’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ کے حصہ سوم اور پھر ترجمان القرآن کی اشاعتوں میں جس جماعت کی ضرورت ظاہر کی گئی تھی اور پھر عامۃ الناس کو دعوت دی گئی تھی کہ جو لوگ اس نظریے کو قبول کرکے اس طرز پر عمل کرنا چاہتے ہوں، دفتر کو مطلع کریں۔ پرچہ چھپنے کے تھوڑے ہی دنوں بعد اطلاعات آنی شروع ہوگئیں اور معلوم ہوا کہ ملک میں ایسے آدمیوں کی خاصی تعداد موجود ہے جو جماعت ِ اسلامی کی تشکیل اور اس کے قیام و بقا کے لیے جدوجہد کرنے پر تیار ہیں۔ اس غرض کے لیے یکم شعبان 1360ھ (25 اگست 1941ء) اجتماع کی تاریخ مقرر ہوئی۔ شرکائے اجتماع کی کُل تعداد 75 تھی۔ 2 شعبان آٹھ بجے صبح دفتر کے ایوان میں پہلا اجتماع ہوا۔ مولانا مودودیؒ نے فرمایا:
’’ایک وقت تھا کہ میں روایتی اور نسلی مسلمانیت کا قائل اور اس پر عمل پیرا تھا۔ جب ہوش آیا تو محسوس ہوا کہ اس طرح کی پیروی ایک بے معنی چیز ہے۔ آخرکار کتاب اللہ اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوا، اور اسلام کو ازسرنو سمجھا اور اس پر ایمان لایا۔ پھر آہستہ آہستہ اسلام کے مجموعی اور تفصیلی نظام کو سمجھنے اور معلوم کرنے کی کوشش کی۔ جب اللہ تعالیٰ نے قلب کو اس طرف سے مطمئن کردیا تو جس پر میں خود ایمان لایا تھا، اس کی طرف دوسروں کو دعوت دینے کا سلسلہ شروع کیا اور اس مقصد کے لیے ترجمان القرآن جاری کیا۔ ابتدائی چند سال الجھنوں کو صاف کرنے اور دین کا ایک واضح تصور پیش کرنے میں صرف ہوئے۔ اس کے بعد دین کو ایک تحریک کی شکل میں جاری کرنے کے لیے پیش قدمی شروع کی۔ ادارہ ’دارالاسلام‘ کا قیام اس سلسلے کا پہلا قدم تھا۔ اُس وقت صرف چار رفیقِ کار بنے۔ اس چھوٹی سی ابتدا کو اُس وقت حقیر سمجھا گیا مگر الحمدللہ کہ ہم بددل نہ ہوئے اور اسلامی تحریک کی طرف دعوت دینے اور اس تحریک کے لیے نظری حیثیت سے ذہن ہموار کرنے کا کام لگاتار کرتے چلے گئے۔ اس دوران میں ایک ایک دو دو کرکے رفقا کی تعداد بڑھتی رہی، ملک کے مختلف حصوں میں ہم خیال لوگوں کے چھوٹے چھوٹے حلقے بھی بنتے رہے، اور لٹریچر کی اشاعت کے ساتھ ساتھ زبانی دعوت و تبلیغ کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ آخرکار تحریک کے اثرات کا گہرا جائز لینے کے بعد محسوس ہوا کہ اب جماعت اسلامی کی تاسیس اور تحریک اسلامی کو منظم طور پر اٹھانے کے لیے زمین تیار ہوچکی ہے اور یہ وقت دوسرا قدم اٹھانے کے لیے موزوں ترین وقت ہے۔ چنانچہ اسی بنا پر یہ اجتماع منعقد کیا گیا ہے۔
جماعت اسلامی کے لیے دنیا میں کرنے کا جو کام ہے اس کا کوئی محدود تصور اپنے ذہن میں قائم نہ کیجیے۔ دراصل اس کے لیے کام کا کوئی ایک ہی میدان نہیں ہے بلکہ پوری انسانی زندگی اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ اس کے دائرۂ عمل میں آتی ہے۔ اسلام تمام انسانوں کے لیے ہے اور ہر چیز جس کا انسان سے کوئی تعلق ہے اس کا اسلام سے بھی تعلق ہے۔ یہاں ہر انسان کے لیے کام موجود ہے، کوئی انسان بیکار نہیں ہے۔ عورت، مرد، بوڑھا، جوان، دیہاتی، شہری، کسان، مزدور، تاجر، ملازم، مقرر، محرر، ادیب، اَن پڑھ اور فاضلِ اجل سب یکساں کارآمد اور یکساں مفید ہوسکتے ہیں بشرطیکہ وہ جان بوجھ کر اسلام کے عقیدے کو اختیار کرلیں اور اس کے مطابق عمل کرنے کا فیصلہ کرلیں اور اس مقصد کو، جسے اسلام نے مسلمان کا نصب العین قرار دیا ہے، اپنی زندگی کا مقصد بناکر کام کرنے پر تیار ہوجائیں۔ البتہ یہ بات ہر اُس شخص کو جو جماعت اسلامی میں آئے، اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو کام اس جماعت کے پیش نظر ہے وہ کوئی ہلکا اور آسان کام نہیں ہے۔ اسے دنیا کے پورے نظامِ زندگی کو بدلنا ہے۔ اسے دنیا کے اخلاق، سیاست، تمدن، معیشت، معاشرت ہر چیز کو بدل ڈالنا ہے۔ دنیا میں جو نظامِ حیات خدا سے بغاوت پر قائم ہے، اسے بدل کر خدا کی اطاعت پر قائم کرنا ہے اور اس کام پر تمام شیطانی قوتوں سے اس کی جنگ ہے۔ اس کو اگر کوئی ہلکا کام سمجھ کر آئے گا تو بہت جلدی مشکلات کے پہاڑ اپنے سامنے کھڑے دیکھ کر اس کی ہمت ٹوٹ جائے گی۔ اس لیے ہر شخص کو قدم آگے بڑھانے سے پہلے خوب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ کس خارزار میں قدم رکھ رہا ہے۔ یہ وہ راستہ نہیں ہے جس میں آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹ جانا دونوں یکساں ہوں۔ جو قدم بڑھائو، اس عزم کے ساتھ بڑھائو کہ اب یہ قدم پیچھے نہیں پڑے گا۔ جو شخص اپنے اندر ذرا بھی کمزوری محسوس کرتا ہے، بہتر ہے کہ وہ اسی وقت رک جائے۔‘‘
[تحریک اسلامی: ایک تاریخ ایک داستان۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی نگارشات پر مبنی تحریکی رپورتاژ]
مجلس اقبال
اندھیری شب ہے، جدا اپنے قافلے سے ہے تُو
ترے لیے ہے میرا شعلہ نوا قندیل
علامہ اقبال امت ِ واحدہ یا ملّتِ اسلامیہ کی متحدہ قوت سے کٹے ہوئے مسلمانوں کو تلقین کرتے ہیں کہ میرے کلام سے رہنمائی حاصل کرو، اس لیے کہ غلامی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اپنے ملّی قافلے سے کٹ کر تم قدم قدم پر ٹھوکریں کھا رہے ہو۔ ایسے میں میرے کلام کی روشنیاں چراغِ راہ بن کر تمہاری رہنمائی کرتی اور تمہارے دلوں کو ایمانی جذبوں اور آزادی کے لطف سے روشناس کراتی ہیں۔ یوں وہ اپنے اشعار کو اندھیری راہ میں جذبے اور روشنیاں بخشنے والے چراغ قرار دیتے ہیں۔