امریکی سفر سے چیف الیکشن کمشنر کی ملاقات کے عوامل کیا ہیں…؟
پاکستان کا آئین تو یہی کہتا ہے کہ عوام ہی اس ملک کے اصل حکمران ہیںجو اپنے نمائندے ملک کا نظم و نسق چلانے کے لیے قومی اسمبلی کے لیے منتخب کرتے ہیں، لیکن یہ بات آج تک پتا نہیں چل سکی کہ ملک کے اصل حکمران کون ہیں؟ عوام کے منتخب نمائندے،سیاسی اشرافیہ، بیوروکریسی یا وردی پوش؟ ان میں سے کون حکمران ہے، یہ فیصلہ قاری پر چھوڑتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ ابھی ماضیِ قریب میں ہمارا ملک ایک عجیب سیاسی عمل سے گزرا ہے اور پوری قوم نے اس کا مشاہدہ کیا، ایک طویل سیاسی بحث دیکھی گئی کہ پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلی کے انتخابات کے لیے تاریخ کون دے گا؟ معاملہ سپریم کورٹ تک جاپہنچا تو اعلیٰ ترین عدالت کے حکم کے باوجود الیکشن کے لیے فنڈز مہیا نہیں کیے گئے کہ حکومت پارلیمنٹ سے پوچھے بغیر ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کر سکتی، اور پارلیمنٹ نے الیکشن کمیشن کو فنڈز مہیا کرنے کی حکومت کو اجازت نہیں دی۔
اب ملک میں ایک بار پھر عام انتخابات کی تاریخ کا انتظار ہے۔ نگران حکومت حلف اٹھا چکی ہے، ملک میں انتخابات کرانا ہی اس کی پہلی اور آخری ترجیح ہونی چاہیے، لیکن قومی اسمبلی تحلیل ہوئے(ان سطور کی اشاعت تک)23 روز ہوچکے ہیں اور 90 روز میں انتخابات کرانا نگران حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے، تاہم ابھی تک حکومت اور الیکشن کمیشن میں سوائے سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے‘ کوئی قابلِ ذکر پیش رفت سامنے نہیں آسکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں گو مگو کی کیفیت ہے۔ کئی اہم حلقوں سے پیش بینی کی جارہی ہے کہ نگران حکومت بہت طویل ہوگی، کہیں سے کہا جا رہا ہے کہ انتخابات اگلے سال فروری میں ہوسکتے ہیں۔ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن بالکل خاموش ہیں۔ ایک ہلکا سا ارتعاش پیدا ہوا ہے کہ جماعت اسلامی بروقت انتخاب چاہتی ہے۔ سیکرٹری جنرل امیر العظیم کی سربراہی میں جماعت اسلامی کے وفد نے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کی ہے۔90 روز کے ا ندر انتخاب کرانے کے معاملے پر پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں تقسیم ہوگئی ہیں۔ پی پی پی مبینہ طور پر وفاق میں وزارتوں میں حصہ نہ ملنے اور سندھ میں مرضی کا وزیر اعلیٰ اور کابینہ نہ بنائے جانے کے سبب مقتدر قوتوں سے قدرے ناراض ہے، اسی لیے پی پی پی نے 90روز کے ا ندر الیکشن کے ا نعقاد کا مطالبہ کیا ہے۔ پیپلزپارٹی ان سے ملاقات کر چکی ہے تاہم اس کا موڈ بھی بدل رہا ہے، جب کہ پہلے حلقہ بندیاں پھر انتخاب کے معاملے پر جو فیصلہ ہوا تھا اُس وقت اس کے بااختیار نمائندے اس فورم میں موجود تھے۔
صدر ڈاکٹر عارف علوی نے بھی چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھا جس میں عام انتخابات کی تاریخ کے تعین کے لیے باہمی مشورہ کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ چیف الیکشن کمشنر نے الیکشن کمیشن میں مشاورتی اجلاس طلب کرلیا اور فیصلہ سنا دیا کہ صدر سے ملاقات ناقابلِ عمل ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے حوالہ دیا کہ ترمیم شدہ انتخابی ایکٹ کے سیکشن 57 کے تحت انتخابات کی تاریخ یا تاریخیں دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے۔ صدر اگر آرٹیکل 58کے تحت قومی اسمبلی تحلیل کرے تو الیکشن کی تاریخ مقرر کرسکتا ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے ساتھ کھڑی ہے، وہ جو بھی فیصلہ کرے حکومت عمل کرے گی۔ کمیشن نے تمام سرکردہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ انفرادی ملاقاتیں شروع کر دی ہیں، اب بھی امید ہے کہ ایک ٹھوس روڈ میپ سامنے آئے گا۔ الیکشن کمیشن تازہ ترین قانون سازی پر تیزی سے کام کر رہا ہے، خاص طور پر جہاں اس کے اپنے اختیارات میں اضافہ کیا گیا ہے، پھر بھی وہ یہ بھول جاتا ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا بھی اس کے فرض کا حصہ ہے۔ یہاں تک کہ صدر کے نام اپنے خط میں ایوانِ صدر کو ’’مناسب تاریخ طے کرنے‘‘ کی دعوت کے جواب میںچیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے وضاحت کی کہ کس طرح قومی اسمبلی کی قبل از وقت تحلیل نے الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ کے سلسلے میں مکمل طور پر با اختیار بنا دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق صدرِ مملکت کے خط میں دی گئی شرائط موجودہ صورتِ حال میں لاگو نہیں ہوتیں، اور الیکشن کمیشن ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری کے بعد انتخابات کے انعقاد کے لیے بنیادی قانونی اقدامات کر رہا ہے اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کی جارہی ہے۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن)، پی ٹی آئی، جے یو آئی (ف) اور جماعت اسلامی سمیت متعدد دیگر جماعتوںکو طلب کیا گیا ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ ہر سیاسی جماعت چاہتی ہے کہ انتخابات90 روز کے اندر ہوں، تاہم زمینی حقائق بھی اپنی جگہ ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ تحریک انصاف چاہتی ہے کہ اس کے گرفتار رہنما رہا کیے جائیں، دوسری جماعتوں کی طرح اسے بھی سیاست میں یکساں مواقع دیئے جائیں۔دوسری طرف الیکشن کمیشن کے 17اگست کو جاری کردہ پروگرام اورالیکشن ایکٹ کے سیکشن 17 کے تحت ملک گیر سطح پر حلقہ بندیوں کا کام شروع ہوچکا ہے جو14دسمبرتک جاری رہے گا۔
سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے علاوہ امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے بھی چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا سے ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات کے پسِ پردہ عوامل کیا ہیں اس بارے میں کوئی بات سامنے نہیں آسکی۔ اسلام آباد کے صحافتی حلقوں کے مطابق اس ملاقات میں پاکستان میں عام انتخابات پر بات چیت ہوئی ہے۔اب سچ کیا ہے؟ ابھی تک کوئی بھی بات واضح نہیں ہے، البتہ یہ بات سچ ہے کہ ملک کے سیاسی، جمہوری اور پارلیمانی نظام میں اب ایک عوام ہی ہیں جو اسٹیک ہولڈر نہیں رہے، باقی سب اسٹیک ہولڈر بن گئے ہیں۔ عوام صرف ووٹ دینے والی مشین ہیں۔ انہیں کب استعمال میں لانا ہے یہ فیصلہ کس کے ہاتھ میں ہے؟ یہی تو ملین ڈالر کا سوال ہے۔ امکان یہ ہے کہ ملک میں ایک نئی سیاسی فصل تیار ہونے کا انتظار ہے، کیونکہ پرانے اور عمر رسیدہ سیاست دانوں کی فصل میں جس قدر رس تھا وہ چوس لیا گیا ہے۔ اب ایک نئی قیادت ہوگی جسے عوام کے ووٹ سے پارلیمنٹ تک پہنچنے کا موقع ملے گا۔ ملک کے آئین میں آرٹیکل62،63 بھی ہیں۔ یہ دونوں آرٹیکل آئین میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے لائے گئے، اس کے باوجود ایک بہت بڑی تعداد ایسی بھی اسمبلی میں پہنچی جو آرٹیکل62 کی کسی ایک شق پر بھی پورا نہیں اترتی تھی، یوں یہ آرٹیکل کسی کا راستہ نہیں روک سکا۔ لیکن آرٹیکل63 کے ذریعے نوازشریف اور عمران خان کسی عوامی نمائندگی کے عہدے کے لیے نااہل قرار پائے۔ ان کی نااہلی کے فیصلے آج کل ملکی سیاست کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ہر فریق کا دعویٰ ہے کہ اسے ناجائز طور پر نااہل کیا گیا، اور چاہتے ہے کہ عدلیہ اسے اہلیت کی سند عطا کرے۔ شواہد بتا رہے ہیں کہ ایسا ہوتا ہوا مشکل دکھائی دے رہا ہے اگر نواز شریف اور عمران خان کو پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے اہلیت نہ ملی تو دونوں جماعتوں کی انتخابی مہم اور ملک کا سیاسی منظرنامہ تلخ ہوتا جائے گا‘ اور جب تک تلخی دور نہیں ہوگی ہوسکتا ہے تب تک انتخابات کے لیے انتظار کرنا پڑ جائے یا دونوں جماعتیں حالات سے سمجھوتہ کرلیں تو ملک میں انتخابات کا سورج طلوع ہوگا‘ جہاں تک ہماری سیاسی جماعتوں کے راہنمائوں اور لیڈر شپ کا عام آدمی کی زندگیوں سے تعلق ہے‘ہماری سیاسی اشرافیہ کا عوام کے لیے باہر نکلنا صرف ٹخنوں تک گہرے بارش کے پانی میں گھٹنوں تک بوٹ پہنے گھومنے یا یتیم خانوں اور پناہ گاہوں کے دوروں تک ہی محدود ہے۔ جہاں تک پیپلزپارٹی کا تعلق ہے‘ بلاول بھٹو کی پارلیمنٹ میں کی گئی آخری تقریر میں سمجھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ پارلیمنٹ میں بلاول کی آخری تقریر اور اس کے بعد ان کے بیانات سے شاید ان کا ’’باغیانہ مزاج‘‘ سامنے آرہا ہو۔ لیکن بلاول پراجیکٹ کب تک تیار کرلیا جائے اور اس کی راہ میں مزاحمت کتنی ہوگی، یہ فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔ کیونکہ جہاں فیصلے ہوتے ہیں وہاں ابھی اتفاقِ رائے نہیں بلکہ تقسیم موجود ہے۔
دنیا بھر کے جمہوری نظاموں میں ایک بات تسلیم کی جاتی ہے کہ کوئی سیاست دان جو 10 فیصد ووٹرز سے بھی رابطہ قائم کرسکتا ہے وہ ایک طاقت ور سیاست دان ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں اب اندرونی سطح پر شفافیت کے ساتھ اگر جائزہ لیا جائے تو بہت کم تعداد ہے جن کے بارے یہ کہا جاسکے کہ ان کا رابطہ دس فی صد وٹرز کے ساتھ ہے۔ پاکستان میں کوئی سیاسی جماعت قومی سطح پر عوام کی بھرپور حمایت کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ پیپلزپارٹی، جے یو آئی، مسلم لیگ(ن)، اے این پی، غرض جس کا بھی نام لیں، علاقائی جماعتیں ہیں یا پھر ان کے ووٹ کے مخصوص شہر اور اضلاع ہیں۔ پاکستان میں قومی سطح کی کوئی جماعت نہیں ہے جو چاروں صوبوں سے یکساں حمایت کے ساتھ پارلیمنٹ میں پہنچے۔ سیاسی جماعتوں کی عوامی حمایت کا یہ نقشہ ہی آئندہ وجود میں آنے والی پارلیمنٹ کا نقشہ ہے۔ جب بھی پارلیمنٹ قائم ہوگی اس میں مخلوط حکومت بنے گی، ہر سیاسی جماعت پارلیمنٹ میں حصہ بقدر جثہ اقتدار میں شریک ہوگی۔
پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں حریفوں کو سیاسی میدان سے الگ رکھنے کی خواہش نے پوری قوم اس جگہ لاکھڑا کیا ہے جہاں مایوسی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ عین ممکن ہے کہ مستقبل میں عمران خان کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر متعدد مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑجائے یہ قانون سازی پارلیمنٹ نے ہی کی ہے۔ معاملہ صرف یہ نہیں کہ عمران خان نے خفیہ معلومات کو راز نہیں رکھا جن میں پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے لیے امریکی سازش سے لے کر ٹینکوں کے فیول گیجز کے بارے میں ایک سابق آرمی چیف کے مبینہ بیان تک شامل ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت نے قانون سازی کو آگے بڑھانے میں بہت غیر مناسب جلد بازی کرکے جمہوری اصولوں کو اتنا ہی نقصان پہنچایا ہے جتنا عمران خان نے ایک صفحہ پر جانے کے لیے اس ملک کا نقصان کیا تھا، ماضی کے ان تجربات سے بہت کچھ سیکھا جا چکا ہے، ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں اگلا وزیراعظم منتخب کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیا جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ فیصلہ تو پارلیمنٹ کو کرنا ہے اور احتیاط سے کام لینے کی ہدایت کہاں سے آئے گی؟ ابھی حال ہی میں ایک قانون کی منظوری کے حوالے سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے ٹویٹ نے بہت سے سوالات چھوڑ دیے ہیں، صدر کی اپنی مشکلات بھی بڑھ گئی ہیں، ان کی مدتِ صدارت مکمل ہونے میں چند ہی دن رہ گئے ہیں اور اس دوران ان کے استعفے کے مطالبات بھی ہیں۔ مذکورہ قوانین پر شروع ہونے والی بحث نے بھی موجودہ سیاسی کشمکش کو ایک نئے موڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔ امکان یہی ہے کہ اب معاملہ عدالت عظمیٰ میں جائے گا۔اس قانونی جنگ کا کوئی بھی نتیجہ نکلے لیکن جو تنازع کھڑا ہوگیا ہے وہ ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ سابق حکمران اتحاد نے یہ بلز منظور کیے تھے جن سے شہری حقوق مجروح ہوتے ہیں۔ ان قوانین کی قانونی حیثیت سے متعلق تنازع پیدا ہوا ہے۔ اس کے جمہوری عمل پر طویل مدتی اثرات ہوں گے۔ یہ کالے قوانین سیاسی مخالفین کے لیے استعمال ہورہے ہیں اور ہوں گے۔ پی ڈی ایم جماعتیں ان کالے قوانین کا دفاع کررہی ہیں۔ان دونوں قوانین کی قانونی حیثیت کے حوالے سے بحث جاری ہے لیکن حکام نے سائفر کے کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں پر مقدمات کے لیے ترمیم شدہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت خصوصی عدالت قائم کردی ہے۔ ملزمان میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی شامل ہیں۔ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں اور حامیوں کو آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ یہ سب کچھ اس وقت ہورہا ہے جب ملک انتخابات کی تیاریاں کررہا ہے۔ یوں جمہوری طور پر انتقال اقتدار پر بھی شبہات پیدا ہورہے ہیں اور نگران حکومت کی غیرجانبداری پر بھی سوال موجود ہے۔ انتخابی شیڈول کے حوالے سے موجود غیریقینی نے ان شبہات کو مزید تقویت دی ہے کہ ملک طویل مدتی نگران حکمرانی کی طرف جارہا ہے جس میں نگران حکومت کو تمام پالیسی فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ اکثر جماعتیں اب انتخابات کو 90 روز کی آئینی مہلت کے بعد کروانے کی حمایت کررہی ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان پہلے ہی اعلان کرچکا ہے کہ آئینی طور پر مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں ہونی ضروری ہیں اور اس کے لیے 4 ماہ کا وقت درکار ہوگا۔ حلقہ بندیوں کے بعد انتخابات کی تیاریاں شروع ہوں گی جن کے لیے مزید 3 ماہ درکار ہوں گے۔یہ نکتہ درست ہوسکتا ہے پھر بھی الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات کے لیے کوئی واضح ٹائم فریم نہیں دیا گیا ہے۔ ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ حلقوں کی نئی حد بندی کی ضرورت نہیں ہے۔ اس معاملے پر سابق حکمران اتحاد میں واضح تقسیم نظر آتی ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی انتخابی کامیابی کے امکانات کم ہیں۔