معروف صحافی اردو ڈائجسٹ کے مدیر الطاف حسن قریسی سے اے اے کا مکالمہ
سوال:آپ کی جنرل یحییٰ خان سے کئی ملاقاتیں رہی ہیں، ان کی کیا تفصیلات ہیں؟
الطاف حسن قریشی: بالکل، جنرل یحییٰ خان سے ملاقاتیں رہیں۔ پہلی ملاقات ان کی جانب سے 25 مارچ 1969ء کو مارشل لا لگانے کے بعد غالباً 11اپریل 1969ء کو ہوئی تھی۔ میں ان کی پہلی پریس کانفرنس میں موجود تھا اور ان کی دو باتوں نے مجھے متاثر کیا۔ پہلی بات تو یہ کہ ان سے پہلا عہد جنرل ایوب خان صاحب کے جبر و استبداد کا دور تھا، جن کی پریس کانفرنسوں میں بھی فوجی مزاج کا ایک خاص قسم کا انداز نمایاں نظر آتا تھا، اور مجلس میں ایک جمود کی کیفیت غالب ہوا کرتی تھی۔ وہ اپنی ذات کے بارے میں بہت فکرمند رہتے کہ میری تصویر ٹھیک طرح سے چھپے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جب میں نے جنرل یحییٰ خان کو پہلی بار پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوالوں کا سامنا کرتے دیکھا تو ان کا رویہ ایوب خان صاحب کے طرزِعمل سے بالکل مختلف نظر آیا۔ مثال کے طور پر وہ کیمرے والوں سے کہتے رہے کہ ’’ہٹو بھئی، مجھے اپنی تصویر سے محبت نہیں ہے، لوگوں سے بات کرنے دو، یہ بار بار میری آنکھوں میں جو روشنی پڑتی ہے یہ ڈسٹرب کرتی ہے، آپ یہاں سے چلے جائیں اور مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے کہ آپ میری تصویریں بنائیں اور اخبار میں چھاپیں‘‘۔ ان کی یہ بات ایوب خان صاحب سے بالکل مختلف رویّے کی مظہر تھی۔
دوسری بات یہ ہے کہ پریس کانفرنس میں بنیادی بیان کے بعد جو سوالات ہوا کرتے تھے، اس میں بھی یحییٰ خان صاحب نے ایوب خان صاحب کے برعکس بڑی فراخ دلی سے دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ’’سوالات کیجیے‘‘بلکہ وہ بار بار کہتے رہے کہ’’کچھ اور پوچھنا ہے تو پوچھیں‘‘۔ ان کی یہ دوسری بات بھی پسند آئی۔۔۔ وہ کہنے لگے:’’میں یہاں تھوڑے عرصے کے لیے آیا ہوں اور صحافت کی آزادی پر یقین رکھتا ہوں اور اسے قائم رکھوں گا، آپ لوگوں کو بات کرنے کی مکمل آزادی ہے اور انتخابات بھی پوریطرح آزاد فضا میں ہوں گے اور ان شاء اللہ میں کم سے کم وقت میں اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقل کردوں گا‘‘۔ یوں پہلی پریس کانفرنس سے میں نے ان کے بارے میں اچھا تاثر لیا، اور ’’اردو ڈائجسٹ‘‘میں ان کے بارے میں کچھ اچھے کلمات بھی لکھے، یہ تو پہلی ملاقات تھی۔
اس کے بعد دوسری ایک بہت اہم پریس کانفرنس تھی، جو غالباً دسمبر 1969ء کی پہلی تاریخوں میں ہوئی تھی۔ تب انھوں نے’’لیگل فریم ورک آرڈر‘‘(LFO)کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس ’لیگل فرم ورک‘کی بنیاد پر، بالغ حق رائے دہی کے اصول پر تمام انتخابات ہوں گے اور اسی فریم ورک میں طے کردہ نقشہ کار کے مطابق اقتدار منتقل کیا جائے گا‘‘۔ وہ بھی ایک پُرہجوم پریس کانفرنس تھی اور پورے پاکستان سے صحافیوں کو بلایا گیا تھا۔
صدر جنرل یحییٰ خان نے پریس کانفرنس کا آغاز کرتے ہوئے کہا: ’’نظریہ پاکستان کے خلاف کسی کو بات کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، کیونکہ اسلام ہی پاکستان کی بنیاد ہے‘‘۔ یہ باتیں بھی مجھے بہت اچھی لگیں، مگر اس کے بعد انہوں نے پریس کانفرنس میں جو نقشہ بیان کیا، وہ بہت خطرناک تھا۔ اس کے بعد جب انھوں نے یہ کہا تو بہت برا لگا کہ ’’جو قومی اسمبلی عوام منتخب کریں گے، وہ ایک سو بیس دن کے اندر دستور بنانے کی پابند ہوگی۔ اگر اس اسمبلی نے ایک سو بیس دنوں میں دستور نہ بنایا تو وہ خودبخود تحلیل ہوجائے گی اور اس کے بعد پھر دوسری قومی اسمبلی منتخب کی جائے گی۔ پھر یہ کہ وہ دستور اُس وقت قانونی حیثیت اختیار کرسکے گا جب میں اسے قبول کروں گا۔ اور پھر منظور شدہ دستور کے مطابق اقتدار منتقل کردیا جائے گا، وغیرہ وغیرہ‘‘۔
یحییٰ خان صاحب کے اس فرمان پر ہم لوگوں نے خصوصاً روزنامہ ’جنگ‘ کراچی، راولپنڈی کے چیف ایڈیٹر میر خلیل الرحمٰن صاحب نے بڑی سخت تنقید کرتے ہوئے برملا کہا:’’اس سے تو آپ کے ارادوں میں کوئی خلل محسوس ہوتا ہے‘‘۔ یاد رہے میر خلیل صاحب جم کر بات کرتے تھے۔ وہاں روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کے مدیر جناب مجید نظامی نے بھی بات کی اور میں نے بھی کہا کہ ’’یہ کیا کررہے ہیں آپ؟ ایک سو بیس دنوں میں تو کچھ نہ ہوگا۔ 1954ء میں پہلا آئین بنا تو اس میں سات سال لگے۔ دستور 1956ء میں بنا، اس کو بنانے میں بھی نو سال لگے۔ ایک سو بیس دن میں یہ کیسے بن جائے گا؟ اور اگر نہیں بن سکے گا تو آپ اسمبلی توڑ دیں گے، اور آئین بننے کے بعد یہ طے کرنا کہ میں دیکھوں گا کہ اگر اس میں پاکستان کے خلاف کوئی بات ہوئی تو اس کو مسترد کردوں گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک سو بیس دن میں تین سو لوگ مل کر ایک آئین بنائیں گے، جو آپ کے سامنے پیش کیا جائے گا اور آپ کسی بھی بات کو بنیاد بناکر اسے مسترد کردیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نہیں چاہتے کہ ملک کا دستور بنے۔‘‘
اس دوسرے موقع پر پریس کانفرنس میں بڑی سخت باتیں ہوئی تھیں، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ صحافیوں اور صدر جنرل یحییٰ خان نے ردِعمل میں توازن نہیں کھویا۔ وہ بڑی سخت باتیں سنتے رہے۔ میں نے وہاں تقریر نما سوال میں کہا تھا ’’یہ جو حالات ملک میں بن گئے ہیں،کچھ آپ کے آنے سے قبل تھے اور کچھ آپ نے بنادیئے ہیں۔ یہ مشرقی پاکستان میں جو عوامی لیگ کو پوری طرح کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے کہ وہ جو چاہے کہے، جو چاہے مطالبہ کرے، جس طرح چاہے احتجاج کرے اور جہاں چاہے کسی پر حملہ کرے، مگر آپ کی حکومت اس کو روکنے والی نہیں ہے۔ اسی طرح مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی بھی لوگوں کے جذبات بھڑکا رہی ہے۔ یہ دونوں جماعتیں، علاقائی جماعتوں کی صورت میں ابھر کر سامنے آرہی ہیں۔ ان کے نعرے بڑےہوش ربا ہیں۔ ان کی عوامی مقبولیت کے اس طوفان کو آپ کیسے روکیں گے اور کیسے دستور سازی کریں گے؟ اس کے لیے تو بڑے تدبراور بڑی دوراندیشی اور سیاسی معاملات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آپ نے جو لیگل فریم ورک دیا ہے، اس صورت حال کا ادراک کرنے سے یہ لیگل فریم ورک آرڈر بالکل خالی ہے اور ہمیں اس کے برعکس بڑے خطرات محسوس ہورہے ہیں، اس لیے آپ اسے واپس لیں اور اس کی جگہ سمجھ دار لوگوں کی باہم مشاورت سے نیا لیگل فریم ورک آرڈر مرتب کریں‘‘۔ تو یہ ہماری دوسری ملاقات تھی، ظاہر ہے جو ایک تلخ مکالمے پر مشتمل تھی۔ جنرل یحییٰ خان ہماری گفتگو اور اعتراضات کو سنجیدگی سے لینے اور وزن دینے کے لیے تیار نہیں دکھائی دے رہے تھے۔
تیسری ملاقات ایسے ماحول میں ہوئی جس میں بڑی کشیدگی تھی۔ ہوا یہ کہ جولائی 1970ء کے آخری دنوں میں اخبارات نے ایک خبر شائع کی کہ جنرل یحییٰ خان اپنے بھائی آغا محمد علی صاحب کو ’’قومی حفاظتی کونسل‘‘ کا سربراہ مقرر کررہے ہیں، جس کے تحت تمام سویلین اور فوجی انٹیلی جنس ایجنسیاں کام کریں گی۔ جب یہ خبر چھپی تو میں نے اس کے خلاف اگست 1970ء میں ماہنامہ’اردو ڈائجسٹ‘میں اداریہ لکھا کہ ’’یہ اقتدار پر قابض رہنے اور اقتدار کے استحکام کو دوام بخشنے کے راستے ہیں۔ صدر یحییٰ خان کو اس دلدل میں گرنے سے بچنا چاہیے، جس دلدل میں صدر ایوب خان اپنی تمام عسکری قوت کے باوجود دھنستے چلے گئے۔ بیٹوں اور بھائیوں کے بارے میں قوم ضرورت سے زیادہ حسّاس ہے۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ جناب صدر یحییٰ، انتخابات کی قدروقیمت پر بھائی اور دوست کی محبت قربان کرکے درخشندہ روایت کا آغاز کریں گے‘‘۔۔۔ جب شمارہ چھپ کر آیا تو اس پرجنرل یحییٰ خان صاحب بہت ناراض ہوئے۔
چنانچہ سب سے پہلے تو یہاں پنجاب کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ٹکا خان صاحب نے مجھے طلب کیا اور کہا کہ’’تم نے یہ کیا لکھ دیا ہے؟ تمھیں پتا ہے ملک میں مارشل لا لگا ہوا ہے اور مارشل لا کےخلاف لکھنے کے کیا نتائج ہیں؟کیا سزا دی جاسکتی ہے؟ فوراً اس کی تردید کرو، ورنہ تمھیں سخت سزا سے دوچار ہونا پڑے گا۔‘‘میں نے جواب میں کہا کہ ’’یہ خبر میں نے نہیں دی، یہ خبر ایک اخبار میں چھپی ہے، جس کی تردید نہیں کی گئی تو میں نے اس خبر پر تبصرہ کرکے کیا جرم کیا ہے؟‘‘ جنرل ٹکا خان صاحب نے کہا: ’’بالکل جرم کیا ہے اور بہت بڑا جرم کیا ہے۔ مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان تمہیں ایک لمحہ دیکھنے کو تیار نہیں۔ اگر تم نے تین دن کے اندر اندر اس کی تردید شائع نہیں کی تو پھر عبرت ناک سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوجائو‘‘۔ میں نے کہا ’’اچھا، سوچ کر بتاتا ہوں‘‘۔
جنرل ٹکا خان کے دفتر میں پیشی بھگت کر میں ابھی گھر آیا ہی تھا کہ مجھے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل صاحب کا جی ایچ کیو راولپنڈی سے فون آگیا کہ ’’تم فوراً پنڈی پہنچ جائو۔ یہ جو اداریہ لکھا ہے اس کی وجہ سے بڑا غصہ پایا جاتا ہے‘‘۔ میں راولپنڈی چلا گیا۔ وہاںپہنچنے پر ایک بار پھر بتایا گیا کہ ’’چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان صاحب بہت سخت ناراض ہیں‘‘۔ میں نے ان افسر صاحب کو سمجھانے کی کوشش کی کہ تبصرے وغیرہ ہوتے رہتے ہیں اور اس میں کوئی ایسی قابل اعتراض بات نہیں۔ لیکن افسر صاحب نے بتایا کہ ’’غالباً آپ کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ چیف صاحب سخت ناراض ہیں اور وہ کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔ اس لیے آپ جائیں اور جاکر ان سے معافی وغیرہ مانگ لیں تو شاید معاملہ کچھ ٹھیک ہوجائے گا‘‘۔
اس پر میں وہیں سے جنرل یحییٰ خان صاحب سے ملنے چلا گیا۔ انھیں دیکھا تو وہ واقعی بہت غصے میں تھے، یوں سمجھ لیجیے کہ آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ’’میں تمھیں ایک سمجھ دار اور ذمہ دار صحافی سمجھتا تھا، تم نے یہ کیا کیا ہے؟‘‘میں نے کہا کہ’’جنرل صاحب، میں نے صرف یہ کیا ہے کہ جو خبر چھپی ہے وہ آپ نے پڑھی ہے، میں نے آپ ہی کی ہمدردی میں اس نقصان سے بچنے کے لیے تبصرہ کیا ہے، کہ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ انھوں نے سخت لہجے میں جواب دیتے ہوئے فرمایا ’’میں نے نہیں پڑھی ایسی کوئی خبر‘‘۔ میں نے کہا ”اسخبر میں چھپا ہے کہ آپ اپنے بھائی کو ’’قومی حفاظتی کونسل‘‘کا سربراہ لگا رہے ہیں، جس پر میں نے لکھا ہے کہ یہ ایک غلط کام ہوگا، کیونکہ ماضی میں بھی لوگوں نے جو غلط کام کیے ان کا انجام اچھا نہیں ہوا تو اِس کا انجام بھی آپ کے لیے اچھا نہیں ہوگا، تو میں نے کیا غلط لکھا؟‘‘وہ کہنے لگے کہ ’’میں نے تمھارے اس مشورے پر اعتراض کیا ہی نہیں‘‘۔ میں نے جنرل صاحب سے صرف یہ کہا کہ ’’جنرل صاحب، خبر کی آپ کو تردید کرنی چاہیے‘‘۔ اس بات کا جواب دینے کے بجائے، یحییٰ خان صاحب نے کہا’’ابھی آپ چلے جائیں میں آپ کو شوکاز نوٹس دے دیتا ہوں، اور جب آپ میرے پاس آئیں گے تو پھر اس کا فیصلہ کریں گے‘‘۔
میں واپس آگیا، اور واقعی پریشان تھا کہ اس موقع پر کیا کیا جائے؟ دوستوں سے مشورہ کیاتو سب نے کہا کہ’’جو آپ کو کہنا تھا وہ تو آپ نے کہہ دیا ہے، اب وہ سمجھیں یا نہ سمجھیں یہ ان کی بات ہے۔ اب دیکھیں کہ الیکشن سر پر ہیں چند مہینے باقی ہیں، یہ آپ کو سزا دیں گے اور مسئلہ بن جائے گا۔ اگر آپ وضاحت کردیں گے یا نرمی والی کوئی بات کردیں گے تو یہ مسئلہ حل ہوجائے گا‘‘۔ میں پھر راولپنڈی گیا تو کہنے لگے کہ ’’ہاں اس کی تردید شائع کردیں‘‘۔ اس پر میں نے ستمبر 1970ء کے شمارے میں ’معذرت‘ کے زیر عنوان لکھا: ’’اگست کے شمارے کے اداریے میں چند غلط فہمیوں کی بنیاد پر اور تمام حقائق معلوم نہ ہونے کی وجہ سے جناب یحییٰ کی ذات کے بارے میں بعض ایسی باتیں زیر بحث آگئی تھیں، جن کے لیے ہم دلی معذرت پیش کرتے ہیں‘‘۔ اس طرح وہ معاملہ ختم ہوا۔
صدر جنرل یحییٰ خان سے چوتھی ملاقات اکتوبر 1970ء کے آخر میں ہوئی۔ میں مشرقی پاکستان کے تفصیلی دورے کے لیے گیا تھا اور تقریباً ایک مہینہ وہاں کے حالات دیکھ کر آیا تھا۔ جیسور کنٹونمنٹ کے انچارج میجرجنرل محمد حسین انصاری صاحب تھے، ان سے بھی ملا تھا۔ میرا دل چاہتا تھا کہ جو کچھ وہاں دیکھا ہے، صدر جنرل یحییٰ خان کو اس سے مطلع کروں تاکہ آنے والے حالات کو سمجھ کر وہ درست اقدامات کریں۔ ہمارے ایک دوست نے ان سے وقت لیا اور میں ملنے گیا۔ جیسے ہی میں کمرے میں داخل ہوا تو السلام علیکم کے فوراً بعد کہنے لگے:’’ہاں سنا ہے آپ مشرقی پاکستان سے ہو کر آئے ہیں، تو بتائیے کہ وہاں کے حالات کیا ہیں؟‘‘
امیں نے کہا کہ’’میں لکھتا رہا ہوں کہ مجیب الرحمٰن60یا 70 فیفصد سیٹیں لے لیں گے، لیکن اب جو بات میں دیکھ کرآیا ہوں وہ اس طرح ہے کہ وہ 90 فی صد تکسیٹیں قابو کرلیں گے، کیونکہ وہاں عوامی لیگ کو کھلی آزادی ملنے اور من مانی کرنے سے جو قوت ملی ہے، اب سیاسی میدان میں اس کے سامنے کوئی ٹھیر نہیں سکتا۔ اسی سال کے آغاز میں آپ کو یاد ہے کہ18 جنوری کو جماعت اسلامی نے ڈھاکہ میں پہلا انتخابی جلسہ عام رکھا تھا تو عوامی لیگ نے اس پر حملہ کرکے وہاں لوگ شہید کیے اور بہت سے زخمی کیے۔ جماعت کے سربراہ مولانا مودودی جلسے میں شرکت نہ کرسکے۔ اس کے بعد بھی مختلف اوقات میں، مختلف شہروں میں، جماعت اسلامی، پاکستان جمہوری پارٹی اور مسلم لیگ کو جلسے نہیں کرنے دیئے یا وہاں پر مسلسل ہلڑ بازی کا کلچر اپنائے رکھا۔ مگر مارشل لا حکومت عوامی لیگ کے غنڈوں کو روک نہ سکی۔ اب مجھے یہ نظر آتا ہے کہ عوامی لیگ کے غنڈے اور تربیت یافتہ فسادی عناصر کسی پارٹی کو انتخابی مراکز پر آنے ہی نہیں دیں گے۔ ان کی اتنی طاقت ہوگئی ہے کہ اب مشرقی پاکستان کی تمام انتظامیہ مجیب ہی کے احکام پر عمل کررہی ہے۔ مارشل لا حکومت کی رٹ اور ساکھ بری طرح بے وزن دیکھی جاسکتی ہے‘‘۔
جواب میں جنرل یحییٰ خان کہنے لگے کہ’’نہیں ایسا نہیں ہے، آپ فکر نہ کریں، ہمارے بھی تو وہاں لوگ ہوں گے‘‘۔ میں نے کہا’’آپ کے لوگ وہاں کہاں ہوں گے۔ مشرقی پاکستان میں تو حکومتی رٹ کا صفایا ہو کر رہ گیا ہے اور مغربی پاکستان سے جو جیت جائے گا، مشرقی پاکستان میں تو اس کی ایک بھی سیٹ نہیں ہوگی۔ اس طرح بڑا خوفناک نقشہ نظر آرہا ہے۔ چونکہ آپ نے پہلے ہی غلطی کرکے مشرقی پاکستان کو قومی اسمبلی میں اکثریت دے دی ہے، حالانکہ 1956ء اور 1962ء کے دستور میں اتفاقِ رائے سے برابری کا اصول طے شدہ تھا۔ مگر اب دستور ساز اسمبلی کی تین سو میں سے 162مشرقی پاکستان کی سیٹیں ہوں گی اور باقی رہ جانے والی نشستیں مغربی پاکستان کی دس گیارہ پارٹیوں میں تقسیم ہوکر رہ جائیں گی۔ اب اگر مجیب الرحمٰن قومی اسمبلی میں وہاں سے بڑے پیمانے پر سیٹیں جیت لے تو اس کو مغربی پاکستان کے سیاسی تعاون کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی، وہ اپنے طور پر ہی اپنا تیار کردہ آئین نافذ کردے گا اور آپ اس آئین کو مسترد نہیں کرسکیں گے‘‘۔
اس طرح میں نے دردمندی سے ان کو ایک بڑی تصویر دکھانے کی کوشش کی، لیکن ان کے چہرے پر مجھے کوئی تشویش نظر نہیں آئی، بلکہ جواب میں انہوں نے کہا کہ ’’نہیں، آپکچھ زیادہ پریشان ہوگئے ہیں، ہمارے وہاں لوگ ہوں گے اور ہم سب سنبھال لیں گے۔ پھر مجیب الرحمٰن کے لوگوں سے بھی ہمارے رابطے ہیں، ہم ان کو بھی ایک حد سے آگے بڑھنے نہیں دیں گے‘‘۔ یہ میری ان سے دوسری ملاقات تنہائی میں ہوئی تھی۔
سوال: اس سفر کے دوران آپ نے مشرقی پاکستان میں اور کیا دیکھا؟
الطاف حسن قریشی: مشرقی پاکستان میں سب کچھ اسی طرح ہوا جس خدشے کا اظہار میں نے جنرل یحییٰ خان سے کیا تھا۔ یعنی جب 10 دسمبر 1970ءکو انتخابات ہوئے تو اس سے ایک رات قبل 9 دسمبرکو عوامی لیگ نے اپنے مدِمقابل ساری پارٹیوں کے انتخابی رہنمائی کے تمام کیمپ اکھاڑ دیئے۔ پورے ڈھاکہ میں عوامی لیگ کے سوا کسی پارٹی کا کوئی پولنگ کیمپ موجود نہیں تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر سیّدسجاد حسین صاحب نے اپنی کتابThe Wastes of Time :Reflection on the Decline Fall of East Pakistan (اردو ترجمہ: شکستِ آرزو) میں اس بات کی گواہی دی ہے کہ’’نو دسمبر کی رات کو عوامی لیگ کے سوا کسی دوسری مدِمقابل جماعت کا انتخابی کیمپ مجھے ڈھاکہ میں نظر نہیں آیا‘‘۔ یہی حال، بلکہ اس سے بھی زیادہ بدتر کیفیت دوسرے علاقوں میں تھی۔ جب دس دسمبر کو پولنگ ہوئی تو مخالف پارٹی کے لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا۔ جماعت اسلامی کے لوگ بہادر تھے، اس لیے انہوں نے عوامی لیگی فسطائیت کے تمام تر جبر کو برداشت کرتے اور جان ہتھیلی پر رکھتے ہوئے پورے صوبے میں لاکھوں ووٹ ڈالے۔ دراصل عوامی لیگ کی کوشش یہ تھی کہ اُن کے سوا کوئی ووٹ نہ ڈال سکے۔ اس طرح’’فری فار عوامی لیگ آپریشن‘‘ کے نتیجے میں162میں سے 160نشستیں عوامی لیگ کو مل گئیں اور پوری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹ دیا گیا کہ ’’پاکستان کے ’’پہلے شفاف انتخاب‘‘ میں عوامی لیگ نے پورا انتخاب جیت لیا ہے۔‘‘اور آج تک بنگلہ دیش، دنیا اور خود پاکستان میں یہ بات آنکھیں بند کرکے دہرائی جاتی ہے۔
پھر قومی اسمبلی کے اجلاس کے انعقاد کے موقع پر بڑا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ پہلے تو انتخابی نتائج دیکھ کرحکمران فوجی قیادت گھبرا گئی، اور پھر جنرل یحییٰ خان اجلاس بلانے میں گومگو کیفیت کا شکار ہوگئے، اور جب ڈھاکہ میں اسمبلی اجلاس کے انعقاد کا اعلان کردیا تو بھٹو صاحب نے اضطراب کا مظاہرہ شروع کردیا۔ جنرل یحییٰ خان نے اجلاس کی تاریخ دی اور بھٹو صاحب ناراض ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم اس اسمبلی میں شرکت نہیں کریں گے اور جو کوئی وہاں جائے گا ہم اس کی ٹانگیں توڑ ڈالیں گے‘‘۔ جیسے ہی بھٹو صاحب نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا تو جنرل صاحب نے یکم مارچ کو اسے منسوخ کردیا۔
التوا کا اعلان ہوتے ہی مشرقی پاکستان میں ہنگامے پھوٹ پڑے، اور خوں ریز خرابی کے بعد اگلے دو روز میں نئی تاریخ کا اعلان تو کردیا، مگر اس دوران عوامی لیگ کی طرف سے حکومت بلکہ پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت شروع کردی گئی، جس کے نتیجے میں وہاں بڑے پیمانے پر قتل و غارت شروع ہوگئی۔ 25مارچ کو وہاں فوجی آپریشن سرچ لائٹ شروع ہوگیا۔ پاکستانی فوج کے بنگالی سپاہیوں اور مشرقی پاکستان پولیس کے جوانوں کے ہمراہ، بھارتی فوجی عناصر اور کچھ عوامی لیگی فعال کارکنوں یا غنڈہ عناصر پر مشتمل ’’مکتی باہنی‘‘بن گئی، جس کو اسلحہ، مالی وسائل اور تربیت کھلم کھلا فراہم کرنے کے لیے بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے باقاعدہ اعلان کردیا کہ ہم بنگلہ دیش کو مدد فراہم کرنے کے پابند ہیں۔ چنانچہ انڈیا نے نہ صرف پاکستان کے خلاف مسلح سازش کی بلکہ ننگی جارحیت کا ارتکاب کیا اور پوری دنیا دیکھتی رہ گئی۔ عالمی ادارے ہاتھوں پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے، اس طرح پاکستان دولخت ہوگیا۔
سوال:مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے خلاف اتنی نفرت کیوں پیدا ہوگئیتھی؟
الطاف حسن قریشی: یہ ایک لمبی داستان ہے، لیکن اس میں ایک وجہ تو یہ تھی کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں زبان اور عمومی کلچر کا اختلاف تھا۔ جنگِ آزادی اور پاکستان کی تحریک میں خطۂ بنگال سے مسلمانوں نے بھرپور حصہ لیا تھا، دوسری سب سے بڑی بات ڈیڑھ ہزار کلومیٹر کا فاصلہ اور درمیان میں ایک دشمن ملک کا وجود تھا، جو یہ چاہتا نہیں تھا کہ آپ آپس میں ملیں اور سکون سے زندگی بسر کریں۔ اگر انڈیا کے ساتھ تعلقات ٹھیک ہوتے تو ہم بڑی آسانی سے ٹرین کے ذریعے ڈھاکہ جاسکتے تھے۔ مگر ٹرین کے ذریعے جانے کا راستہ بند ہوگیا۔ ہوائی جہاز کا سفر بہت مہنگا تھا، جس سے عام آدمی کے لیے سفر ناممکن تھا۔ ایک تجویز یہ بھی تھی کہ اگر بحری سفر پر توجہ دیں تو پانچ سات دن میں کراچی سے چٹاگانگ پہنچ سکیں۔ لیکن وہ کام بھی نہ ہوسکا۔ اس طرح عوام کا آپس میں میل ملاپ بہت کم رہا۔
تیسرا پہلو یہ تھا کہ سیاسی جماعتیں جو مغربی پاکستان میں تھیں، ان کا مشرقی پاکستان میں کوئی قابل ذکر اثر رسوخ نہیں تھا۔ 1954ء کے دوران مشرقی بنگال میں جو پہلے صوبائی انتخابات ہوئے، ان میں237 سیٹوں کی صوبائی اسمبلی میں عوامی لیگ کے جگتو فرنٹ(یعنی متحدہ محاذ) کو 223، جب کہ پاکستان کی بانی مسلم لیگ کو صرف 9 نشستیں ملیں، حالانکہ اس جماعت نے صرف سات سال پہلے پاکستان بنایا تھا۔ مطلب یہ کہ وہ جماعت جس نے پاکستان بنایا تھا جب سات سال میں اس کی جڑیں اکھڑ گئیں تو پھر اس کی جگہ مشرقی پاکستان میں اُن جماعتوں نے لے لی، جنھیں پاکستان کی وحدت اور ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور وہ زیادہ تر ہندو مقتدر قوتوں کے زیر اثر تھیں یا ہندو ووٹروں کی خوش نودی حاصل کرنے کی ہوس کا شکار تھیں۔
ڈھاکہ یونیورسٹی کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قیام پاکستان کے فوراً بعد سے پورے مشرقی پاکستان کی ادبی، کلچرل اور سیاسی تحریکوں کا مرکز بنادیا گیا تھا۔ تمام تحریکیں ڈھاکہ یونیورسٹی سے اٹھتی تھیں اور وہاں پر ہندوئوں کا قبضہ اور پیشہ ور نام نہاد طالب علم لیڈروں کا اثر رسوخ تھا۔ سیاسی اور معاشی لحاظ سے بھی انتشار برپا تھا۔ 1963ء میں حسین شہید سہروردی کے انتقال کے بعد مجیب الرحمٰن نے عوامی لیگ کا کنٹرول سنبھال کر بنگلہ قومیت پرستی کی آگ کو بھرپور ہوا دی۔ جب کسی فرد یا گروہ میں نسلی اور علاقائی عصبیت کا صور پھونک دیا جائے تو پھر وہ کوئی دوسری بات سنتا ہی نہیں ہے۔
اسی طرح طاقت کا مرکز مغربی پاکستان تھا۔ فوج اور بیوروکریسی یہاں تھی، صنعت اور تجارت بھی یہاں نسبتاً مستحکم تھی۔ اگرچہ یہاں کے لوگوں میں بھی کوئی خوش حالی نہیں تھی اور مشرقی پاکستان کی معاشی خرابی کا بھی ذمہ دار مغربی پاکستان ہرگز نہیں تھا کہ وہ خود لاکھوں مہاجروں کی آبادکاری میں مصروف تھا۔ لیکن فاصلوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے، اور پھر پہلے آئین سازی میں تاخیر اور بعدازاں اکتوبر 1958ء میں آئین توڑ دینے کے سبب سارے بندھن ٹوٹتے چلے گئے، اور اُس پر مجیب کی قیادت میں جھوٹے اعداد و شمار کا پیٹرول چھڑکنے سے نفرتیں پھیلتی چلی گئیں۔
سوال: قائداعظم نے جب اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے کی بات کی تھی، تو کیا اس سے علیحدگی کی یہ بنیاد نہیں پڑی تھی؟
الطاف حسن قریشی: اس معاملے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری دستور ساز اسمبلی میں زیادہ تر مشرقی پاکستان سے وہ لوگ آئے تھے،جو اردو زبان جانتے تھے، بلکہ ان میں سے بعض تو ایسے تھے جو صرف اردو زبان ہی جانتے تھے اور بنگالی زبان سے واقف ہی نہ تھے۔ خود حسین شہید سہردوری صاحب جو مشرقی پاکستان کے بہت بڑے لیڈر تھے، ان کو بھی بنگلہ زبان نہیں آتی تھی۔ انہوں نے محض گزارے کے قابل بنگلہ اس وقت سیکھی، جب وہ پہلی بار وزیراعظم بنے۔ اسی طرح ڈھاکہ کے نواب وغیرہ اور دیگر لوگ بھی اردو ہی بولتے تھے، ان کے گھروں میں اردو ہی بولی جاتی تھی۔ مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی میں یہ بات ہوئی کہ اب نیا نیا پاکستان بنا ہے تو ہمیں اردو کو ہی مضبوط کرنا چاہیے تاکہ ایک قومی یکجہتی پیدا ہوا۔ چنانچہ مشرقی پاکستان صوبائی اسمبلی سے اردو کے حق میں ایک قرارداد منظور ہوئی۔ قائداعظم نے اسی قرارداد کے تاثرکے تحت 19مارچ1948ء کو ڈھاکہ میں جو تقریر کی، اس میں انہوں نے یہی بات کی کہ ایک قوم بنانے کے لیے ایک زبان کا ہونا بہت ضروری ہے۔ تحریکِ پاکستان کے جذبے کے تحت جو درست بات تھی اور منطقی بھی تھی، قائداعظم نے وہی بات فرمائی۔
لیکن دوسری جانب وہاں زمینی صورت حال مختلف بنائی جاچکی تھی۔ یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ ’’اگر ہماری زبان کو قومی زبان کا درجہ نہ دیا گیا تو پھر ہماری سب ملازمتیں وغیرہ مقامی اور نجی ختم ہوجائیں گی‘‘۔ اس طرح مسلسل یہ لاوا پکتا رہا،21فروری 1952ء کو ڈھاکہ میں گولی چلی اور بنگلہ قومیت کو تقویت پہنچانے کی ایک وجہ بن گئی۔ حالانکہ وہ گولی کسی نے پنجاب یا کراچی سے جاکر نہیں چلائی تھی، بلکہ مشرقی بنگال ہی کے افراد پر مشتمل حکومت نے مقامی فسادیوں سے مقامی، نجی اور سرکاری املاک بچانے اور امن و امان برقرار رکھنے کے لیے یہ انتہائی قدم اٹھایا تھا، مگر اُس کی گالی بھی مغربی پاکستان کو دی گئی اور آج تک یہی کہا جارہا ہے۔
سوال:ممتاز قانون دان جناب اے کے بروہی سے آپ کے بہت اچھے مراسم تھے۔ وہ 1971ء میں شیخ مجیبالرحمٰن کے وکیل تھے، کیا کبھی آپ نے بروہی صاحب سے شیخ مجیب کے خلاف مقدمے کے بارے میں بات کی؟
الطاف حسن قریشی: جی ہاں،اس موضوع پر اُن سے بات ہوئی۔ 1971ء میں جب مجیب کے خلاف مقدمے میں وہ پیش ہورہے تھے تو میں ایک بار کراچی گیا، اور اپنے نہایت عزیز رفیق جناب نصیراحمد سلیمی کے ہمراہ بروہی صاحب سے ملا۔ وہ صورتِ حال پر بڑے مایوس دکھائی دیے۔ میں نے کہا کہ ’’مجیب الرحمٰن کا کیا معاملہ چل رہا ہے؟‘‘تو انہوں نے کہا کہ ’’مجیب الرحمٰن کا معاملہ تو ٹھیک ہے اور وہ تیار ہیں کہ اس اعلان پر دستخط کردیں کہ میں پاکستان کا وفادار ہوں اور میں پاکستان کے سارے نظام کے تحت کام کروں گا‘‘۔ پھر قدرے توقف کے بعد بڑے بوجھل دل سے کہنے لگے ’’لیکن مجھے جو مشکل پیش آرہی ہے وہ مغربی پاکستان میں ’’طاقت ور لوگوں‘‘ کے حوالے سے ہے۔ مجھے اُن کی نیت ٹھیک نہیں نظر آرہی۔ ایسا لگتا ہے کہ اب شاید وہ وقت آگیا ہے کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے، اب بدقسمتی سے یہ زیادہ دیر تک یکجا نہیں رہ سکتے‘‘۔ انہوں نے بڑی مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’’یہاں کے جن طاقت ور سیاسی، حکومتی اور انتظامی لوگوں سے میں بات کرتا ہوں وہ اس طرف نہیں آرہے اور ان کے رویّے سے یہ لگتا ہے کہ ان کا دماغ کام نہیں کررہا، اسی لیے مجھے نظر آرہا ہے کہ اب ایک پاکستان نہیں چلے گا‘‘۔
سوال: یہاں کے’’طاقت ور لوگوں‘‘سے ان کی مراد کیا تھی؟
الطاف حسن قریشی: ظاہر ہے فوجی قیادت، جو اُس وقت سیاہ و سفید کی مالک تھی۔ یہاں کے سیاسی لوگوں اور بیوروکریسی کو بھی مارشل لا کے تحت فوجی قیادت ہی چلارہی تھی۔
سوال: یعنی ہماری فوجی قیادت کو اُس وقت مشرقی پاکستان ٹوٹتا ہوا نظر نہیں آرہا تھا۔ کیا آج بلوچستان کے حالات کو آپ کچھ مختلف انداز سے دیکھتے ہیں؟
الطاف حسن قریشی: بلوچستان کے حالات مشرقی پاکستان سے مختلف ہیں۔ ایک بڑی چیز یہ کہ بلوچستان کی جغرافیائی وحدت، مشرقی پاکستان کے جغرافیائی فاصلے کے مقابلے میں مختلف ہے۔ بلوچستان بجا طور پر پاکستان کی دوسری اکائیوں کی طرح ایک منسلک جغرافیائی وحدت ہے۔ یہ سب علاقے ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی اور معاشی اعتبار سے وحدت میں جڑے ہوئے ہیں۔ پہلے کے مقابلے میں بلوچستان کی معاشی، تعلیمی، مواصلاتی اور سیاسی صورتِ حال کافی بہتر ہے اور وہاں کا اقتدار بھی مقامی بلوچ اور پشتون بھائیوں ہی کو ملتا آیا ہے، دوسرے صوبوں کا کوئی آدمی وہاں حکمرانی کے لیے نہیں گیا، لیکن اس کے باوجود یہ بات درست ہے کہ ان کے مسائل کا ادراک بہت تاخیر سے ہوا۔
1970ء میں تو ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ خان نے ہی پہلی بار صوبہ بلوچستان بنایا۔ اس سے قبل یہ مختلف ریاستوں اور انتظامی یونٹوں میں بٹا ہوا تھا۔ وہاں اچھے تعلیمی، تربیتی اور تحقیقی ادارے بھی کھل گئے ہیں، جن کی تعمیر و ترقی کے لیے پاکستان آرمی نے کافی مدد فراہم کی ہے۔ وہاں کے جوانوں نے فوج میں بھی شامل ہونے میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔ لیکن بنیادی خرابی بلوچستان کے مسئلے میں یہ رہی ہے کہ براہِ راست وہاں کے عوام کے بجائے وہاں کے سرداروں ہی کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور بہت سے سرداروں، نوابوں میں بلیک میل کرنے کی ایک مخصوص ذہنیت پائی جاتی ہے، اس لیے انھیں ناراض کیے بغیر حکمت سے عوام تک پہنچنا چاہیے۔
پانچ چھ سال ہوگئے ہیں مجھے وہاں گئے ہوئے، مگر جب جایا کرتا تھا تو دیکھا کہ بلوچی دانش ور، اساتذہ اور صحافی اس بات کا کھلے دل سے اعتراف کرتے کہ بلوچوں کا مقدمہ، بلوچوں سے زیادہ پنجاب کے صحافی اور دانش ور پیش کرتے آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم کسی سیاسی لیڈر یا بااثر آدمی کے پاس جاتے تھے تو وہ ہماری بات کو بہت وزن دیتے تھے کہ تم ہماری جنگ لڑتے رہے ہو اور ہماری وجہ سے تم جیلوں میں جاتے رہے ہو۔ ولی خان صاحب تو ہمارے بار بار روکنے کے باوجود کھڑے ہوکر ملتے تھے –
اسی طرح 1973ء کے دستور پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں ہمارا قابلِ ذکر حصہ ہے۔ میر غوث بخش بزنجو، سردار عطاء اللہ مینگل، خان عبدالولی خان وغیرہ کیسےدستور ماننے پر تیار ہوسکتے تھے کہ جن کی پارٹی کے جلسے پر 23مارچ 1973ءکوراولپنڈی کے لیاقت باغ میں پیپلز پارٹی کے لوگوں نے ڈاکٹر غلام حسین (جہلم) کی قیادت میں حملہ کیا تھا اور وہاں کئی لوگ جان کی بازی ہار گئے تھے۔ بھلا وہ لوگ اس خونیں واقعے کے دس روز بعد کیسے ووٹ دیتے؟حقیقت یہ ہے کہ اس آگ کو ٹھنڈا کرنے میں ہماری کوششوں نے بھی ایک کردار ادا کیا تھا۔ وہ ہم پر اعتماد کرتے ہوئے کہتے تھے:’’آپ انصاف اور اخلاق کے ساتھ ہمارے ساتھ بات کرتے ہیں اور چلتے ہیں، حالانکہ آپ کا ہم سے کچھ بھی مفادوابستہ نہیں ہے‘‘۔ مطلب یہ کہ ایسے لوگ موجود تھےجو بات کرتے تھےاور بات سنتے تھے۔
سوال: سقوطِ مشرقی پاکستان کے حوالے سے حمود الرحمٰن کمیشن تشکیل دیا گیا۔ آپ نے اس کے سامنے بیان بھی دیا، اس کی کوئی یادیں بیان کرنا چاہیں گے؟
الطاف حسن قریشی: جب سقوطِ مشرقی پاکستان پر قائم شدہ کمیشن کے سامنے میں پیش ہوا تو کمیشن کے ارکان نے کہا کہ:’’ہم آپ کو پڑھتے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ جو کچھ لکھتے رہے ہیں اس کا آپ کے پاس ثبوت کیا ہے؟‘‘یعنی جن ذرائع سے میں معلومات جمع کرتا تھا وہ ان سے متعلق جاننا چاہتے تھے۔ میں نے کہا کہ ’’عزت مآب چیف جسٹس صاحب، میں ایک صحافی ہوں کسی خفیہ ایجنسی کا ملازم نہیں ہوں، اس لیے میں اپنے ذرائع نہیں بتائوں گا، کیونکہ یہ ہماری پیشہ ورانہ ا خلاقیات کے خلاف ہے۔ ہم جس سے بات کرتے ہیں وہ ہم پر اعتماد کرتا ہے، ہم اس کو دغا نہیں دیتے۔ لیکن میرے نزدیک آپ کے لیے دیکھنے والی بات یہ ہے کہ جو کچھ میں لکھتا رہا ہوں کیا اس میں آپ کو ایسی کوئی منفی بات نظر آرہی ہے؟ اگر ایسا کوئی جھول نظر آرہا ہے اور عقل سے بعید کوئی بات نظر آرہی ہے تو جواب عرض کرنے کے لیے حاضر ہوں اور یہاں اس کی وضاحت کرسکتا ہوں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’آپ یہ بات کہتے ہیں کہ پاکستان توڑنے کے لیے سازش ہوئی ہے۔ سازش کرنے کے لیے تو ضروری ہے کہ دو پارٹیاں آپس میں ملیں۔ اس لیے یہ جو آپ واقعات لکھتے ہیں ان کے مطابق ایک حکمران پارٹی روزمرہ کے کام کرتی چلی جارہی تھی تو اس کو آپ سازش کیسے قرار دے رہے ہیں؟‘‘میں نے جواب دیا ’’دو پارٹیاں مل کر ایک میز پرسازش کررہی تھیں، مگر حکومت کے ایوانوں میں براجمان طاقت ور حلقوں کی بے نیازی اور بے عقلی ملک توڑنے میں ان قوتوں کے ساتھی کا کردار ادا کررہی تھی، جو قوت پر قبضہ جمانا چاہتی تھیں‘‘۔
سوال:حمود الرحمٰن کمیشن کی مجموعی کارکردگی کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات تھے؟
الطاف حسن قریشی: کمیشن کی سب سے کمزور بنیاد یہ تھی کہ اس کی حدودِ کار محدود تھیں، جن میں سیاسی پہلو کو زیربحث لانے کی گنجائش نہیں رکھی گئی تھی۔ دوسری بات یہ تھی کہ وہ بھٹو صاحب کا دورِ حکومت تھا، وہ وزیراعظم تھے، اور سب لوگوں کو اس بات کا خیال رکھنا پڑتا تھا کہ ہمیں تحقیق کرتے، بات کرتے اور استدلال پیش کرتے ہوئے ایک حد تک ہی جانا چاہیے۔ اسی وجہ سے کمیشن کی رپورٹ پڑھنے والے لوگ کہتے ہیں کہ ’’اس میں ایسا کوئی تذکرہ نہیں پایا جاتا جس میں بھٹو صاحب پر تنقید کی گئی ہو، البتہ تنقید صرف فوج پر کی گئی۔ چونکہ جج صاحبان فوج پر تنقیدی باتوں کو نکالنے کے لیے تیار نہیں تھے، اس لیے اس کو شائع ہی نہیں کیا گیا۔ اب جو بھی رپورٹ ہمیں ملی ہے وہ انڈیا کے ذریعے سے ہی ملی۔ قیاس یہی ہے کہ حمود الرحمٰن کمیشن کی جو رپورٹ انڈیا نے شائع کی ہے، اس میں بھی تمام حصے نہیں دیے گئے،اور یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ اضافے بھی کردیئے گئے ہوں۔ لیکن جتنے بھی حصے شائع ہوئے ہیں، وہ اتنے ہوشربا ہیں کہ انھیں پڑھ کر اور زیادہ دکھ ہوتا ہے کہکیا سے کیا ہوگیا!
سوال: شیخ مجیب کے حوالے سے آپ کا اُس وقت کیا تجزیہ تھا اور آج کیا ہے؟
الطاف حسن قریشی: آنے والے حالات صاف نظر آرہے تھے۔ میں نے انٹرویو کے اختتام پر اپنے تاثر میں یہ تحریر کیا تھا کہ مجھے شیخ مجیب الرحمٰن کے گھر سے نکلتے ہوئے یہ محسوس ہوا کہ ’’نورجہاں کے ہاتھ سے دوسرا کبوتر بھی اُڑ گیا ہے“۔ (جاری ہے)