’’دی کشمیر والا‘‘… آزادی ِاظہار کا آخری چراغ بھی بجھا دیا گیا

بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزاد صحافت اور آزادیِ اظہار کا آخری چراغ بھی گُل کردیا۔ ’’دی کشمیر والا‘‘نامی نیوز پورٹل کی ویب سائٹ کو بلاک کردیا گیا، اس کے فیس بک پیج کو ختم اور ٹویٹر اکائونٹ کو روک دیا گیا، اور نیوز پورٹل کی انتظامیہ کو سری نگر میں اپنا دفتر ختم کرنے پر مجبور کردیا گیا۔

چند برس قبل جب کشمیر کی بے باک اور آزاد صحافت کو پوری طرح شکنجے میں کسنے کا عمل جاری تھا تو چند آزاد ضمیر نوجوانوں نے ابلاغ اور اطلاع کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ”دی کشمیر والا“ کے نام سے ایک ویب سائٹ کا اجرا کیا، جس کا مرکزی دفتر سری نگر میں قائم تھا اور اس کے بانی ایڈیٹر ایک اُبھرتے ہوئے کشمیری نوجوان فہد شاہ تھے جو اُردو اور انگریزی پر عبور رکھنے کے علاوہ حالاتِ حاضرہ کا بہترین شعور رکھتے تھے۔ چونکہ کشمیر میں برسوں سے چلی آنے والی بے باک صحافت کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا اور صحافیوں کے قلم کی روشنائی چھین لی گئی تھی، رائے سازی کرنے اور عوام کی راہنمائی کرنے والے قلم کاروں کو غیر فعال کردیا گیا تھا اس لیے ”کشمیر والا“ نامی آزاد ادارہ سامنے آیا تو لوگ اس کی خبروں، تجزیوں اور نیوز بلیٹنز پر اعتبار کرنے لگے۔ اس کے فیس بک پیچ کے فالورز کی تعداد پانچ لاکھ اور ٹویٹر کے فالورز کی تعداد پینتالیس ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ ”کشمیر والا“ کی انتظامیہ چونکہ ایک آشوب زدہ خطے میں کام کررہی تھی اس لیے اسے بھی مختلف آراء اور سوچ کے دھاروں کو اپنے پروگراموں میں سمونے کا ایک مشکل چیلنج درپیش تھا۔ اس کے باوجود ”کشمیر والا“ ویب سائٹ پر بھارتی حکومت کے مؤقف کو بھی کوریج دی جاتی رہی۔

بھارتی حکومت کشمیر میں ایک دور میں آزادیِ اظہار کے بڑے صحافتی مراکز جموں سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار” دی کشمیر ٹائمز“،سری نگر سے شائع ہونے والے ”گریٹر کشمیر“، اردو اخبارات ”کشمیر عظمیٰ“ وغیرہ کو دھونس اور دبائو ڈال کر اپنی پالیسی نرم کرنے اور آزاد منش صحافیوں سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوچکی تھی اس لیے ”کشمیر والا“ جیسے نیوز پورٹل کی آزاد روی اسے کبیدہ خاطر کیے ہوئے تھی۔لے دے کر جان چھڑانے کا آسان طریقہ اس کا تعلق دہشت گردی سے جوڑنا ہی تھا۔ آخرکار بھارتی حکومت نے وہی کیا۔ پلوامہ میں بھارتی فوج اور عسکری نوجوانوں کے درمیان ہونے والے مسلح تصادم کو ”کشمیر والا“ کے رپورٹر نے کور کیا اور اس تصادم میں ایک ایسے شخص کو بے گناہ قرار دیا جسے بھارتی فوج عسکریت پسندوں کا ساتھی ثابت کرتی رہی۔ دو طرفہ تصادم کی اس سیدھی سادی صحافتی کوریج کو بھارتی حکومت نے دہشت گردی کو گلوریفائی کرنے کا نام دیا۔ اسی طرح ایک رپورٹ میں ”کشمیر والا“ کے ایڈیٹر فہد شاہ نے یہ انکشاف کیا کہ بھارتی فوج کشمیر کے ایک پرائیویٹ تعلیمی ادارے کی انتظامیہ پر یوم جمہوریہ منانے کے لیے دبائو ڈال رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اسکول انتظامیہ نے ہی یہ شکایت ایک صحافی تک پہنچائی ہوگی۔ بھارتی فوج کا خیال تھا کہ یہ تعلیمی ادارہ عسکریت کے لیے ذہن سازی کرتا ہے۔ بھارتی فوج نے اس خبر کی تردید کی اور فہد شاہ پر ایک اور مقدمہ درج کیا گیا۔ فہد شاہ پر غلط رپورٹنگ کا الزام عائد کیا گیا۔ اس کے بعد ”دی کشمیر والا“ کے بانی ایڈیٹر فہد شاہ کے خلاف مقدمات درج کیے جانے لگے، انہیں تفتیش کے لیے تھانوں میں بلایا جانے لگا، ان کے گھر پر چھاپے مارے جانے لگے۔ اس طرح ایک نوجوان اور پیشہ ور اخبار نویس کے لیے اس کا پیشہ ایک ڈرائونا خواب بنتا چلا گیا۔ ایک روز انہیں دہشت گردی کے مقدمے میں گرفتار کرکے گھر سے تین سو کلومیٹر دور جموں کی کورٹ بلوال جیل میں بند کردیا گیا اور اٹھارہ ماہ سے وہ خبر دینے کی قیمت چکا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ”کشمیر والا“ کے ایک ٹرینی رپورٹر سجاد گل کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے قانون کے تحت دہشت گردی کی معاونت کے الزام میں اترپردیش کی جیل میں پہنچا دیا گیا۔ ”کشمیر والا“ کے موجودہ ایڈیٹر یشراج شرما کے مطابق انہیں سری نگر انتظامیہ کی طرف سے دفتر خالی کرنے کا نوٹس دیا گیا جس کے ساتھ ان کی ویب سائٹ بند کردی گئی، جب انہوں نے سروس فراہم کرنے والی انٹرنیٹ کمپنی سے رابطہ کیا تو ان کا جواب تھا کہ ویب سائٹ کو بھارت کے آئی ٹی ایکٹ 2000 کے تحت بند کردیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ایک تصویر گردش کرنے لگی جس میں ایک کمرے میں کچھ سامان بکھرا پڑا تھا اور اسے بوریوں میں بند کیا جارہا تھا، اور اسی سامان کے ساتھ ویب سائٹ کے دفتر کے باہر نصب ’’دی کشمیر والا‘‘ کا بورڈ بھی فرش پر پڑا تھا۔ یہ تصویر حقیقت میں ایک ویب سائٹ کی بندش کی نہیں بلکہ کشمیر میں میڈیا کی مجموعی حالتِ زار کی کہانی تھی۔

کشمیر میں صحافت کی دنیا میں اردو، انگریزی اور کشمیری زبان کے رنگین اخبارات بھی ہیں اور بے شمار ویب چینل بھی… دفتروں میں جدید ساز و سامان بھی ہے اور اعلیٰ دماغ اور کچھ کرگزرنے کے جذبات سے سرشار صحافی بھی… اگر کچھ نہیں رہا تو صحافت باقی نہیں رہی، صحافت کی روح باقی نہیں رہی۔ ”کشمیر والا کی بندش کے ساتھ ہی کشمیر میں آزادیِ اظہار کا آخری چراغ لو دیے بغیر بجھ گیا۔

”کشمیر والا“ کی بندش کی گونج عالمی سطح پر سنائی دی اور صحافیوں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی کئی تنظیموں نے اس اقدام کی مخالفت کی۔ الجزیرہ ٹی وی نے بھی اس نیوز پورٹل کی بندش پر ایک تفصیلی رپورٹ نشر کی۔ بھارت میں آزادیِ اظہار کے تحفظ کے لیے قائم کی جانے والی تنظیم ”فری اسپیچ کلیکٹو“ کی بانی ایڈیٹر گیتا شیوبانی نے حکومت کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سب کچھ رکھنے والا کشمیر کا میڈیا خود ہی غائب ہوگیا ہے۔ ”کشمیر والا“ کی جواں سال ٹیم نے ہر ممکن حد تک توازن رکھنے کی کوشش کی تھی مگر بھارتی حکومت نے اس پر پابندی لگا کر آزادیِ صحافت کی ایک اور اسپیس بلاک کردی۔کشمیر ٹائمزجموں کی ایڈیٹر اور معروف صحافی آنجہانی ویدبھسین کی بیٹی انورادھا بھسین نے اسے آزادیِ اظہار کا دائرہ محدود کرنے کی طرف اہم قدم قرار دیا۔انورادھا بھسین نے ایک مقولہ بھی ٹویٹر پر شیئر کیا کہ پہلے وہ صحافی کے پیچھے آئے، اس کے بعد کیا ہوا ہمیں معلوم نہ ہوسکا۔ گویا کہ صحافت کا قافیہ تنگ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگ حالات سے بے خبر ہوجائیں۔ اسی طرح بھارت میں ڈیجیٹل میڈیا کی تنظیموں کے ایک گروپ نے بھی اسے کشمیری صحافیوں کی آواز ختم کرنے کی کوشش قرار دیا اور کہا کہ یہ لوگوں کو خاموش کرانے کے قانون کا ناجائز استعمال ہے۔ اس کے ساتھ ہی امریکی تنظیم یو ایس کمیشن آف ریلیجیس فریڈم، دی کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس، کرسچئن سائنس مانیٹر نے بھی بھارتی حکومت کی مذمت کرتے ہوئے فہد شاہ کی رہائی کا مطالبہ کیا۔

”دی کشمیر والا“ پر پابندی کے بعد اب کشمیر میں صرف وہی سامنے آئے گا جو بھارت دکھانا چاہے گا، اور وہی رپورٹ ہوگا جو بھارت کی مرضی اور منشاء ہوگی۔ اس طرح کشمیر میں آزاد اور جرات مندانہ صحافت کا ایک طویل باب اب اپنے انجام کو پہنچ رہا ہے۔ 75 سالہ تاریخ میں کشمیر کی صحافت اس انجام سے دوچار نہیں ہوئی۔