پاکستان کی تاریخ میں طویل عرصے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ملکی مسئلے پر قوم نے یکسو ہوکر مکمل اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے، اور کراچی سے خیبر تک عوام نے سندھی، بلوچی، پنجابی یا پٹھان کے استثنیٰ اور علاقائی و لسانی یا طبقاتی و فرقہ وارانہ اختلاف کا شکار ہوئے بغیر یک آواز ہوکر جماعت اسلامی کے امیر محترم سراج الحق کی پکار پر نہ صرف لبیک کہا ہے بلکہ ترازو میں اپنا پورا وزن ان کے پلڑے میں ڈالا ہے اور ایسی ملک گیر، ہمہ گیر، ہمہ پہلو، بھرپور اور زبردست ہڑتال کی گئی ہے کہ ماضیِ قریب میں اس کی مثال تلاش کرنا مشکل ہے۔ کوئی ایک بھی آواز اس کی مخالفت میں سنائی نہیں دی۔ یوں قوم نے اپنے حکمرانوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ برداشت کی ایک حد ہوتی ہے، صبر کا پیمانہ اب لبریز ہوچکا ہے، عالمی ساہوکار کی ہدایت پر روا رکھا جانے والا ظلم پاکستانی عوام اب مزید برداشت کرنے سے انکاری ہیں، حکمرانوں نے اپنا طرزعمل نہ بدلا تو آنے والے ایام ان پر بھاری ہیں۔ 2 ستمبر کی ہڑتال کا ایک منفرد پہلو یہ بھی ہے کہ یہ سو فیصد رضا کارانہ ہڑتال تھی جس میں جبر کا کوئی شائبہ تک نہیں تھا۔ ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کی جانے والی اتنے بڑے پیمانے کی ہڑتال کا نہایت خوش آئند پہلو یہ بھی تھا کہ یہ مکمل طور پر پُرامن تھی، ہڑتال کے دوران پورے ملک سے کسی معمولی سے ناخوشگوار واقعے کی بھی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ ورنہ پاکستان میں ہڑتالوں کی تاریخ کچھ زیادہ اطمینان بخش اور خوشگوار نہیں رہی۔ ماضیِ قریب میں ملک کے مختلف حصوں خصوصاً کراچی میں کرائی جانے والی جبری ہڑتالوں سے متعلق کون نہیں جانتا کہ ان کی پشت پر لاٹھی اور گولی کا خوف کس حد تک کارفرما ہوا کرتا تھا۔ پھر ان ہڑتالوں کے دوران جس طرح کی توڑ پھوڑ، لوٹ مار بلکہ بعض اوقات قتل و غارت تک دیکھنے میں آتی تھی اور جس کے سبب ان سے نجات پر لوگ شکر ادا کرتے نہیں تھکتے، 2 ستمبر کی ہڑتال ان ہڑتالوں کے قطعی برعکس لوگوں کا اعتماد، خوشنودی اور پُرامن احتجاج کا زبردست جذبہ اپنے اندر سموئے ہوئے تھی۔ یوں دو ستمبر کی یہ ہڑتال ہر طرح کے جبر و اکراہ سے پاک، سو فیصد رضا کارانہ اور سلیقہ شعاری سے احتجاجی جذبات کے اظہار کی ایک نادر و منفرد اور قابلِ تقلید و قابلِ ستائش مثال تھی جس کے ذریعے جماعت اسلامی، اس کی قیادت اور کارکنوں نے معاشرے میں اپنے اعلیٰ کردار کا سکہ جمایا، اخلاقی برتری کی دھاک بٹھائی اور جمہوری روایات پر اپنے غیر متزلزل یقین کا اظہار کیا ہے۔
ہڑتال سے متعلق بعض حلقوں کی جانب سے مایوسی اور نتیجہ خیز نہ ہونے کے تاثرات کا اظہار کیا جارہا ہے، جسے حکومت کے ذمہ داران کے غیر ذمہ دارانہ رویّے سے تقویت مل رہی ہے۔ نگران وزیراعظم صاحب کے بار بار عوام کو ریلیف دینے کے لیے کابینہ کے اجلاس بلانے کے باوجود کسی مفید اقدام کا فیصلہ نہ کرپانے اور بے بسی و لاچاری کے سوا عوام کو کچھ نہ دے سکنے کے طرزعمل سے احتجاج طول کھینچ رہا ہے۔ کہنے کو پاکستان ایک آزاد مملکت ہے مگر اس سے بڑھ کر غلامی اور بدنصیبی کیا ہوگی کہ حکمران اپنی ضرورت اور مرضی کے مطابق ایک پیسے کی سہولت عوام کو دینے کی صلاحیت اور اختیار نہیں رکھتے۔ بار بار عالمی ساہوکار آئی ایم ایف کی دہلیز پر سجدہ ریز ہوتے ہیں مگر اُدھر سے عوام کی گردنوں کے گرد شکنجہ مزید کسنے کا حکم دے دیا جاتا ہے۔ تازہ اطلاع یہ ہے کہ بجلی کے جان لیوا بلوں میں سہولت دینے کی جو تجویز حکومت نے آئی ایم ایف کے حضور پیش کی تھی وہ یکسر مسترد کردی گئی ہے، پاکستانی وزارتِ خزانہ نے اپنی تجویز پر عمل درآمد کے نتیجے میں ساڑھے چھ ارب روپے کے اثرات کا اندازہ لگایا تھا، مگر آئی ایم ایف حکام نے اس سے عدم اتفاق کرتے ہوئے پندرہ ارب روپے کے فرق کا تخمینہ لگایا ہے اور سوال کیا ہے کہ یہ پندرہ ارب روپے کہاں سے جمع کیے جائیں گے؟ وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ بجلی کے بلوں سے جاں بلب غریب عوام کو اڑتالیس گھنٹے یعنی دو دن میں سہولت فراہم کی جائے گی۔ دو دن میں سہولت دینے کے اعلان کو دو ہفتے ہونے کو آئے ہیں ابھی یہ فیصلہ ہی نہیں ہوپایا کہ کیا سہولت دینا ہے! اب حاکمِ اعلیٰ آئی ایم ایف حکام سے پھر سے مذاکرات ہوں گے، معلوم نہیں کب، اور ان کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ تب تک عوام کی حالت کیا ہوجائے گی؟ فارسی محاورہ ہے ’’تاتر یاق از عراق آوردہ شود۔مارگزیدہ مردہ شود‘‘… حکمرانوں کی ظالمانہ سوچ کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بل کم اور حقیقت پسندانہ سطح پر لانے کے بجائے ان کی ادائیگی کی تاریخوں میں توسیع اور چار ماہ میں بالاقساط ادا کرنے کی سہولتوں کی نوید سناکر عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ لوگ جو بل آج ادا نہیں کر پا رہے، چند دن بعد کیونکر اور کہاں سے ادا کریں گے؟ یا پھر اگر قسطوں میں ادا کرتے ہیں تو کیا آئندہ چار ماہ استعمال ہونے والی بجلی کے بل وصول نہیں کیے جائیں گے؟ ان چار ماہ کے دوران آنے والے بل اور موجودہ بل کی قسط ملا کر ان کے بوجھ میں اضافہ ہوگا یا کمی؟ ان مضحکہ خیز تجاویز کے ذریعے عوام کو بے وقوف بنانے کی کوششوں اور انہیں مزید اشتعال دلانے سے بہتر ہوگا کہ حکام مسئلے کے حل کی طرف آئیں جو بہت سادہ اور آسان ہے۔ بجلی چوری ہر صورت روکی جائے جس کی مالیت 520 ارب روپے ماہانہ بتائی جاتی ہے، کھربوں روپے سالانہ کی مفت بجلی کی فراہمی فوری روک دی جائے جو تمام اداروں اور محکموں کے اعلیٰ حکام کو مہیا کی جاتی ہے، ان لوگوں سے مفت پیٹرول اور گاڑیوں وغیرہ کی مراعات بھی واپس لے لی جائیں تو قومی خزانے پر سالانہ کئی کھرب روپے کا بوجھ کم ہوسکتا ہے، اسی طرح بجلی کے کروڑوں روپے فی کس کے نادہندگان سے وصولی یقینی بنا لی جائے تو نہ صرف عوام کو بجلی کے بلوں اور پیٹرول کی قیمتوں میں وصول کیے جانے والے بہت سے ناجائز اور بھاری ٹیکسوں سے نجات دلا کر بآسانی مطمئن کیا جا سکتا ہے بلکہ قوم کو آئی ایم ایف جیسے عالمی ساہوکاروں کی غلامی سے نجات کی راہ بھی تلاش کی جا سکتی ہے ۔ مگر اس کے لیے جرأت مندانہ فیصلوں کی ہمت کیا نگران حکمران کر پائیں گے؟
آخر میں یہ گزارش بھی بے جا نہ ہوگی کہ نگران وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان عوامی احتجاج اور جماعت اسلامی کی اپیل پر ہونے والی زبردست ہڑتال پر سنجیدگی سے توجہ دیں اور اسے معمولی سمجھ کر نظرانداز کرنے کی غلطی نہ کی جائے۔ جماعت اسلامی کی یہ ہڑتال بارش کا پہلا قطرہ ہے، کون جانے اس قطرے کے عقب میں موسلادھار بارش کے کتنے امکانات، سیلاب و طوفان اور تباہی و بربادی کے کتنے سامان پوشیدہ ہیں؟ یقین نہ آئے تو تحریک نظام مصطفیؐ، تحریک ختم ِنبوتؐ یا بحالیِ جمہوریت کی تحریکوں کے آغاز کے دنوں کی تاریخ ضرور ملاحظہ کر لی جائے۔ (حامد ریاض ڈوگر)