امریکہ2024ء کی انتخابی مہم کا آغاز

امیداروں کے درمیان مباحثے میں بائیڈن اور ٹرمپ کی عمریں بھی زیر بحث رہیں

بدھ 23 اگست کو ریپبلکن پارٹی کے ٹکٹ کے خواہش مندوں کے درمیان مباحثے سے 2024ء کی انتخابی مہم کا آغاز ہوگیا۔ امریکہ میں عام انتخابات کے لیے تاریخیں نہیں دی جاتیں بلکہ صدارتی انتخابات چار پر تقسیم ہونے والے سال کے نومبر میں پہلے پیر کے بعد آنے والے منگل کو ہوتے ہیں۔ چنانچہ اِس بار صدارتی انتخابات 5 نومبر 2024ء کو ہوں گے۔ ایک اور اہم بات کہ امریکہ میں کوئی مرکزی الیکشن کمیشن نہیں، اور انتخابات کا انتظام و انصرام ریاستی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔

5 نومبر 2024ء کو ایوانِ نمائندگان (قومی اسمبلی) کی جملہ 435 نشستوں کے لیے بھی ووٹ ڈالے جائیں گے۔ سینیٹ کی 33 نشستوں پر، اور 11 ریاستوں میں گورنروں کا معرکہ بھی سجے گا۔ دو امریکی کالونیوں، سمووا (Samoa)اور پورٹو ریکو کے گورنروں کا چنائو بھی اسی دن ہوگا۔ یہاں صدر کی مدت چار سال ہے جبکہ ایوانِ نمائندگان کے ارکان 2 برس اور ارکانِ سینیٹ 6 سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔

جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں امریکہ میں امیدواروں کو ٹکٹ کا اجرا پارٹیوں کے پارلیمانی بورڈ سے نہیں ہوتا بلکہ نامزدگی کے لیے پارٹیوں کے پرائمری انتخابات منعقد ہوتے ہیں، یعنی امیدواروں کو ٹکٹ کے لیے عام انتخابات کی طرح باہم مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔ پرائمری انتخابات میں عام لوگ ووٹ ڈالتے ہیں، اور پارٹی رکنیت کے لیے ووٹ رجسٹر کراتے وقت جماعتی وابستگی ظاہر کرنا کافی ہے۔ بعض ریاستوں میں تو یہ تکلف بھی غیر ضروری ہے۔ پرائمری انتخابات کے روز پولنگ اسٹیشن جاکر آپ کسی بھی پارٹی کا بیلٹ حاصل کرسکتے ہیں۔

اس وقت پارٹی ٹکٹ کے لیے مقابلہ درپیش ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی میں صدر بائیڈن کے مقابلے میں آنجہانی سینیٹر رابرٹ کینیڈی کے صاحب زادے اور صدر جان ایف کینیڈی کے بھتیجے رابرٹ کینیڈی جونیئر کے علاوہ ایک دانشور محترمہ میرین ولیمسن نے پارٹی ٹکٹ کی خواہش ظاہر کی ہے، لیکن فی الحال ایسا لگ رہا ہے کہ جناب بائیڈن کو نامزدگی میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

ریپبلکن پارٹی کے ٹکٹ کے لیے سابق صدر ٹرمپ سمیت 16 امیدوار میدان میں ہیں۔ بدھ کے مباحثے کے لیے اُن 9 امیدواروں کو دعوت دی گئی تھی جن کے انتخابی فنڈ میں امریکی شہریوں نے کم ازکم 40 ہزار ڈالر کے عطیات دیئے ہیں اور رائے عامہ کے جائزوں میں کم از کم ایک فیصد ووٹروں نے ان کی حمایت کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ سابق صدر ٹرمپ نے مباحثے سے معذرت کرلی تھی۔ جناب ٹرمپ نے مؤقف اختیار کیا کہ امریکی عوام نہ صرف انھیں اچھی طرح جانتے ہیں بلکہ وہ ان کی کارکردگی بھی دیکھ چکے ہیں، اور سب سے اہم بات کہ ان کے پاس ”غیر اہم“ لوگوں سے مباحثہ کرنے کی فرصت نہیں۔ دوسرے دن صدر ٹرمپ کی، ریاست جارجیا کی عدالت میں پیشی تھی جہاں اُن پر 2020ء کے انتخابی نتائج تبدیل کرنے کی سازش اور متعلقہ افسروں کو ڈرانے دھمکانے کے 13 الزامات پر مشتمل فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔

ریاست وسکونسن کے شہر ملواکی کی عظیم الشان رونالڈ ریگن لائبریری میں ہونے والے مباحثے کا اہتمام فاکس (FOX) ٹیلی ویژن نے کیا تھا جس میں فلوریڈا کے گورنر راب ڈی سینٹس (Rob DeSantis)، سابق نائب صدر مائیک پینس، جنوبی کیرولائنا کی سابق گورنر نمرتا نکی رندھاوا المعروف نکی ہیلی، جنوبی کیرولائنا کے سیاہ فام سینیٹر ٹِم اسکاٹ، ریاست نیوجرسی کے سابق گورنر کرس کرسٹی (Chris Christie)، شمالی ڈکوٹا کے گورنر ڈَگ برگم (Doug Burgum)، ریاست آرکنساس کے سابق گورنر اساہچنسن (Asa Hutchinson) کے علاوہ مشہور کاروباری شخصیت ووک راما سوامی نے شرکت کی۔ گویا اسٹیج پر ایک خاتون، دوہندنژاد، تین رنگ دار، دو گورنر، تین سابق گورنر اور ایک نائب صدر کھڑے تھے۔

حسبِ روایت تمام امیدواروں نے گفتگو کا آغاز لطیف فقروں سے کیا۔ نکی ہیلی نے سابق برطانوی وزیراعظم محترمہ مارگریٹ تھیچر کا یہ جملہ دہرایا کہ ”زبانی جمع خرچ مطلوب ہے تو مرد کو لائو، لیکن اگر ٹھوس کام چاہیے تو خاتون کو آگے بڑھائو“۔

سیاست میں نووارد ووک راماسوامی نے کہا ”آپ جاننا چاہتے ہوں گے کہ سینئر سیاست دانوں کے جھرمٹ میں یہ دبلا، سانولا سا نوجوان کون ہے؟ تو سنیں، کہ میرے والدین جب کیرالہ سے امریکہ آئے تو ان کی جیب خالی تھی اور آج ان کا بیٹا اربوں ڈالر کا کاروبار کررہا ہے۔ ایسا امریکہ ہی میں ممکن ہے، یہ ہے امریکی خواب کی حسین تعبیر۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے دس نکاتی ”سیاسی عقیدے“ (10 commandments) کا اعلان کیا:

”خدا ایک حقیقت ہے، انسانوں کی صرف دو جنسیں ہیں، انسانی نشوونما کے لیے تیل اور گیس ضروری ہے، جوابی نسل پرستی بھی نسل پرستی کی ایک شکل ہے، کھلی سرحد کوئی سرحد نہیں، بچوں کی تعلیم کا تعین والدین کی ذمہ داری ہے، خاندان کی بنیادی اکائی مرکزیت ہے، سرمایہ دارانہ نظام ہی غربت سے نجات کا راستہ ہے اور امریکی حکومت کی صرف تین شاخیں ہیں“۔

ان نکات کے تجزیے کی ضرورت نہیں کہ 38 سالہ ووک راماسوامی نے بہت واضح اور دوٹوک انداز میں اپنا قدامت پسند نظریاتی ایجنڈا پیش کردیا۔

گورنر ڈگ برگم نے کہا ”میرا تعلق جس شہر سے ہے اس کی کُل آبادی 300 سے بھی کم ہے، اس لیے آج اتنے بڑے اسٹیج پر جہاں ابلاغ عامہ کے طفیل کروڑوں امریکی مجھے دیکھ رہے ہیں، میری کیفیت کچھ عجیب سی ہے۔“

مباحثے سے غیر حاضر رہنے کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے سامعین کا جوش و خروش بہت واضح تھا۔ جب میزبان نے پوچھا کہ سابق صدر ٹرمپ پر چار مقدمات ہیں، دوسری طرف وہ ریپبلکن پارٹی میں مقبول بھی ہیں، ریپبلکن پارٹی کی روایت ہے کہ نامزدگی حاصل کرنے والے امیدوار کی پوری جماعت یکسو ہوکر حمایت کرتی ہے، اگر ڈونلڈ ٹرمپ ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوگئے تو کیا آپ سب لوگ مقدمے کے باوجود عام انتخابات میں ان کی حمایت کریں گے؟ جواب میں آٹھ میں سے چھ افراد نے ہاتھ بلند کردیے اور ووک راماسوامی جذباتی انداز میں بولے ”یقیناً، اس لیے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس صدی کے سب سے مؤثر امریکی صدر تھے جو وزارتِ انصاف کے انتقام کا نشانہ بن رہے ہیں“۔ سینیٹر ٹم اسکاٹ نے بھی مقدمات کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے وعدہ کیا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوگئے تو حلف اٹھاتے ہی اٹارنی جنرل کو برطرف کریں گے۔ جب کرس کرسٹی نے کہا کہ صدر کے لیے اجلا کردار ضروری ہے تو حاضرین کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا اور ہوٹنگ اتنی شدید تھی کہ میزبان کو مداخلت کرنی پڑی۔

اسقاط، دفاع، اسرائیل سے تعلقات، یوکرین جنگ، LGBT اور غیر قانونی تارکین وطن بحث کا موضوع رہے۔ تارکینِ وطن کے معاملے میں تمام کے تمام افراد ایک سے بڑھ کر ایک سخت مؤقف پیش کرتے رہے۔ اکثر امیدوار میکسیکو کی سرحد پر نگرانی سخت کرنے کے لیے فوج تعینات کرنے کے حق میں تھے۔ راماسوامی صاحب تو یہاں تک کہہ گئے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں تعینات امریکی فوج کو واپس بلاکر میکسیکو کی سرحد پر لگادیا جائے، اور بقراطی جھاڑی کہ open border is no border۔ سچ ہے کہ آدمی بے حیا ہوجائے تو جو چاہے کہتا پھرے۔ سات سمندر پار سے اُن کے والدین امریکہ آئے تو درست، لیکن دہلیز پر موجود میکسیکو کے لوگوں کو امریکہ آنے سے روکنے کے لیے مہلک فوجی قوت کا استعمال بھی غلط نہیں!

جناب جوبائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کی عمر بھی زیربحث آئی۔ نئے صدر کی حلف برداری کے دن یعنی 20 جنوری 2025ء کو صدر بائیڈن 83 سال اور ڈونلڈ ٹرمپ 79 برس کے ہوں گے۔ میزبان نے سوال کیا کہ کیا ان دونوں کا دماغی معائنہ ہونا چاہیے؟ تو سابق نائب صدر مائیک پینس نے مسکراتے ہوئے کہا ”میرا خیال ہے کہ واشنگٹن کے سارے اہلکاروں کا معائنہ ہونا چاہیے“۔ ساتھ ہی فرمایا ”امریکی صدر نہ بہت عمر رسیدہ درست، نہ کھلنڈرا نوجوان… بلکہ ”مناسب عمر“ کا تجربہ کار فرد ہونا چاہے کہ ایوانِ صدر سیکھنے کی نہیں کچھ کردکھانے کی جگہ ہے“۔ اس معاملے میں محترمہ نکی ہیلی کا رویہ ہمیں ناشائستہ لگا۔ وہ صدر بائیڈن کی عمر کو مسلسل نشانہ بنارہی ہیں، بلکہ مباحثے کے بعد ABCٹیلی ویژن پر باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہا ”اگر جوبائیڈن 2024ء کا انتخاب جیت گئے تو حلف اٹھاتے وقت ان کی عمر 83 سال کے قریب ہوگی اور وہ کسی صورت اپنی چار سالہ مدت مکمل نہیں کرپائیں گے۔ یہ سن کر ہمیں جناب منور حسنؒ کا یہ جملہ یاد آیا: ”موت کا تعلق نہ عمر سے ہے اور نہ صحت سے، یہ بس ہمارے رب کے حکم سے مشروط ہے“۔

مباحثے میں سارا زور اس بات پرتھا کہ ٹکٹ مل جانے پر کون صدر بائیڈن کو عام انتخابات میں ہرا سکتا ہے۔ سابق نائب صدر پینس کا دعویٰ تھا کہ وہ گورنر، رکن کانگریس اور اپنے خیال میں امریکی تاریخ کی سب سے شاندار (ٹرمپ) انتظامیہ کے نائب صدر رہ چکے ہیں، لہٰذا ان کے لیے صدر بائیڈن کو ہرانا کچھ مشکل نہیں۔ کچھ ایسا ہی دعویٰ نکی ہیلی اور سینیٹر ٹِم اسکاٹ کا تھا، جبکہ نیوجرسی کے سابق گورنر کرس کرسٹی نے بہت فخر سے کہا کہ نیوجرسی ڈیموکریٹک پارٹی کا گڑھ ہے جہاں میں نے برسراقتدار ڈیموکریٹ گورنر John Corzineکو شکست دی۔ اس اعتبار سے سب کی طنزیہ نظریں سووک راماسوامی پر تھیں جو میدان کے نئے کھلاڑی ہیں۔ مائیک پینس نے اُن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ”دنیا میں سب سے مشکل کام امریکی صدارت ہے جس کے لیے تجربہ چاہیے، یہ کسی rookie (نئے رنگروٹ) کے بس کی بات نہیں“۔ جس پر راماسوامی جی تڑخ کر بولے ”مجھے سرکاری فنڈ اڑانے کا نہیں، محنت مشقت سے روزی کمانے کا تجربہ ہے، اور امریکی عوام کے لیے روزگار کے باعزت مواقع پیدا کرنا میری ترجیح ہوگی کہ یہی سرمایہ دارانہ نظام کا سرمایہ ہے۔“

مباحثے کے بعد جاری ہونے والے جائزے میں ریپبلکن پارٹی کے 44 فیصد حامیوں نے جناب ٹرمپ کی حمایت کا عندیہ دیا، جبکہ 22 فیصد لوگ گورنر ران دی سینٹس کے حامی ہیں۔ یعنی چار مقدمات اور 131 سنگین الزامات کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ ریپبلکن پارٹی میں بہت مقبول ہیں۔ تاہم انتخابات میں پندرہ ماہ باقی ہیں، گویا ابھی پلِ سیاست کے نیچے سے بہت سا پانی بہنا ہے۔

آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔