پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) کی جماعتیں، خاص کر مسلم لیگ(ن) اور جمعیت علماء اسلام حیران ہیں کہ عوام کو متبادل کیا نعرہ دیا جائے جس کی بنیاد پر سیاست ہو اور آئندہ ہونے والا انتخاب لڑا جائے! اسی مخمصے میں پیپلز پارٹی بھی مبتلا ہے۔ پی ڈی ایم کی عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی خود کو پیچھے رکھ رہی ہیں کہ جیسے اس پوری اتھل پتھل میں ان کا کوئی کردار نہ رہا ہو۔ تحریک انصاف کی بندر بانٹ کردی گئی ہے۔ سربراہ عمران خان سلاخوں کے پیچھے ڈال دیے گئے ہیں۔ لہٰذا اب مزید سلوگن کیا دیا جائے! پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی رہیں۔ اب جاکر انتخابات 90 روز میں کرانے کے نکتے کو اپنی سیاست کا محور بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔ وگرنہ تمام برائیوں اور عوامی مسائل کو ان کی حکومت بڑھاوا دے چکی ہے۔ اب احتجاج کیا جائے یا تحریک چلائی جائے تو کس کے خلاف چلائی جائے؟ نگران وزارتِ عظمیٰ کے لیے انوارالحق کاکڑ کا نام کہیں سے آیا، میاں شہبازشریف اور مولانا فضل الرحمٰن نے بلا چوں و چرا تسلیم کرلیا۔ بلوچستان میں نگران وزارتِ اعلیٰ کے لیے بھی مولانا فضل الرحمان اوپر والوں کی مرضی پر چلے ہیں۔ یہاں جے یو آئی نے اپنی جماعت کے عثمان بادینی کا نام دیا تھا۔ بلوچستان اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں میں نہ کامل ہم آہنگی تھی نہ باضابطہ نشستیں۔ جے یو آئی ایک طرف تو بلوچستان نیشنل پارٹی دوسری جانب بھاگ رہی تھی۔ قائدِ حزبِ اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ 15 اگست کو اسلام آباد گئے تو ان پر عقدہ کھلا کہ مرکزی قیادت بھی ڈھیر ہوچکی ہے۔ سردار اختر مینگل نے مولانا فضل الرحمان سے نگران سیٹ اَپ کے بارے میں بات کی۔ مولانا نے جواب دیا: جو بھی نام آئے قبول کرلو۔ یعنی مولانا علی مردان ڈومکی کے نام پر راضی کرلیے گئے تھے۔ بیچارے سکندر ایڈووکیٹ کے پاس کوئی معقول دلیل نہ تھی۔ چار و ناچار پوری جماعت نے فیصلہ قبول کرلیا اور بلوچستان نیشنل پارٹی اپنے اعمال کی بناء ہاتھ مَلتی رہ گئی۔ جے یو آئی جس نے جام کمال خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں اہم کردار ادا کیا تھا اب اسی جام کمال کے ساتھ قربت میں آگئی۔ گویا بلوچستان کے اندر بھی نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ، جام کمال حلقہ مقتدر و بالادست رہے۔ اب تک کی آٹھ رکنی کابینہ ان کے درمیان بندر بانٹ ہے۔ کابینہ نے 21اگست کو حلف لیا جن میں کیپٹن ریٹائرڈ میر زبیر جمالی کو محکمہ داخلہ و قبائلی امور، امجد رشید کو محکمہ خزانہ و مال، پرنس احمد علی کو صنعت و حرفت، ایکسائز و ٹیکسیشن، ڈاکٹر قادر بخش بلوچ کو محکمہ تعلیم و سیاحت، جان اچکزئی کو محکمہ اطلاعات کا قلم دان سونپا گیا ہے۔ دانش لانگو، شانیہ خان اور عمیر محمد حسنی وزیراعلیٰ کے مشیر مقرر کیے گئے ہیں۔ کابینہ کے انتخاب میں بھی احباب پروری کی گئی ہے۔ زبیر جمالی اسپیکر جان محمد جمالی، پرنس احمد علی سابق وزیراعلیٰ جام کمال، جبکہ دانش لانگو وزیراعظم کے قریبی دوست سابق صوبائی وزیر خالد لانگو کے کزن ہیں۔ شانیہ خان سابق وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کی کوآرڈی نیٹر رہی ہیں، اب اس حلقے نے ان پر ہاتھ رکھا۔ مشیر معدنیات عمیر محمد حسنی پیپلز پارٹی کے سابق وفاقی وزیر سردار فتح محمد حسنی کے صاحبزادے ہیں جنہوں نے حلف اٹھانے کے چند گھنٹوں بعد ہی اپنی سول اسپتال کوئٹہ کے ٹراما سینٹر میں توڑ پھوڑ اور عملے کو زدوکوب کرکے گویا اصلیت دکھادی۔ جان اچکزئی خاندان سمیت اسلام آباد میں مقیم ہیں اور اب وزارت کے لیے کوئٹہ منتقل ہوئے ہیں۔ یہ طویل عرصہ لندن میں مقیم رہے۔ ابتداً صحافت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ صحافت چھوڑ کر لندن میں کاروبار شروع کردیا۔ جمعیت علما اسلام کے ترجمان بنائے گئے۔ جے یو آئی نے دور رکھا تو مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے۔ سینیٹ کی نشست کے لیے پَر تولتے رہے۔ اصل کہانی یہ گردش میں ہے کہ جان اچکزئی برطانوی شہریت رکھتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ان کو نگران وزیر بنانا خلافِ دستور ہے، اور اس بارے میں ریاست جواب دہ ہے کہ فی الواقع اس امر میں صداقت کتنی ہے۔ بہرحال یہ موقع پرست شخص ہیں۔ سبی کی چاکر یونیورسٹی کے ایک ماہ قبل تعینات ہونے والے وائس چانسلر ڈاکٹر قادر بخش بزدار کو نگران وزیر تعلیم بنایا گیا ہے۔ ان کا تعلق پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان سے ہے۔ بلوچستان میں بحیثیت ووٹر تک ان کا اندراج نہیں ہے۔ ان کا ووٹ پشاور میں درج ہے کیونکہ ان کا زیادہ تر کیریئر خیبر پختون خوا میں رہا ہے۔ مردان کی ولی خان یونیورسٹی سے غیر قانونی بھرتیوں کے کیس میں نکالے گئے۔ درحقیقت نگران صوبائی کابینہ کی تشکیل میں صوبے کے ساتھ ناانصافی والا معاملہ کیا گیا۔ کابینہ میں بے ڈھنگے لوگ غالب ہیں۔ صوبے کا امن اطمینان بخش نہیں ہے۔ بگاڑ کی فضا ہے۔ البتہ پاک ایران سرحدوں پر اسمگلنگ عروج پر ہے۔ ایران سے ڈیزل، پیٹرول اور روزمرہ خوراکی اشیاء کی اسمگلنگ سے جاری ہے، اِدھر سے چینی بھیجی جارہی ہے۔ اب تو ایک اضافہ ضلع قلعہ عبداللہ اور اس کے قرب و جوار میں منشیات کے درجنوں کارخانوں کے قیام کا بھی ہوا ہے۔ خطیر رقم اس کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے۔ ان کارخانوں کی باقاعدہ سرپرستی ہورہی ہے۔ مقامی و سول انتظامیہ کسی شمار میں نہیں، البتہ کسی نہ کسی طور ان کی بھی شکم پری ہورہی ہے۔ ضلع قلعہ عبداللہ میں سابقہ افغان حکومت کے جنگجوؤں کے غول کے غول ایستادہ ہیں۔ یہ علاقے بھیانک روپ دھار چکے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ یہاں ملک اور عوام کے مفاد کے بجائے اقتدار کی سبقت اور بالادستی مقدم ہے۔ عجیب و مختلف کردار کے لوگ صوبے پر مسلط کیے جاتے ہیں۔