کابینہ میں زیادہ تر وزراء چونکہ اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین ہیں
خیبر پختون خوا میں دوسری نگران کابینہ نے حلف اٹھاکرکام شروع کردیا ہے۔ یاد رہے کہ خیبر پختون خوا میں صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد رواں سال جنوری میں 26 ارکان پر مشتمل صوبائی نگران کابینہ تشکیل دی گئی تھی، تاہم سیاسی وابستگیوں اور غیر تسلی بخش کارکردگی کی شکایات پر اس کابینہ کوگزشتہ ہفتے ڈی نوٹیفائی کردیا گیا تھا اور صرف وزیراعلیٰ کو اپنے منصب پر برقرار رکھا گیا تھا۔ دوسری مدت کی نگران صوبائی کابینہ کے لیے پہلے مرحلے میں 9 وزیروں، ایک معاونِ خصوصی اور 2 مشیروں کی نامزدگی کی گئی ہے۔اِن میں سے سید مسعود شاہ باچا، جسٹس ریٹائرڈ ارشاد قیصر، بیرسٹر فیروز جمال شاہ کاکا خیل، احمد رسول بنگش، آصف رفیق، ڈاکٹر نجیب اللہ خان، ڈاکٹرمحمد قاسم جان، جسٹس ریٹائرڈ ارشاد حسین شاہ اور سید عامر عبداللہ نے حلف اٹھالیا ہے، جبکہ ڈاکٹر ریاض انور، ڈاکٹر سرفراز علی اور ظفر اللہ خان معاون خصوصی مقرر کیے گئے ہیں۔ نئی کابینہ میں شامل ہونے والے 12 افراد میں سے 4 وزراء فیروز جمال شاہ کاکاخیل، ارشاد قیصر، سید مسعود شاہ باچا اور ڈاکٹر ریاض انور پہلی نگران کابینہ میں بھی شامل تھے جنہیں دوبارہ شامل کیا گیا ہے جبکہ باقی 8 نئے چہرے کابینہ میں شامل کیے گئے ہیں۔یاد رہے کہ سابق نگران کابینہ کے 19 ارکان نے سیاست میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر اپنے استعفے وزیراعلیٰ کو بھیجے تھے، باقی 6 ارکان نے اگلے دن استعفے دے دیئے تھے۔ ذرائع کے مطابق کابینہ کے کم از کم دو ارکان نے وزیراعلیٰ کی جانب سے استعفیٰ دینے کی ہدایت کی ’’مزاحمت‘‘ کی اور اصرار کیا کہ وہ نہ تو سیاست میں شامل ہیں اور نہ ہی انہوں نے کوئی سیاسی اجتماعات منعقد کیے ہیں۔ نگران کابینہ کے وزراء کے ان استعفوں کا آغاز اُس وقت ہوا جب نگران وزیر شاہد خٹک نے 24 جولائی کو ذاتی وابستگیوں کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔ قبل ازیں انہوں نے عوامی نیشنل پارٹی کے زیراہتمام جلسہ عام سے خطاب کیا تھا۔ ایک سیاسی اجتماع میں وزیر کی موجودگی پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے سخت ردعمل کا اظہار کیاگیا تھا، جس کے ایک دن بعد وہ مستعفی ہوگئے تھے۔ واضح رہے کہ 31 جولائی کو الیکشن کمیشن نے نگران وزیراعلیٰ کو ایک خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھاکہ ان کی حکومت آئین کے آرٹیکل 218(3) کے تحت آزادانہ، منصفانہ، شفاف اور غیر جانب دارانہ طریقے سے انتخابات کے انعقاد کی پابند ہے۔ الیکشن کمیشن نے وزیر اعلیٰ سے کہا کہ وہ سیاست میں ملوث اپنی کابینہ کے تمام ارکان کو برطرف کردیں۔ جس کے جواب میں 12 اگست کو گورنر غلام علی نے 14 وزراء اور وزیراعلیٰ کے 11 معاونین کے استعفے منظور کرلیے جن میں 6 معاونینِ خصوصی اور 5 مشیر شامل تھے۔
نئی کابینہ میں گو کہ زیادہ تر نئے لیکن جہاں دیدہ اور عمررسیدہ چہرے شامل ہیں، لیکن ان میں چار ایسے وزراء بھی ہیں جوپچھلی کابینہ کے بھی ارکان رہ چکے ہیں۔ ان میں مسعود شاہ باچا، بیرسٹر فیروز جمال شاہ کاکاخیل، ریٹائرڈ جسٹس ارشاد قیصر اور ڈاکٹرریاض انور شامل ہیں۔ ریٹائرڈ جسٹس ارشاد قیصر کا تعلق ہزارہ ڈویژن سے ہے، آپ گلگت بلتستان سپریم اپیلٹ کورٹ کی سابق چیف جج ہیں، آپ 2019ء سے 2022ء تک اس عہدے پر فائز رہیں، اور پاکستان کی ڈپٹی اٹارنی جنرل کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکی ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹرمحمد قاسم جان ماہر تعلیم ہیں، آپ پشاور یونیورسٹی اور قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے وائس چانسلر رہنے کے علاوہ کئی نجی جامعات کے بھی سربراہ رہ چکے ہیں۔ جب کہ ظفر اللہ خان ریٹائرڈ پولیس افسر ہیں جو ایف آئی اے اور موٹر وے پولیس کے علاوہ کئی اہم عہدوں پر فرائض انجام دے چکے ہیں۔ ان کا آبائی تعلق عمرزئی چارسدہ سے ہے، ان کے ایک اور بھائی بھی سول سرونٹ رہ چکے ہیں۔ ڈاکٹر نجیب اللہ یونیورسٹی آف کیمبرج (شعبہ مادی سائنس) سے پی ایچ ڈی کرنے والے یو ایس پاکستان سینٹر فار ایڈوانسڈ اسٹڈیز ان انرجی کے بانی ڈائریکٹر ہیں۔ وہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز، سوات کے پراجیکٹ ڈائریکٹر کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں، انہوں نے یو این ڈی پی کے ساتھ مشیر کے طور پر کام کیا اور سابقہ فاٹا کے لیے 10 سالہ توانائی کا منصوبہ تیار کیا۔ انہوں نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے ذریعے قابلِ تجدید توانائی کے منصوبوں میں چینی بیرون ملک سرمایہ کاری پر ٹفٹس یونیورسٹی بوسٹن کے ساتھ مشیر اور ملکی ماہر کے طور پر بھی خدمات انجام دی ہیں۔ ڈاکٹر نجیب اللہ پلاننگ کمیشن آف پاکستان میں سائنس، ٹیکنالوجی اور آئی سی ٹی کے ممبر کے طور پر کام کررہے ہیں اور سائنس اور ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور اعلیٰ تعلیم کی وزارتوں کے ترقیاتی پورٹ فولیو کو دیکھتے رہے ہیں۔
دریں اثناء سابق وزراء میں ایک نگران وزیر برائے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن منظور خان آفریدی کے بارے میں میڈیا میں یہ رپورٹس شائع ہوچکی ہیں کہ وہ استعفیٰ دینے کے بعد چار قیمتی سرکاری گاڑیاں حکومت کو واپس کرنے کے بجائے اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ ان گاڑیوں کی واپسی کے لیے محکمہ ایکسائز کے حکام کو درخواست ارسال کردی گئی ہے، تاہم منظور آفریدی کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ ڈی نوٹیفکیشن کے بعد تمام گاڑیاں واپس کردی گئی ہیں۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ہدایت کی گئی تھی کہ سبک دوش کیے جانے والے نگران وزیروں سے تمام سرکاری گاڑیاں واپس اور سرکاری رہائش گا ہیں خالی کرالی جائیں، تاہم دعویٰ کیا جارہا ہے کہ خیبر پختو ن خوا میں سابق نگران عہدیداروں میں سے بعض نے مراعات اور سہولیات واپس کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کرلی ہے اور محکمہ جات کی خط کتابت کا جواب نہیں دیا جارہا ہے۔ اس بارے میں پہلا کیس منظور آفریدی کا سامنے آیا ہے، انہیں رواں سال جنوری میں ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کا وزیر مقرر کیا گیا تھا۔ ایکسائز کے پراونشل وئیر ہاؤس سے ڈی جی ایکسائز کو بھیجے گئے مراسلے کے مطابق منظور آفریدی 4 سرکاری قیمتی گاڑیاں جن میں ایک وی ایٹ، 2 پراڈو جیپیں اور ایک کرولا شامل ہیں، ساتھ لے گئے ہیں، اس لیے یہ گاڑیاں واپس لینے کی کارروائی کی جائے۔ دوسری جانب سابق نگران وزیر کی جانب سے مؤقف سامنے آیا ہے کہ اس وقت ان کے زیراستعمال ایک بھی سرکاری گاڑی نہیں ہے، اور ایکسائز کی گاڑیاں جن کے پاس ہیں انہیں ڈھونڈ کر محکمہ ایکسائز کو واپس کی جائیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ سابق وزراء میں اکثریت چونکہ مختلف سیاسی جماعتوں کے وابستگان کی تھی اور انہیں اپنی اپنی جماعتوں کی آشیرباد حاصل تھی اس لیے سوائے پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے باقی تقریباً تمام جماعتیں کسی نہ کسی حیثیت میں حکومت کا حصہ تھیں لیکن اب جب ان جماعتوں کے وابستگان کو فارغ کردیا گیا ہے تو توقع ہے کہ نئی کابینہ پر اس حوالے سے کوئی الزام سامنے نہیں آئے گا۔ ویسے بھی حالیہ کابینہ میں زیادہ تر وزراء چونکہ اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین ہیں، اس لیے ان سے بجا طور پر یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ پارٹی پالیٹکس اور پارٹی مفادات کے بجائے عوامی فلاح وبہبود اور ہر لحاظ سے صاف شفاف انتخابات کے لیے غیر جانبدارانتخابی فضا یقینی بنانے پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں گے۔