صحافت روبہ زوال ہے،انٹرویو: الطاف حسن قریشی

جنرل صیاالحق کی حکومت نے صحافیوں میں سب سے پہلے مجھے گرفتار کیا ،پنجاب سرحد اور مشرقی پاکستان کی مسلم لیگیں بھی علاقائی جماعت بن کر رہ گئی تھیں،مولانا مودودی کی پہل گرفتاری حمید نظامی کے اداریے پر عمل میں آئی تھی،ہمارے ملک میں انتخابات اور سیاست پر خوفناک اور مہلک برادری سسٹم جاری ہے،معروف دانشور ،اردو ڈائجسٹ کے مدیر الطاف حسین قریشی سے تفصیلی مکالمہ

معروف دانشور، منفرد انٹرویو نگار، وقائع نگار، کالم نویس، شاعر الطاف حسن قریشی کے تفصیلی انٹرویو کی دوسری قسط نذرِ قارئین ہے۔

سوال: عام تاثر یہ ہے کہ ایک زمانے میں صحافت مشن کا درجہ رکھتی تھی، مگر اب زیادہ تر کاروبار کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے اور اس کا مثبت کردار کم نظر آتا ہے۔ آپ اس صورتِ حال کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

الطاف حسن قریشی: بلاشبہ آج کا منظرنامہ حددرجہ تکلیف دہ ہے، تاہم اس دور میں بھی باضمیر اور بلندکردار صحافی موجود ہیں۔ البتہ کثرت ایسے لوگوں کی اس شعبے پہ حاوی ہوگئی ہے جو صحافت کے نام پر طرح طرح کے کاروبار کررہے ہیں۔ اسی کے سبب قوم کی ذہنی اور اخلاقی تربیت میں بھی کمی واقع ہوئی ہے اور حکومت اور ریاستی اداروں کا مؤثر محاسبہ بھی نہیں ہورہا ہے۔ محاسبہ کرنے والوں کا اپنا کردار ہی اچھا نہ ہو اور وہ خود اعتمادی کے جوہر سے محروم ہوں، تو پورا نظامِ زندگی ضعف کا شکار ہوجاتا ہے۔ کہاں ہم نے مولانا حسرت موہانی کا عظیم کردار دیکھا، مولانا محمد علی جوہر کی برطانوی فسطائیت کو للکارتی تحریریں پڑھیں، اور تقریر میں آغا شورش کاشمیری کی صحافتی عظمت کے جلوے دیکھے، کہاں حمید نظامی اور روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین جیسے بڑے بڑے لوگ صحافت سے وابستہ رہے جنھوں نے قومی تعمیر اور ملّی بیداری میں حیرت انگیز کردار اَدا کیا، اور کہاں اس عہد میں مولانا ظفر علی خاں، غلام رسول مہر صاحب، نسیم حجازی اور ملک نصراللہ خاں عزیزؔ ہماری صحافت کے دمکتے ستارے تھے۔

یہ بات ایک حد تک درست ہے کہ صحافت روبہ زوال ہے، لیکن اس پر ماتم کرنے کے بجائے مناسب یہ ہوگا کہ وہ باوسائل حضرات جن کو اللہ نے دردِ دل بھی عطا کیا ہے، پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں معیاری ادارے قائم کریں اور ہماری درخشندہ روایات میں اضافے کا باعث بنیں۔ ایک وقت تھا کہ جب ہر طرف فحاشی اور عریانی کا طوفان امڈا چلا آرہا تھا، تو ہم نے اللہ کا نام لے کر اردو ڈائجسٹ کا ادارہ قائم کیا جس نے مزید ادارے تخلیق کیے اور باشعور اہلِ صحافت کی ایک ٹیم تیار کی۔ یہ کام جماعتِ اسلامی بڑے پیمانے پر سرانجام دے سکتی ہے، لیکن شاید وہ فوری نوعیت کی سیاسی سرگرمیوں میں زیادہ الجھ گئی ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ اسے احساس ہی نہیں کہ میڈیا آج کے زمانے میں کتنی بڑی طاقت بن چکا ہے۔ اس طاقت ور اور رجحان ساز شعبے میں اگر مثبت عناصر بااثر نہیں ہوں گے، تو کوئی بہت بڑا قومی کردار ادا نہیں کیا جا سکے گا۔ اس کا احساس ان تمام حلقوں میں ہونا چاہیے جو پاکستان سے محبت کرتے اور اسلام کے ساتھ سچی وابستگی رکھتے ہیں۔ انھیں مل جل کر میڈیا کے شعبے میں صحت مند روایات قائم کرنے کی حکمتِ عملی اختیار کرنا ہوگی۔

سوال: پاکستان کی صحافت میں کاروباری رنگ بھرنے میں کن اشخاص نے مرکزی کردار ادا کیا ہے؟

الطاف حسن قریشی: ایسے ادارے اب انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں جو آج بھی صحافت کو ایک مقدس مشن سمجھتے ہیں، جبکہ زیادہ کاروباری ذہنیت کی نذر ہوگئے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ یہ عیب اب ہنر تصور ہونے لگا ہے۔ غلط ذرائع سے چلنے والے اپنے وسیع و عریض کاروبار کو احتساب کی گرفت سے بچانے اور اقتدار میں اثر رسوخ بڑھانے کے لیے اخبارات نکل رہے اور ٹی وی چینل کھل رہے ہیں۔ سوشل میڈیا نے حقیقی بیداری پیدا کرنے سے زیادہ بلیک میلنگ کے نئے نئے طریقے ایجاد کرلیے ہیں۔

سوال: ماضی میں صحافت پر جو پابندیاں لگتی رہیں، ان میں صحافیوں کا اپنا کتنا عمل دخل رہا؟

الطاف حسن قریشی: صحافت میں مسابقت کی چپقلش تو ہر زمانے میں رہی ہے۔ جب روزنامہ ’’کوہستان‘‘ بند ہوا، تو روزنامہ ’’مشرق‘‘ نے اس کا فائدہ اٹھایا۔ اسی طرح روزنامہ ’’انقلاب‘‘ پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرنے والے خود بڑے بڑے صحافی تھے۔ ان میں جناب حمید نظامی مرحوم بھی تھے جن کا ہم سب احترام کرتے ہیں۔ وہ اپنے سیاسی نظریات میں بڑے سخت اور بےلچک تھے۔ مولانا مودودیؒ کی پہلی گرفتاری اُنہی کے اداریے پر عمل میں آئی تھی۔ اس کے بعد معروف روزنامے ’’سول اور ملٹری گزٹ‘‘ سے بھی ایڈیٹروں کا معاندانہ سلوک جاری رہا۔ ہمارے بڑے نام ور صحافیوں نے ان کی بندش کے لیے ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا۔ ہماری تنظیمیں اخباری مالکان کی بھی ہیں اور صحافیوں کی بھی۔ وہ بعض اوقات آزادیِ صحافت پر اسٹینڈ لیتی ہیں اور زیادہ تر آپس کی داخلی کشاکش کے باعث مفادات کا شکار ہوجاتی ہیں۔

سوال: آپ کی صحافت کا آغاز’’ اردو ڈائجسٹ ‘‘سے ہوا؟

الطاف حسن قریشی: جی ہاں! نومبر 1960 ء میں’’ اردو ڈائجسٹ ‘‘کا لاہور سے پہلا شمارہ شائع ہوا۔اس کے بعد ہم نےاگست 1969ء میں ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ لاہور سے نکالا اور پھر مارچ 1970ء میں روزنامہ ’’جسارت‘‘ ملتان سے جاری کیا اور جماعتِ اسلامی کے زیر انتظام4 1اگست 1970ء سے کراچی سے بھی شائع ہونے لگا۔

سوال: ’’اردو ڈائجسٹ‘‘میں فحاشی تھی نہ سنسنی خیزی، اس کے باوجود اس کی اشاعت بعض موقعوں پر ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی تھی۔ اس کے بعض ناقدین کی تحریروں سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ اس میں فوج کی کچھ زیادہ ہی تعریف کی جاتی تھی۔ کیا یہ آپ کی کوئی شعوری کوشش تھی؟

الطاف حسن قریشی: نہیں، پاکستان کی فوج کے تذکرے تو ستمبر 1965ء کی جنگ سے شروع ہوئے۔ اس میں قوم اور فوج نے جن عظیم الشان جذبوں اور قربانیوں کا مظاہرہ کیا، اسے دیکھتے ہوئے انھیں طاقت ور بنانا ضروری تھا۔ مَیں جنگ کے دوران اور اس کے بعد بھی ہر محاذ پر گیا اور ناقابلِ فراموش داستانیں رقم کرتا رہا۔ اس پر فسطائی سوچ کے حامل اہلِ قلم نے اپنی بوکھلاہٹ دور کرنے کے لیے ہمیں فوج سے منسوب کرنے کی شرانگیز کوششیں جاری رکھیں۔ مجھے افسوس ہوتا رہا کہ بھلے لوگ بھی سادگی میں ان کے ہم نوا بن گئے تھے۔

سوال: یہ لابی اس نوع کا پروپیگنڈا بھی کرتی رہی کہ جنرل ضیاء الحق ’اردو ڈائجسٹ‘ کو بہت نوازتے رہے۔

الطاف حسن قریشی: بڑے افسوس کی بات ہے کہ بھارت نواز لابی کے فرستادے آج بھی جان بوجھ کر غلط بیانی کرتے، بہتان لگاتے اور جھوٹ کو امر واقع کے طور پر بار بار دہراتے رہتے ہیں۔ ایک دنیا جانتی ہے کہ جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے صحافیوں میں سب سے پہلے مجھے گرفتار کیا تھا اور کئی مہینے جیل میں ڈالے رکھا تھا۔ جو لوگ ہم پر بہتان لگاتے ہیں، وہ قوم کو پوری بات نہیں بتاتے۔

ہم دونوں بھائی سب سے پہلے سول چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے زمانے میں گرفتار کیے گئے۔ پھر مجھے جنرل ضیاء الحق نے حوالۂ زنداں کیا۔ وجہ یہ تھی کہ میں نے لکھا تھا کہ ’’آپ جن مقاصد کا پرچار کررہے ہیں، آپ کا عمل ان سے بالکل مختلف ہے، ہمیں کیسے یقین آئے کہ آپ وہ سب کچھ کر گزریں گے جس کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔‘‘ یہ بات میں نے ان کے اقتدار کے ابتدائی زمانے ہی میں لکھ دی، چنانچہ 20؍اکتوبر 1977ء رات دو بجے میری گرفتاری عمل میں آئی۔ میں نے ستمبر 1977ء میں جنرل ضیاء صاحب کا انٹرویو لیا اور اکتوبر میں مارشل کے ضابطے کے تحت مجھے حوالۂ زنداں کردیا گیا جہاں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، نواب محمد احمد خاں کے قتل کے مقدمے میں قید تھے۔

غالباً کچھ لوگوں نے جنرل صاحب کو بھڑکایا تھا کہ الطاف نے اُن کا بے باکانہ انٹرویو شائع کرکے، اُن کا امیج خراب کیا ہے۔ اس سے قبل ایک واقعہ یہ پیش آچکا تھا کہ انٹرویو چھپنے کے بعد جب میں ان کے ایک مشاورتی اجلاس میں شریک ہوا جس میں اعلیٰ فوجی افسران کے علاوہ چند سویلین بھی موجود تھے، وہاں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ مارشل لا کی نرمی سے شرپسند عناصر بہت فائدہ اٹھا رہے ہیں، اس لیے ہمیں سخت قدم اٹھانا ہوں گے۔ میں نے اس مجلس کی شانِ نزول کو بھانپتے ہوئے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر سے مخاطب ہوتے ہوئے پوچھا: ’’جنرل صاحب! کیا آپ انتخابات ملتوی کرنا چاہتے ہیں؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: ’’قومی حلقے، انتخابات سے پہلے احتساب کا مطالبہ کررہے ہیں اور ہم بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہیں۔‘‘ میں نے کہا: ’’قوم سے جو وعدہ کیا ہے، اس کی خلاف ورزی کسی طور مناسب نہیں اور آپ کے لیے بہتر یہی ہوگا کہ نتائج سے بالاتر ہوکر انتخابات منعقد کیے جائیں۔‘‘ یہ گفتگو بھی فوجی قیادت کو غصہ دلانے کا باعث بنی۔ یاد رہے کہ ’’انتخاب سے پہلے احتساب‘‘ جناب خان عبدالولی خان صاحب کی پارٹی کا نعرہ تھا۔

اُس وقت مارشل لا کی بڑی دہشت تھی۔ اس کے باوجود میں نے یہ بات ان کے منہ پر کہی بھی اور اس وقت لکھی بھی کہ آپ جو کچھ اہداف بتا رہے ہیں، آپ کے سارے اقدامات ان کے برعکس ہیں۔ دکھ کی بات یہ کہ کہنے والے، پڑھے بغیر کہتے اور جان بوجھ کر دروغ گوئی سے کام لیتے رہے۔

اب ہمارے بعض ’’کرم فرمائوں‘‘ نے اپنے قبیلے کی اس دروغ گوئی کا اعتراف بھی کرنا شروع کردیا ہے۔ دو تین برس پہلے وجاہت مسعود صاحب نے مضمون لکھا [31؍دسمبر 2019ء] کہ ’’الطاف حسن قریشی نے مضامین کا وہ سلسلہ [محبت کا زم زم بہہ رہا ہے] 1971ء میں نہیں، 1966ء میں لکھا تھا جب شیخ مجیب الرحمٰن نے چھ نکات پیش کیے تھے۔ 1966ء اور 1971ء میں پانچ برس کا فاصلہ ہمارے مہربانوں نے دریا برد کردیا تھا۔‘‘ یہ بڑا المیہ ہے کہ جو اپنے آپ کو دانشور، روشن خیال، پڑھا لکھا اور باخبر کہتے ہیں، وہ پڑھے بغیر تنقید کرتے ہیں اور کیسے کیسے عجیب الخلقت بہتان گھڑ لیتے ہیں۔ کاش! ہمارے روشن خیال احباب ایک تعمیری روش اختیار کرلینے کی عادت اپنانے کی طرف راغب ہوں۔

سوال:کیا وجہ ہے کہ ہماری صحافت بحیثیت مجموعی سانحہ مشرقی پاکستان کی پیش گوئی، تعبیر یا ہوشیار باش ہونے کی پکار نہیں دے سکی؟

الطاف حسن قریشی: یہ کہنا درست نہیں کہ سارے اخبارات اور رسائل اور تمام اخبار نویسوں نے اس کی طرف توجہ نہیں دی۔ میرا سلسلہ مضامین ’’محبت کا زم زم بہہ رہا ہے‘‘ 1966ء میں شائع ہوا جس میں ان تمام بڑے مسائل کا، جو مشرقی پاکستان میں زلزلہ فگن تھے، ایک ایک کرکے احاطہ کیا گیا تھا۔ پھر آخری دو قسطوں میں تعین کے ساتھ ان کے قابلِ عمل حل بھی تجویز کیے گئے تھے، لہٰذا یہ بات کہنا غلط ہوگا کہ صحافت نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ روزنامہ ’’ڈان‘‘ تواتر سے خبریں اور تجزیے شائع کرتا رہا۔ ’’پاکستان آبزرور‘‘ تو سراپا شکایت بنا ہوا تھا۔ روزنامہ ’’حریت‘‘ نے بھی تعمیری کردار اَدا کیا۔ جریدہ ’’آؤٹ لُک‘‘ بھی آنے والے خطرات سے آگاہ کرتا رہا۔ روزنامہ ’’جسارت‘‘ ابھرنے والے بحران کی بروقت نشان دہی کرتا رہا۔ ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ تواتر کے ساتھ مشرقی پاکستان کے تجزیے شائع کرتا رہا۔ بدقسمتی سے اُس وقت مستقبل بینی اور دوراندیشی سے عاری لوگ اقتدار پر قابض تھے جن سے بہت غلط اور تباہ کن فیصلے سرزد ہوتے رہے۔

سچی بات یہ ہے کہ اعلیٰ عسکری اور سیاسی قیادت کی فاش غلطیوں اور غلط کاریوں کے باوجود مشرقی پاکستان میں پاک فوج ملکی دفاع اور حفاظت کی جنگ بڑی بہادری سے لڑتی رہی۔ وہ محض تیس یا چالیس ہزار جوانوں اور افسروں پر مشتمل تھی، لیکن بہت بڑے دشمن کے مقابلے میں ساڑھے آٹھ ماہ تک ڈٹی رہی اور بنگالیوں اور بہاریوں کی عصمتوں اور جانوں کی محافظ ثابت ہوئی۔ ایسی فداکاری کی مثال عسکری تاریخ میں ڈھونڈنا محال ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے بیشتر سیاست دان اور ہمارے فوجی حکمران یہ بنیادی بات سمجھ نہیں پائے تھے کہ صرف سیاسی جماعتیں ملک اور قوم کو متحد رکھ سکتی ہیں۔ قومی یک جہتی بیوروکریسی قائم رکھ سکتی ہے نہ فوج۔ جنرل ایوب خاں، جنھوں نے دستور پاکستان روند کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا اور 10 سال تک آمرانہ حکومت مسلط کیے رکھی تھی، ان کی کوشش یہی رہی کہ سیاسی جماعتیں مضبوط نہ ہونے پائیں، چنانچہ وہ اسی ادھیڑبن میں لگے رہے۔ ان کے بعد جنرل آغا یحییٰ خان آئے۔ انھیں سیاسی معاملات سمجھنے کا ہوش ہی نہیں تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب دسمبر 1970ء میں انتخابات کے نتائج سامنے آئے، تو سیاسی اعتبار سے یہ دونوں بازو ایک دوسرے سے جدا ہوچکے تھے۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ دو کے سوا تمام نشستوں پر کامیاب رہی، لیکن اس کا ایک بھی نمائندہ مغربی پاکستان میں جیت نہیں سکا۔ اسی طرح مغربی پاکستان میں پیپلزپارٹی اکثریت میں آئی، اس کا ایک بھی نمائندہ مشرقی پاکستان میں کامیاب نہیں ہوا تھا۔

ہمارے دوست خرم جاہ مراد (امیر جماعتِ اسلامی ڈھاکہ) جو سانحے کے وقت مشرقی پاکستان میں تھے، انھوں نے مجھ سے کہا اور اپنی خودنوشت ’لمحات‘ میں لکھا کہ ’’انتخابی نتائج کے اعتبار سے پاکستان سیاسی طور پر دو ٹکڑے ہوگیا تھا، مگر پاکستانی فوج نے جان پر کھیل کر اسے اکٹھا رکھنے کی کوشش کی جس میں وہ ناکام رہی۔‘‘

7 دسمبر 1970ء کی سہ پہر مولانا مودودی ؒ سے میری چند صحافیوں کے ہمراہ اُن کی رہائش گاہ پر ملاقات ہوئی۔ ہم شہر کے مختلف پولنگ اسٹیشنوں کا جائزہ لے کر آئے تھے جہاں کسی روک ٹوک کے بغیر جعلی ووٹ بھگتائے جارہے تھے، خاص طور پر خواتین کے پولنگ اسٹیشنوں پر۔ ہم نے دیکھا کہ ویگن میں ایک سیاسی جماعت کی جواں سال خواتین ایک پولنگ اسٹیشن پر ووٹ ڈالنے کے بعد دوسرے پولنگ اسٹیشن میں دوبارہ ووٹ ڈال رہی ہیں اور یہ عمل بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ ان دنوں شناختی کارڈ بنے تھے نہ ووٹروں کی فہرستوں پر تصویریں چسپاں ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ پندرہ سولہ سال کے لڑکے بھی ووٹ ڈال رہے تھے حالانکہ ووٹر کی عمر اکیس سال تھی۔ دراصل پولنگ اسٹیشن کا عملہ بھی نظریاتی اور سیاسی طور پر تقسیم تھا۔ یہ منظر دیکھنے کے بعد صورتِ حال سے آگاہ کرنے کے لیے ہم مولانا سے ملنے گئے۔ وہ برآمدے میں کھڑے کانپ رہے تھے۔ اُنھوں نے بتایا کہ’’ہمیں مشرقی پاکستان سے جس بڑے پیمانے پر جعلی ووٹ ڈالنے کی خبریں موصول ہورہی ہیں اور مغربی پاکستان میں بھی جگہ جگہ یہی کچھ کیا جارہا ہے، دھونس دھاندلی اور جعلی ووٹنگ کے نتیجے میں علاقائی جماعتیں کامیاب ہوجائیں گی اور پھر یہ ملک اکٹھا نہیں رہ سکے گا۔‘‘

سوال: 1970ء کے انتخابی نتائج کے مطابق مشرقی اور مغربی پاکستان سیاسی طور پر جدا ہوگئے تھے۔ آپ کی نظر میں اس علیحدگی کے اسباب کیا تھے؟

الطاف حسن قریشی: ہمارے ناعاقبت اندیش حکمرانوں اور ہمارے مقتدر فوجی جرنیلوں کی مستقل کوشش یہ تھی کہ دونوں بازوؤں میں سیاسی جماعتیں مستحکم نہ ہونے پائیں، چنانچہ انہی منفی کوششوں کے نتیجے میں قومی جماعتیں مضبوط بنیادوں پر فروغ نہ پا سکیں اور اندرونی انتشار کا شکار ہوتی گئیں۔ مغربی پاکستان میں مسلم لیگ خان قیوم گروپ اور مسلم لیگ ممتاز دولتانہ گروپ کچھ سیٹیں لینے میں کامیاب رہیں، جبکہ مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ فضل القادر چودھری ایک سیٹ بھی حاصل نہیں کرسکی۔ اسی طرح پنجاب، سرحد اور مشرقی پاکستان کی مسلم لیگیں بھی علاقائی جماعت بن کے رہ گئیں۔ یہ بدقسمتی کی انتہا تھی کہ وہ پارٹی جس نے پاکستان بنایا تھا، ایک بھی نشست مشرقی پاکستان میں جیت نہیں سکی۔ اس کی بڑی وجہ فوجی قیادت کی خودغرضی اور کوتاہ اندیشی تھی۔ وہ یہ بات سمجھی ہی نہیں کہ اگر قومی جماعتیں کمزور پڑ جائیں گی، تو وطن کمزور ہوجائے گا اور فوج یا افسر شاہی اتنے عظیم الشان وطن کو اکٹھا نہیں رکھ سکیں گے۔ نظمِ مملکت کی اس بنیادی حقیقت کو خودغرض سیاست دان اور جرنیل بری طرح نظرانداز کرتے رہے، حالانکہ ہم چیختے، چلّاتے اور دُہائی دیتے رہے۔

ہر فوجی دور جو دس دس برسوں پر محیط رہا، اس میں ناقابلِ تلافی نقصان زیادہ تر سیاسی جماعتوں اور سول اداروں ہی کو پہنچتا رہا۔ وہ دور خواہ ایوب خان کا تھا یا یحییٰ خان کا، یا بعد میں ضیاء الحق اور پرویزمشرف کا، ان میں وہ قوتیں جو پاکستان کو متحد رکھ سکتی تھیں، اس قدر کمزور پڑ گئیں اور علاقائی تنظیمیں اس قدر مضبوط اور خودسر ہوتی گئیں کہ پاکستان سیاسی طور پر تقسیم ہوگیا اور بھارت نے جارحیت کا ارتکاب کرکے جغرافیائی طور پر اسے دولخت کر ڈالا۔ آج بنگلہ دیش دیکھنے میں ایک الگ ملک لگتا ہے، لیکن عملاً اس کے اقتدار اعلیٰ پر نئی دہلی کی سرکار کا قبضہ ہے۔

سوال: مشرقی پاکستان کے بحران کے یحییٰ خان، بھٹو اور اندرا گاندھی ذمے دار سمجھے جاتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مشرقی پاکستان سے غیرمنصفانہ رویّے کی ایک طویل تاریخ تھی۔ وہ 56فیصد تھے، لیکن آٹھ سے دس فیصد بمشکل فوج میں تھے اور سول سروس میں بھی ان کی نمائندگی بہت کم تھی۔ سب سے بڑا ظلم اُس وقت ہوا جب بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات ہوئے تو اکثریت حاصل کرنے کے باوجود اُن کا حقِ حکمرانی تسلیم نہیں کیا گیا۔

الطاف حسن قریشی: جنرل یحییٰ، مسٹر بھٹو اور اندرا گاندھی تینوں آخری زمانے کے کردار ہیں، لیکن بداعتمادی بہت پہلے شروع ہوچکی تھی۔ یہ واقعاتی طور پر درست ہے کہ جب پاکستان بنا، تو مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے درمیان ثقافتی، لسانی تفاوت اور اِنتظامی اور معاشی عدم توازن بہت زیادہ تھا جس کا ذمےدار پاکستان کے بجائے انگریز اور ہندو تھے۔ انگریزوں نے نواب سراج الدولہ کے سپہ سالار میر جعفر کے ساتھ سازباز کرکے مسلم بنگال پر قبضہ کرلیا تھا، مسلمانوں پر 1757ء ہی سے باعزت زندگی اور ترقی کے دروازے بند کردیے تھے۔ قیامِ پاکستان سے شروع ہونے والے دور کا ذکر الطاف گوہر نے جو ایوب خان کے بہت قریبی ساتھی تھے، اپنی یادداشتوں میں کیا ہے کہ ’’اس تفاوت، عدم توازن کو کم کرنے کے لیے بہت سے منصوبے تیار ہوئے۔ ان میں ایک منصوبہ ترقیاتی کاموں کے لیے مشرقی پاکستان کے حصے میں اضافہ کرنا تھا، چنانچہ تیسرے قومی منصوبے میں مشرقی پاکستان کے لیے مختص کردہ وسائل مغربی پاکستان سے زیادہ رکھے گئے تھے۔‘‘

انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ”میں جب کبھی مشرقی پاکستان جاتا اور وہاں کے صحافیوں سے بات کرتا اور ان کی توجہ اس جانب دلاتا کہ بہ تدریج صورتِ حال بہتر ہورہی ہے، مگر اقتصادی بدحالی یا معاشی استحصال کی جو باتیں زباں زدِ عام تھیں، ان میں حقیقت کم اور افسانہ زیادہ تھا۔ یا یوں کہیے کہ ہماری سیاست اور صحافت نے اسے بہت زیادہ افسانوی رنگ دے دیا تھا۔ خود انگریز مصنّفین نے جو کتابیں مشرقی پاکستان پر لکھی ہیں، ان میں وہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ جب پاکستان بنا تو ڈھاکہ ایک مضافاتی قصبہ تھا، کیونکہ سیاسی طاقت، وسائل، صنعت، تعلیم اور ترقی کے تمام اسباب کلکتہ میں جمع تھے کہ وہ دارالحکومت تھا۔ 1911ء سے پہلے تک کلکتہ پورے برطانوی ہند کا دارالحکومت تھا۔ وہاں یونی ورسٹی بھی بہت پہلے قائم ہوچکی تھی۔ اس کے مقابلے میں ڈھاکہ میں کوئی بڑی شاہراہ یا ایئرپورٹ بھی نہیں تھا۔

بیشتر انگریز سیّاح لکھتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد مشرقی پاکستان میں اس قدر ترقی ہوئی کہ ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ بہت اونچی اونچی عمارتیں ہم نے ڈھاکہ میں دیکھیں، اتنا خوبصورت ایئرپورٹ وہاں بنا اور کھلی سڑکیں تعمیر ہوئیں۔ وہ خاص طور پرمساجد اور تعلیمی اداروں کا ذکر کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ بڑی بڑی تعلیمی درس گاہوں اور دیگر تعمیر و ترقی اور تحقیق کے اداروں پر کام تیزی سے ہو رہے تھے۔ بدقسمتی سے وہ منفی طاقتیں جو پاکستان کے دونوں حصوں کو ایک دوسرے کے قریب آتے دیکھنا پسند نہیں کرتی تھیں، ان کی ایک لابی وجود میں آگئی جس میں ہمارے اندر سے بھی خاصےلوگ بِلا سوچے سمجھے شامل ہوگئے تھے۔“

الطاف گوہر نے مزید یہ بھی لکھا کہ ”پاکستان بننے کے دو، چار، پانچ برسوں میں ایک اسکیم بنی کہ جو لوگ بنگالی سیکھیں گے، مغربی پاکستان میں انھیں ترقی جلد ملے گی اور وظیفہ بھی دیا جائے گا۔ اسی طرح مشرقی پاکستان میں جو لوگ اردو سیکھیں گے انھیں ترقی ملے گی، اگر وہ کسی سرکاری ادارے میں ملازم ہیں تو انھیں معقول وظیفہ بھی ملے گا۔ ایک بازو سے دوسرے بازو میں جانے کے لیے یونی ورسٹیوں میں طلبہ کا آنا جانا بھی شروع ہوگیا تھا۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگ ڈھاکہ یونی ورسٹی سے تعلیم حاصل کرکے آئے تھے۔ بہرحال، ایک اچھا سلسلہ شروع ہوچکا تھا، لیکن بعد میں جنرل ایوب خان ہی کے زمانے میں ایسے لوگ بااختیار بنادیے گئے جو انتظامی علیحدگی کا باعث بنے۔ ان میں مشرقی پاکستان میں تعینات گورنر، لیفٹیننٹ جنرل اعظم خان بھی تھے۔ انھوں نے وہاں بہت جلد عوامی مقبولیت حاصل کرلی تھی۔ وہ ان میں گھل مل جاتے اور ان کے مزاج کے مطابق بات کرتے تھے۔ انھوں نے عوام کے اندر مقبولیت حاصل کرنے کے لیے یہ نعرہ ایجاد کیا کہ صرف ’’سن آف دی سوائل‘‘ مشرقی پاکستان میں حکومت کرنے اور یونی ورسٹیاں چلانے کے حق دار ہیں، چنانچہ قومی سطح پر یہ فیصلہ ہوا کہ مغربی پاکستان سے افسر مشرقی پاکستان نہیں آئیں گے اور مشرقی پاکستان کے افسر مغربی پاکستان نہیں جائیں گے۔ یوں انتظامی تقسیم 1962ء ہی میں مکمل ہوگئی تھی۔‘‘

1962ء سے دونوں بازوؤں میں ہماری انتظامیہ ایک دوسرے سے کٹ گئی۔ پہلے مغربی پاکستان کے افسر مشرقی پاکستان آتے، وہاں کے حالات سے واقف ہوتے۔ عوام ان کا نقطۂ نظر بھی سمجھتے اور اپنی فائلوں میں ان کا اندراج کرتے اور صحیح فیصلوں تک پہنچتے تھے، مگر ہمارے لیفٹیننٹ جنرل اعظم خان کی حکمتِ عملی سے مشرقی پاکستان میں وہ سلسلہ ہی بند ہوگیا۔ یہی پالیسی گورنر منعم خان کے زمانے میں جاری رہی۔ اسی کوتاہ نظری کے نتیجے میں تقسیم در تقسیم کا عمل قدم بہ قدم آگے بڑھتا گیا جو 1970ء میں سیاسی دھماکے اور 1971ء میں سقوطِ ڈھاکہ کی بدترین صورت میں سامنے آیا۔

سوال:کیا یہ بات درست ہے کہ صدر جنرل ایوب خان نے اپنے وزیر قانون سابق چیف جسٹس آف پاکستان محمد منیر کو یہ مشن سونپا تھا کہ مشرقی پاکستان کی قیادت سے علیحدگی کے بارے میں فیصلہ کن بات کی جائے؟

الطاف حسن قریشی:جی ہاں! جب جنرل ایوب خان نے ’بنیادی جمہوریتوں‘ کی بنیاد پر قومی اسمبلی کے 1962ء میں انتخابات کرائے، تو وہاں سے ایسے لوگ بھی منتخب ہوکر آئے جو بڑے منہ زور خطیب اور ایجی ٹیٹر تھے۔ ان میں مولوی فرید احمد پیش پیش تھے۔ وہ اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے اکثر کہتے کہ 1962ء کا آئین ’’برابری‘‘ (Parity) کی بنیاد پربنا ہے۔ اس میں اس امر کی ضمانت دی گئی ہے کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کو ہر شعبے میں مساوی نمائندگی اور مساوی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ پھر گرج دار آواز میں کہتے: وہ برابری کہیں دکھائی نہیں دیتی، ہمیں ایک ٹائم فریم دیا جائے اور خلا جلد سے جلد پُر کیا جائے۔ ان کی تقریر کے بعد دوسرے بنگالی اراکین بھی خوب شور مچاتے۔ اعداد و شمار کا طوفان آئے دن اٹھتا رہتا کہ آپ کے اتنے سیکرٹری مغربی پاکستان سے ہیں جبکہ ہمارے ایک تہائی بھی نہیں۔ چیخ چیخ کر یہ بتایا جاتا کہ فوج میں ہماری یہ پوزیشن ہے، سول سروس میں ہمارا یہ حصہ ہے، یونی ورسٹیوں کی سطح پر یہ فرق ہے۔ مقررین ثابت کرتے کہ مغربی پاکستان نے ہمارے حق پر ڈاکا ڈال رکھا ہے اور آپ دونوں بازوؤں میں پایا جانے والا ہولناک فرق ختم کرنے کے لیے کوئی قابلِ اعتماد منصوبہ سازی بھی نہیں کررہے ہیں۔

اس چخ چخ سے صدر ایوب خان سخت پریشان اور نالاں تھے کہ دنیا بھر میں ہماری بڑی رسوائی ہورہی ہے۔ سابق چیف جسٹس محمد منیر اُن دنوں وزیرِ قانون تھے۔ وہ اپنی خودنوشت ’جناح سے ضیاء‘ میں لکھتے ہیں کہ میں نے صدر ایوب صاحب سے اس مسئلے کا کوئی حل تلاش کرنے کے لیے کہا۔ اُنھوں نے مشورہ دیا کہ بنگالیوں سے صاف صاف بات کی جائے۔ اس ہدایت کے مطابق اُنھوں نے بنگالی لیڈروں کے سامنے مسئلہ اٹھا دیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں نے مشرقی پاکستان کے ایک بااثر وزیر سے کہا کہ ’’آپ الگ ہوجائیں یا ڈھیلی ڈھالی کنفیڈریشن بنا لی جائے۔‘‘ مشرقی پاکستان کے اس لیڈر نے کہا ’’آپ یہ کیا بات کررہے ہیں؟ اکثریت میں تو ہم ہیں۔ اگر آپ علیحدہ ہونا چاہتے ہو تو ہوجائو، ہم تو پاکستان کی ریاست کو قائم رکھیں گے۔‘‘

اس زمانے میں خواجہ ناظم الدین کونسل مسلم لیگ کے صدر تھے۔ ان کی طرف سے ایک بیان شائع ہوا کہ ’’مجھے امریکی سفیر نے ملاقات میں یہ پیش کش کی ہے کہ اگر آپ علیحدہ ہونا چاہیں، تو ہم اس میں آپ کی مدد کرسکتے ہیں‘‘۔ ان کی رائے میں امریکہ، مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں اہم کردار ادا کرنے پر تلا ہوا ہے، اس لیے ہمیں اپنی غلط فہمیوں کو دور کرنے پر پوری توجہ دینی چاہیے۔

سوال:1971ء کے دوران مشرقی پاکستان میں ’’البدر‘‘ تنظیم کا کیا پس منظر تھا؟ آپ کی رائے میں اس کا قیام درست تھا یا غلط؟

الطاف حسن قریشی: اُس زمانے میں مشرقی پاکستان میں میجر جنرل رائو فرمان علی گورنر کے فوجی مشیر اور اسلامی فکر کے حامل اعلیٰ فوجی افسر تھے۔ ’مکتی باہنی‘ جو درحقیقت بھارت کی پشت پناہی میں قائم ہوئی تھی، پاکستان کی سالمیت کو شدید نقصان پہنچا رہی تھی۔ ان خطرناک حالات میں رضاکاروں کی ایک سویلین فورس قائم کرنے کی فوری ضرورت محسوس ہوئی جس میں محب وطن بنگالی اور بہاری شامل ہوں جو شہریوں کو تحفظ فراہم کریں۔ اس فورس کی سربراہی کے لیے مشرقی پاکستان مسلم لیگ کے صدر خواجہ خیرالدین چُنے گئے جو عوام کے اندر بڑے مقبول تھے۔ انھوں نے رضاکاروں کی تنظیم کو فعال بنانے کے لیے بڑے جتن کیے، لیکن معلوم ہوا کہ اس میں وہ عناصر بھی شامل ہوگئے ہیں جن کی ہمدردیاں ’مکتی باہنی‘ کے ساتھ ہیں۔ اس پر جنرل فرمان علی دوسرے محفوظ انتظامات پر غور کرنے پر مجبور ہوئے۔

دریں اثنا ضلع میمن سنگھ کی تحصیل جمال پور میں بلوچ رجمنٹ کے میجر ریاض حسین ملک نے ’البدر‘ قائم کی، حالانکہ ’الشمس‘ کا ایک سیٹ اپ پہلے سے موجود تھا۔ ’’البدر‘‘ میں پوری طرح اسلامی چھاترو شنگھو (اسلامی جمعیت طلبہ) کے جاں نثار نوجوان شامل تھے۔ اس تنظیم نے عوام کی خدمت، پاکستان کی حفاظت اور امن کی بحالی میں قابلِ ذکر خدمات سرانجام دیں۔ کرنل صدیق سالک اور میجر جنرل رائو فرمان علی اس تنظیم کی بڑی تعریف کرتے تھے کہ اس سے وابستہ افراد نے اسلامی اخلاقیات کا پورا پورا خیال رکھا، بڑی جاں نثاری سے عوام کو ظلم سے بچانے اور ملک کو محفوظ رکھنے کا قومی فریضہ ادا کیا اور ناقابلِ فراموش قربانیوں کی لازوال روایات قائم کیں، تاہم ان کے خلاف بدنیتی سے یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا کہ انھوں نے بنگالیوں کا قتلِ عام کیا تھا۔ درحقیقت ’البدر‘ سے کسی نوع کی زیادتی یا قتل و غارت گری کا رشتہ جوڑنا بدترین جھوٹ اور شرمناک بہتان کے زمرے میں آتا ہے۔

جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ ’’البدر‘‘ کا قیام غلط تھا یا درست، تو میرے خیال میں اُس وقت صورت حال ایسی تھی کہ بھارتی فوج اور بھارتی حکومت کی جانب سے پاکستان کے اندر مداخلت اور تخریبی کارروائیاں زوروں پر تھیں۔ ایک ایسے وقت میں جب وطن عزیز پر دشمن ملک حملہ آور تھا، تو اس کی آلہ کار (مکتی باہنی) کی تخریبی سرگرمیوں سے عام شہریوں کی حفاظت کے لیے ’’البدر‘‘ کا میدانِ عمل میں اترنا پوری طرح قانونی اور فطری فعل تھا۔ مَیں فوجی آپریشن کے دنوں میں دو مرتبہ مشرقی پاکستان گیا، ہر بار تین چار ہفتے قیام کیا اور فوجیوں اور شہریوں سے ملتا رہا جن میں بہاری بھی تھے اور بنگالی بھی۔ ان سب کا مجموعی تاثر یہ تھا کہ پاکستان کی سالمیت کی خاطر ’’البدر‘‘ جو قربانیاں دے رہی ہے، وہ تاریخ کے ایک روشن باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ (جاری ہے)