گوانتا ناموبے قید خانہ یا عقوبت خانہ

بے پناہ تشدد کے باوجود کسی بھی قیدی سے وہ معلومات نہیں حاصل ہوسکیں جو عدالت میں پیش کیے جانے کے قابل ہوں

امریکی نشریاتی ادارے CBS کے مطابق امریکی فوج سے غیر تحریری مفاہمت کے نتیجے میں نائن الیون(9/11) کے پانچ بڑے ملزمان سزائے موت نہ ملنے کی ضمانت پر اعترافِ جرم کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔ خبر کے مطابق پینٹاگون (امریکی وزارتِ دفاع) نے سانحہ نائن الیون میں ہلاک ہونے والوں کے ورثا کو خط بھیجے ہیں جس میں کہا گیا کہ امریکی فوج واقعے کے مبینہ سرغنہ خالد شیخ محمد اور ان کے چار ساتھیوں مصطفیٰ احمد آدم ہوساوی، رمزی بن الشيبہ، ولید بن اتش اور عمار البلوشی (بلوچ) سے ایک معاہدے پر غور کررہی ہے جس کے تحت یہ پانچوں اپنے جرائم کا اعتراف کرلیں گے جس کے جواب میں انھیں طویل مدت قید کی سزائیں دے دی جائیں گی۔

ان تمام کو دوسرے سیکڑوں افراد کے ساتھ پاکستان کے مختلف علاقوں سے گرفتار کیا گیا تھا، جنھیں جنرل پرویزمشرف نے پیسوں کے عوض امریکہ کے حوالے کیا۔ یہ پانچوں افراد سی آئی اے کی تحویل میں تھے جنھیں 2006ء میں کیوبا کے جزیرے گوانتاناموبے منتقل کیا گیا۔ ملزمان کو اعترافِ جرم کے لیے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اور اس کی روح فرسا تفصیلات امریکی کانگریس میں بھی بیان کی گئیں۔ صدر اوباما نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں ان لوگوں کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلانے کی منظوری دے دی، لیکن اب تک ملزمان پر فردِجرم عائد نہیں کی جاسکی۔ فوج کے قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ تشدد (torture) سے حاصل کیے گئے اعتراف کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ بعض مبینہ دہشت گردوں پر شدید نوعیت کا تشدد کیا گیا۔ عمار البلوشی نے تحریری بیان میں کہا ہے کہ اگر سزائے موت نہ دینے کی ضمانت دی جائے تو تشدد کے نتیجے میں اسے جو معذوری لاحق ہوئی اس کے علاج معالجے و طبی دیکھ بھال کے عوض وہ جرم قبول کرنے اور طویل سزا کاٹنے کے لیے تیار ہے۔

تاہم ہلاک شدگان کے وارثین اس پر تیار نہیں اور کئی افراد اس معاہدے کو انصاف کا قتل قرار دے رہے ہیں۔ دوسری طرف فوج کے قانونی ماہرین پریشان ہیں کہ مقدمہ پیش کیسے کیا جائے؟ حکومت کی جانب سے ابلاغِ عامہ کے سامنے تشدد کے اعتراف کے علاوہ امریکی سینیٹ میں بھی اس پر تفصیلی بحث ہوچکی ہے۔ بش انتظامیہ کے نائب صدر ڈک چینی نے تشدد کا اعتراف ہی نہیں بلکہ اس کی حمایت کرتے ہوئے سب کے سامنے کہا تھا کہ ”تھوڑی سی سختی“ کے نتیجے میں حاصل ہونے والی معلومات دہشت گرد منصوبوں کو ناکام بنانے میں بے حد مددگار ثابت ہورہی ہیں۔ تشدد پر تشویش کو حقارت سے مسترد کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ”ان وحشی دہشت گردوں پر سختی نہیں تو کیا انھیں پیار کیا جائے؟“ امریکہ کی شہری آزادیوں کی انجمن ACLUکے مطابق گوانتاناموبے میں کم ازکم 26 قیدیوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انجمن کا کہنا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (FBI)کے 200 سے زیادہ ایجنٹ قیدیوں پر تشدد کے عینی شاہد ہیں۔

انسانی حقوق کے کارکن ایک عرصے سے گوانتاناموبے قیدخانہ بند کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں، سابق صدر بارک حسین اوباما نے اس عقوبت کدے کو بند کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن ریپبلکن پارٹی کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا احساسِ کمتری کے مارے کمزور صدر اوباما کے لیے ممکن نہ تھا۔ ان کے بعد آنے والے صدر ٹرمپ نے ایک صدارتی حکم کے ذریعے انسانیت کے ماتھے پر کلنک کے اس ٹیکے کو غیر معینہ مدت تک کے لیے دوام بخش دیا۔

صدر بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران گوانتانامو بند کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ان کے حلف اٹھانے کے دو ماہ بعد سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے انصاف کے سربراہ ڈک ڈربن (Dick Durbin) سمیت 24 سینیٹروں نے ایک خط میں گوانتانامو کو لاقانونیت اور تشدد کی علامت قرار دیتے ہوئے اسے فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ خط میں کہا گیا تھا کہ ”گوانتانامو نے امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچایا، مسلم مخالف تعصب کو ہوا دی اور ملک کو کمزور کیا“۔ ہم نے فاضل امریکی سینیٹروں کے ارشادات ہی کو سرنامہ کلام بنایا ہے۔ خط کی وصولی پر صدر بائیڈن کی ترجمان محترمہ جین ساکی نے کہا تھا کہ امریکی صدر کیوبا کے امریکی اڈے گوانتانامو میں قائم جیل خانے کو بند کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ بندش مرحلہ وار ہوگی اور صدر جوبائیڈن اپنی مدتِ صدارت ختم ہونے سے پہلے اس جیل خانے کو تالا لگادینا چاہتے ہیں۔

یہ قیدخانہ لاقانونیت کا شاہکار تو ہے ہی، بحر غرب الہند یا کیریبین (Caribbean) میں واقع اس جزیرے پر امریکی عمل داری بھی زور زبردستی کی ایک مثال ہے۔ امریکہ نے 1898ء میں پورتوریکو، فلپائن اور گوام کے ساتھ کیوبا پر قبضہ کرلیا جسے 1902ء میں آزادی دے دی گئی۔ اس کے ایک سال بعد امریکہ کے صدر تھیوڈور روزویلٹ نے یک طرفہ معاہدے کے تحت خلیج گوانتانامو میں واقع 45مربع کلومیٹر کا جزیرہ دو ہزار ڈالر سالانہ کرائے پر لے کر یہاں امریکی بحریہ کا اڈہ قائم کردیا۔ کیوبا کے لوگوں کو اس معاہدے پر سخت اعتراض تھا مگر وہ امریکہ کے ہاتھوں ہسپانویوں کی شکست کے عبرت انگیز مناظر دیکھ چکے تھے، لہٰذا انھوں نے خاموشی ہی میں عافیت جانی۔ کیوبا کا وزیراعظم بنتے ہی 1959ء میں فیڈل کاسترو نے اس لیز کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر 1903ء کے معاہدے کو جائر قرار دے دیا جائے تب بھی قانونِ کرایہ داری کے تحت واشنگٹن اپنے حق سے محروم ہوچکا ہے کہ اس نے گزشتہ 56 سال سے کرایہ ادا نہیں کیا۔ اور اس کے ساتھ ہی جزیرے کو تازہ پانی کی فراہمی بند کردی گئی۔ امریکہ نے کاسترو کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ کرائے کا چیک باقاعدگی سے ہوانا (دارالحکومت) روانہ کیا جارہا ہے، یہ اور بات کہ کیوبا کی حکومت نے امریکی حکومت کا کوئی چیک اب تک بھنایا نہیں۔ میٹھے پانی کے لیے امریکی بحریہ نے جزیرے پر کنویں کھود لیے۔ کیوبا نے قہر درویش بر جان درویش کے مصداق خاموش رہنے ہی میں عافیت جانی۔

اکتوبر 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد القاعدہ اور طالبان کے قیدیوں کو رکھنے کا مسئلہ درپیش ہوا۔ قیدیوں کو امریکہ لانے کی صورت میں یہ لوگ امریکی سول عدالتوں سے رجوع کرسکتے تھے اور بش انتظامیہ کو خوف تھا کہ ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی بنا پر اکثر قیدیوں کو امریکی عدالت ضمانت پر رہا کردے گی۔ چنانچہ انھیں جنگی قیدی قرار دے کر ان کے لیے گوانتانامو میں قیدخانہ تعمیر کردیا گیا۔ انسانی حقوق کے کارکنان اسے قید خانے سے زیادہ عقوبت کدہ قرار دیتے ہیں جہاں قیدیوں پر دن رات انسانیت سوز تشدد کیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں قیدیوں پر جو گزرتی ہے وہ اپنی جگہ، یہاں مامور سپاہیوں اور محافظین کی بڑی تعداد بھی یہ مناظر دیکھ کر نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوگئی ہے۔ اوباما انتظامیہ کے اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر کا خیال تھا کہ ملزمان کے خلاف ایسا مواد موجود نہیں جس کے مطابق فردِ جرم تیار کی جاسکے۔ بے پناہ تشدد کے باوجود کسی بھی قیدی سے وہ معلومات نہیں حاصل ہوسکیں جو عدالت میں پیش کیے جانے کے قابل ہوں۔ اٹارنی جنرل کا خیال تھا کہ اگر عدالت میں پیشی کے دوران ان ملزمان نے ظلم و تشدد کی روح فرسا داستان سنانی شروع کردی تو الٹا لینے کے دینے پڑسکتے ہیں۔ خالد شیخ محمد، ابو زبیدہ اور چند دوسرے لوگوں کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلانے کی اجازت دی گئی لیکن ان کے خلاف بھی تادمِ تحریر فردِ جرم تک مرتب نہ ہوسکی۔

جنوری 2002ء میں قائم ہونے والے اس قید خانے میں کُل 779 قیدی تھے۔ سالوں کی تحقیقات کے بعد یہ بات واضح ہوئی کہ دو درجن قیدیوں کے سوا تمام گرفتار لوگ یا تو طالبان اور القاعدہ کے ہمدرد تھے یا وہ طلبہ جو افغان مدارس میں تعلیم کے لیے آئے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی جنگجو یا دہشت گرد نہیں تھا۔ جنگ کے دوران ان لوگوں کی اکثریت بھاگ کر پاکستان آگئی جنھیں جنرل پرویزمشرف نے دہشت گرد قرار دے کر پانچ سے دس ہزار ڈالر کے عوض سی آئی اے کو فروخت کردیا، ACLUکا کہنا ہے کہ یہاں لائے جانے والے بدنصیبوں کی 86 فیصد تعداد کو پاکستانی فوج نے ملک کے مختلف علاقوں سے پکڑا، جبکہ صرف 5 فیصد کو افغانستان سے امریکی فوج یا سی آئی اے کے ایجنٹوں نے گرفتار کیا۔ بے پناہ تشدد کے بعد بھی کسی پر دہشت گردی کا الزام ثابت نہ ہوسکا اور چار پانچ سالوں کے دوران پاکستان میں افغانستان کے سابق سفیر ملا عبدالسلام ضعیف سمیت تقریباً تمام افغان رہا کردیے گئے۔

تادم تحریر یہاں 40 قیدی نظربند ہیں جن میں سے 26 پر مقدمے قائم کیے گئے ہیں۔ یہاں بند 5 افراد ایسے بھی ہیں جن کی بے گناہی ثابت ہوچکی لیکن ان کے حوالے سے دہشت گردی کی ایسی دیومالائی کہانیاں گھڑ کر پھیلا دی گئی ہیں کہ کوئی ملک انھیں لینے کو تیار نہیں۔

گوانتانامو اخراجات کے اعتبار سے دنیا کا سب سے مہنگا قید خانہ ہے جہاں ایک قیدی پر اوسطاً ایک کروڑ تیس لاکھ ڈالر سالانہ خرچ ہوتے ہیں۔ امریکہ کی وفاقی جیلوں کا سالانہ خرچ 32 ہزار ڈالر فی قیدی ہے۔ گوانتانامو میں سب سے کم عمر ایک تیرہ سالہ بچہ اور معمر ترین فرد 89 سال کا تھا۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران میں یہاں 6 قیدیوں نے خودکشی کی، لیکن انسانی حقوق کے کارکنوں کا خیال ہے کہ بہیمانہ تشدد نے ان لوگوں کی جانیں لیں۔ ان میں سب سے مشہور سعودی شہری یاسر طلال الظہرانی تھا جسے 16 برس کی عمر میں فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا۔ پانچ سال بعد وہ اپنے سیل میں مُردہ پایا گیا۔ امریکی فوج کی رپورٹ کے مطابق اس 21 سالہ لڑکے نے خودکشی کی تھی۔ لاش کے سعودی عرب پہنچنے پر اس کے والد طلال عبداللہ الظہرانی نے بتایا کہ ان کے بیٹے کے جسم پر ضربات اور تشدد کے گہرے نشانات تھے۔ عبداللہ الظہرانی سعودی فوج کے ایک افسر ہیں۔ گوانتانامو میں 21 قیدی 18 سال سے کم عمر یعنی بچے تھے۔

ہفتے کے دن فوجی عدالت کے پہلے فیصلے کی تفصیلات سامنے آئی ہیں جو ایک دن پہلے یعنی 18 اگست کو سنایا گیا۔ یمن میں امریکی بحریہ کے جہاز یو ایس ایس کول پر 2000ء میں ہونے والے حملے کے مبینہ سرغنہ عبدالرحیم النشیری کے مقدمے میٓں جج کرنل لینی اکوسٹا (Lanny Accosta)نے فیصلے میں لکھا کہ ”(ملزم کا) اعتراف سی آئی اے اور ایف بی آئی کے ہاتھوں برسوں کی ہولناک بدسلوکی سے داغ دار ہے۔“ فاضل جج نے مزید فرمایا ”اس طرح کے شواہد کو خارج کرنا معاشرتی قیمت کے بغیر نہیں۔ تاہم، تشدد کے ذریعے حاصل کردہ اعتراف اور ثبوتوں کی بنیاد پر ملزمان کے خلاف مقدمہ چلانے اور پھانسی دینے کی سماجی قیمت اور بھی زیادہ ہوسکتی ہے“۔ فیصلے پر ملزم کے وکیل انتھونی نتالے (Anthony Natale) نے کچھ اس طرح اطمینان کا اظہار کیا کہ ”جج نے ان اہم شواہد کو خارج کردیا جو فوجی استغاثہ النشیری کو مجرم قرار دینے کے لیے استعمال کرنے کی امید کررہا تھا۔“

جن پانچ بڑے ملزمان کو اعترافِ جرم کے عوض جاں بخشی کی پیشکش کی جارہی ہے ان میں سے بھی کسی کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود نہیں۔ فوج کے 7 نامزد مستغیثان (Prosecutors) نے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا ہے کہ انھیں یہ سارا معاملہ ناانصافی پر مبنی نظر آرہا ہے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ اگر متاثرین سزائے موت سے رعایت کی تجویز کو مسترد کردیتے ہیں تو استغاثہ کے لیے فردِ جرم عائد کرنا مشکل ہے، اور اگر عمر قید کے عوض ان لوگوں کو سزائے موت سے نجات مل جاتی ہے تو انھیں تاحیات گوانتانامو جیل میی رکھا جائے گا، گویا ہر صورت میں یہ بدنامِ زمانہ عقوبت کدہ غیر معینہ مدت تک قائم رہے گا۔

……………

اب آپ ہماری پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں