’’جماعت اسلامی کا آغاز حضرت آدم ؑنے کیا۔ ان کے بعد خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیا ؑبھی مخلوقِ خدا کو خالق کی طرف بلانے کا کام کرتے رہے۔ ہم کسی مسلک، کسی پیر، کسی گدی نشین، کسی امیر یا کسی فقہی گروہ کی طرف نہیں بلاتے، بلکہ امتِ واحدہ، ملّتِ ابراہیمی… اللہ تعالیٰ نے جس کا نام مسلمان رکھا ہے… کی طرف بلاتے ہیں۔ قرآن کا پیغام ہے مسلمان، مومن، متقی بن جائو۔ قرآن تقسیم نہیں متحد کرتا ہے اور برتری و بہتری کا پیمانہ تقویٰ کو قرار دیتا ہے۔ جماعت اسلامی، انبیاء ؑ کے کام کا تسلسل ہے، جس کی تاسیس مولانا مودودیؒ نے 26 اگست 1941ء کو 74 ساتھیوں کے ہمراہ لاہور کے اسلامیہ پارک میں اقامتِ دین کے مشن کے لیے کی۔‘‘
ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے اتوار 27 اگست کو لاہور میں ’’یوم تاسیس‘‘ کی تقریب میں اپنے کلیدی خطاب کے دوران کیا۔ تقریب کا آغاز تلاوتِ قرآن حکیم سے ہوا۔ نعتِ رسول کریمؐ کے بعد لاہور جماعت کے نائب امیر انجینئر اخلاق احمد نے ایک جامع دستاویزی فلم کے ذریعے 82 برس کی شاندار روایات، قابلِ فخر ماضی اور روشن مستقبل سے متعلق حاضرین و سامعین کو متاثر کن انداز اور خوبصورت الفاظ میں نہایت عمدہ معلومات فراہم کیں۔ جماعت کے مرکزی نائب امیر فرید احمد پراچہ کو دعوتِ خطاب دی گئی تو انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں جماعت اسلامی نے تاریخ کے ہر مرحلے پر ہر تحریک میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے، مطالبۂ دستورِ اسلامی ہو، تحریک ختمِ نبوت ہو، تحریکِ نظام مصطفیؐ ہو یا تحریک ناموسِ رسالتؐ یا پھر بحالیِ جمہوریت کی تحریکیں… جماعت اسلامی نے ہر آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہر فتنے کے مقابل آہنی دیوار بن کر کھڑی رہی۔ پاکستان کی بقا و سالمیت کی جنگ میں جماعت اسلامی ہمیشہ آگے آگے رہی ہے۔
ممتاز دانش ور اور کالم نویس سجاد میر نے اپنی تقریر کا آغاز ان الفاظ سے کیا کہ پاکستان اگر بدن ہے تو جماعت اسلامی کا جذبہ اس کی روح ہے، اور روح کے بغیر بدن میں جان باقی نہیں رہتی، قائداعظمؒ سے پوچھا گیا کہ اگر آپ کو علامہ اقبالؒ اور پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو کیا کریں گے؟ قائداعظم نے جواب دیا کہ میرا انتخاب اقبال ہوگا کیونکہ اگر فکرِ اقبال موجود ہو تو ہم کئی پاکستان تشکیل دے سکتے ہیں۔ فکرِ اقبال کی تمام جنگ سید مودودیؒ نے تن تنہا نہایت بہادری سے لڑی ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ قومیت کی بنیاد جغرافیہ نہیں بلکہ تہذیب ہے۔ یہ تصور سب سے پہلے سید مودودیؒ نے پوری جرأت اور قوت سے پیش کیا کہ حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے جو کسی فوجی یا دوسری طاقت سے نہیں بلکہ عوام کے ذریعے بروئے عمل لائی جائے گی۔ جماعت کے شعبہ علماء و مشائخ کے سرپرست میاں مقصود احمد نے اپنے خطاب میں جماعت اسلامی کی تابندہ روایات اور مولانا مودودیؒ کی عصری مجالس کی حسین یادیں تازہ کیں۔ ان کی تقریر کے بعد مجلس کو گرمانے کے لیے حافظ لئیق احمد کو اسٹیج پر بلایا گیا جنہوں نے ترانہ پیش کیا:
خدا کی رحمتیں ہوں آپ پر سو بار مودودیؒ
دعائیں دے رہی ہے ملت بیدار مودودیؒ
جماعت اسلامی کے مربی اور بزرگ رہنما، کئی کتب کے مصنف حافظ محمد ادریس نے جماعت اسلامی کی تاسیس سے متعلق اس حیرت انگیز تحقیق سے سامعین کو آگاہ کیا کہ 26 اگست 1941ء کو پورے برصغیر سے جو 75 افراد لاہور میں جمع ہوئے تھے اُن میں سے صرف آٹھ عمر میں مولانا مودودیؒ سے بڑے تھے، باقی سب چھوٹے تھے اور ان میں 19 برس کا ایک باورچی بھی شامل تھا جب کہ مولانا مودودیؒ کی اپنی عمر اُس وقت محض 38 برس تھی، یوں یہ نوجوان تھے جنہوں نے جماعت اسلامی کی اساس رکھی اور جن کے ذریعے لوگوں کو پیدائشی کے بجائے شعوری مسلمان بننے کی دعوت دی گئی۔ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل امیرالعظیم نے حاضرین کو اس جانب متوجہ کیا کہ جماعت اسلامی کو ووٹوں کی تعداد سے نہ ناپا جائے، ووٹ بینک جتنا بھی ہے جماعت اسلامی ہی کا ہے، مذہبی جماعتیں دینی مدارس بنانے کے لیے بنتی ہیں مگر جماعت اسلامی کا مقصد اقتدار کے ایوانوں کا دروازہ دین کے لیے کھولنا ہے۔ لاہور جماعت کے نائب امیر ملک شاہد اسلم نے زیر تعمیر ’’سید مودودیؒ اسلامک سینٹر‘‘ سے متعلق تفصیلات سے سامعین کو آگاہ کیا اور بتایا کہ 7 کروڑ 88 لاکھ روپے کے اخراجات سے عمارت کا ڈھانچہ کھڑا کرلیا گیا ہے، اب اس کی تکمیل اور تزئین و آرائش کے لیے احباب دل کھول کر عطیات دیں۔ لاہور جماعت کے امیر ضیاء الدین انصاری ایڈووکیٹ نے امیر جماعت سراج الحق صاحب کو خطاب کی دعوت دینے سے قبل وضاحت کی کہ جماعت اسلامی ہمہ وقت چوکس اور ہوشیار، خدمت کے لیے تیار رہتی ہے، پارلیمنٹ میں جماعت کے ارکان تعداد کم مگر سب سے زیادہ متحرک ہیں، اور ان کی آواز سب پر بھاری ہے، وہ اپنا مؤقف تعداد نہیں دلیل کی قوت سے تسلیم کرواتے ہیں۔ انہوں نے کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ ہر گھر پر دستک دے کر یہ پیغام پہنچائیں کہ تمام مسائل اور مصائب کا ’’حل صرف جماعت اسلامی‘‘ ہے۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم سراج الحق نے نوجوانوں اور بزرگوں کے بلند آہنگ نعروں کی گونج میں اپنا خطاب شروع کیا تو یاد دلایا کہ انگریز اقتدار میں دین کا تصور تبدیل کردیا گیا تھا، اُس وقت دین دار وہ تھا جو نماز روزہ تو ادا کرلے مگر جہاد، سیاست اور اسلامی اقتدار کی بات نہ کرے، مولانا مودودیؒ نے 23 برس کی عمر میں ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ سے کام کا آغاز کیا اور 1941ء میں ’’جماعت اسلامی‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ جماعت ایک نظریہ ہے جو فرد اور معاشرے میں خالقِ کائنات کی رضا کے مطابق انقلاب لانے اور اسی کی روشنی میں نظام اور امام کو بدلنے کے لیے کوشاں ہے۔ پاکستان بھی ایک نظریے پر بنا۔ یہ مملکت اور اس کا نظریہ دونوں، عالمی استعمار کو بہت کھٹکتے ہیں۔ چنانچہ اس استعمار نے قائداعظمؒ کی وفات کے بعد اس نئی مملکت میں اپنے وفادار غلاموں کو اقتدار کے ایوانوں پر مسلط کردیا۔ اس بدعنوان جاگیردار اور سرمایہ دار طبقے نے اشرافیہ کی سرپرستی میں ملک کو مادی و اخلاقی طور پر تباہی سے دوچار کردیا ہے، انہوں نے اپنی جائدادوں اور فیکٹریوں میں اضافہ کیا مگر ملک کو دیوالیہ کردیا ہے۔ ملک کے تمام مسائل کا حل انقلابی، دینی، دیانت دار اور خدمت گار قیادت ہے، جماعت اسلامی یہ قیادت فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، مگر لوگ جماعت کو پیسے تو دیتے ہیں، ووٹ نہیں، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگ پیسے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اس لیے یہ کسی کو دینے سے قبل اس کے کردار اور امانت و دیانت جانچ کر دیتے ہیں، مگر ووٹ کی اہمیت کا احساس عوام کو نہیں اس لیے جو سبز باغ دکھاتا ہے اُس کے پیچھے چل دیتے ہیں۔ اس وقت پوری قوم بجلی کے بلوں کی وجہ سے سراپا احتجاج ہے۔ ہمارے ملک میں وافر پانی اور دریا موجود ہیں مگر نااہل حکمرانوں نے ڈیم بنانے کے بجائے بیرونِ ملک سے منگوائے گئے کوئلے، گیس اور ڈیزل سے چلنے والے بجلی کے منصوبے لگائے تاکہ کمیشن حاصل کرسکیں اور غریبوں کی جیبوں پر ڈاکا ڈالا جا سکے۔ امیر جماعت نے بتایا کہ اس وقت بے پناہ مہنگی بجلی کے علاوہ سولہ قسم کے ٹیکس بجلی کے بل میں وصول کیے جاتے ہیں ۔ ہم متنبہ کرتے ہیں کہ حکومت ظالمانہ فیصلے واپس لے ورنہ عوام کے ہاتھ ان کے گریبانوں تک پہنچ جائیں گے۔ امیر جماعت سراج الحق نے اعلان کیا کہ اگر حکمرانوں نے بھاری بل واپس نہ لیے اور مہنگائی کے خاتمے کے لیے اقدامات نہ کیے تو 2 ستمبر کو جماعت اسلامی ملک گیر ہڑتال کرائے گی۔