مسئلہ کسی ایک سیاسی جماعت، کسی ایک حکومت یا کسی ایک ریاستی فریق کا نہیں، بلکہ مجموعی طور پر ہم حکمرانی کے نظام کی عدم شفافیت سے دوچار ہیں اور سب اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا حکمرانی کا نظام عوام میں اپنی وقعت اور اعتماد کھوچکا ہے اور انہیں لگتا ہے کہ ریاست کا نظام ہو یا حکومت کا نظام… یہ عوام دشمنی پر مبنی ہیں۔ مجموعی طور پر ہمارا حکمرانی کا نظام ایک طبقاتی تقسیم کا شکار ہے جس میں بالادست طبقات کی سیاسی و معاشی اجارہ داری ہے، اور عام آدمی کے مقابلے میں طاقت ور افراد کے مفادات کو زیادہ فوقیت دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی کا سیاسی مقدمہ ریاست کے محاذ پر ناکامی سے دوچار ہے اور یہ خلیج کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں عوامی سطح پر بجلی کی قیمتوں میں جو اضافہ دیکھنے کو ملا اور جس طرح بجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکسوں کی بھرمار نظر آتی ہے اس پر عوامی ردعمل سخت ہے۔ چند شہروں سے شروع ہونے والا ردعمل اب پورے ملک میں پھیل رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں اورسیاسی قیادت سے محروم یہ عوامی ردعمل حالات کی سنگینی کو اجاگر کرتا ہے۔ حکمرانی کے بحران میں بجلی کے اداروں کو دیکھیں تو ان میں کرپشن، اقرباپروری، بجلی کی معافی، بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی، بجلی کے محکمے کی مدد سے بجلی چوری، لائن لاسز یا دیگر طور طریقے اس پورے محکمے کی نالائقی یا نااہلی کو نمایاں کرتے ہیں۔ بربادی کے اس کھیل کا آغاز 1994ء میں آئی پی پیز سے ہوتا ہے، اور اُس وقت سے لے کر آج تک کے تمام حکمران اس بحران کے ذمہ دار ہیں، اور اسی طرح سے بیوروکریسی بھی شامل ہے، جسے جواب دہ بنانا ہوگا۔ اگر واقعی بجلی کے بحران کے خاتمے کی طرف پیش رفت کرنا ہے تو اس کی ابتدا 1994ء سے کیے گئے معاہدوں سے ہونی چاہیے، اور اس میں جو بھی کردار سیاسی یا غیر سیاسی ہیں اُن کو کیفرِ کردار تک پہنچائے یا جواب دہ بنائے بغیر ہم بہتری کی طرف نہیں بڑھ سکیں گے۔ اس وقت جو ٹیکس بجلی کے بلوں میں لیے جارہے ہیں ان میں الیکٹرک ڈیوٹی، جنرل سیلز ٹیکس، پی ٹی وی لائسنس فیس، ایف سی سرچارجز، ایف پی اے چارجز، انکم ٹیکس، پی ایچ ایل چارجز، ایکسٹرا ٹیکس، فردرٹیکس شامل ہیں، اور ان تمام ٹیکسوں کو شفاف ثابت کرنا خود محکمے کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اِس وقت بجلی کا جو بحران، یا بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے جو عوامی ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے وہ بغیر کسی سیاسی جماعت یا قیادت کے ہے۔ یعنی لوگ خود ہی باہر نکل آئے ہیں اور سیاسی وابستگیوں کے بغیر اپنی مزاحمت کررہے ہیں۔ کیونکہ ایک طرف بجلی کی قیمتوں میں شدید اضافے اور دوسری طرف آمدنی اور اخراجات میں عدم توازن نے عوام کی زندگیوں پر کئی طرح کے سوالیہ نشان کھڑے کردیے ہیں۔ اگرچہ جماعت اسلامی نے 2 ستمبر کو ملک بھر میں ہڑتال کی کال دی ہے اور خود کو عوام کے ساتھ کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے، مگر دیگر جماعتیں بالخصوص بڑی سیاسی جماعتیں کہاں غائب ہیں اور کیوں وہ عوام کے ساتھ کھڑی ہونے سے گریز کررہی ہیں؟ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ بڑی جماعتوں کے بارے میں عوام میں شدید ردعمل ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو عوام اس بحران کا براہِ راست ذمہ دار سمجھتے ہیں، اور ان کے بقول یہی بڑی جماعتیں بحران پیدا کرتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف بجلی کی قیمتوں میں اضافے پر عوامی ردعمل ہے تو دوسری طرف بڑی سیاسی جماعتیں خود کو اس ردعمل سے بچانے کی کوشش کررہی ہیں۔ اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت عوامی مشکلات سے جڑا جو بحران ہے اس کا حل سیاسی جماعتوںکے پاس نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کے پاس ایسا کوئی روڈمیپ نہیں جو عام لوگوں کو اعتماد دلا سکے کہ واقعی کچھ عرصے کے بعد ہماری مشکلات کم ہوجائیں گی۔ عوام کو لگتا ہے کہ ہماری یہ مشکلات عارضی نہیں بلکہ نہ صرف مستقل ہیں بلکہ ان میں تواتر کے ساتھ اضافہ بھی ہورہا ہے۔ بنیادی طور پر ہم اچھی حکمرانی کے تناظر میں ایک ناکام وکمزور ادارہ جاتی نظام کا حصہ ہیں، جہاں اداروں کے مقابلے میں افراد یا طاقت ور طبقات کی حکمرانی ہے، یا ایسے مضبوط مافیاز بن گئے ہیں جو عوام کا معاشی استحصال کرتے ہیں۔ ایک طرف حکمرانی کا کمزور نظام اوردوسری طرف مافیاز کا گٹھ جوڑ… اسے کیسے کوئی شکست دے سکے گا؟ یہ اہم سوال ہے۔کیونکہ اگر عوام کے معاشی مسائل حل کرنے اور ان کے حالات کی بہتری پر کوئی توجہ نہیں دینی تو پھر حکمرانی کا یہ نظام کیسے اپنی افادیت منوا سکے گا!
مسئلہ صرف بجلی کی قیمتوں کا ہی نہیں، بلکہ گیس، پیٹرول، ڈیزل اور ادویہ سمیت دیگر بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے یا معاشی بدحالی کا ہے۔ عوام کی ریاست اور حکمرانی کے نظام سے مجموعی ناراضی کا ہے، اور یہ کام اصلاحات یا تمائشی اقدامات سے حل نہیں ہوگا۔ جب ہم سب اصولی طور پر متفق ہیں کہ پاکستان کے حالات غیر معمولی ہیں تو پھر اقدامات کے تناظر میں روایتی یا فرسودہ طریقے کیوں اختیار کیے جارہے ہیں؟ ہمیں غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات درکار ہیں، اور پورے نظام کی بڑے پیمانے پر سرجری بھی درکار ہے۔ اس کے لیے ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ بھی درکار ہے جو اس وقت سیاسی نظام میں کہیں گم ہوکر رہ گئی ہے۔ اگر سیاسی نظام یا سیاسی جماعتوں سمیت ان کی قیادتوں کو خود کو عوام میں قائم رکھنا ہے یا سیاسی نظام کی ساکھ بچانی ہے تو انہیں عوام کے مسائل کے ساتھ کھڑ ا ہونا ہوگا۔ کیونکہ سیاسی نظام کی لاتعلقی، سیاسی قیادت کی بے حسی یا عوامی مسائل کو نظرانداز کرنے کی پالیسی کی بنیاد پر ملک میں سیاسی اور جمہوری نظام کا کوئی مستقبل نہیں ہوسکے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں ریاستی نظام کی ازسرنو تعمیر و تشکیل کرنا ہوگی، اور جو بھی خرابیاںہیں ان کا کھلے دل سے اعتراف کرنا ہوگا اورحالات کی درستی کے لیے عملی اقدامات بھی کرنا ہوں گے۔ یہ اقدامات اس انداز میں ہوں کہ عوام کو واضح طور پر نظر بھی آئیں اور ان میں شفافیت کا پہلو بھی نمایاں ہو۔ سیاسی نظام میں جب تک عوامی مسائل پر توجہ نہیں دی جائے گی اُس وقت تک ہم یوں ہی حکمرانی کے بحران میں الجھے رہیں گے۔ سیاسی اور جمہوری نظام کی بنیادی کلید عوام کی حمایت ہی ہے۔ لیکن یہاں ہم نے جذبات پر مبنی نعروں یا سیاست، جمہوریت، آئین اور قانون کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی استعمال کرکے عوام کو مشکل میں ڈالا ہے۔ کیونکہ یہ سب نعرے جذبات پر مبنی تھے اور ان میں وہ ٹھوس کام نہیں تھا جو معاشروں کو عملاً بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ ہم اپنی مجموعی ناکامی کا ملبہ ایک فریق پر ڈال کر خود کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں، ہمیں یہ طرزعمل ختم کرنا ہوگا، کیونکہ ہم سبھی ان حالات کے ذمہ دار ہیں کوئی کم یا کوئی زیادہ، لیکن مجموعی طور پر ہمارا مشترکہ عمل حالات کے بگاڑکی طرف زیادہ رہا ہے۔ اصلاح کا عمل اگر شروع ہونا ہے تو سبھی طاقت ور فریقوں کو خود کو جواب دہ بنانا ہوگا اور عوام میں خود کو احتساب کے لیے پیش کرنا ہوگا۔ یہ سوچ کہ لوگ غلط ہیں، یا لوگ باہر جارہے ہیں تو جائیں ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، یا لوگ سادگی اختیار کریں… اس طرح کے واعظوں سے وزیراعظم سمیت سب کو گریز کرنا چاہیے۔ کیونکہ جب تک اوپر سے لے کر نیچے تک حکمرانی کا نظام خود اپنی اصلاح نہیں کرے گا اور خود کو مثال بناکر پیش نہیں کرے گا اُس وقت تک محض عوام کو تنقید کا نشانہ بنانا بھی درست حکمت عملی نہیں ہوگی۔ اب ایسا لگتا ہے کہ حالات کی درستی حکمرانی کے نظام کی اصلاح سے جڑی ہوئی ہے، اوراس پر توجہ دے کر ہم دیگر طبقوں کو بہتری کی طرف لاسکتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا حکمرانی کا نظام شفاف ہوسکے گا؟ اورکیا ہم آنے والے برسوں میں ایک شفاف حکمرانی کا نظام عوامی سطح پر دیکھ سکیں گے؟ اگر ایسا نہیں ہوتا تو بات صاف ہے کہ حکمرانی کا نظام مزید مسائل پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ عوام میں جو بھی بے چینی یا مایوسی ہے اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ عوام میں نظام کی تبدیلی کی خواہش تو غالب نظر آتی ہے مگر بڑی سیاسی جماعتوں کی سطح پر کوئی بڑا ردعمل، یا مزاحمت کی سیاست نظر نہیں آتی، اور یہ امر یقیناً طاقت ور طبقات کے حق میں جاتا ہے کہ عوامی دبائو اتنا زیادہ نہیں جتنا ہونا چاہیے تھا۔ گیند بہرحال ریاست اور حکمرانی کے نظام کے کورٹ میں ہے، دیکھنا ہوگا کہ وہ موجودہ حکمرانی کے نظام میں موجود خرابیوں کی بنیاد پر سبق سیکھ سکھیں گے!