انفرادی اور اجتماعی جدوجہد کے پس منظر میں
اس مضمون کا پہلا حصہ شمارہ نمبر 33، 18تا24اگست 2023ء کو شائع ہواتھا، جس کا بقیہ حصہ ملاحظہ کیجیے۔
یہ سوال اکثر اٹھایا جاتا ہے کہ کیا غم سے نجات پانا ممکن ہے؟ اوّل تو اس بحث کے پس منظر میں یہ سوال ہی بے معنی ہے، کیونکہ ہم نے غم کو کوئی منفی جذبہ قرار نہیں دیا ہے۔ تاہم چونکہ یہ سوال ایک خاص پس منظر میں بہرحال اٹھایا جاتا ہے اس لیے جواباً عرض ہے کہ غم سے نجات کی کوئی صورت ممکن نہیں، سوائے اس صورت کے کہ ہم غم کو ایک فطری عنصر کے طور پر قبول کرنے لگیں۔ غم کو قبول کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اسے آپ نے زندگی کے ایک لازمے کے طور پر قبول کرلیا ہے۔ ایسا کرنے کے بعد غم میں بھی نشاط کی ایک زیریں لہر پیدا ہوجاتی ہے۔ دنیا کی دوسری زبانوں کی شاعری کا تو ہمیں علم نہیں لیکن اردو کی شاعری میں جہاں جہاں نشاط کی کوئی کیفیت زیریں لہر کے طور پر شعروں میں نظر آتی ہے وہ غم کو ایک فطری اور انسانی جذبہ قبول کرلینے ہی کا نتیجہ ہے۔
غم اور خوشی کے حوالے سے کئی اور ایسے سوالات موجود ہیں جن پر گفتگو کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ جو دونوں کیفیات کے سلسلے میں ہماری زبان میں مختلف الفاظ پائے جاتے ہیں تو ان الفاظ کی کیفیتوں کو بیان کرنے کے لیے غم، رنج، افسوس، ملال، دکھ اور کرب وغیرہ کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح خوشگوار کیفیتوں کے اظہار کے لیے خوشی، مسرت اور نشاط کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان الفاظ کے درمیان کیفیات کے اعتبار سے کیا فرق پایا جاتا ہے؟ کبھی وقت ملا تو اس پر بھی گفتگو کریں گے۔ اُس وقت تک آپ ذرا ان الفاظ کو دہرا کر ان کی صوتیات کے درمیان موجود فرق کو محسوس کرنے کی کوشش کریں۔ مثلاً خوشی اور مسرت اور غم اور دکھ کو دس دس مرتبہ دہرائیں… مگر ذرا اکیلے میں جہاں کوئی آپ کو دیکھ نہ سکے۔ کسی نے دیکھ لیا تو وہ آپ کو پاگل سمجھے گا، حالاں کہ ہوگا اس کے برعکس۔
محبت اور مفاد ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ محبت اپنی پست ترین سطح پر بھی مفاد نہیں بن سکتی، اور مفاد اپنی بلند ترین سطح پر بھی محبت میں تبدیل نہیں ہوسکتا۔ تجزیہ کیا جائے تو محبت کا سب سے بڑا مفاد خود محبت ہے۔ لیکن آج ہمیں یہ باتیں کیوں یاد آئیں؟ اس کی وجہ ایک صاحب کے کالم میں شائع ہونے والا وہ خط ہے جو کینیڈا کے ایک بھارتی نژاد شہری نے تحریر کیا ہے۔
بھارت کے سابق اور کینیڈا کے موجودہ شہری نے لکھا ہے کہ وہ ایک ریٹائرڈ پروفیسر ہے۔ اس کے بقول اگرچہ وہ ریٹائر ہوچکا ہے تاہم کینیڈا کی حکومت اسے اتنی معقول رقم فراہم کررہی ہے کہ اسے زندگی بسر کرنے کے لیے کسی کام کی ضرورت نہیں۔ اس نے لکھا ہے کہ اگر میں خدانخواستہ بیمار پڑ جائوں تو کینیڈا کی حکومت مجھے فلاں فلاں سہولتیں فراہم کرے گی۔ کینیڈا کے شہری کے مطابق اگر وہ معذور ہوگیا تو کینیڈا کی حکومت اس پر مزید مہربان ہوجائے گی اور اس کی دیکھ بھال کے لیے اسے ایک آدمی مہیا کیا جائے گا۔ اس طرح کی کئی مزید سہولتوں کا ذکر کرنے کے بعد بھارتی نژاد شخص نے لکھا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان میں تو حکومتیں ریٹائرڈ لوگوں کو پنشن بھی ذلیل کرکے دیتی ہیں۔ چناں چہ اس نے لکھا ہے کہ اس صورت میں ’’وطن سے محبت‘‘ کی بات ایک ڈھکوسلے کے سوا کیا ہے؟ یعنی کینیڈا اور دیگر مغربی ممالک زندہ باد… اور بھارت و پاکستان مُردہ باد۔
مغربی ممالک مادی معنوں میں فلاحی ریاستیں ہیں۔ اس سلسلے میں تین تاریخی عوامل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس سلسلے کا پہلا عامل صنعتی انقلاب ہے۔ صنعتی انقلاب نے معاشرے کی پیداوار میں اہلیت کو بہت بڑھا دیا۔ اس کے نتیجے میں دولت کی افزائش کی نئی صورتیں پیدا ہوگئیں اور معاشرے میں معاشی خوشحالی کا تجربہ عام ہوا۔ یورپ کے صنعتی انقلاب نے نئی منڈیوں اور خام مال کی ضرورت کو بڑھا دیا۔ ان دو تقاضوں نے یورپی اقوام کو اس بات پر مائل کیا کہ وہ عسکری لحاظ سے کمزور قوموں پر چڑھ دوڑیں اور انہیں اپنا غلام بنالیں۔ یورپی اقوام نے یہی کیا۔ نوآبادیاتی تجربے نے تمام یورپی اقوام کو نئی منڈیاں بھی فراہم کیں، خام مال بھی مہیا کیا، اس کے ساتھ ساتھ یورپی اقوام نے غلام قوموں کے مالی وسائل کو بھی لُوٹا۔ چناں چہ یورپی اقوام کے مالی معاملات مزید بہتر ہوگئے۔ لیکن ان تاریخی عوامل نے یورپی معاشروں میں امارت کا نیا تجربہ تو خلق کیا مگر ان عوامل کی وجہ سے یورپی ریاستیں پوری طرح فلاحی نہ بن سکیں۔ اس سلسلے میں یورپ کو جو مسائل درپیش تھے انہیں کمیونزم کے خطرے نے حل کردیا۔ کمیونزم 1917ء کے بعد ایک انقلابی قوت بن کر سامنے آچکا تھا اور اس کے اثرات تیزی کے ساتھ پھیل رہے تھے۔ چناں چہ مغربی ممالک کو خدشہ ہوا کہ یورپ ان کے ہاں بھی بغاوت کا تجربہ خلق نہ کردے۔ اس خطرے کو روکنے کے لیے انہوں نے محنت کشوں کی مراعات میں اضافہ کیا۔ ان کے اوقاتِ کار مقرر کیے، ان کے لیے پنشن اور دوسری رعایتیں ’’ایجاد‘‘ کیں۔ مغرب کی یہ حکمت عملی کامیاب رہی اور مغرب کا بڑا حصہ کمیونزم کے خطرے سے محفوظ رہا۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو تیسری دنیا کے اکثر ممالک کا مسئلہ یہ ہے کہ نہ وہاں اب تک صنعتی انقلاب برپا ہوا ہے، نہ تیسری دنیا کے ممالک ابھی تک اپنی ’’کالونیاں‘‘ ایجاد کرسکے ہیں، اور نہ اب دنیا کو کمیونزم کے خطرے کا سامنا ہے۔ چناں چہ تیسری دنیا کے ممالک ’’چاہیں‘‘ بھی تو مغرب کے ممالک کی طرح فلاحی ریاستیں نہیں بن سکتے۔ چناں چہ تیسری دنیا کے کسی بھی ملک کا مغرب کے کسی بھی ملک سے موازنہ کرنا بددیانتی ہی نہیں، بڑی جہالت بھی ہے۔ لیکن اس حوالے سے زیادہ بڑا مسئلہ کچھ اور ہے۔
انسان کی پرورش میں تین اداروں خاندان، معاشرے اور ریاست کا کردار بنیادی ہے۔ خاندان اور معاشرہ فرد کو محبت، تعلیم و تربیت، ذہنی و نفسیاتی تحفظ، اقدار اور تشخص فراہم کرتے ہیں۔ ان چیزوں کے بغیر کوئی انسان، انسان نہیں بن سکتا۔ ریاست فرد کی تعلیم و تربیت کے لیے اور کچھ نہیں تو وسائل ضرور مہیا کرتی ہے۔ لیکن تیسری دنیا کے اکثر ملکوں میں جب کوئی شخص ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی کا ماہر، تجارتی امور کا ماہر یا کچھ اور بن جاتا ہے تو وہ صرف بہتر معاشی مستقبل کے لیے خاندان کو بھی چھوڑ دیتا ہے، معاشرے کو بھی ترک کردیتا ہے اور ریاست کو بھی خدا حافظ کہہ دیتا ہے۔ یہ بجائے خود ایک ’’بڑی غداری‘‘ ہوتی ہے، لیکن بعض لوگ اس غداری پر اکتفا نہیں کرتے، وہ مغربی ممالک میں ’’آباد‘‘ ہوتے ہی اپنے خاندان، معاشرے اور ریاست کو بھول جاتے ہیں بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ان کی برائی کرنے لگتے ہیں۔ یہ مفادات کے محبت پر مکمل طور پر غالب آجانے کا عمل ہوتا ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے شخص کی نہ کوئی تہذیب ہے نہ اخلاق۔ اس کے پاس نہ کوئی تاریخی تجربہ ہے اور نہ ثقافت کا گہرا شعور و احساس۔ ایسا فرد دنیا کی شرمناک ترین مخلوق ہوتا ہے، مگر اسے اپنے شرمناک بن جانے کا احساس نہیں ہوتا اور وہ اپنے نئے تشخص پر فخر کرتا ہے۔ اب تجربے کا ایک مفہوم یہ ہے کہ پالنے پوسنے کی ذمے داری تو خاندان اور انسان کے آبائی معاشرے اور ملک کی ہے لیکن جب انسان دنیا کو فیض پہنچانے کے لائق ہوتا ہے تو وہ کسی اور معاشرے اور کسی اور ریاست سے وابستہ ہوجاتا ہے۔ ہماری زندگی کا ایک حصہ جانوروں کو قریب سے دیکھنے میں گزرا ہے، اور اس تجربے کی بنیاد پر ہمیں یہ معلوم ہے کہ جانور بھی انسانوں کی محبت، احسان اور خبر گیری کو پہچانتے ہیں اور وہ ان چیزوں کے جواب میں محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ کتا پیروں میں بیٹھنے لگتا ہے، انسان کو چومنے چاٹنے لگتا ہے۔ بھینسیں اور گائیں اظہارِ ممنونیت کے طور پر اپنے مالک کو چاٹنے لگتی ہیں۔ لیکن انسان اتنا سفاک ہے کہ جب وہ ’’بڑا‘‘ ہوجاتا ہے تو اپنے اصل اور بنیادی ماحول کو ’’گالی‘‘ دیتا ہے۔ کہتا ہے کہ میرے خاندان، میرے معاشرے اور میری ریاست کے پاس ہے ہی کیا! تجزیہ کیا جائے تو یہ ہمہ جہت نمک حرامی کی انتہا ہے، مگر اس انتہا کا مشاہدہ اور تجربہ اب عام ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مغربی ممالک نے تیسری دنیا بالخصوص مسلم دنیا کو اپنا سیاسی، عسکری، معاشی اور ذہنی غلام بنایا ہوا ہے اور اس نے مسلم دنیا پر ایک ایسا حکمران طبقہ مسلط کیا ہوا ہے جس کا نہ اپنے مذہب سے کوئی تعلق ہے، نہ اس کو اپنی تہذیب سے کچھ لینا دینا ہے، نہ اسے اپنی تاریخ سے کوئی واسطہ ہے۔ یہاں تک کہ اس کے پاس مسلم دنیا کو مادی اعتبار سے ترقی یافتہ بنانے کی بھی اہلیت نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ طبقہ نااہل بھی ہے اور بدعنوان بھی۔ اسلامی تحریکیں موجودہ حکمران طبقے سے ہزار گنا زیادہ بہتر متبادل ہیں مگر مغرب ہر جگہ ان تحریکوں کو دبا رہا ہے، کچل رہا ہے۔ لیکن یہ حقائق مغرب میں جاکر آباد ہونے والے اکثر احمقوں کو نظر نہیں آتے۔ بلاشبہ مغرب کی مادی ترقی غیر معمولی ہے، مگر اب اس سلسلے میں بھی مشرقی اقوام کو مغربی اقوام پر فوقیت حاصل ہوگئی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال چین ہے۔ مغرب نے جو مادی ترقی ڈیڑھ سو سال میں تخلیق کی، چین نے وہ ترقی تیس پینتیس سال میں کر دکھائی ہے۔ چین یہ کام کرسکتا ہے تو بھارت اور پاکستان بھی یہ کام کرسکتے ہیں، اور اپنے لوگوں کو مادی مراعات فراہم کرسکتے ہیں۔ یہاں کہنے کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ چین نے تیس پینتیس سال میں جو معاشی ترقی کی ہے وہ دنیا کو اپنی کالونی بناکر اور اس کے وسائل لوٹ کر نہیں کی۔