مولانا مودودیؒ کا تصور دین اور مولاناابو الحسن علی ندویؒ کی تنقید

مولانا علی میاں کی تنقید کا اصل ہدف ”قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں“ ہے

محترم مولانا ابوالحسن علی ندوی صاحب میرے لیے اسی طرح محترم ہیں جس طرح مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ صاحب اور باقی علماء کرام ہیں۔ آئندہ سطور میں جو تجزیہ میں پیش کرنے جارہا ہوں یہ تعصب اور دشمنی کے تحت نہیں بلکہ میرے نزدیک مبنی برحقیقت و انصاف ہے۔

مولانا وحید الدین خان کے بعد مولانا مودودیؒ کے تصورِ دین پر نقد میں دوسری نمایاں شخصیت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ صاحب ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب ”عصرِ حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح“ کی تصنیف کا محرک یوں بیان ہے:

”پیش نظر کتاب ایک علمی و اصولی تبصرہ و جائزہ ہے، وہ نہ مناظرہ کے انداز میں لکھی گئی ہے نہ فقہ و فتاویٰ کی زبان میں۔ وہ ایک اندیشے کا اظہار ہے اور الدین النصیحہ (دین خیرخواہی کا نام ہے) کے حکم پر عمل کرنے کی مخلصانہ کوشش ہے۔ اس کی کوئی سیاسی غرض ہے نہ کوئی جماعتی مقصد۔اس ناخوشگوار کام کو محض عنداللہ مسئولیت وشہادتِ حق کے خیال سے انجام دیا گیا ہے۔“(١)

لیکن جب ہم ان کے باقی لٹریچر کو دیکھتے ہیں تو تنقید اس لیے بے وزن دکھائی دیتی ہے کہ اپنی باقی کتب میں وہ ان باتوں کے معترف ہیں جس کے وہ ”عصرِحاضر میں دین کی تفہیم و تشریح“میں ناقد ہیں۔ اگر ہم کہیں کہ مولانا صاحب کی کتاب ”عصرِ حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح“کا جواب ان کی کتب ”سیرت سید احمد شہید“، ان کی ترجمہ شدہ کتاب ”تقویۃ الایمان“ جس کا اردو نام ”کتاب التوحید“ ہے، ”اسلامی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر“، اور”تاریخِ دعوت و عزیمت“ میں ہی آپ کو مل جائے گا تو غلط نہیں ہوگا۔

اس کتاب پر اگر نظر دوڑائی جائے تو اس کی مثال ایسی ہے کہ ہر کوئی سورج کو سورج کہتا آرہا ہے اور میں اٹھوں اور کہوں کہ یہ سورج نہیں، آسمان ہے تو کوئی بھی صاحب ِعقل و دانش میری اس بات پر متفق نہیں ہوگا۔ ”قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں“ میں مولانا مودودی نے عربی لغت کے ساتھ ساتھ قرآن کی بیشتر آیتوں سے اپنا مدعا ثابت کیا ہے، جب کہ جواب میں مولانا ندوی صاحب نے قرآن و حدیث سے کچھ بھی پیش نہیں کیا۔ مولانا ندویؒ کی کتاب کا وزن تب ہوتا جب جواب میں مولانا مودودیؒ کی طرح قرآن کی آیات اور عربی لغت سے برہان لے آتے۔

”عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح“ کتاب کی تیاری کے ارادے سے لے کر اس کی حقیقت تک کو مولانا سید حامد علی (ہندوستان) نے کچھ ان الفاظ میں بیان کیا ہے جس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ سیاق و سباق کے ساتھ گہرائی میں کیا تھا۔ لکھتے ہیں:

”(بھارتی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کی مسلط کردہ) ایمرجنسی اور جماعت پر پابندی کا دور چل رہا تھا کہ ہمیں جیل ہی میں یہ اطلاعات ملنے لگیں کہ ’’محترم مولانا سیّدابوالحسن علی ندوی، جماعت اسلامی کے لٹریچر کے وسیع و عمیق مطالعے میں مصروف ہیں اور جماعت کے سلسلے میں کوئی کتاب لکھنا چاہتے ہیں‘‘۔ اس سوال سے قطع نظر کہ مولانا علی میاں کو اس وقت اس کی کیا ضرورت پیش آئی، توقع تھی کہ مولانا کے لٹریچر کے وسیع و عمیق مطالعے کے بعد کوئی علمی و تحقیقی کتاب لکھیں گے جس میں جماعت کے مالہ وماعلیہ پر کتاب و سنت کی روشنی میں مدلل و مفصل بحث ہوگی۔ لیکن ایمرجنسی کے بعد مولانا علی میاں کی کتاب ”عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح“ نظر سے گزری تو حیرت و مایوسی کی کوئی انتہا نہ رہی۔

(مذکورہ بالا) کتاب سے جماعت کے لٹریچر کے وسیع و عمیق مطالعے کا اندازہ بھی نہیں ہوتا۔ کتاب میں ”دستورِ جماعت“، ”خطبات“، ”تفہیمات“ اور ”قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں“ کے حوالے ہیں، مگر افسوس، مولانا علی میاں نے اِن کتابوں کا بھی نہ عمیق مطالعہ کیا اور نہ بالاستیعاب۔ اگر مولانا ”دستور جماعت“ میں لا الٰہ الا اللہ کی تشریح کا مطالعہ فرما لیتے تو ’اللہ کی حاکمیت‘ پر ضرورت سے زیادہ زور دینے کا، اُن کا اعتراض ختم ہوجاتا، اور ’نصب العین‘ کی تشریح میں ’اقامتِ دین‘ کا جامع و وسیع مفہوم ملاحظہ فرما لیتے تو جماعت کی طرف اقامتِ دین کا محدود سیاسی مفہوم منسوب نہ فرماتے، اور ”خطبات“ کو بالاستیعاب پڑھ لیتے تو انھیں معلوم ہوجاتا کہ مولانا مودودیؒ عبادات کو دین میں اُس سے بہت زیادہ بلند مقام کا حامل سمجھتے ہیں، جتنا عام علمائے کرام قرار دیتے ہیں، اور ”قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں“ از اوّل تا آخر اُن کے مطالعے میں آجاتی تو اِس کتاب کے لکھنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔

اپنی کتاب میں مولانا علی میاں کی تنقید کا اصل ہدف ”قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں“ ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اِس کتاب میں ’الٰہ، ربّ، عبادت اور دین‘ پر لغوی بحث کرکے پہلے اُن کا لغوی مفہوم واضح کیا ہے، پھر سیکڑوں قرآنی آیات ترجمے کے ساتھ پیش کرکے اُن کا اصطلاحی مفہوم متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ مولانا علی میاں نے مولانا مودودی پر یہ الزام لگایا ہے کہ ’’انھوں نے اِن اصطلاحات کے مفہوم میں تحریف کرکے باطل فرقوں کی طرح دین کو بدل ڈالنے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش کی ہے‘‘۔ پھر مولانا [علی میاں] کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ ان کی یہ کتاب ایک ’علمی و اصولی تبصرہ و جائزہ‘ ہے۔

مولانا مودودیؒ کی اِس علمی و تحقیقی کتاب کے ’علمی و اصولی جائزے‘ کی واحد شکل یہ تھی کہ مولانا [علی میاں] واضح فرماتے کہ مولانا مودودی نے اِن چار الفاظ کے سلسلے میں جو لغوی بحثیں کی ہیں، ان میں یہ اور یہ غلطیاں ہیں۔ پھر قرآنی آیات کا انھوں نے جو ترجمہ کیا ہے اور ان سے جو استدلال کیا ہے، وہ اِس، اِس طرح غلط ہے۔ یوں محترم مولانا [علی میاں] تفاسیر اور اقوالِ علمائے سلف سے اپنی بات کو مدلل بیان فرماتے ہوئے بتاتے کہ ان اصطلاحات کا اصل مفہوم یہ ہے، اور مولانا مودودی نے کس طرح علمائے سلف کی مسلّمہ تعریفات سے انحراف کیا ہے۔ مگر صدافسوس کہ کتاب اِس علمی و تحقیقی بحث سے بالکل خالی ہے۔

”قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں“ کا مطالعہ کرکے میں نے محسوس کیا تھا کہ یہ تو وہی فکر ہے، جو ہمیں اسلاف، خصوصاً اکابر علمائے دیوبند و ندوہ سے ملی ہے۔ یہ میرا طالب علمی کا دور تھا۔ اس کے بعد سالہا سال قرآنِ مجید پر غور و فکر، تفاسیر اور احادیثِ نبویؐ کے مختلف مجموعوں کے مطالعے، علمائے سلف کی تصانیف کو پڑھنے پڑھانے اور قرآنِ مجید کی تفسیر، احادیث کی تشریح اور مختلف اسلامی موضوعات پر تصنیف و تالیف کے مسلسل مواقع ملتے رہے، مگر کبھی یہ احساس تک نہ ہوا کہ مولانا مودودیؒ نے اِس کتاب میں ’’قرآنی اصطلاحات کا مفہوم بدل کر دین میں تحریف کی ہے‘‘۔

میں نے الحمدللہ، کتاب و سنت کی دلیل کے بغیر کبھی کسی کی بات تسلیم نہیں کی ہے۔ اللہ نے مجھے شخصیتوں کی غالی عقیدت سے بھی محفوظ رکھا ہے۔ اگر مولانا علی میاں کتاب و سنت کے دلائل سے ثابت کر دیتے کہ مولانا مودودیؒ کا بنیادی فکر غلط ہے تو میں اِس ’گمراہی‘ سے بچ نکلتا مگر مولانا کی کتاب تو دلائل سے خالی نکلی۔”(٢)

اس طرح وہ دعویٰ جو مولانا علی میاں نے مولانا مودودی کے حوالے سے کیا ہے اس کے بارے میں سید احمد عروج قادری صاحب نے ان کے تمام نکتوں کو حقائق کی روشنی میں ان کے لٹریچر میں پرکھا ہے جس سے تعصب کا رس نچوڑ کر اصلیت کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ سید احمد عروج قادری صاحب نے لکھا ہے:

”پڑھنے والے مولانا مودودی کی تحریر پھر پڑھ کر دیکھیں، تاریکی کی تصویرکشی میں ان کی کھینچی ہوئی تصویر اس تصویر کے پاسنگ بھی نہیں جو مولانا ندوی نے کھینچی ہے۔ مولانا مودودی کی تحریر میں تقریباً تین صدیوں تک کسی تاریکی کی نشاندہی نہیں ہے اور مولانا ابوالحسن نے پہلی ہی صدی سے سیاہی پھیر دی ہے، یہاں تک کہ پہلی ہی صدی میں دین اس مرکز سے ہٹ گیا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو چھوڑا تھا۔ اس کے علاوہ مولانا ندوی نے صراحتاً گزشتہ صدیوں کو قرون مظلمہ (سیاہ صدیاں) لکھا ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے مولانا مودودی کی تحریر کو ”عالم اسلام و تاریخ اسلام کی تاریک تصویر“ قرار دیا ہے اور اس سے بہت سے ہولناک نتائج اخذ کرلیے ہیں۔ اس بات سے روحانی تکلیف پہنچتی ہے کہ جب مولانا علی میاں جیسے شخص کے یہاں بھی انصاف نہیں ہے تو پھر اس کو کہاں تلاش کیا جائے؟ مولانا ندوی کی یہ تحریر ان کی اس تنقید کا بھی بھرپور جواب ہے جو انہوں نے ”قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں“ کے مقدمہ کی عبارتوں پر کی ہے۔“ (٣)

یہی وجہ ہے کہ سید حامد علی صاحب نے مولانا مودودی کے بارے میں اس بات کی کمی کو بھی نہیں چھوڑا کہ انھوں نے صرف قرآن مجید اور لغت عربی پر اکتفا کیا ہے اور علمائے سلف وخلف کی طرف رجوع نہیں کیا، اس کمی کو پورا کرنے کے حوالے سے سید حامد علی صاحب نے لکھا:

”مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سے ”قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ میں ایک غلطی ہوگئی، انہوں نے اس کتاب میں علمائے سلف کے اقوال نقل نہیں کیے۔ انہوں نے غالباً یہ خیال کیا کہ عربی زبان کی تحقیق اور سیکڑوں آیاتِ قرآن کی صریح شہادت ایک طالبِ حق کے لیے کافی ہے، لیکن کچھ لوگوں کے لیے قرآن و حدیث کی دلیل کافی نہیں ہوتی۔ ہماری اس کتاب (قرآنی اصطلاحات اور علمائے سلف و خلف) سے ان کی تشفی ہوجائے گی اور ان پر واضح ہوجائے گا کہ علمائے سلف و خلف متفقہ طور پر ان کا وہی مفہوم سمجھتے ہیں جو مولانا مودودی نے سمجھا ہے۔“(٤)

مولانا علی میاں کی وہ تحریری عبارتیں کون سی ہیں جن کو سید احمد عروج قادری صاحب نے مولانا علی میاں کی کتاب ”عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح“ کا جواب ٹھیرایا ہے؟ اس کے لیے سید احمد عروج قادری صاحب کی کتاب عصرِ حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح پر ایک نظر، ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی صاحب کی ”احیائے دین اور ہندوستانی علماء کرام“اور سید حامد علی کی ”قرآنی اصطلاحات اور علمائے سلف و خلف“ کے ساتھ مولانا ابوالحسن علی ندوی کی ”سیرتِ سید احمد شہید“، ”انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال“، اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی ترجمہ شدہ کتاب ”تقویۃ الایمان“ (مترجم مولانا سید ابوالحسن علی ندوی) بنام ”کتاب توحید“ ملاحظہ کرنے سے ان شاء اللہ حقیقت آپ کے سامنے آجائے گی۔

مولانا علی ندوی صاحب نے ابتدائی اعتراض ”قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں“ کے مقدمے پر کیا ہے، کہ کیا قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ساری امت سے چھپی ہوئی تھیں اور صرف مولانا مودودی کی اس پر نظر پڑی؟ کیا ساری امت ابھی تک اس سے بے خبر تھی؟ مولانا علی میاں نے مولانا مودودی پر جو نقطۂ تنقید اٹھایا ہے وہ دراصل مولانا مودودی کی کتاب کی یہ عبارت ہے:

”لیکن بعد کی صدیوں میں رفتہ رفتہ ان سب الفاظ کے وہ اصل معنی جو نزولِ قرآن کے وقت سمجھے جاتے تھے، بدلتے چلے گئے، یہاں تک کہ ہر ایک اپنی پوری وسعتوں سے ہٹ کر نہایت محدود بلکہ مبہم مفہومات کے لیے خاص ہوگیا۔ اس کی ایک وجہ تو خالص عربیت کے ذوق کی کمی تھی، اور دوسری وجہ یہ تھی کہ اسلام کی سوسائٹی میں جو لوگ پیدا ہوئے تھے ان کے لیے الٰہ، رب، دین اور عبادت کے وہ معانی باقی نہ رہے تھے جو نزولِ قرآن کے وقت غیر مسلم سوسائٹی میں رائج تھے۔ انھی دونوں وجوہ سے دورِ اخیر کی کتبِ لغت وتفسیر میں اکثر قرآنی الفاظ کی تشریح اصل معانی لغوی کے بجائے ان معانی سے کی جانے لگی جو بعد کے مسلمان سمجھتے تھے۔ مثلاً: لفظ الٰہ کو قریب قریب بتوں اور دیوتاؤں کا ہم معنی بنادیا گیا، رب کو پالنے اور پوسنے والے یا پروردگار کا مترادف ٹھیرایا گیا، عبادت کے معنی پوجا اور پرستش کے کیے گئے، دین کو دھرم اور مذہب (Religion) کے مقابلے کا لفظ قرار دیا گیا۔ طاغوت کا ترجمہ بت یا شیطان کیا جانے لگا۔“(٥)

مولانا ابوالحسن علی ندوی نے مولانا مودودی کی اس مذکورہ عبارت کو لے کر اس کو کتاب کے شایع ہونے کے بیس سال بعد ہدفِ تنقید بنا کر لکھا:

”ان عبارتوں کا پڑھنے والا جس کا مطالعہ گہرا اور وسیع نہیں ہے اور جو اس حقیقت سے واقف نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو عام گمراہی، اور دین کی ایسی ناآشنائی سے محفوظ رکھا ہے، جو زمان و مکان کی حدود سے بے نیاز ہوکر ساری امت پر سایہ فگن ہو، یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ قرآن مجید کی قیمت اس طویل مدت تک امت کی یا زیادہ محتاط الفاظ میں امت کے اکثر افراد کی نگاہ سے اوجھل رہی اور امت بحیثیتِ مجموعی ان بنیادی الفاظ کی حقیقت ہی سے بے خبر رہی، جس کے گرد اس کتاب کا پورا نظام گردش کرتا ہے اور جن پر اس کی تعلیمات اور دعوت کی عمارت قائم ہے، اور یہ پردہ اس صدی کے وسط ہی میں اٹھ سکا۔“(٦)

مولانا ندوی نے اپنی اس کتاب کو کچھ اس انداز میں لکھنے کی زحمت کی ہے کہ ”کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی“

سید احمد عروج قادری صاحب نے مولانا ندوی کو اس عبارت پر مخاطب کرتے ہوئے لکھا:

”کسی کتاب کے مقدمے کا جائزہ لینے اور اس پر تبصرہ کرنے کے لیے دو باتیں بالکل سامنے کی ہیں، صحیح جائزہ لینے کے لیے جن کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ کسی کتاب کا مقدمہ اس کتاب کے تعارف کے لیے لکھا جاتا ہے تاکہ قاری یہ پہلے ہی جان لے کہ اس کتاب کا موضوع کیا ہے اور اس میں کس چیز پر گفتگو ہوگی۔ دوسری بات یہ کہ کسی کتاب کا جو تعارف مقدمے میں کرایا گیا ہے وہ کتاب اس کے مطابق ہے یا نہیں؟ اگر یہ دو باتیں سامنے رکھی جائیں تو مولانا مودودی کی عبارتوں سے وہ نتائج ہرگز نہیں نکل سکتے جو مولانا ندوی نے نکالے ہیں۔ افسوس ہے کہ مقدمے کے تبصرے میں یہ دونوں باتیں نظرانداز کردی گئی ہیں۔“ ( ٧)

لیکن سید احمد عروج قادری صاحب، سید حامد علی صاحب، اور ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی صاحب نے ان کی ان تحریروں کو قارئین کی عدالت میں پیشی کے لیے پیش کیا ہے جن میں مولانا ندوی کی دو ذہنی بہت واضح نظر آرہی ہے۔ ان کی کتابوں میں مولانا ندوی کے ایک ایک اعتراض کا مفصل جواب موجود ہے جس کے لیے شائقین کو ان کتابوں کی طرف ضرور رجوع کرنا چاہیے۔

جس نکتے کو مولانا ندوی نے تنقید کے لیے چنا ہے، وہی مؤقف مولانا مودودی کے ساتھ اگر کسی اور نے پیش کیا ہے تو وہ مولانا علی میاں ہیں اور ان کے ساتھ سید سلیمان ندویؒ ہیں جنھیں ڈاکٹر عبیداللہ فلاحی اور سید احمد عروج قادری صاحب نے اپنی کتابوں میں وضاحت کے ساتھ درج کیا ہے۔اس حوالے سے ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی صاحب نے لکھا :

”مولانا مودودی کی تحریروں کو ذہن میں رکھیے اور عقل کے صحرا میں گھوڑے دوڑایئے، آپ وہ مفہوم کہیں سے نہیں نکال سکتے جو مولانا علی میاں نے منطقی کج بحثیوں سے پیدا کیا ہے۔ کیا نعوذ بالله مولانا مودودی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پوری امت ضلالت کی وادیوں میں بھٹکتی رہی اور کوئی ایک فرد بھی ہدایت کی راہ دکھانے والا پیدا نہ ہوا، لوگ گمراہی کی تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں مارا کیے اور خدا نے اپنے دین کی تجدید و احیاء کا کوئی بندوبست نہیں فرمایا، جبکہ اس کا وعدہ فرما رکھا تھا؟ کیا مولانا مودودی سرآمد روزگار علماء مدونین علوم وفنون اور ازکیائے عصر کی نفی کرنا چاہتے ہیں اور ان کی کوششوں، دعوتِ دین کے لیے ان کی جاں کاہیوں، حق کی راہ میں ان کی استقامت و قربانی اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ان کی مسلسل دوڑ دھوپ کا انکار کرنا چاہتے ہیں؟ کیا عقل سلیم اسے باور کرنے کے لیے تیار ہے؟ پھر یہ الزام اُس شخص پر لگایا جارہا ہے جس نے بہت پہلے لکھا تھا کہ ”کیا یہ بات باور کیے جانے کے لائق ہے کہ پوری امت کے علماء بالاتفاق ایک نص کے مطلب سمجھنے میں غلطی کر جائیں اور صدیوں اس غلطی میں پڑے رہیں۔“

مولانا مودودی نے جو باتیں لکھی ہیں ان کا مفہوم صرف یہ ہے کہ ان چاروں اصطلاحوں کا مفہوم ذی علم حضرات ہوسکتا ہے کہ سمجھتے رہے ہوں اور اپنے تئیں اس کے قیام کے لیے کوشاں بھی رہے ہوں لیکن باقاعدہ کوئی اجتماعی پروگرام بنا ہو، اس کے قیام کی منظم کوشش ہوئی ہو، عوام وخواص بھی اس کے انقلابی مفہوم کو سمجھتے رہے ہوں ایسا نہ ہوسکا، اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ لوگ اسلامی حکومت سے دور ہوتے جارہے تھے، سیاست و جہاں بانی سے اسلام رخصت ہوتا جارہا تھا، ”لوگ صرف کشور کشائی، ملک گیری اور باج و رواج کو امت کی زندگی کا حاصل سمجھ بیٹھے تھے اور دولتِ اسلام کے بجائے مسلمانوں کی سلطنت پر قانع ہوگئے تھے یعنی ایسی سلطنت کو اپنا مقصد سمجھ بیٹھے جس کا حاکم کوئی مسلمان نام ہو۔“(٨)

اس کے ساتھ جو بات عروج قادری صاحب نے انصاف کے تقاضوں کے تحت لکھی ہے وہ یہ کہ:

”اصل کتاب کے جائزے اور تبصرے میں بھی مولانا ابوالحسن علی ندوی نے وہی روش اختیار کی ہے جو مقدمہ کتاب کی عبارتوں کے جائزے اور تبصرے میں اختیار کی ہے۔ یعنی مولانا مودودی نے دلیل کے طور پر جو آیاتِ قرآنی پیش کی ہیں ان کا ذکر تک نہیں کیا ہے۔ دوسری بات انہوں نے اصل کتاب پر تبصرے میں یہ اختیار کی ہے کہ اپنی طرف سے کسی لفظ کا اضافہ کرکے ایک مفروضہ قائم کیا ہے اور پھر اس مفروضے کی تردید میں صفحے کے صفحے لکھتے چلے گئے ہیں، کہیں انہوں نے لفظ ”انحصار‘‘ کا اضافہ کیا ہے۔ کہیں لفظ ”محض‘‘ کا، اور کہیں لفظ ”بس“ کا۔“ (٩)

یہ صرف ایک سرسری اور تعارفی بحث تھی جو میں نے قارئین کے سامنے اگلے مطالعے کے لیے پیش کی ہے۔ باقی مولانا علی ندوی کی کتاب کی مکمل جہتوں سے جواب مذکورہ کتب میں موجود ہے جن سے ”قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں“ کے حوالے سے ذہنی خلش دور ہوجاتی ہے۔ اس کے ساتھ آپ یہ بھی جان جائیں گے کہ مولانا مودودی کا پیش کردہ تصور الدین وہی روایتی تصور الدین ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پیش کیا تھا اور جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں معروف تھا۔

حوالہ جات

1۔ مقدمہ از ”عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح“ مجلس نشریات اسلام ناظم آباد کراچی، ایضاً مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنؤ:اشاعت بار دوم، 1980ء

2۔ ”قرآنی اصطلاحات اور علمائے سلف و خلف“ صفحہ 13،14،15، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی، اشاعت 2011ء، ایضاً: ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن لاہور دسمبر 2016ء

3۔ عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح پر ایک نظر :صفحہ 32،33 ، مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور، ایڈیشن 2023 ء

4۔ ”قرآنی اصطلاحات اور علمائے سلف وخلف“ صفحہ 253، 254، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی؛ اشاعت 2011 ء

5۔ ”قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں“، صفحہ : 9، اسلامک پبلیکیشنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ لاہور، اشاعت 2016 ء

6۔”عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح“ صفحہ 33،34 مجلس نشریات اسلام ناظم آباد کراچی؛ ایضاً مجلس تحقیقات و نشریات

اسلام لکھنؤ :اشاعت بار دوم، 1980ء

7۔”عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح پر ایک نظر“ : ص 16 ، مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور، ایڈیشن 2023 ء

8۔ ”احیائے الدین اور ہندوستانی علماء“، صفحہ 134،135؛ القلم پبلیکیشنز ٹرک یارڈ بارہ مولہ کشمیر، اشاعت : 2011 ء

9۔”عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح پر ایک نظر“: صفحہ 33، مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور، ایڈیشن 2023 ء

(حسنین خالد آف ملاکنڈ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں اصول الدین کے طالب علم ہیں)