سیاسی،معاشی،بجلی بحران خانہ جنگی کا خطرہ؟

بڑھتی ہوئی مہنگائی نے پاکستانی عوام پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں

پاکستان میں مہنگائی عروج پر ہے اور ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ اشیائے ضروریہ اور خدمات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور لوگوں کی قوتِ خرید میں زبردست کمی آئی ہے۔ اس سے بڑے پیمانے پر غربت اور بھوک پھیلی ہے اور انارکی بڑھنے کا خطرہ ہے۔ دوسری طرف ظالم حکمران اور اشرافیہ ملک کی دولت لوٹ کر عیاشی کررہے ہیں۔ عالمی اداروں کے پھیلائے بدترین مالی انتظام میں تو ملک دیوالیہ ہونے سے عارضی طور پر بچ گیا ہے لیکن اس کے باشندے دیوالیہ ہوچکے ہیں۔ غریب ہی نہیں بلکہ متوسط طبقہ بھی روزانہ کی بنیاد پر سسک سسک کر مررہا ہے۔ مایوسی بڑھ رہی ہے، گزرتے وقت کے ساتھ عام آدمی کی زندگی میں ہر لمحہ درد بڑھ رہا ہے۔ وہ غربت، محرومی اور ذلت کی گہرائیوں میں غرق ہوتا جارہا ہے، اور ملکی اشرافیہ کی خودغرضی پر مبنی غلط اور مجرمانہ پالیسیوں کی بدولت خود اپنے ہاتھوں عوام اپنی زندگی ختم کررہے ہیں اور خودکشیاں کررہے ہیں۔ اس تحریر کی اشاعت تک عوام پر بجلی کے بعد پیٹرول بم گرچکا ہوگا۔

بجلی بل کی اطلاع میسج کے ذریعے ملے یا گھر میں بل کاغذ کا ملے، یہ بل موت کا پروانہ بن چکا ہے۔ جو تازہ ترین خبریں سامنے آئی ہیں اور یہ سلسلہ اب بڑھتا جارہا ہے، اس کے مطابق ”پنجاب کے ضلع فیصل آباد کے شہر ڈجکوٹ کے محلے صابری ٹاؤن میں 28 سالہ نوجوان حمزہ نے بجلی کا بل زیادہ آنے پر دلبرداشتہ ہوکر خودکشی کرلی۔ والدہ کا کہنا ہے کہ بیٹا حمزہ پہلے ہی مقروض تھا، اوپر سے بجلی کا بل 38 ہزار روپے سے زائد آیا تھا۔ نوجوان کی والدہ کے مطابق اُن کا بیٹا کہہ رہا تھا کہ بجلی کا بل زیادہ آیا ہے، کہاں سے ادا کروں؟ بیٹے نے بجلی کا بل زیادہ آنے پر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ اسی طرح ”ایکسپریس“ میں درج خبر کے مطابق ”جہانیاں میں بل کی ادائیگی کے باوجود بجلی بحال نہ ہوئی تو گھریلو حالات سے تنگ 4 بچوں کی ماں نے زہریلی گولیاں کھا کر زندگی ختم کرلی۔ خاتون کے شوہر قاسم کے مطابق ”میں چار بچوں کا باپ ہوں اور چار سو روپے دیہاڑی پر مزدوری کرتا ہوں۔ 10 ہزار روپے بجلی کا بل آیا تو گھر کی اشیاء فروخت کیں اور مزید کچھ قرض لے کر بل ادا کیا، لیکن ملتان الیکٹرک پاور کمپنی (میپکو) کے اہلکاروں نے بجلی بحال نہ کی۔ بل کی ادائیگی کے بعد گھر میں راشن کے لیے پیسے بھی نہ تھے، گھر آیا تو بیوی حمنہ بجلی کی بندش اور بھوکے بچوں کی وجہ سے پریشان تھی، کام پر گیا تو اس نے زہریلی گولیاں کھا لیں۔“

بڑھتی ہوئی مہنگائی نے پاکستانی عوام پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں، خاص طور پر غریب اور متوسط طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ بہت سے لوگ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے اپنے انداز میں جدوجہد کررہے ہیں اور پریشان ہیں۔ گھر کا ہر فرد بھی کمارہا ہو تو اخراجات پورے کرنا مشکل ہورہا ہے۔ نوکریاں ختم ہوچکی ہیں، کاروبار ٹھپ پڑا ہے اور لوگ زندہ رہنے کے لیے بھیک مانگنے اور چوری کرنے پرمجبور ہورہے ہیں۔ سماجی بدامنی اور تشدد کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ روزانہ دن دہاڑے چوری، ڈکیتی کی خبریں آرہی ہیں۔ راولپنڈی میں ایک خوفناک، ہولناک واقعہ سامنے آیا ہے جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دن دہاڑے دو نامعلوم مسلح ڈاکو نہتی برقع پوش خاتون کو زدوکوب کرتے رہے، ایک ڈاکو نے خاتون کے ہاتھ دبوچ کر سونے کی انگوٹھیاں اتاریں اور دوسرا ڈاکو خاتون کا سر پکڑ کر کانوں سے بالیاں نوچتا رہا۔ علاوہ ازیں ڈاکو واردات کے بعد خاتون کو سر میں لات مار کر موقع سے فرار ہوگئے۔

اس ساری صورتِ حال میں پوری قوم سراپا احتجاج ہے، شہر شہر احتجاج جاری ہے، پاکستان بھر کے عوام اور تاجر برادری بجلی کے بھاری بلوں اور ٹیکسوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور سڑکوں پر نکل آئے ہیں، وہ حکومت سے بلوں میں شامل اضافی ٹیکس اور بجلی کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ان لوگوں میں سے ایک شخص میڈیا کو روتے ہوئے بتا رہاہے کہ ’’ہم پر تو ہمارے ملک میں زندگی تنگ ہوتی جارہی ہے، کھانا کھائیں یا پھر بجلی کے بل دیں! اگر خودکشی حرام نہ ہوتی تو میں اور میرے گھر والے کب کے خودکشی کرچکے ہوتے‘‘۔ شہرِ قائد میں کے الیکٹرک کی ٹیم پر تواتر سے حملے ہورہے ہیں، بل نہ دینے کے لیے مساجد سے اپیلیں ہورہی ہے اور سرِ عام بجلی کے بل پھاڑے اور جلائے جارہے ہیں۔ راولپنڈی میں احتجاج میں شریک لوگ حکمرانوں کے گھروں میں داخل ہونے کی باتیں کررہے ہیں، تاجروں نے صاف اعلان کردیا ہے کہ کے الیکٹرک والے مارکیٹوں میں نہ آئیں ورنہ تصادم ہوگا۔ کراچی میں لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ’’کے الیکٹرک کیا ’’را‘‘ کے لیے کام کر رہی ہے؟‘‘

آزاد کشمیر کے شہریوں نے احتجاج کے دوران کہا ہے کہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے، اس کے شہریوں پر ایسے ٹیکس نہیں لگائے جاسکتے۔ وہاں کے مکینوں نے محکمہ برقیات کو ایک درخواست دی ہے جس میں انہوں نے اپنے علاقے سے بجلی کی تمام تنصیبات ہٹانے اور ان تنصیبات کا 42 برس کا کرایہ ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہم نے بجلی کے میٹر خود خرید کر لگائے ہیں۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے اس علاقے میں جب کھمبے، ٹرانسفارمرز اور تارنصب کیے تو اُس وقت مقامی افراد سے کوئی معاہدہ نہیں کیا اور گزشتہ 42 برس میں درختوں کی کٹائی کی آڑ میں لاکھوں روپے مالیت کے درخت کاٹے گئے۔ درخواست کے مطابق ”ان کھمبوں اور تاروں کے نیچے کسی کو تعمیرات کی اجازت بھی نہیں ہے اور آج تک ان تنصیبات کا کوئی کرایہ یا معاوضہ بھی ادا نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ اَن گنت مدات میں صارفین کی جیبوں سے ناجائز طریقے سے رقم بٹوری جاتی ہے، لہٰذا ہم اتنی مہنگی بجلی کے استعمال کے متحمل نہیں ہوسکتے۔“

اس نوعیت کی صورتِ حال وطنِ عزیز میں پہلی بار دیکھنے کو مل رہی ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ صارفین مختلف دفاتر میں بھاری بلوں پر احتجاج کررہے ہیں اور کمپنی کے عام ملازمین بھی بے چینی محسوس کررہے ہیں۔ اسلام آباد میں بجلی فراہم کرنے والی کمپنی نے باقاعدہ خط لکھ کر پولیس سے درخواست کی ہے کہ اس کے دفاتر پر پولیس کی نفری تعینات کی جائے۔ جماعت اسلامی کی قیادت میں کراچی میں تاجروں کے ساتھ تحریک چل رہی ہے، روزانہ تاجروں کے ساتھ مظاہرے ہورہے ہیں۔ ملک میں صرف جماعت اسلامی ہی حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہے۔ کاروباری افراد بڑھتے ہوئے مالی بوجھ سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، جو اُن کے کاروبار کو برقرار رکھنے اور ترقی میں سرمایہ کاری کرنے کی صلاحیت کو روک رہا ہے۔ اضافی ٹیکسوں کے ساتھ بجلی کے بھاری بل کاروبار پر غیر ضروری دبائو ڈال رہے ہیں، پیداواری صلاحیت کو روک رہے ہیں اور معاشی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔ یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ کاروبار کسی بھی ترقی پذیر معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ روزگار کے مواقع پیدا کرتے ہیں، جی ڈی پی میں حصہ ڈالتے ہیں، اور ترقی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان پر بجلی کے بے تحاشا بلوں اور حد سے زیادہ ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر ہم نہ صرف ان کی ترقی میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں بلکہ اپنی قوم کی مجموعی معاشی خوشحالی کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس وقت لوگ برملا کہہ رہے ہیں کہ اصل میں حکمران اور اسٹیبلشمنٹ ہی ظلم و ستم اور تباہی کے ذمے دار ہیں۔ لوگ قرض لے کر اور سامان بیچ کر بجلی کے بل ادا کرنے پر مجبور ہورہے ہیں، اور ریاست کی سطح پر جھوٹ بولا جارہا ہے۔ چند ماہ پہلے حکومتِ پاکستان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کو ریلیف دیا جارہا ہے، جبکہ انہیں ایسا کوئی ریلیف نہیں ملا۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ ”بجلی کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافہ واپس لیا جائے، یہ ظلم اور ناانصافی ختم کی جائے، بجلی کے بلوں میں درجن بھر ٹیکسوں کو ختم کیا جائے، صارفین سے صرف وہ وصول کیا جائے جو وہ خرچ کرتے ہیں۔ بجلی کی قیمت میں اضافے کے خلاف 2ستمبر کو ملک گیر شٹرڈائون ہڑتال کا بھی اعلان کرچکے ہیں۔“

جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے اتفاق کیا اور کہا کہ جب تک آئی پی پیز کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی بجلی سستی نہیں ہوسکتی۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ 2019ء میں کہا گیا تھا کہ پانچ آئی پی پیز سے پیسے واپس لیے جائیں گے جو کہ 40 ارب روپے بنتے ہیں، مگر ایک روپیہ بھی واپس نہیں لیا گیا کیوں کہ انہیں اُس وقت کے حکومتی پی ٹی آئی ارکان عمر ایوب اور ندیم بابر کا تحفظ حاصل تھا۔ صنعت، زراعت، معدنیات اور دوسرے معاشی شعبوں و قومی اثاثوں کو چن چن کر منصوبے کے تحت بے دردی سے اجاڑ رہے ہیں اور قومی ملکیت سے نکلنے والے اداروں کو ملکی اور بین الاقوامی بڑے بڑے مگرمچھ نگل رہے ہیں اور ملک کے قیمتی اثاثوں کو گھریلو سامان کی طرح اونے پونے داموں بیچ رہے ہیں۔

اسی طرح امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ’’کے الیکٹرک میں موجود وائٹ کالر کرمنلز حکومت کی سرپرستی میں شہریوں کو لوٹ رہے ہیں اور خود اپنے ملازمین پر بھی ظلم کررہے ہیں۔ اگر حکومت نے کے الیکٹرک میں موجود ان وائٹ کالر جرائم پیشہ افراد کو نہ روکا تو حالات کی تمام تر ذمے داری حکومت پر عائد ہوگی۔ عوام کے الیکٹرک کے عملے سے الجھنا نہیں چاہتے، لیکن اس عملے کو شہریوں کی بجلی منقطع کرنے سے باز رکھا جائے۔ اگر عوام نے کے الیکٹرک کے وائٹ کالر کرمنلز کے دفتروں کا رُخ کرلیا تو حالات کو کنٹرول کرنا مشکل ہوگا۔ عوام، تاجر، مزدور و محنت کش اور تمام پسے ہوئے طبقات جاگیرداروں، سرمایہ داروں، مراعات یافتہ طبقات کو تحفظ دینے والے حکمرانوں کے خلاف مزاحمت کریں گے۔ “

پاکستان میں انتشار کا خطرہ حقیقی ہے۔ اگر حکومت معاشی بحران سے نمٹنے میں ناکام رہی تو اس سے بڑے پیمانے پر شہری بدامنی پھیل سکتی ہے، ملک عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے اور امن و امان کی خرابی ہوسکتی ہے۔ جب کسی ملک کی معیشت تباہ ہوجاتی ہے، تو یہ امر بڑے پیمانے پر غربت اور مایوسی کا باعث بنتا ہے۔ یہ انارکی کے لیے زرخیز زمین پیدا کرتا ہے، کیونکہ لوگ زندہ رہنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ ہمارے پاس صومالیہ کی مثال موجود ہے جہاں لاقانونیت، تشدد اور غربت نمایاں ہے۔ شام 2011ء سے خانہ جنگی کی حالت میں ہے جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر غربت اور افراتفری پھیلی ہوئی ہے اور ملک ایک ناکام ریاست بن چکا ہے۔ وینزویلا اس وقت انتہائی مہنگائی اور وسیع پیمانے پر غربت کے ساتھ معاشی بحران کی حالت میں ہے۔ اس بحران نے سماجی بے چینی اور سیاسی عدم استحکام کو جنم دیا ہے۔ یمن بھی 2015ء سے خانہ جنگی کی حالت میں ہے۔ جنگ کی وجہ سے وہاں بڑے پیمانے پر غربت اور بھوک پھیلی ہوئی ہے اور ملک قحط کے دہانے پر ہے۔ غربت اور مہنگائی کی وجہ سے انتشار پھیلنے کی یہ چند مثالیں ہیں اور بہت سے دوسرے ممالک بھی ایسے ہی چیلنجوں کا سامنا کررہے ہیں۔ یہ ممالک قائم ہیں لیکن بدتر حالت میں ہیں جہاں انسانیت سسک رہی ہے، اور اس سب کے پس منظر میں کسی نہ کسی حوالے سے آئی ایم ایف کا عنصر موجود ہے۔ بدقسمتی سے ہم بھی ایسی صورت حال میں داخل ہوچکے ہیں۔ جب گلی محلوں میں دن دہاڑے لوٹ مار اور سرکاری اداروں پر حملے ہورہے ہوں، سرکاری املاک کا جلائو گھیرائو شروع ہوچکا ہو، لوگ غربت کی وجہ سے خودکشیاں کررہے ہوں، مساجد سے بلوں کی ادائیگی نہ کرنے کے اعلانات ہوں، جہاں قتل و غارت گری کے ساتھ سرعام ڈاکے، چوریاں عام ہوں، ہر گلی محلے میں جرائم پیشہ گروہوں کے جتھے بنے ہوئے ہوں، ایسے ملک میں جس کے ایک بڑے صوبے سندھ میں ڈاکو پولیس کی چیک پوسٹوں پر راکٹ لانچر سے حملہ کرتے ہوں اور پولیس کی طرف سے ہی یہ انکشاف سامنے آئے کہ کشمور میں تعینات کچھ پولیس افسران و اہلکار ان ڈاکوئوں کے گروپوں کی سہولت کاری کرتے ہیں، تو اس بدترین صورتِ حال کو انارکی کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے؟ ایسی انارکی حکومتی و ریاستی عمل داری کے خاتمے اور ایک معاشرے کے زوال کی ابتدائی علامت ہوتی ہے۔ جہاں انارکی پھیلنے سے لوگوں کی زندگیوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، انتشار کی صورت حال میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے، وہاں یہ بھی اہم ہے کہ مغرب کی نظر ہمارے ایٹمی اثاثوں پر ہے اور یقیناً انارکی جیسی صورتِ حال میں ہمارا ایٹمی اثاثہ جو پاکستان کی بقا کے لیے ضروری ہے وہ پہلے سے زیادہ خطرے میں ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ دولت کا اتنا فرق نہیں چل سکتا، اگر اس بحران پر قابو نہ پایا تو خانہ جنگی ہوگی۔

اس فقرے ”روم جل رہا تھا اور نیرو چین کی بانسری بجا رہا تھا“ کے معنی صاف سمجھے جانے چاہئیں۔ ہماری ریاستی اشرافیہ فوج اور سیاست دان شاید خطرہ محسوس نہیں کررہے ہیں اوربے حس”نیرو“کی مانند ملک کو جلتا دیکھ رہے ہیں اور چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔