محترمہ سلمیٰ یاسمین نجمی خوش اسلوب مزاح نگار ہیں۔ افسانہ نویس ہیں۔ ’’بوئے گُل‘‘ اور ’’سانجھ بھئی چودیس‘‘ جیسے معرکہ آرا ناولوں کی مصنفہ ہیں۔ آپ کے دو ناولچے (Novelets) ’’ہم نفس‘‘ اور’’کرن آرزو کی‘‘ قارئین ہی سے نہیں، اربابِ نقد ونظر سے بھی داد و تحسین وصول کرچکے ہیں۔ ’’سانجھ بھئی چودیس‘‘ لاہور کالج یونیورسٹی کے اُردو ادب کے نصاب میں شامل ہے۔ رانچی (بھارت) سے تعلق رکھنے والی پروفیسر روبینہ فاطمہ نے یہ ناول پڑھ کر پی ایچ ڈی کرلیا ہے۔ خود ہم نے بھی سلمیٰ آپا کی کم از کم سات کتابیں تو چاٹ ڈالی ہیں مگرشاید چٹوروں کو کسی سند سے نہیں نوازا جاتا۔کیا ستم ظریفی ہے، کیا سیاہ بختی ہے۔ صاحبو! آج کل تو ناول لکھنے سے زیادہ محنت ناول پڑھنے میں پڑتی ہے۔ پھر’’سانجھ بھی چودیس‘‘ جیسا ضخیم ناول پڑھنا جو723صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ ناول کثیر جہتی، دو لسانی، کثیرتہذیبی اور کثیرالاستعمال ہے۔ آگیا عین پڑھائی میں اگر وقتِ فساد… تو یہی ضخیم ناول آلہ حرب و ضرب کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
پچھلا کالم پڑھ کر سلمیٰ آپا نے شکوہ کیا: ’’ایک لنگر آپ بھول گئے وہ جو عورتیں کپڑے میں بڑے بڑے سلنگے (ٹانکے) مارتی ہیں‘‘۔
محترمہ سلمیٰ یاسمین نجمی کا تعلق دہلی کی ٹکسالی زبان بولنے والے خاندان سے ہے۔ سلنگے کا لفظ وہی استعمال کرسکتی ہیں۔ یہ لفظ لغت میں نہیں ملتا۔ بعض لغات میں ’سَلنگ‘ کا لفظ مل جاتا ہے، جس کے معنی ’سانپ کی چال‘ کے ہیں۔ ممکن ہے کہ سلنگے بھی سانپ کی چال ہی کی طرح ’مارے جاتے‘ ہوں۔ مگر دہلی کی عورتوںکی ٹکسالی زبان میں تو ’سلنگے بھرے‘ جاتے ہیں، جب کہ ’ڈورے ڈالے‘ جاتے ہیں، لحاف وغیرہ میں۔ مگر ڈر ہی لگا رہتا ہے کہ لگے ہاتھوں کسی اور پر بھی نہ ڈال دیں۔ لغت بھی تو بیش تر عورتوں ہی کی بولی سے بنتی ہے، کیوں کہ اہلِ لغت میں خواتین کی زبان مستند سمجھی جاتی ہے۔ مولوی سید احمد دہلوی مؤلف فرہنگِ آصفیہ، فرہنگ کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
’’چوں کہ عام زبان کی اشاعت اور ترقی عورتوں پر زیادہ منحصر ہے، لہٰذا ان کے اقوال و افعال بھی زبان کا جزو بن جاتے ہیں‘‘۔
مولوی صاحب نے ’افعال‘ کی بھی خوب کہی۔ زبان کے معاملے میں مردوں کا بھلا عورتوں سے کیا مقابلہ؟ پھر ٹکسالی زبانِ نسواں کے تو کیا کہنے؟ سنیے تو سنتے ہی رہ جائیے۔ ملا واحدی اپنی کتاب ’’میرے زمانے کی دلّی‘‘ میں لکھتے ہیں:’’ ایک ہندو مہترانی اپنی بہو سے لڑ رہی تھی۔ لڑتے لڑتے کہنے لگی: چپ ہوتی ہے یا حلق میں جھاڑو ٹھونس دوں۔ معلوم ہوگا دُم دار تارا نکل آیا‘‘۔ کیا تشبیہ ہے اور کیا استعارہ۔
’ٹَکسال‘ کہتے ہیں اُس کارخانے کو جس میں سکے ڈھالے جاتے ہیں۔ اسے ’دارالضرب‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ٹکسال سے ڈھلے ہوئے سکوں پر سرکاری مہر ہوتی ہے۔ بازار میں یہی سکے چلتے ہیں۔ خود ساختہ سکے کھوٹے سکے کہلاتے ہیں اور نہیں چلتے۔ ایک زمانے میں دہلی اور لکھنؤ کی خواتین کی بولی، اُن کا لب و لہجہ اور اُن کا روزمرہ سند سمجھا جاتا تھا۔ صحتِ زبان کے لیے انھیں کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ لغت میں تو اب بھی دی جاتی ہیں۔ چوں کہ انھیں خواتین کا سکہ چلتا تھا، چناں چہ ان کی زبان ’ٹکسالی زبان‘ کہی جاتی تھی۔ ویسے تو ٹکسال کے داروغہ کو بھی ’ٹکسالی‘ کہا جاتا تھا۔ لیکن اب لفظ ’ٹکسال‘ ہی اجنبی ہوگیا ہے۔ زندہ دلوں کے شہر لاہور میں، شالامار باغ سے ذرا آگے، وطن عزیز پاکستان کی ’ٹکسال‘ تھی۔ شاید اب بھی ہو۔ وہاں بینک دولت پاکستان کے سکے ڈھالے جاتے تھے۔ مگر ہمارے تو سارے ڈھلے ڈھلائے سکے سودی معیشت اور سودی قرضوں کی بھینٹ چڑھ کر ڈھلک گئے۔ اب ہمارے بازاروں میں حکومتِ پاکستان کا سکہ نہیں چلتا۔ بے وقعت کاغذی نوٹ چلتے ہیں۔ خدا جانے ’پاکستان ٹکسال‘ (Pakistan Mint) والے اب خالی بیٹھے کیا ڈھالتے رہتے ہوں گے۔
سلمیٰ آپا بالکل ٹھیک جگہ لنگرانداز ہوئی ہیں۔کپڑے کی کَنّی (حاشیہ، گوٹ یا کنارہ) موڑنے کے لیے عارضی طور پر جو لمبے لمبے ٹانکے لگائے جاتے ہیں، اُنھیں بھی ’لنگر ڈالنا‘ ہی کہا جاتا ہے۔ بخیہ کرنے کے بعد لنگر کیا ہوا دھاگا کھینچ کر نکال لیا جاتا ہے۔ نہیں معلوم کہ دھاگا واپس کھینچنے کے عمل کو ’لنگر اُٹھانا‘ کہتے ہیں یا نہیں؟
لنگر کے بعد کی سلائی کے لیے لفظ ’بخیہ‘ استعمال ہوتا ہے۔ قریب قریب سلائی کرنے اور دوہرے یا پکے ٹانکے لگانے کو ’بخیہ کرنا‘ کہا جاتا ہے۔ فرہنگِ آصفیہ میں بخیہ کو ’مضبوط سِیوَن‘ قرار دیا گیا ہے۔ ’سِلائی‘ کی جگہ پہلے ’سِیوَن‘ ہی بولاجاتا تھا۔ مثلاً: ’’درزی استری سے شکنیں مٹا دے گا اور سِیوَن بٹھا دے گا‘‘۔ نوراللغات میں بھی یہی لفظ استعمال ہوا ہے۔ مولوی نورالحسن نیرؔ مرحوم ’بخیہ‘ کے معنی بتاتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ایک قسم کی مضبوط سِیوَن جو پاس پاس ہوتی ہے‘‘۔ جس کپڑے میں بخیہ کیا گیا ہو اُسے ’بخیہ دارکپڑا‘ کہتے ہیں۔ ’بخیہ کھل جانے‘ کے لفظی معنی تو سلائی کے ٹانکے کھل جانے کے ہیں، لیکن مجازاً حقیقت سامنے آجانے، بھید کھل جانے یا راز فاش ہوجانے کو بھی ’بخیہ کھل جانا‘ کہتے ہیں۔ قصداً کسی کا راز فاش کرنے، اُس کے عیوب ظاہر کرنے یا اُس کے کرتوت بیان کرنے کو ’اُس کے بخیے اُدھیڑ کر رکھ دینا‘ بولا جاتا ہے۔ خواتین اکثر ایسا کرتی رہتی ہیں کیوں کہ بخیہ گری، بخیے کھولنا اور بخیے اُدھیڑنا اُنھیں کا شعبہ ہے۔ ذوقؔ، جنون کو گنجا سمجھ کر، کہتے ہیں:
ناخن نہ دے خدا تجھے اے پنجۂ جنوں
دے گا تمام عقل کے بخیے اُدھیڑ تُو
سِیوَن یا سلائی کی ایک قسم ’تُرپائی‘ ہے۔ تُرپنا بخیے کے اُوپر سلائی کرنے کو کہتے ہیں، یعنی سِیوَن پر ایک اور سلائی کرنا یا کپڑے کو دبا کر سینا۔ کپڑے کے سرے کو اُلٹ کر سینا بھی تُرپائی کہلاتا ہے۔ کپڑا کہیں سے پھٹ جائے تو اِس پھٹے میں اس طرح سے تاگے بھرنا کہ پھٹنے کا نشان بھی نظر نہ آئے ’رفو کرنا‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ایسا فن ہے کہ اس میںکسی کسی کو کمال حاصل ہوتا ہے۔ پیوند لگا کر ٹانکے ماردینا کمال نہیں۔ رفو کے ٹانکے اس فنکاری سے لگائے جاتے ہیں کہ وہ کپڑے کی بُنَت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ٹانکے تو زخم پر بھی لگائے جاتے ہیںُ مگر مصحفی کا دل شاید زخموں سے کچھ زیادہ ہی چُور چُور تھا۔ تب ہی تو اُن کے جراح نے اُن سے دوگنی فیس وصول کرتے ہوئے اس کا جواز یوں پیش کیا:
مصحفی! ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
ماہررفوگر کسی کپڑے کو رفو کرتے ہیں تو آدمی دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ کپڑا پھٹا کہاں سے تھا!اسی حیرانی کو ’رفو چکر میں آجانا‘ کہا جاتا تھا۔ مراد ششدر رہ جانا، ہکا بکا ہوجانا یا سٹ پٹا جانا۔سراجؔ اورنگ آبادی تو خود رفوگر کو’رفو چکر میں لانے‘ کے چکر میں تھے:
رفو گر کو کہاں طاقت کہ زخمِ عشق کو ٹانکے
اگر دیکھے مرا سینہ، رفو چکر میں آ جائے
مگر بعد میں نہ جانے کیسے’’رفو چکر ہونا‘‘ ایجاد ہوگیا اور اس کے معنی چل دینا یا بھاگ جانا ہو گئے:
سنی جب چاپ قدموں کی، رفو چکر ہوئے دونوں
کہ عشق اندھا تو ہوتا ہے مگر بہرا نہیں ہوتا
جب کہ عالمؔ کی محبوبہ تو ایسی تھی کہ
جس طرف دیکھتی تھی بھر کے نظر
ہوش ہو جاتے تھے رفو چکر
ہم بھی ہوجائیں اب رفوچکر!