قوم کے اخلاق کی سطح

غیر ذمہ دار، غیر ثقہ اور ناقص صحافت کی وجہ سے بہت بڑی مقدار میں آنکھوں کے راستے لاکھوں مسلمان ناظرین کے دل و دماغ میں، پھر قلب میں اور مزاج و مذاق میں روزانہ صبح و شام ایسا زہر اترتا رہتا ہے جس کا کوئی تریاق نہیں ہوتا۔ گنتی کے چند اخبارات و رسائل اس زہر کا تریاق بہم پہنچاتے ہیں تو قوم کی بدمذاقی، ابتذال پسندی اور تفریح طلبی کی وجہ سے ان کو وہ مقبولیت و عمومیت حاصل نہیں ہوتی جس کے وہ مستحق ہیں۔ یہ مسموم صحافت قلب و نظر کو رفتہ رفتہ ایسا مائوف کردیتی ہے کہ کسی سنجیدہ، معتدل اور صحیح چیز کو وہ قوم پسند نہیں کرسکتی، اور اس کے قبول کرنے اور ہضم کرنے سے وہ مستقل طور پر معذور ہوجاتی ہے۔ بعض اخبارات و رسائل کو اس بارے میں کمال حاصل ہے کہ کچھ مدت تک ان کو پڑھتے رہنے سے دماغ میں ایک خاص قسم کی ایسی کجی پیدا ہوجاتی ہے کہ کسی صحیح اور متوازن چیز کے نفوذ کرنے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی اور سیدھا سادہ اخباربین دنیا کو، واقعات کو اشخاص کو دینی مسائل و احکام نویس ہی کی نظر سے دیکھنے لگتا ہے۔

ادبی رسائل کا حال ان اخبارات سے برا ہے، چند سنجیدہ علمی و ادبی رسائل کو چھوڑ کر سستے قسم کے کثیر الاشاعت رسائل جو نوجوانوں کے اخلاق اور زندگیوں کو اس سے زیادہ تباہ کررہے ہیں جتنا طاعون و وبائی امراض کسی ملک یا بستی میں پھیل کر انسانی نفوس کو تباہ کرتے ہیں، یا چنگیز و ہلاکو اپنے مفتوحہ ممالک میں تباہی و ہلاکت پھیلاتے تھے۔ دنیا نے شاید کبھی ایسی مجرمانہ اور ذلیل تجارت کا تجربہ نہیں کیا ہوگا جیسا کہ اس کاغذی تجارت کا ہورہا ہے، جس کی قیمت قوم کو ماہوار یا ہفتہ وار نوجوانوں کے اخلاق، جذبات اور صحت و زندگی سے ادا کرنی پڑتی ہے۔

بداخلاقی، بدذوقی، عریانی و بے حیائی اور فسق و معصیت کے یہ جراثیم گھر گھر پھیلے ہوئے ہیں۔ کوئی شہر، قصبہ، حتیٰ کہ دیہات، پہاڑوں کی چوٹیاں اور چلتی ہوئی گاڑیاں بھی ان سے محفوظ نہیں۔ بے حیائی کی اشاعت، حیوانی خواہشات و برہنگی کا جوش اور جنون پیدا کرنے اور فسق و فجور کو خوش نما اور دل فریب بنانے اور سنجیدگی و معقبولیت و شرافت اور اخلاق کو بے وقعت اور قابلِ مضحکہ قرار دینے میں ان رسائل نے جو کامیابی حاصل کی ہے وہ آج تک کسی تحریک و قوت کو حاصل نہیں ہوئی۔ اگر قوم میں اخلاقی شعور ہوتا تو وہ ان نامہ سیاہ سوداگروں سے وہ سخت سے سخت محاسبہ کرتی جو سب سے بڑے قومی مجرمین سے کیا جانا چاہیے۔ لیکن وہ الٹی ان کی سرپرستی یا اپنی غفلت سے ان سے چشم پوشی کررہی ہے۔ اگر کچھ عرصے تک یہی حال رہا تو قوم اخلاق کی اس سطح پر پہنچ جائے گی جس پر فرانس اور یورپ کی بعض دوسری قومیں پہنچ گئی ہیں، اور پھر اسلام کی دعوت و نمائندگی تو الگ رہی وہ کسی سنجیدہ اور تعمیری کام اور کسی جدوجہد کے قابل بھی نہیں رہے گی۔

(مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ،الفرقان جلد سوم 1365ھ)

مجلس اقبال
عزیز تر ہے متاعِ امیر و سلطاں سے
وہ شعر جس میں ہو بجلی کا سوز و براقی

علامہ اقبال اپنے کلام میں مختلف مقامات پر مختلف انداز میں اپنے کلام کی حقیقت اور اہمیت کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ اس شعر میں بھی وہ بتارہے ہیں کہ اگر ایسا شعر جس میں جذبوں کو جلا بخشنے اور مشکلات کو حل کرنے کے لیے روشنی اور رہنمائی کا پیغام ہو تو ایسا شعر حقیقت میں بادشاہوں کے خزانوں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے، اس لیے کہ اس میں روشنی ہوتی ہے، حرارت ہوتی ہے اور حیات آفرینی کا درس ہوتا ہے۔ علامہ اپنے کلام کے سوزو گداز سے بخوبی آگاہ ہونے کی بنا پر بجا طور پر اپنے مخاطب کو متوجہ کرتے ہیں کہ میرے کلام کے معنی سمجھو اور اس میں بتائی گئی حکمت و دانائی سے فائدہ اٹھا کر اپنے دور کی مشکلات کا مقابلہ کرو۔