امت ِمسلمہ منصب، تقاضے اور مستقبل

اسلام رب کا پسندیدہ، کامل و اکمل اور زندہ و متحرک دین ہے جو اپنے وابستگان کی زندگی کو حرارت، توانائی اور روشنی بخشتا ہے۔ وابستگانِ امتِ مسلمہ کا فرض ہے کہ وہ بطور امتِ وسط اور خیرِ امت اسلام کے صحیح اور جامع و اکمل تصور کو دنیا کے سامنے اپنے عمل و کردار سے پیش کریں، نیکی کا ابلاغ اور برائی کا قلع قمع ہمیشہ پیش نظر رکھیں۔ بطور خیرِ امت، امت کا یہ فرضِ منصبی ہے کہ وہ اس فکر کی آبیاری کرے، یہی امت کی فلاح، اصلاح اور عروج کا زینہ ہے۔

امت کو اس منصب کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے صلحائے امت نے ہر زمانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ عصرِ حاضر میں امت کے تصور کو واضح کرنے میں عالمِ عرب کے نامور فرزند علامہ ڈاکٹر یوسف قرضاوی کا نام محتاجِ تعارف نہیں۔ علامہ یوسف قرضاوی امت کے سچے خیر خواہ تھے۔ ان کی علمی و فکری اور بیداریِ امت کے لیے خدمات صرف اسلامی دنیا میں ہی نہیں مغربی دنیا میں بھی بہت وقعت رکھتی ہیں۔ امت کی سربلندی، عروج اور بیداری کے لیے ان کی خدمات وسیع دائرے میں متنوع موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔ اسلام کے تمام پہلوئوں کا جامع انداز میں احاطہ علامہ یوسف قرضاوی کی تحریر و تقریر کا خاصہ ہے۔ وہ اسلام کا تصور ایسے انداز میں پیش کرتے ہیں کہ ہر سننے اور پڑھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ اعتدال و توازن، میانہ روی، دقتِ نظر، عرق ریزی، اکملیت ان کی تحریر و تقریر کا نمایاں وصف اور نمایاں اسلوب ہے۔

علامہ یوسف قرضاوی کی زندگی اسلام کے ایک سچے اور حقیقی خیر خواہ کی زندگی تھی۔ وہ اسلام کے پیغام کو نہ صرف عام کرنے بلکہ اس کو درجۂ کمال تک پہنچانے اور انسانیت کی خیر خواہی کے لیے ہمہ وقت متحرک اور فعال رہے۔

مصر میں قید و بند سے بھی گزرے، اور جب انہوں نے محسوس کیا کہ وہ جو کام کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے یہ جگہ مناسب نہیں تو دوحہ قطر کو اپنا مستقل مستقر بنایا اور پھر وہیں کے ہورہے، حالانکہ وہ چاہتے تو مصر میں کوئی بڑا منصب حاصل کرنا ان کے لیے کچھ مشکل نہ تھا۔ دوحہ قطر میں انہوں اپنا تمام وقت دینِ اسلام اور امت کے عروج کے لیے وقف کیا۔ زمان و مکاں کی تنگ دامانی سے نکلے، اپنے اہل و عیال کو چھوڑا، دیار غیر کو مستقر بنایا اور جغرافیائی اور زمانی حدود و قیود سے ماورا ہوکر حیات جاوداں پاگئے۔

’’امتِ مسلمہ… منصب اور تقاضے‘‘ علامہ یوسف قرضاوی کی علمی و فکری خدمات کی صرف ایک جھلک ہے، یہ دراصل ان کے مختلف خطبات اور مضامین کا رواں اور شستہ اردو ترجمہ ہے جس کا سہرا ارشاد الرحمن کے سر ہے۔

یہ مضامین اور خطبات مستقل وحدت کے نشر ہوتے رہے۔ بعض الجزیرہ پر ان کے پروگرام الشریعہ والحیاۃ کی ریکارڈنگ کے حصے پر مبنی ہیں، اور بعض دوسرے خطبات سے بھی ماخوذ ہیں۔ یہ 16 مختلف مضامین ہیں جن کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے۔ یہ عالمی ترجمان القرآن کے علاوہ کچھ دوسرے رسائل و جرائد میں بھی طبع ہوتے رہے، ان 16 مقالات کا انداز اچھوتا، نرالا اور انوکھا ہے۔

پہلا مضمون: ’’میراثِ رسولؐ: قرآن و سنت اور امت‘‘ ہے۔
دوسرا: ’’امتِ مسلمہ ایک حقیقت ہے کوئی وہم وگمان نہیں‘‘
تیسرا: ’’امت کی صورتِ حال: جائزہ کے اصول و آداب‘‘
چوتھا: ’’اسلام جس کی ہم دعوت دیتے ہیں‘‘
پانچواں: ’’اسلام ایک اخلاقی پیغام‘‘
چھٹا: ’’اہلِ ایمان کو تجدیدِ ایمان کی ضرورت‘‘
ساتواں: تائید و نصرتِ الٰہی کا معیار‘‘
آٹھواں: ’’دعوتِ دین کا قرآنی اسلوب‘‘
نواں: ’’برائی کو طاقت سے روکنے کا مسئلہ‘‘
دسواں اور گیارہواں: ’’رواداری کا اسلامی تصور اور اسلامی رواداری کی اعتقادی و فکری بنیادیں‘‘
بارہواں اور تیرہواں: ’’وسطیتِ اسلام کا اہم تقاضا اور عصرِ حاضر کی ایک اہم ضرورت‘‘
چودھواں: ’’تبدیلیِ معاشرہ میں علما کا کردار‘‘
پندرھواں: ’’عیدالفطر اور تجدیدِ عزم‘‘
سولہواں اور آخری مضمون: ’’خاندانی روابط و قربت کی اہمیت‘‘ شامل ہیں۔

یہ تمام مضامین اور ان کے مصادر و مراجع نئے نہیں ہیں البتہ ڈاکٹر یوسف قرضاوی نے ان مصادر سے جو نکات اور رہنمائی پیش کی ہے وہ اپنی مثال آپ، اور اُن کی قرآن و سنت میں گہری فقہی بصیرت، علمی و فکری وسیع المشربی کی آئینہ دار ہے۔

’’وراثتِ رسولؐ‘‘ میں امتِ مسلمہ کا تذکرہ جس دلنشین انداز میں کیا گیا ہے اور امت کے منصب، تقاضے اور مستقبل پر جس طرح روشنی ڈالی گئی ہے وہ ان کی فہم و فراست پر مبنی ہے۔ یہ پہلا مضمون514 صفحات پر پھیلا ہوا ہے جو تقریباً کتاب کا نصف بنتا ہے، جو امت کے لیے بہترین رہنمائی پر مبنی لوازمہ ہے، اور امتِ مسلمہ کے لیے عمدہ دلائل پر مبنی بیداری اور تحرک کا ذریعہ ہے۔

’’امتِ مسلمہ ایک حقیقت ہے، کوئی وہم اور خیال نہیں‘‘ میں امت کے لیے جان دار دلائل کا لوازمہ ہے۔ ’’امت کی صورت حال: جائزہ کے اصول و آداب‘‘ میں حقائق کی روشنی میں دلائل کے ساتھ زندگی کے ہنر سکھائے گئے ہیں۔ ’’اسلام جس کی ہم دعوت ہیں‘‘ اسلام کا خوب صورت، جامع و اکمل تعارف کراتا ہے۔ ’’تائید و نصرتِ الٰہی کا معیار‘‘ امت کے ہر درد مند دل کے لیے اطمینان اور تسلی بخش دلائل مہیا کرتا ہے۔ ’’دعوتِ دین کا قرآنی اسلوب‘‘ صرف داعیانِ دین نہیں بلکہ امت کے ہر فرد کے لیے صحیح اور درست رہمنائی کا ذریعہ ہے۔ دعوتِ دین سے وابستہ ہر فرد کے لیے یہ مضمون پڑھنے کے لائق ہے۔ ’’برائی کو طاقت سے روکنے کا مسئلہ‘‘ بہت اہم اور ہر دور کا مسئلہ ہے جس پر نہایت عالمانہ انداز میں رہنمائی موجود ہے۔ ’’روداری کا اسلامی تصور‘‘ اسلام کی نہایت عمدہ انداز میں دینی رہنمائی اور معاشرتی و سماجی تاریخ کا احاطہ کرتا ہے۔ ’’وسطیت اسلام کا اہم تقاضا اور عصر حاضر کی ضرورت‘‘ کے تحت تشدد پسندی، سستی، غفلت اور غلو جیسے اہم مسائل پر خوب صورت اسلوب میں رہنمائی کا حق ادا کیا گیا ہے۔ یہ مضامین و مقالات اعتدال و توازن، غلبۂ اسلام کی تڑپ اور جامعیت کا پرتو لیے ہوئے ہیں۔ جناب ارشاد الرحمن نے انہیں عربی سے اردو میں اپنے خاص انداز و اسلوب میں ترجمہ کرکے اردو خواں طبقے کو علامہ یوسف قرضاوی کی سوچ و فکر سے روشناس کرانے کی عمدہ کوشش کی ہے۔ توقع ہے کہ ارشاد الرحمن ترجمہ نگاری کا یہ سلسلہ جاری رکھیں گے اور اردو خواں طبقے کو گراں قدر علمی و فکری مقالات پڑھنے کو ملتے رہیں گے۔ کتاب عمدہ گیٹ اپ کے ساتھ معیاری اور خوب صورت انداز میں طبع کی گئی ہے اور کاغذ سفید استعمال کیا گیا ہے۔