عوام کا لاوا پھٹنے والا ہے!

آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنے والے اکثر ممالک تباہ ہوگئے

نگراں حکومت کی پالیسی اور ایجنڈا کیا ہے، اسے سمجھے بغیر ہم ملکی سیاسی صورت حال کا درست تجزیہ نہیں کرسکتے۔ کاکڑ حکومت کا ایجنڈا واضح ہے کہ انتخابی عمل کچھ لازمی امور کی تطہیر کے بعد ہی ممکن ہوگا۔ جن کی تطہیر ہونا لازمی ہے ان چیلنجز میں انتخابات سے قبل معاشی بحران اور دہشت گردی فوری مسائل ہیں اور لائق توجہ ہیں۔ بلاشبہ ذہنوں میں سوال ہے کہ عام انتخابات کب ہوں گے؟ انتخابات آئین کے مطابق اسمبلیوں کی تحلیل کی تاریخ سے 90 روز کے اندر ہونے چاہئیں، لیکن مشترکہ مفادات کی کونسل نے نئی ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کی منظوری دے کر انتخابات کے التوا کا راستہ کھول دیا تھا، الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ وہ اب اس امر کا پابند ہے کہ پہلے نئی انتخابی حلقہ بندیاں تشکیل دے اور بعد میں الیکشن کرائے۔ حلقہ بندیوں میں چار ماہ لگ سکتے ہیں جس سے الیکشن فروری 2024ء تک موخر ہونے کی توقع کی جارہی تھی، لیکن حالات ایسے بھی ہیں کہ الیکشن مئی 2024ء سے پہلے نہیں ہوسکیں گے۔ بعض حلقے سال ڈیڑھ سال کا التوا دیکھ رہے ہیں۔ اب کچھ سیاسی جماعتیں 90 روز کے اندر الیکشن کرانے کے لیے دبائو ڈال رہی ہیں اور بات سپریم کورٹ تک پہنچی ہوئی ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ ملک میں معاشی استحکام لایا جائے جس کے لیے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور دیگر ممالک سے 100 ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری لائی جارہی ہے۔ اس کو روکنے کے لیے امریکہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ ملک میں دہشت گردی کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ بہرحال یہ ایک چیلنج ہے جس سے نمٹنا ہے، کیونکہ معاشی زبوں حالی ملک میں جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس کے نتیجے میں جو اضطراب جنم لے رہا ہے، اس کا اظہار ملک کے منصفِ اعلیٰ کی زبان سے نہایت پُرزور الفاظ میں ہوا ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے گزشتہ ہفتے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ’’معاشی مواقع چھینے جانے کی وجہ سے لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں، معیشت کے شعبے کو سیاسی طاقت وروں کے لیے مختص کردیا گیا ہے، صدارتی معافی کی طرح نیب سے معافیاں دی جارہی ہیں، بدنیت لوگوں کے ہاتھ میں اتھارٹی دی جاتی رہی ہے، کئی لوگوں کے پاس منشیات اور دیگر ذرائع سے حاصل داغ دار پیسہ موجود ہے، داغ دار پیسے کا تحفظ کرکے سسٹم میں بہت سے لوگوں کو بچایا جاتا ہے، ریاست کویقینی بنانا ہے کہ مجرم آزاد نہ گھومیں، نیب ترامیم کے بعد بین الاقوامی قانونی مدد سے ملنے والے شواہد قابلِ قبول نہیں رہے اوربنیادی حقوق متاثر ہورہے ہیں۔‘‘

اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے یہ ریمارکس نیب کیس کی سماعت کے دوران سامنے آئے ہیں۔ لیکن جہاں تک ملک کی معاشی ابتری اور اس کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگوں کے روزگار اور بہتر مستقبل کی خاطر ملک سے باہر جانے کا معاملہ ہے، یہ بہرحال ایسی حقیقت ہے جسے سب دیکھ رہے ہیں۔ عشروں سے قومی وسائل لوٹے جارہے ہیں، کرپشن انتہاء کو پہنچ چکی ہے، اربوں روپے افسر شاہی اور کرپٹ سیاست دانوں کے گھروں سے برآمد ہورہے ہیں، سیکڑوں ارب ڈالر پر مشتمل لوٹی ہوئی قومی دولت بیرونِ ملک منتقل کی جارہی ہے اورقومی معیشت آئی ایم ایف کی دہلیز پر ہاتھ میں کشکول لیے کھڑی ہے۔ ایک تحقیقی سروے کے مطابق جو 81 ترقی پذیر ممالک پر ہوا جنہوں نے آئی ایم ایف سے 1986ء سے 2016ء کے دوران قرضہ لیا ان کے بارے میں پتا چلا ہے کہ ان ممالک کے عوام کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی جس کے نتیجے میں بے روزگاری اور بنیادی خدمات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ملک اور ملکی معیشت سنبھالنے کے لیے کرپشن کے تمام راستے بند کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ حقیقت بھی جاننا فرض ہے کہ کرپشن میں محض سیاسی شخصیات ملوث نہیں بلکہ اس کا دائرہ خود عدلیہ، فوج، بیوروکریسی اور میڈیا سمیت زندگی کے تمام شعبوں تک وسیع ہے، لہٰذا سب کا یکساں، بے لاگ اور شفاف نظامِ احتساب وضع کیا جانا ہماری ناگزیر قومی ضرورت ہے۔ قومی شعبوں میں ایسی اصلاحات کی ضرورت ہے جن سے قانونی عمل غیر مشتبہ اور شفاف بن سکے، ملک میں عوام اور خصوصاً پڑھے لکھے نوجوانوں کا اعتماد بحال ہوسکے۔ اس کے لیے سیاسی قوتوں، اقتصادی ماہرین، کاروباری حلقوں اور تمام ریاستی اداروں کو مل بیٹھ کر کوئی قابلِ عمل اور نتیجہ خیز پروگرام تشکیل دینا ہوگا۔

ان مسائل سے جڑا ہوا ایک بڑا محاذ مہنگائی، منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کا بھی ہے۔ بلاشبہ مہنگائی، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری اور کم تولنا کسی ناسور سے کم نہیں، جس پر قابو پانے میں ہماری انتظامی مشینری ناکام ہوچکی ہے اور یوٹیلٹی بلوں کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ عوام کئی روز سے سراپا احتجاج ہیں مگرمہنگائی پر کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے کوئی عملی قدم اٹھانے کا ارادہ بھی نظر نہیں آتا۔ اشیائے خور و نوش اور پیٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بعد اگست میں مہنگائی کی شرح 27.38فیصد تک جا پہنچی، ڈالر اوپن مارکیٹ میں 328روپے کا ہوگیا، ریلوے نے بھی کرایوں اور پارسل میں 5 فیصد اضافہ کردیا، ایل پی جی فی کلو 38.97 روپے مہنگی ہوگئی، انٹر سٹی بسوں کے کرائے کئی گنا بڑھ گئے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے کے باعث ملازمین میں بددلی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ نگران وزیر خزانہ نے ملکی معیشت میں خرابی در آنے کی جو منظرکشی کی ہے اس میں تو عوام کا دیوالیہ نکلتا ہی دکھائی دیتا ہے۔ ملک کے پالیسی سازوں کو ٹھنڈے دل سے سوچنا ہوگا اور اپنی توانائیاں اس بات پر صرف کرنا ہوں گی کہ آئی ایم ایف کے چنگل سے کیسے باہر آنا ہے۔

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اعلیٰ سطحی اجلاس میں کسٹم حکام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ملک سے چینی، یوریا، زرعی اجناس، پیٹرولیم مصنوعات اور ڈالر سمیت دیگر اشیا کی اسمگلنگ کے سختی سے سدباب کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعظم نے بلوچستان میں اس گھنائونے کاروبار میں ملوث افسران کی انٹیلی جنس رپورٹ مرتب کرکے ان کے خلاف تادیبی کارروائی کا حکم بھی دیا ہے۔ لیکن گھنٹی چھوٹی ہے اور بلی بڑی ہے، لہٰذا وزیراعظم کے فیصلے کے نتائج ابھی سے معلوم ہیں۔ اس وقت ملک کی مارکیٹیں اسمگلنگ کے سامان سے بھری پڑی ہیں، اب تو سریا بھی اسمگل ہوکر آرہا ہے۔ سریا اسمگل کرنے والا مافیا تین سال پہلے متحرک ہوا تھا، آج اس نے ملک کے تمام بڑے شہروں کی مارکیٹوں پر غلبہ پالیا ہے۔

یہ تو ہے ملکی مسائل کا ایک ہلکا سا نقشہ اورمحدود سی منظر کشی، تاہم اس سے مسائل اور ان سے جڑے ہوئے خطرات سے آگاہی ضرور مل جاتی ہے۔ ہمیں دراصل مسائل کے حل کی جانب بھی دیکھنا اور سوچنا ہے۔ حل کی جانب پیش قدمی سے پہلے اُن قوتوں کا جائزہ لینا بہتر ہوگا جن کی جانب عوام ان مسائل کے حل کے لیے دیکھ رہے ہیں۔ یہ اعلیٰ عدلیہ اور پارلیمنٹ سمیت دیگر قومی ادارے بھی ہیں اور سیاسی جماعتیں بھی۔ بدقسمتی سے یہ سب مراکز خطرناک حد تک قطبیت کا شکار ہیں۔ قومی اداروں کے سربراہ ہوں یا سیاسی جماعتوں کی قیادتیں… یہ سب اپنی اپنی جگہ گھنٹہ گھر بنے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سب حکم بجالانے کے لیے ان کی جانب متوجہ رہیں، اور افسوس ناک منظر یہ ہے کہ پوری قوم کسی کرشماتی رہنما کی یا تو جذباتی حامی ہے یا اندھی مخالف۔ معاشرے میں تقسیم کے دیگر نقشے بھی ہیں، ایک طبقہ سویلین بالادستی کا حامی ہے اور دوسرا قومی زندگی میں عسکری کردار کا حامی ہے۔ ملک میں لسانی، صوبائی اور کسی حد تک مسالک کی تقسیم ہے۔ اس ملک میں جمہوریت کے حامی بھی ہیں، ہائبرڈ نظام والے بھی خود کوجمہوری کہلاتے ہیں۔ ملک میں امیر اور غریب طبقات کے درمیان بھی خلیج مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ملک میں کوئی ایسا نظام چاہیے جس سے غریب کے لیے بھی زندگی قابلِ برداشت بن جائے، لیکن طاقت کے گھنٹہ گھر چاہتے ہیں کہ صرف ان کی بات سنی اور مانی جائے، اور مسائل کا حل ان کے پاس بھی نہیں۔ کبھی ایک سیاست دان اور کبھی دوسرے کو مقبول بنانے کا کھیل ہمیں اس حال تک لے آیا ہے کہ مکمل اور حقیقی جمہوریت کا تصور سرد خانے میں ڈالا جا چکا ہے۔ پاکستان بزنس کونسل نے جو ملک میں کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنے اور اقتصادی پالیسیوں پر رضا کارانہ طور پر ماہرانہ مشاورت فراہم کرنے والا غیر منافع بخش ادارہ ہے، انکشاف کیا ہے کہ ملک میں لوگوں کے 9 ہزار ارب روپے بینکوں سے باہر ہیں جس کی وجہ سے ڈالر اور سونے پر سٹے بازی ہورہی ہے۔ کونسل کے جاری کردہ بیان میں موجودہ حالات کے دیگر اسباب میں بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے اپنے اہلِ خانہ کو بینکوں کے بجائے حوالے یا ہنڈی کے ذریعے رقوم بھیجنے، نیز درآمدات پر عائد پابندی کو قبل از وقت اٹھا لینے کا فیصلہ شامل کیا گیا۔ کونسل کے مطابق اس کے نتیجے میں پاکستانی کرنسی پر دبائو بڑھا ہے۔ کونسل نے ملک میں کپاس کی اچھی فصل اور بھارت کی طرف سے اپنے چاول کی برآمد پر پابندی کو پاکستانی معیشت کو بہتر بنانے کا موقع قرار دیا اور تجویز دی کہ صرف چاول برآمد کرکے تین ارب ڈالر کا زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔

بلاشبہ موجودہ مہنگائی کا ایک بہت بڑا سبب مفاد پرست عناصر کی جانب سے ڈالر، سونے اور اشیائے صرف کی ذخیرہ اندوزی کرکے سٹے کے کاروبار سے منافع کمانا ہے، جس سے مہنگائی مصنوعی طور پر بھی بڑھ رہی ہے۔ ملک میں اس وقت مقامی ضرورت سے کہیں زیادہ یعنی 23 لاکھ ٹن چینی موجود ہے جبکہ ماہانہ ضرورت پانچ لاکھ ٹن کی ہے اور جلد ہی اکتوبر میں کرشنگ سیزن شروع ہو جانے کے بعد چینی کے ذخائر میں دس لاکھ ٹن کا مزید اضافہ ہوجائے گا، اس کے باوجود چینی کی قلت کاپروپیگنڈا کرکے نرخ مسلسل بڑھائے جارہے ہیں، اس کا سدباب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ 9000 ارب کی خطیر رقم کوسٹے اور ذخیرہ اندوزی کے لیے استعمال ہونے سے روکا جاسکے، اور اسے بینکوں میں لانے کے لیے ٹھوس فول پروف اقدامات کیے جائیں۔

یہ تو ہے ہمارے بیمار سماجی رویّے کی کیفیت۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ ابھی حال ہی میں نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے ارشاد فرمایاکہ معاشی صورت حال اندازے سے کہیں زیادہ خراب ہے، ڈالر کی وجہ سے بے یقینی، اور روپیہ دباؤ میں ہے، مالی گنجائش نہیں ہے جس کی وجہ سے سبسڈی نہیں دے سکتے۔ انہوں نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں بریفنگ دی ہے کہ آئی ایم ایف معاہدہ ورثے میں ملا ہے، اِس پر دوبارہ بات چیت ممکن نہیں، اگر آئی ایم ایف پروگرام پر عمل درآمد نہیں کرتے تو حالات مزید مشکل ہوسکتے ہیں، آئی ایم ایف سے بات ہوئی ہے، اُسے معاہدے پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی ہے، دہائیوں کی پالیسیاں ایک دن میں تبدیل نہیں کرسکتے، ہمیں ڈالر کے آؤٹ فلو اور اندرونی مضبوطی کے لیے کام کرنا ہوگا، آئی ایم ایف معاہدے کے تحت حکومت ایکسچینج مارکیٹ میں مداخلت نہیں کرسکتی جبکہ حالیہ عرصے میں مہنگائی میں کمی آئی ہے۔ سینیٹرز نے اُن کی اس بات کو رد کردیا کہ مہنگائی میں کوئی کمی آئی ہے۔ کمیٹی اراکین نے بجلی بلوں میں موجود اضافی ٹیکسوں کے خاتمے کی سفارش بھی کی۔ نگران وزیر خزانہ نے براہِ راست آئی ایم ایف حکام سے بات نہیں کی تاہم پاکستان کی طرف سے ایک ٹیم نے عالمی ادارے کے حکام سے بات چیت کی ہے۔ ان حکام کے مطابق رواں مالی سال کے بجٹ میں ہنگامی بنیادوں پر 250 ارب روپے مختص کیے گئے تھے اور یہ رقم بجلی صارفین کو ریلیف دینے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے، پروٹیکٹڈ کنزیومرز کی ایک سلیب بناکر یہ ریلیف پیکیج 400 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو ریلیف دینے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

حکومت روپے کی قدر میں کمی اور یوٹیلٹی بلوں میں اضافے پر قابو پانے میں ناکام ہے جس کی وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہے۔ آئی ایم ایف نے اس شرط پر اسٹینڈ بائی معاہدہ کیا کہ حکومت سبسڈیز ختم کرے۔ اس فیصلے کے بعد روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہورہی ہے اور ایک ڈالر 300 پاکستانی روپے سے تجاوز کر گیا ہے، جبکہ حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمت میں بھی اضافہ کردیا ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف چھوٹی اور بڑی مارکیٹوں میں شٹرڈاؤن ہڑتال کی گئی، اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف شہروں میں جزوی ہڑتال ہوئی اور بعض مارکیٹیں کھلی رہیں۔ ہڑتال کی کال مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کے چیئرمین کاشف چودھری نے دی تھی جس پر تاجروں کی اکثریت نے مثبت ردعمل دیا۔ کیونکہ ملک میں مہنگائی کا جن آپے سے باہر ہوگیا ہے، بجلی، گیس، تیل کے بلوں اوراشیائے ضروریہ کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کی دہائی ہے، اس پر کوئی کان دھرنے والا نہیں۔ یہ صورتِ حال ختم نہ ہوئی تو ملک میں ایسا سیاسی ماحول بنے گا کہ سب سیاست دان ہاتھ مَلتے رہ جائیں گے۔ ملک میں جو کچھ ہورہا ہے اور آئی ایم ایف نے جو کیا ہے اس پر سیاسی جماعتوں اور ریاست کے اداروں کو اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا۔ بجلی کے بلوں کے خلاف عوامی احتجاج ایک علامت ہے اور بس انتظار اس بات کا ہے کہ عوامی لاوا کب پھٹتا ہے۔ قوم کو یہ بتانا پڑے گا کہ بجلی کن کو مفت ملتی ہے اور کس صوبے میں بجلی چوری ہوتی ہے؟ کتنے بند کارخانوں کو کیپسٹی ادائیگیاں کی جارہی ہیں، ٹیکس نادہندوں کا بوجھ بجلی کے بلوں میں متعدد ٹیکسوں کی صورت میں کیوں عوام پر لادا جارہا ہے؟ ملک میں حکومت اور اختیار جس کے پاس بھی ہے اس سے معیشت سنبھل نہیں رہی، اور نہ موجودہ سنگین معاشی بحران کا حل آئی ایم ایف کے کرم خوردہ نسخوں کے پاس ہے۔ سب کسی حکمتِ عملی کے بغیر سر ٹکرائے جارہے ہیں اور ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں جس سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں۔ عوام کے نازک کندھوں پر بجلی کے بلوں کا بوجھ بہت ڈال دیا گیا ہے۔ اگر غضب کا شکار عوام میدان میں اتر آئے تو کوئی نہ ہوگا جو بچا لے۔