اس بجلی کو حکومتی کمپنی خرید کر قومی توانائی کے نیٹ ورک پر ڈالتی ہے۔ ان کمپنیوں کے ٹیرف یعنی قیمتوں کا تعین بھی ایک حکومتی ادارہ نیپرا کرتا ہے۔ اور اس طرح بجلی صارفین تک پہنچتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پیداواری کمپنیوں کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کے لیے تاریخ میں جانے کی ضرورت ہے کہ جب پیپلز پارٹی کی حکومت نے ملکی تاریخ میں پہلی بار پانی سے پیدا کردہ سستی ترین بجلی کو چھوڑ کر ایندھن سے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو ملک میں سرمایہ کاری کی اجازت دی، اور نہ صرف اجازت دی بلکہ ان کی پیداوار کو خریدنے کی ضمانت بھی دی، جس کے بعد حکومت نے سستی بجلی (جو کہ واپڈا پیدا کرتا تھی) کے بجائے خود مہنگی بجلی خریدنی شروع کی جس کی ادائیگی ڈالرز میں کی جاتی ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ ان کمپنیوں کو بیرونی سرمایہ کاری ملک میں لانے کے نام پر لایا گیا تھا اور حکومت نے خود ڈالرز میں ان کی پیداوار کو خرید کر قیمتی زرمبادلہ ضائع کردیا۔ مسلم لیگ (ن)، جنرل پرویز مشرف، مسلم لیگ (ق) اور نوازشریف کے تیسرے دورِ حکومت سے لے کر تحریک انصاف کی حکومت تک ان آئی پی پیز کو نہ صرف قانونی تحفظ فراہم کیا جاتا رہا بلکہ ان کی تعداد میں روزافزوں اضافہ بھی ہوتا رہا، اور آج صورت حال یہ ہے کہ ان 90 کمپنیوں نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے اور ساتھ ہی لگتا یہ ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز پر اس ملک پر ان کی ہی حکمرانی ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ حکومت سستی بجلی کو چھوڑ کر جو کہ پانی سے پیدا ہورہی ہے، ان آئی پی پیز کی مہنگی بجلی کی خریداری کرنے پر مجبور ہے جس سے ملک کی معیشت کو دہرا نقصان ہے، ایک یہ کہ ایندھن کی مد میں کثیر ملکی زرمبادلہ بیرونِ ملک جارہا ہے، اور دوسرا یہ کہ ان کمپنیوں کو ادائیگیاں بھی ڈالرز میں کی جارہی ہیں۔ اب جبکہ ڈالر تادم تحریر 335 روپے پر پہنچ چکا ہے تو حکومت ان کمپنیوں سے بجلی ڈالر میں خرید کر عوام کو کس نرخ پر فروخت کرے گی؟

اسی طرح ملک میں ایک مثال کے الیکٹرک کی ہے جس نے لوٹ مار کی بدترین مثال قائم کی ہے، اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے لے کر تحریک انصاف تک سب اس کمپنی کے پشت پناہ تھے۔ سابق ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ان کو کہا کہ ابراج گروپ جوکہ اُس وقت کے الیکٹرک کو کنٹرول کررہا تھا اسے سہولت فراہم کی جائے۔ یعنی اس کے نادہندہ ہونے پر کارروائی نہ کی جائے۔ کے الیکٹرک سوئی گیس کے بلوں کی مد میں سوئی سدرن گیس کمپنی جو کہ حکومتی کمپنی ہے، کی 87 ارب روپے کی نادہندہ تھی۔ جب کہ خود ابراج گروپ کے مالک عارف نقوی مغرب کی عدالتوں سے فراڈ کے کیس میں سزا یافتہ ہیں لیکن پھر بھی وہ عمران خان کے قریبی ساتھی اور دوست تھے۔ عارف نقوی عمران خان و تحریک انصاف کے لیے بیرونِ ملک فنڈز جمع کرتے رہے، اور اس احسان کے بدلے میں عمران خان بطور وزیراعظم امریکہ و برطانیہ میں فراڈ کے کیسز میں سزایافتہ شخص کو قومی خزانے کو مزید 87 ارب روپے کا نقصان پہنچانے کے لیے سہولت کاری کرتے رہے۔

اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ملکی معیشت پر سب سے بڑا بوجھ بیرونی قرضوں کا ہے جوکہ اس وقت بجٹ کا تقریباً نصف ہے۔ چار ہزار ارب روپے سالانہ صرف قرضوں کی ادائیگی میں خرچ کیے جارہے ہیں۔ قرضوں کی ادائیگی کے لیے ملکی معیشت میں سکت باقی نہیں ہے اور اب ہم ڈالرز کمانے کے بجائے مزید نجی کمپنیوں کی مد میں اور ایندھن کی خریداری میں ڈالرز کو باہر بھیج دیتے ہیں، جس کا لامحالہ نتیجہ یہ ہے کہ ڈالر قابو میں نہیں آرہا، بیرونی سرمایہ کاری رک چکی ہے اور اب بجلی کے بلوں کی وجہ سے عوامی بغاوت کا سا سماں ہے۔

اس تمام صورتِ حال کا کوئی شارٹ کٹ حل موجود نہیں ہے۔ ہمیں اپنی معیشت کو درست کرنے کے لیے سب سے پہلے ان سفید ہاتھیوں یعنی نجی پاور کمپنیوں کو کسی نئے دائرئہ کار میں لانا ہوگا۔ بھاری منافع کمانے کے رجحان کو ختم کرنے کے لیے ان کمپنیوں کو اس بات پر آمادہ کرنا ہوگا کہ ان کا نرخ اب ڈالر کے بجائے روپے میں ہوگا۔ اور نرخ وہ ہوگا جو کہ پانی سے بجلی پیدا کرنے کی مناسبت سے لاگو کیا جائے گا۔ دفاتر اور گھروں میں بجلی کی بچت کے لیے سادہ طرز زندگی کو فروغ دینا ہوگا۔ اس کے لیے گھروں و دفاتر کے ڈیزائن کو تبدیل کرنے، نئی عمارات کی تعمیر کے لیے نئی منصوبہ بندی جوکہ توانائی کی بچت کے حوالے سے ہو، نئی سرکاری عمارات کی تعمیر میں سولر انرجی کو لازمی قرار دینا، گھروں میں سولر پینل کی تنصیب کو بآسانی یقینی بنانے کے لیے اس کے کارخانے پاکستان میں لگانا اور عوام کو متبادل توانائی کی جانب رغبت دلوانا… دفاتر اور بازاروں کا صبح طلوع آفتاب کے وقت کھل جانا اور غروبِ آفتاب کے وقت بند ہوجانا، سوٹ اور بوٹ کلچر سے نجات کیونکہ ہمارے ملک کا گرم موسم اس لباس کا متحمل نہیں ہوسکتا اور اس کو پہننے کے بعد لامحالہ ائر کنڈیشنر کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ اس کی گرمی کو کم کیا جاسکے، عوامی عمارات مساجد، شاپنگ مالز اور دیگر جگہوں کو ایسی طرز پر ڈیزائن کرنا کہ جہاں کم سے کم توانائی میں بہترین ماحول فراہم کیا جاسکے، اس ضمن میں جامعہ کراچی کی تعمیر کی مثال سامنے رکھی جاسکتی ہے کہ جہاں نصف صدی قبل فرنچ آرکی ٹیکٹ نے یہاں آکر اس کو ماحول اور آب و ہوا کے حوالے سے ایسا ڈیزائن کیا کہ جہاں روشن کمرے ہوں وہیں گرمی میں بھی ہوا کے بہاؤ کی وجہ سے کمروں میں گرمی کا احساس نہ ہو۔ اسی طرح سائنس لیب کہ جہاں گیسوں کے اخراج کا معاملہ ہو وہاں بھی وہ ہوا کی مخالف سمت میں نہ ہوں تاکہ وہ گیس پوری عمارت میں نہ پھیلے۔ ایسی کئی مثالیں آج بھی ملک کے طول و عرض میں موجود ہیں جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

اس ضمن میں بحیثیت قوم ہمیں اپنے عمومی مزاج کو بدلنا ہوگا۔ پوری ترقی یافتہ دنیا میں صبح جلد کام کا آغاز کرنے اور جلد سونے کی مثالیں موجود ہیں، اور بطور مسلمان ہمارا دین بھی اسی بات کا متقاضی ہے، لیکن ہم اس میں نہ تو دین کو دیکھنا پسند کرتے ہیں اور نہ ہی ترقی یافتہ اقوام کو… بلکہ ہمارا قومی مزاج کسی شارٹ کٹ کی تلاش میں ہے کہ کہیں سے کوئی فرشتہ نمودار ہوکر ہم کو بامِ عروج تک پہنچا دے۔

یہ کام عوام کو تعلیم و ترغیب دینے کے ساتھ خود حکومت کے کرنے کے ہیں کہ جہاں پروٹوکول، بھاری مراعات اور مفت بجلی کی سہولت کو حکومت کو از خود ختم کرنا ہوگا وہیں پر عوام پر روا رکھے گئے ایسٹ انڈیا کمپنی کی نئی طرز آئی پی پیز کے مظالم کو بھی روکنا ہوگا۔ ورنہ کیا ہوگا یہ کوئی مغرب نہیں بتائے گا بلکہ خود معروف مسلمان مؤرخ ابن خلدون نے اپنی کتاب ”مقدمہ ابن خلدون“ میں لکھا ہے کہ ”جب لوگوں کو ان کے مال چھن جانے کا خوف ہو تو پھر ان میں حصولِ معاش کی سرگرمیاں کم ہوجاتی ہیں۔ اور جب لوگ کسبِ معاش سے ہاتھ اٹھالیں تو پھر ملک کی حالت بگڑتی ہے اور لوگ بیرونِ ملک ہجرت کرجاتے ہیں، اور نتیجتاً ریاست کی شکست و ریخت کا آغاز ہوتا ہے۔ ظلم وہ بدترین شکل ہے جو پہلے عوام کو اپنی جکڑبندیوں میں لیتی ہے اور پھر اس کا اختتام ریاست کی شکست و ریخت پر ہوتا ہے۔ ظلم محض چوری یا ڈاکا نہیں بلکہ حکومتی اقدامات اور پالیسیوں سے عوام کو ان کی جمع پونجی سے محروم کردینا بھی ظلم ہے۔“ یہ بات ابن خلدون نے کئی سو سال پہلے لکھ دی تھی کہ ظلم و استبداد سے عوام کا ریاست پر سے اعتماد ختم ہوجاتا ہے اور بالآخر ریاست کی شکست و ریخت کے عمل کا آغاز ہوتا ہے۔ ابن خلدون نے مزید لکھا کہ ریاست اگر شکست و ریخت کے سفر پر گامزن ہوجائے تو پھر ریاست کی عظمتِ رفتہ کی بحالی ممکن نہیں رہتی۔

مغرب اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے باوجود اپنے عوام کی فلاح کے لیے کوئی مشکل انگیز کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ یہی مغربی ریاستوں کی فلاح کا راستہ ہے۔ یہ سب کچھ انہوں نے خود مشرقی مفکرین سے سیکھا ہے جن میں ابن خلدون صف ِاوّل میں نظر آتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم نہ تو اپنے مفکرین سے سبق حاصل کرسکے اور نہ ہی مغرب سے کچھ سیکھ سکے۔ نتیجتاً ہم ایک ایسے سفر پر گامزن ہیں جس کا انجام محض تباہی ہے۔ ظلم ریاست کو کھوکھلا کررہا ہے اور اشرافیہ چین کی بانسری بجا رہی ہے۔ اگر اس پر اب بھی توجہ نہ دی گئی تو پھر ریاست اپنے منطقی انجام سے دوچار ہوگی۔

توانائی بحران ، سینیٹر مشتاق احمد خان کی تجاویز

جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد خان نے جیو ٹی وی کے پروگرام میں یہ خبر ایک ہفتے پہلے ہی سنا دی تھی کہ ستمبر کے بلوں میں فی یونٹ چارجز 90 روپے تک پہنچ جائیں گے۔ شہریوں پر مہنگائی کا بوجھ لادتے چلے جانے پر حکمرانوں کی جانب سے محض آئی ایم ایف کی سخت شرائط کا عذر پیش کرکے بری الذمہ ہوجانے کی کوشش کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں، بلکہ یہ طرزعمل حالات کو انارکی، تباہ کن احتجاج اور فسادات کی جانب دھکیلنے کا سبب بن سکتا ہے اور موقع کی تاک میں رہنے والی ہماری بقا و سلامتی کی دشمن طاقتیں اس صورتِ حال کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکتی ہیں۔ لہٰذا مسئلے کے حل کے لیے اشرافیہ کو حاصل مفت بجلی، گیس، پیٹرول وغیرہ کے خاتمے سمیت سامنے آنے والی تجاویز کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر مزید کسی تاخیر کے بغیر عملی اقدامات شروع کیے جانے چاہئیں۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کی تجاویز خصوصاً حکومت کی فوری توجہ کی متقاضی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ گھریلو صارفین کے لیے 200 کے بجائے 300 یونٹ کی رعایتی حد مقرر کی جائے اور اس حد کے اندر نرخ 16 روپے فی یونٹ رکھا جائے۔ اس سے 2 کروڑ 43 لاکھ صارفین کو فائدہ پہنچے گا، جبکہ اس رعایتی حد کا مجموعی خرچ سالانہ 326 ارب روپے بنتا ہے۔ فوج کے 2000ارب روپے کے بجٹ میں سے 100 ارب روپے لیے جائیں، پی ایس ڈی پی کے 1500 ارب روپے کے بجٹ میں سے 100ارب روپے لیے جائیں اور خسارے میں چلنے والے اداروں کے لیے مختص 350 ارب روپے میں سے بھی 100 ارب لے لیے جائیں۔ سینیٹر مشتاق احمد خان کے بقول ان اقدامات سے اتنے مالی وسائل فراہم ہوجائیں گے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس کے ساتھ آسان قرضوں کے ذریعے سولر سسٹم کے فروغ کی بھی ہر ممکن کوشش ناگزیر ہے۔ سابق دور میں وزیراعظم عمران خان نے پاور سیکٹر میں بے ضابطگیوں کے بارے میں پاور سیکٹر کی انکوائری رپورٹ کو پبلک کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ یہ بات سب کو معلوم ہوجائے کہ گردشی قرضے اور سبسڈیز کی وجہ سے قومی خزانے کو کم از کم 4 کھرب روپے کا نقصان ہوا ہے اور یہ سارا پیسہ انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (IPPs) کو دیا گیا۔278 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2007ء سے 2019ء تک پاور سیکٹر کے لیے مجموعی بجٹ سپورٹ 3.202 ٹریلین روپے کی سبسڈیز اور دیگر لیکویڈیٹی انجیکشنز کی مد میں اب بھی ’’پاور سیکٹر کی ناکاریوں‘‘ کی وجہ سے تقریباً 370 بلین روپے کا سالانہ نقصان ہے۔ ماہرین پاکستان میں پورے خطے سے انتہائی مہنگے نرخوں پر بجلی حاصل کرنے کی نشان دہی کرچکے ہیں۔ 1994ء کی پاور پالیسی کے مطابق بجلی پیدا کرنے والی 16 نجی کمپنیوں (آئی پی پیز) نے تقریباً 60 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی اور 400 ارب روپے سے زائد کمائے۔ ان آئی پی پیز کے سرمایہ کاروں نے اپنے کاروباری شراکت داروں کو 22 گنا منافع ادا کیا ہے۔
(میاں منیر احمد)