قومی مفاہمت یا ٹکرائو کی سیاست

غیر یقینی حالات کی درستی نگران حکومت کے لیے ممکن نہیں، اور اس کے لیے نئے انتخابات اورنئی منتخب حکومت کی حکمت عملی ہی کچھ کارگر ہوسکتی ہے۔ اصل مسئلہ یہی ہے

پاکستان مجموعی طور پر سنگین حالات سے دوچار ہے۔ محاذ آرائی، ٹکرائو، بداعتمادی، نفرت اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے کھیل نے یہاں ترقی کے عمل کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ لوگ مستقبل کے بارے میں مایوس ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ ریاستی اور حکومتی نظام میں کوئی ایسا روڈمیپ نہیں جو واقعی ریاست کو موجودہ بحران سے نکال سکے۔ یہ کیفیت زیادہ تکلیف دہ ہے کہ لوگوں کو آگے بڑھنے کا راستہ نظر نہ آئے، یا جن لوگوں کو عملی طور پر آگے بڑھنے کا راستہ دکھانا تھا وہ خود بھی مختلف نوعیت کے تضادات کا شکار ہوں۔ اس وقت قومی سیاست میں دشمنی غالب نظر آتی ہے۔ سیاسی اور غیر سیاسی فریق ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے ہیں، اور اس کے لیے انہیں اگر کوئی غیر آئینی یا غیر قانونی کام بھی کرنا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک آئین اور قانون کی حکمرانی کے مقابلے میں طاقت ور افراد کی خواہشات کی بنیاد پر چلایا جارہا ہے، اور یہی امر زیادہ بحران پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ بنیادی لڑائی پی ٹی آئی اوراسٹیبلشمنٹ کے درمیان نظر آتی ہے۔ اس لڑائی میں عمران خان کے سیاسی مخالفین بھی لنگوٹ کس کر میدان میں آگئے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ عمران خان کو دیوار سے لگانے میں ان کا بھی سیاسی مفاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف پی ٹی آئی کے خلاف بحران نظر آرہا ہے تو دوسری طرف ملک میں موجود دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن) میں بھی خاصے تضادات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کو نئی نگران حکومت میں اپنے خلاف کوئی نیا کھیل نظر آرہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شہبازشریف حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کے بقول انہوں نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے والے ملک میں رہنے والے لوگوں کو عملی طور پر ڈیفالٹ کرگئے ہیں۔ اس وقت سابقہ شہباز حکومت کے خلاف عوامی ردعمل بھی سخت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سابق وزیراعظم شہبازشریف، حمزہ شہباز اور سلمان شہباز لندن میں، جبکہ آصف علی زرداری اوربلاول بھٹو دبئی میں ہیں اور ان کے دیگر اتحادی مولانا فضل الرحمن، اسفند یار ولی خان، محمود خان اچکزئی، آفتاب شیرپائو، ایم کیو ایم، چودھری شجاعت سب گہری نیند سوگئے ہیں۔ یعنی اکثر سیاست دان عوام کو ان خراب حالات میں تنہا چھوڑ کر خود ملک سے باہر چلے گئے ہیں، حالانکہ اس وقت ان کو عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ لیکن مسئلہ ہماری حکمرانی کا ہے، یہاں لوگ محض اقتدار کے کھیل کے لیے آتے ہیں اور جیسے ہی اقتدار ان سے رخصت ہوتا ہے تو یہ بھی عوام سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ 2 ستمبر کو جماعت اسلامی نے جو ملک گیر ہڑتال بجلی کے بلوں میں ہونے والے بدترین اضافے پر کی ہے وہ واقعی قابلِ تعریف ہے، کیونکہ اس وقت جماعت اسلامی نے ہی بطور جماعت عوام کے ساتھ کھڑے ہوکر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا، جبکہ دیگر بڑی جماعتیں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی کہیں گم ہوکر رہ گئی ہیں، جبکہ تحریک انصاف عملی طور پر اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کی وجہ سے دیوار سے لگادی گئی ہے۔ اس لیے اگر آج عوام بدحال ہیں تو اس کی ایک بڑی وجہ ہماری سیاسی جماعتوں کا غیر ذمہ دارانہ طرزعمل یا عوام دشمنی پر مبنی رویہ ہے۔ اس لیے لوگ سیاسی جماعتوں سے نالاں ہوکر خود ہی مزاحمت کررہے ہیں، اور ان میں حالات کی بنا پر جو غم و غصہ ہے وہ ہمیں کئی حوالوں سے حالیہ احتجاج میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔

اگرچہ اس وقت جو حالات ہیں ان کا سارا بوجھ نگران حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر ہے،کیونکہ عوام کی منتخب حکومت نہیں اور ملک عملی طور پر نئے انتخابات کے انتظار میں ہے۔ معاشی حالات کی درستی کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے بھی کچھ ذمہ داری لی ہوئی ہے، لیکن کیا ہم عملاً سیاسی عدم استحکام کی بنیاد پر، یا انتخابات سے فرار کی پالیسی کو اختیار کرکے ملکی معیشت کو درست سمت میں لاسکتے ہیں؟ کیونکہ خدشہ یہ ہے کہ اگر انتخابات میں تاخیر ہوتی ہے تو اس سے حالات میں مزید بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے۔اس وقت ملک میں غیر یقینی کی صورت حال ہے جس کا براہِ راست اثر ملکی معیشت پر بھی پڑرہا ہے۔ غیر یقینی حالات کی درستی نگران حکومت کے لیے ممکن نہیں، اور اس کے لیے نئے انتخابات اورنئی منتخب حکومت کی حکمت عملی ہی کچھ کارگر ہوسکتی ہے۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ ہمیں اس وقت قومی سطح پر محاذ آرائی اور ٹکرائو کی سیاست سے باہر نکلنا ہے، اور یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم اپنی اپنی سیاسی دشمنی سے باہر نکلیں۔ سیاسی اختلافات کا مقصد سیاسی دشمنی نہیں ہونا چاہیے، اور یہ جو ہم ایک دوسرے کو منفی بنیادوں پر شکست دینا چاہتے ہیں وہ مسائل کا حل نہیں ہوگا۔ مسئلہ ضد سے نہیں بلکہ تدبر اور حکمت عملی سے حل ہوگا، اور ہمیں بند دروازوں کو کھولنا ہوگا اور سب کو ہی ریلیف دینا ہوگا۔ مفاہمت کی سیاست میں آگے بڑھنے کے لیے ہمیں دل کو کشادہ کرنا ہوگا اور ایک دوسرے کی سیاسی قبولیت کی بنیاد پر ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ مسئلے کا حل مفاہمت کی سیاست کو بالادستی دینے میں ہے۔ یہ مفاہمت محض خانہ پُری کے لیے نہیں ہونی چاہیے۔ مفاہمت سے مراد قومی مسائل کے حل کی تلاش اور پھر جو کچھ طے ہو، اس پر عمل درآمد کے شفافیت پر مبنی نظام سے ہی جڑا ہوا ہے۔ چھ بنیادی نوعیت کے مسائل ہیں جو قومی سیاست پر غالب ہیں:

(1) آئین و قانون کی حکمرانی اور ریاست کی رٹ
(2) معیشت کی بنیاد پر مسائل کا حل
(3) منصفانہ اور شفاف انتخابات اور نئی حکومت کا سامنے آنا
(4) گورننس یا بری حکمرانی سے جڑے مسائل
(5) سیکورٹی سے جڑے معاملات
(6) ادارہ جاتی ترقی کا عمل

اسی طرح اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قوتوں کے درمیان جو خلیج بڑھ رہی ہے یا لوگوں میں اسٹیبلشمنٹ پر بڑھتی ہوئی تنقید ہے وہ بھی سنجیدہ مسئلہ ہے۔ ہماری ضرورت اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی فریقین کے درمیان مفاہمت کا عمل ہونا چاہیے، کیونکہ سیاسی قوتوں کا اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائو بھی قومی مفاد میں نہیں ہے اوریہ ہر صورت ختم ہونا چاہیے۔ اصل میں سیاسی یا غیر سیاسی فریقین اور اسٹیبلشمنٹ کو ہی موجودہ حالات میں سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اورایک دوسرے کی سیاسی قبولیت کی بنیاد پر کوئی مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی۔ کس نے کیا غلطی کی ہے اور کون کتنا زیادہ قصوروار ہے ان بحثوں سے باہر نکلنا ہوگا۔ کیونکہ اگر ہم اجتماعی طور پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو ماضی کی باتوں کو بھولنا ہوگا۔اسٹیبلشمنٹ ایک بڑی طاقت ہے اوراِس وقت بہت سے معاملات پر اُس کا کنٹرول بھی ہے، اوراسی طاقت کی بنیاد پر اس پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ موجودہ حالات میں خود بھی مفاہمت کی سیاست کو بنیاد بنائے اور دیگر فریقوں کو بھی واضح پیغام دے کہ مفاہمت ہی کی بنیاد پر ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ سب فریقین اپنی اپنی موجودہ سیاسی پوزیشن سے ایک سے دو قدم پیچھے ہٹیں اور دوسروں کے لیے سیاسی گنجائش پید ا کریں۔ یہی قومی مسائل کے حل کی بنیادی کلید ثابت ہوسکتی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مفاہمت کا عمل کیسے شروع ہو؟ اس کا ایک پہلو آنے والے عام انتخابات ہوسکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نہ صرف عام انتخابات یا بروقت انتخابات کا راستہ اختیارکریں بلکہ یہ انتخابات ہر صورت منصفانہ اور شفاف بھی ہونے چاہئیں۔ لیول پلیئنگ فیلڈ سب کے لیے یکساں ہونی چاہیے اوراس تاثر کی نفی ہونی چاہیے کہ انتخابات کا میدان کسی کی حمایت اورکسی کی مخالفت کی بنیاد پر سجایا گیا ہے۔کیونکہ اگر انتخابات متنازع ہوتے ہیں تو اس کے نتیجے میں انتخابات کے بعد جو ماحول بنے گا وہ نئی محاذ آرائی اورٹکرائو کو جنم دے گا۔کسی بھی سیاسی جماعت یا اس کی قیادت کو دیوار سے لگانا، نااہل کرنا، سیاسی جماعت پر پابندی یا اس پر انتخابات میں حصہ نہ لینے کا دبائو جیسے اقدامات سے ہر سطح پر گریز کیا جانا چاہیے۔دوسرا ہماری سیاست کا ایک تکون اس وقت معیشت کی بحالی سے جڑا ہوا ہے۔ معیشت کا بھی کوئی فوری علا ج ممکن نہیں، اورہمیں تین بنیادوں یعنی لانگ ٹرم، مڈٹرم اور شارٹ ٹرم بنیادوں پر معیشت کا ایک نیا روڈمیپ درکار ہے۔ یہ روڈمیپ موجودہ معاشی حالات میں غیر معمولی اقدامات کا تقاضا کرتا ہے اورایسا روڈمیپ جس پر سبھی فریقین کا کسی نہ کسی حوالے سے اتفاق بھی ہو۔یہ طے کرنا ہوگا کہ سیاسی جماعتیں چاہے وہ حکومت میں ہوں یا حزبِ اختلاف میں، انہیں کسی بھی صورت میںمعیشت پر جذبات پر مبنی سیاست نہیں کرنی، اور پہلی اور آخری ترجیح ملکی معیشت کی درستی ہونی چاہیے۔ لوگوں میں اس وقت گورننس کے حوالے سے خاصے مسائل ہیں اور لوگوں کا حکمرانی کے نظام پر اعتماد اٹھ رہا ہے اورانہیں لگتا ہے کہ حکمرانی کا موجودہ نظا م ہمارا دشمن ہے۔اس لیے ہمیں گورننس کا نیا فریم ورک ترتیب دینا ہوگا اور گورننس کی بہتری کے لیے غیر معمولی اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ جو روایتی اور فرسودہ حکمرانی کا نظام یا انتظامی ڈھانچہ ہے اس کی ہر صورت میں حالات کے مطابق تشکیلِ نو کرنا ہوگی۔ اسی طرح سیکورٹی کے معاملات کی درستی کے لیے سیاسی استحکام، انتظامی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں یا سیکورٹی اہلکاروں کی صلاحیتوں میں اضافے سمیت ان میں جوابدہی کے پہلو کو نمایاں کرنا ہوگا، اس کے بغیر تبدیلی کا عمل ممکن نہیں ہوگا۔ اس لیے آگے بڑھنے کے لیے ہمیں سیاست، جمہوریت، آئین اور قانون سمیت سیکورٹی، معیشت، گورننس جیسے امور پر اگلے چند برسوں کے روڈمیپ پر متفق ہونا ہوگا۔ یہ جو تجویز دی جارہی ہے یا سوچا جارہا ہے کہ فوری انتخابات مسائل کا حل نہیں ہوں گے اور ہمیں انتخابات سے گریز کرنا ہوگا، سوال یہ ہے کہ انتخابات میں تاخیری حربے اختیار کرکے ایسی کون سی حکمت عملیاں ہیں جن کی مدد سے فوری طور پر کوئی بڑی نوعیت کی تبدیلیاں لائی جاسکیں گی؟ اس لیے مہم جوئی سے گریز کیا جانا چاہیے اور حالات کو ایسی جگہ پر نہ لے جایا جائے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔

قومی مفاہمت کا عمل اس صورت میں آگے بڑھے گا جب ہم اپنے اپنے قد سے اوپر اٹھیں گے اور خود کو ریاستی مفاد کے تابع کریں گے۔ ذاتی مفادات کو قربان کرکے کچھ بڑا سوچنا ہوگا،کیونکہ جو ہمارے قومی مسائل ہیں ان کی سنگینی اسی بات کا تقاضا کرتی ہے۔ ابھی تک انتخابات کے بارے میں بھی غیر یقینی کیفیت ہے اور لوگوں کو معلوم نہیں کہ ملک کے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے اورکون یہ سب کچھ کررہا ہے۔ حالیہ دنوں میں آرمی چیف نے لاہور اور کراچی میں کاروباری شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں اور ان کو یقین دلایا ہے کہ ہماری توجہ کا مرکز معیشت بھی ہے اور اس سے جڑی اصلاحات بھی۔ اور یہ بھی یقین دلایا گیا کہ آنے والے دنوں میں بڑی سرمایہ کاری پاکستان کا رخ کررہی ہے۔ اچھی بات ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ جوکام یہاں کی منتخب حکومتیں نہیں کرسکیں وہ فوج تن تنہا کیسے کرسکے گی؟ اور جو نگران حکومت ہے اس کی تو اپنی صلاحیتوں پر سوالات ہیں۔ اس لیے ہمیں اس طرح کی مہم جوئی کے مقابلے میں تمام قوتوں پر مشتمل حکمت عملی درکار ہے، اور یہ تبھی ممکن ہوسکے گا جب ہم قومی سطح پر بامقصد مفاہمت اورمذاکرات کی بنیاد پر آگے بڑھیں گے۔ یہی ہماری حکمت عملی اور یہی ہماری ترجیحات ہونی ۔