شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن دلاور حسین سعیدی

واقعی وہ اسم با مُسمّیٰ تھا : دلاور، بہادر، نڈر، بے خوف۔

نہ دبنے والا، نہ جھکنے والا، نہ باطل سے مداہنت کرنے والا۔

حق کا داعی اورعَلَم بردار۔

نہ پھانسی کی سزا کا اعلان اس کے ارادوں کو کم زور کرسکا اور نہ تاحیات قید کی سزا سے اس پر اضمحلال طاری ہوا۔

بلکہ وہ ہمیشہ صابر و شاکر رہا۔

اور اپنے رب کے بلاوے پر ہنستا مسکراتا ہوا حاضر ہوگیا۔

یہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے نائب امیر علامہ دلاور حسین سعیدی تھے، جو 2010ء سے قید خانے میں اسیر سنّتِ یوسفی ادا کررہے تھے، 14 اگست 2023ء کی شب ہارٹ اٹیک کے نتیجے میں وفات پا گئے۔

ان پر الزامات بڑے دل چسپ تھے : یہ کہ انھوں نے اپنی تقریروں کے ذریعے مذہبی منافرت بھڑکائی ہے، بہت سے ہندوؤں کو زبردستی مسلمان بنایا ہے، 1971ء کی جنگ میں، جس کے بعد بنگلہ دیش وجود میں آیا تھا، پاکستانی فوج کی مدد کی تھی، قتل، زنا، آتش زنی اور لوٹ مار میں حصہ لیا تھا اور دوسرے لوگوں کو ان کاموں پر اکسایا تھا۔

ظالموں کو یہ الزامات لگاتے ہوئے ذرا بھی شرم نہیں آئی۔ ایک عالمِ دین، ایک مرشد و مصلح، لاکھوں انسانوں کی زندگیاں بدل دینے والا، ایک بین الاقوامی شہرت کا حامل اور پاکیزہ زندگی گزارنے والا کیا ایسی مذموم اور غیر شرعی حرتیں کرسکتا ہے ؟!

اگر وہ یہ الزام لگاتے کہ یہ جماعت اسلامی کا رہ نما ہے، ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کا داعی ہے، اللہ کے قانون کی حکمرانی اور ظلم و جبر کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ عدل و انصاف اور امن و امان کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہے۔ اگر وہ یہ الزامات لگاتے تو اپنی باتوں میں سچّے ہوتے اور ملزم کو بھی انہیں قبول کرنے میں تردّد نہ ہوتا۔

لیکن بزدلوں میں حقیقت کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ وہ اپنے مخالفین پر جھوٹے الزامات لگا کر انہیں بدنام کرنے میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔

ان ظالموں کو اندازہ نہیں کہ انھوں نے کتنی قیمتی شخصیت کو کھو دیا ہے۔ایک ہیرا، جو اپنی ضیا پاشیوں سے پورے ملک کو منوّر کرسکتا تھا، ایک روحانی مرشد، جو لاکھوں انسانوں کے دلوں کی کایا پلٹ سکتا تھا۔ کتنے محروم اور بے توفیق ہیں یہ لوگ، جو شیطان کے پجاری اور اندھیروں کے پرستار ہیں۔ باطل کے آلۂ کار بن کر اہلِ حق کی زندگیان اجیرن بنائے ہوئے ہیں۔

دلاور حسین سعیدی کی پیدائش 2 فروری 1940ء کو ہوئی۔ ابتدائی تعلیم انھوں نے اپنے گاؤں کے مدرسے میں حاصل کی، جسے ان کے والد نے قائم کیا تھا۔ اس کے بعد اعلیٰ دینی تعلیم سرسینا عالیہ مدرسہ میں پائی، جہاں سے 1962 میں ان کی فراغت ہوئی۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی زندگی قرآن کی تعلیم عام کرنے کے لیے وقف کردی۔ وہ پورے ملک میں تفسیری مجلسیں اور ورک شاپ منعقد کرتے تھے، جن میں لاکھوں لوگ بہ شمول حکومتی اہل کار شرکت کرتے تھے۔ انھوں نے قرآن مجید کی تفسیر لکھی ہے، جو چار جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ دینی، سماجی اور عصری موضوعات پر پچاس سے زائد کتابیں تصنیف کی ہیں۔ وہ بنگلہ زبان کے علاوہ اردو اور عربی میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ وہ بے مثال خطیب تھے۔ انہیں بین الاقوامی شہرت حاصل تھی۔ انھوں نے ایشیا، افریقہ، یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا کے پچاس سے زائد ملکوں کا سفر کیا تھا۔ انہیں دنیا بھر کی یونی ورسٹیوں میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا جاتا تھا اور بہت اعزاز کے ساتھ ان کے علمی لیکچر کروائے جاتے تھے۔ 1991ء میں انہیں اسلامک سینٹر آف شمالی امریکہ کی جانب سے ’علامہ‘ کا لقب تفویض کیا گیا تھا۔ 1973ء کے بعد سے وہ ہر سال حج کرنے جاتے تھے – دو مرتبہ انھوں نے شاہی مہمان کی حیثیت سے اور پانچ مرتبہ رابطہ عالم اسلامی کے مہمان کی حیثیت سے حج کیا تھا۔ انہیں ملک اور بیرونِ ملک زبردست عوامی مقبولیت حاصل تھی۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب 2013ء میں انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل آف بنگلہ دیش نے انہیں پھانسی کی سزا سنائی تو پورے ملک میں بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں سو سے زائد افراد مارے گئے تھے۔ بی بی سی نے اسے ’بنگلہ دیش میں سیاسی تشدد کا بدترین دن‘ قرار دیا تھا۔

علامہ دلاور حسین سعیدی نے بھرپور زندگی گزاری۔ انھوں نے اپنے رب سے جو عہد کیا تھا اسے پورا کیا۔ جب تک زندہ رہے اسلام پر قائم رہے۔ جھوٹے الزامات، قید و بند، پھانسی کی سزا کا اعلان اور اذیتیں ان کی راہ کھوٹی نہ کرسکیں۔ ان کی زندگی ایک مجاہد کی زندگی تھی اور ان کی موت ایک شہید کی موت۔

’’ ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔‘‘ ( الاحزاب :23)