جڑانوالہ کے دلخراش واقعے نے پورے ملک کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ اندرون ملک ہی نہیں اس کی صدائے بازگشت عالمی سطح پر بھی خاصی شدت سے سنائی دی ہے، اس سے پوری دنیا میں پاکستان کے بارے میں انتہا پسندی کے حوالے سے منفی تاثر مضبوط ہوا ہے۔ اس واقعے کی کوئی بھی ذی شعور مسلمان تائید و حمایت نہیں کرسکتا۔ تاہم یہ امر فراموش نہیں کیا جانا چاہیے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تھا، اللہ کرے آخری ضرور ہو۔ اگر ماضی کے واقعات کی تحقیق و تفتیش کے بعد ذمہ دار لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کیے جاتے تو شاید سانحۂ جڑانوالہ سے بچنا ناممکن نہیں تھا۔ حالیہ سانحے کے بعد انتظامیہ ایک بار پھر متحرک ہوئی ہے اور حسبِ روایت بلند بانگ دعوے کیے جارہے ہیں، حالانکہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ حکمرانوں اور حکام کے یہ سب دعوے وقتی اشک شوئی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے، تاہم پنجاب پولیس کے سربراہ ڈاکٹر عثمان انور نے جڑانوالہ کے علاوہ سرگودھا کے واقعے سے متعلق ابتدائی تحقیق کے بعد نہایت تشویش ناک انکشافات کیے ہیں اور بتایا ہے کہ ان دونوں شہروں کے واقعات محض مشتعل ہجوم کے فوری ردعمل کا نہیں بلکہ ایک منظم سازش کا نتیجہ تھے جس میں پاکستان کا ازلی دشمن ہمسایہ ملک ملوث تھا، ان واقعات کا مقصد ہمسایہ ملک میں آئے روز ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانا تھا، اس ہمسایہ ملک کی ریاست مانی پورہ میں مسیحی خواتین کے ساتھ تضحیک آمیز سلوک خبروں کی زینت بنا جس پر یورپی یونین سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا، ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت شرپسندوں نے پہلے جڑانوالہ میں مسلمان اور مسیحی برادری کو لڑانے کی کوشش کی، جڑانوالہ کے بعد سرگودھا میں قرآن پاک کی بے حرمتی کرکے ملک گیر آگ لگانے کی سازش کی گئی، تاہم پولیس کے بروقت رسپانس، علمائے کرام اور امن کمیٹیوں کی کاوشوں اور اقلیتی رہنمائوں کے تعاون کی بدولت اسے ناکام بنایا گیا۔ ملزمان کا سراغ لگا کر انہیں گرفتار کیا، جس کے بعد آر پی اوز نے مزید تجزیہ کیا تو پتا چلا کہ ایک غیر ملکی ایجنسی سے اس کے تانے بانے ملتے ہیں۔ پنجاب پولیس نے سرگودھا واقعے میں ملوث دونوں افراد کو حراست میں لے لیا ہے، جب کہ واقعے کے تمام شواہد سامنے لائے جا چکے ہیں۔ جڑانوالہ واقعے میں ملوث تینوں افراد کو ٹریس کرکے گرفتار کرلیا ہے۔ آئی جی نے کہا کہ پنجاب پولیس نے شرپسند عناصر کا نیٹ ورک توڑ دیا ہے اور اب ایسے واقعات رونما نہیں ہوں گے۔ پنجاب پولیس نے صوبے کے تمام اضلاع میں میثاق سینٹر قائم کردیئے ہیں جس کا مقصد اقلیتی شہریوں کے حقوق اور جان و مال کے تحفظ کے عمل کو پہلے سے زیادہ موثر بنانا ہے، میری درخواست ہے کہ کوئی بھی شہری قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر دشمن کا آلہ کار نہ بنے بلکہ تدبیر سے اس جنگ کو ناکام بنائیں، مدعی بنیں نہ کہ واقعے کے ملزم بن جائیں۔
پنجاب پولیس کے سربراہ کی جانب سے پریس کانفرنس کے دوران بھارت کا نام لیے بغیر اس کے خفیہ اداروں کی مذموم سازش کا انکشاف نہایت سنگین معاملہ ہے اور بھارت کے گزشتہ پون صدی کے کردار کی روشنی میں اس سازش کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، پاکستان دشمنی بھارتی حکمرانوں کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے، خاص طور پر جب سے انتہا پسندانہ سوچ اور جارحانہ کردار کے حامل نریندر مودی نے بھارت میں اقتدار سنبھالا ہے، اس کی مسلمان اور پاکستان دشمنی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ اس لیے آئی جی پنجاب کی پریس کانفرنس کو حکومت کی طرف سے سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ بھارتی سفارت کار کو طلب کرکے اس خوفناک سازش پر باضابطہ احتجاج کیا جانا ضروری ہے۔ اسی طرح بھارت کے اس سازشی کردار کا پردہ عالمی برادری کے سامنے بھی چاک کیا جانا لازم ہے۔ اگرچہ آئی جی پنجاب پولیس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ دشمن کا یہ نیٹ ورک توڑ دیا گیا ہے، مگر اُن کی جانب سے صرف اتنا کہہ دینا کافی نہیں، سازش کی تفصیل قوم کے سامنے بھی آنی چاہیے کہ کون کون سے عناصر اس ملک دشمنی میں ملوث تھے اور یہ نیٹ ورک کس طرح کام کرتا تھا، تاکہ عوام آئندہ ان عناصر اور ان کی سازشوں سے ہوشیار بھی رہیں اور محتاط بھی۔ دشمن کے آلہ کاروں کو پہچان سکیں اور ان کے پھیلائے ہوئے سازشی جال میں پھنسنے سے محفوظ بھی رہ سکیں۔
جڑانوالہ اور سرگودھا کے ان واقعات کے ضمن میں یہ امر بھی پریشان کن ہے کہ دشمن وطنِ عزیز میں کس قدر اندر تک رسائی حاصل کر چکا ہے، اس کے کارندے کہاں کہاں تک پھیلے ہوئے ہیں اور کس قدر سرعت سے اپنی حکمتِ عملی پر عمل درآمد کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسے میں یہ جائزہ لینا بھی از حد ضروری ہے کہ ہمارے متعلقہ ادارے دشمن کے مذموم عزائم سے لاعلم اور بے خبر کیوں ہیں؟ اور دشمن کے مقاصد کی روک تھام کے لیے بروقت اقدامات کیوں روبہ عمل نہ لائے جا سکے؟
جڑانوالہ کے واقعے کے ضمن میں حکومت اور پولیس حکام کو یہ پہلو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ اگر انتظامیہ اور مقامی پولیس علاقے کے مسلمانوں کی شکایات پر فوری حرکت میں آ جاتی تو توہینِ قرآن کے ملزمان کی گرفتاری میں تساہل، نا اہلی اور کاہلی کا مظاہرہ نہ کیا جاتا اور عیسائی برادری کے مذہبی رہنما ملزمان کو پناہ دینے کے بجائے خود تھانے لے جا کر پولیس کے حوالے کر دیتے تو بعد میں ہونے والی مشتعل ہجوم کی کارروائی کا جواز باقی نہ رہتا۔ اسی طرح علاقے کی ایک مسجد کے امام و خطیب اور دیگر مسلمانوں نے جس طرح عیسائی برادری کو مسجد میں عبادت بجا لانے کی دعوت دی اور بہت سے مسلمانوں خصوصاً جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب نے موقع پر پہنچ کر عیسائی برادری کی دلجوئی اور نقصان زدہ گھروں اور عمارتوں کی اپنی طرف سے ازسرنو تعمیر کا جو فراخ دلانہ اعلان کیا، مسلمانوں کے ایسے تمام اقدامات کو بھی سراہا جانا چاہیے اور پورے معاملے کو یک طرفہ طور پر دیکھنے کے بجائے مسلمانانِ پاکستان کے مثبت جذبات کی بھی پذیرائی اور قومی و بین الاقوامی سطح پر انہیں اجاگر کرنے کا موثر اہتمام حکومتی سطح پر کیا جانا چاہیے۔
آخر میں یہ عرض کرنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ مغربی دنیا میں توہین ِقرآن و رسالت مآب کے ملزمان کو جس طرح ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے، اس سے پاکستان اور دوسرے مسلمان ممالک میں منفی سوچ کے حامل غیر مسلم شہریوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے اور انہوں نے بیرونِ ملک منتقلی اور آرام و آسائش کے حصول کے لیے یہ آسان راستہ اختیار کرنا شروع کر دیا ہے کہ توہینِ رسالت و قرآن کا ارتکاب کرو اور مغرب کی آنکھ کے تارے بن جائو۔ مستقبل میں جڑانوالہ جیسے سانحات کی روک تھام کے لیے مغربی دنیا کو اپنی اس سوچ اور طرزِ عمل پر بھی نظر ثانی کرنا ہو گی۔ (حامد ریاض ڈوگر)