سابق وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کی رکاوٹیں اور چال بازیاں کام نہ آسکیں۔ بادی النظر میں وہ تنہا رہ گئے تھے۔ چناں چہ اُن کے تجویز کردہ ناموں کے برعکس علی مردان خان ڈومکی نگران وزیراعلیٰ بن ہی گئے۔ اس طرح اب بلوچستان انتہائی بری حکمرانی کے بھنور سے نکل آیا ہے۔ ان آخری ایام میں تو صوبے کا کوئی والی وارث ہی نہ رہا تھا۔ وزراء شاہی اپنے اہداف تک محدود رہی۔ بیوروکریسی نے ان کی مزید چلنے نہ دی۔ خود بیوروکریسی بھی بندر بانٹ میں حصے دار رہی ہے۔ اب تو خیر سے عدالتوں نے بھی ملازمتیں وصول کرنے اور پی ایس ڈی پی میں حصہ لینا شروع کررکھا ہے۔ دوسری صورت میں حکم امتناعی کی تلوار نکل آتی ہے۔ یاروں نے دراصل جام کمال خان کے خلاف بازی گری کرکے اچھائی کی رہی سہی امید بھی ختم کردی۔ جام کمال خان کے ہٹائے جانے کے بعد عبدالقدوس کی وزارتِ اعلیٰ کا بائیس ماہ کا دورانیہ انتہائی پستی اور گراوٹ کا رہا ہے۔ اس کے لیے وہ سردست ذمہ دار ہیں جو خود کو امانت، دیانت، انتظام اور نظم و ضبط کی معراج پر باور کراتے نہیں تھکتے۔ عبدالقدوس بزنجو ایک آلہ تھے جس سے محض معاملات اور فائلوں کی توثیق کا کام لیا جاتا تھا۔
خیر بات نگران وزیراعلیٰ کے تقرر کی کرتے ہیں۔ یہاں سرکاری جماعت بلوچستان عوامی پارٹی تقسیم تھی۔ ایک دھڑا جس کی کمان جام کمال خان کے ہاتھ میں ہے، اپنے نامزد شخص کو اس عہدے پر لانے کے جتن کررہا تھا۔ ان کا پلڑا بھاری تب ہوا جب وفاق میں نگران حکومت کا بندوبست موافق طور پر ہوا۔ انوارالحق کاکڑ نے 14اگست2023ء کو نگران وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا تو چیزیں روشن ہونا شروع ہوئیں۔ ظاہر ہے دیدہ و نادیدہ قوتوں نے عبدالقدوس بزنجو کے برخلاف فیصلہ کررکھا تھا۔ عبدالقدوس بزنجو نے کسی کا مشورہ سننا گوارا نہ کیا تھا، اگر کسی حد تک موافقت تھی تو وہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے ساتھ تھی۔ اس بنا پر عبدالقدوس بزنجو کے رشتے دار نصیر بزنجو کے ساتھ بی این پی کے حمل کلمتی کا نام بھی گھوم رہا تھا۔ پیپلز پارٹی وفاق میں نظرانداز ہوئی۔ عبدالقدوس بزنجو تنہا ہوئے تو انہوں نے حمل کلمتی کے بجائے آصف علی زرداری کے آدمی میر علی حسن زہری کا نام بھی پیش کردیا۔ یہ دراصل آصف علی زرداری کو بلوچستان کی کشمکش میں داخل کرنے کی لاحاصل کوشش تھی۔ دوئم آصف علی زرداری سے ماند پڑے تعلق کو پھر سے بڑھاوا دینے کی اپنی سی ترکیب تھی۔ میر علی حسن زہری نیک نام آدمی نہیں ہیں۔ یہ پہلے علی حسن بروہی کے نام سے جانے جاتے تھے۔ کراچی اور سندھ کے اخبارات میں ان کے ’’کارنامے‘‘ چھپتے رہے۔ زمینوں پر قبضے کے حوالے سے یہ بدنام ہیں ۔ کئی مقدمات بھی درج ہیں۔ آصف زرداری اور ان کے والد حاکم علی زرداری کے ساتھ بھی رہے۔ پھر آصف زرداری کے ساتھ اختلافات پیدا ہوئے تو بھاگ کر بلوچستان آگئے۔ یہاں نواب ثناء اللہ زہری اور عبدالقادر زہری کے قریب آگئے۔ دو تین سال قبل دوبارہ صلح ہوئی اور پیپلز پارٹی حب کے صدر بن گئے۔ علی حسن کی اہلیہ ثمینہ ممتاز بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر بلوچستان سے سینیٹ کی رکن ہیں، پارٹی کی نائب صدر بھی ہیں۔ ثمینہ ممتاز کا تعلق سندھ سے ہے۔ انہوں نے سینیٹ کا الیکشن لڑنے سے پہلے بلوچستان میں بحیثیت ووٹر اپنا اندراج کرایا۔اس بنیاد پر اُن کے خلاف بلوچستان ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی گئی ہے جس میں یہ بھی الزام عائد کیا گیا ہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کی چیئرپرسن کی حیثیت سے اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے ثمینہ ممتاز نے اپنے شوہر کے مقدمات کراچی اور سندھ سے اسلام آباد منتقل کرائے۔ کہا جاتا ہے کہ علی حسن نے کراچی میں عبدالقدوس بزنجو کو بنگلہ دلایا ہے۔ عبدالقدوس بزنجو کراچی میں تھے، پھر اسلام آباد گئے اور وہیں سے اپنے پتے کھیلتے رہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے اُن کے حلقے کے لوگ بھی غیر فعال دکھائی دیئے۔ عبدالقدوس بزنجو نے اپنے اتحادیوں اسد بلوچ اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کو بھی اعتماد میں نہ لیا تھا، البتہ عوامی نیشنل پارٹی سے شاید رائے لی ہو، کیوں کہ عوامی نیشنل پارٹی کے انجینئر زمرک خان اچکزئی ان کی طرف سے پارلیمانی کمیٹی کے ممبر تھے۔ اس کمیٹی میں سردار عبدالرحمان کھیتران اور خود عبدالقدوس بزنجو نے اپنا نام شامل کرایا تھا۔
عبدالقدوس بزنجو نے اسلام آباد میں خلوت اختیار کررکھی تھی۔ قائد حزبِ اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ مشاورت کے لیے خود اسلام آباد گئے۔ ایک بار ملاقات ہوئی، پھر آئینی مدت کے آخری روز رات ڈیڑھ بجے ملاقات کی، تب آئین میں دی گئی مدت رات بارہ بجے ختم ہوگئی تھی۔ بلوچستان میں حزبِ اختلاف بھی بٹ گئی تھی۔ اس کی وجہ بلوچستان نیشنل پارٹی کا دورنگی حکمت عملی تھی، جس کا جھکائو قدوس بزنجو کی طرف تھا۔ جب پارلیمانی کمیٹی کے لیے قائدِ حزبِ اختلاف نے اپنی جماعت کے حاجی نواز، یونس زہری اور عبدالواحد صدیقی کے نام دیے، تو بی این پی کے نصیر شاہوانی اور پشتون خوا میپ کے نصراللہ زیرے نے بھی اسپیکر کو درخواست دی کہ ان کے نام کمیٹی میں شامل کیے جائیں۔ بہرحال ایسا نہ ہوسکا،کیوںکہ دستور کے مطابق قائدِ ایوان اور قائدِ حزبِ اختلاف کو پارلیمانی کمیٹی کو نام دینے ہوتے ہیں۔ اسلام آباد میں ہوا یوں کہ انوارالحق کاکڑ اور جام کمال وغیرہ نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی جہاں جمعیت علمائِ اسلام نے بھی جام کمال حلقے کے نامزد کردہ میر علی مردان ڈومکی کے نام پر اتفاق کرلیا۔17اگست رات نو بجے پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس رکھا گیا جس میں حزبِ اختلاف کے نمائندوں اور قائدِ ایوان کے نمائندوں میں سے زمرک اچکزئی شریک ہوئے۔ کہاگیا کہ اجلاس اگلے روز دن دو بجے پھر ہوگا۔ یہ دن آخری تھا، یوں اجلاس کے انعقاد سے قبل ہی خبر دی گئی کہ علی مردان کے نام پر اتفاق کرلیا گیا ہے۔ یعنی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس سرے سے ہوا ہی نہیں۔ قدوس بزنجو نے بھی فیصلہ تسلیم کرلیا، البتہ کہا کہ نگران وزیراعلیٰ کی نامزدگی کے لیے اکثریتی کے بجائے پارلیمانی کمیٹی کا اتفاق ضروری تھا جو نہ ہوا، تاہم فیصلے کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کروں گا۔ قدوس بزنجو اسلام آباد میں گوشہ نشین رہے، اور کوئٹہ میں اقتدار کی منتقلی کی رسوم ادا ہوئیں۔ جوں ہی نگران وزیراعلیٰ کے لیے علی مردان ڈومکی کے نام کا اعلان ہوا، اسی روز یعنی 18 اگست کی شام کو گورنر ہائوس میں حلف برداری کا اعلان بھی ہوا۔ مغرب کے بعد ساڑھے سات بجے گورنر ہائوس میں ملک عبدالقدوس کاکڑ نے نگران وزیراعلیٰ سے حلف لیا۔ سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان عالیانی اور نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی تقریب میں شریک ہوئے۔
علی مردان ڈومکی بہرحال گم نام شخص نہیں ہیں۔ سیاسی گھرانے کے فرد ہیں۔ ضلع سبی کے علاقے لہڑی سے تعلق رکھتے ہیں۔ نواب اکبر خان بگٹی کے نواسے ہیں۔ خود ان کے والد میر حضور بخش ڈومکی پاکستان کے پہلے ایوانِ بالا کے 1972ء سے1975ء تک رکن رہے۔ بھائی میر دوستین ڈومکی 2013ء کی قومی اسمبلی کے رکن تھے۔ پھر جام کمال خان اور خالد مگسی کے ہمراہ مسلم لیگ نواز سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور ’’باپ‘‘ پارٹی میں شامل ہوگئے۔ خود علی مردان ڈومکی 2002ء سے2005ء تک تحصیل لہڑی اور بعد ازاں ضلع سبی کے ناظم رہے۔ خلاصہ یہ کہ وفاق، پنجاب اورخیبر پختون خوا کی نگران حکومتوں کی طرح بلوچستان کی نگران حکومت بھی غیر جانب دار تصور نہیں کی جاتی۔ بلوچستان کے نگران وزیراعلیٰ کی ابتدائی تعیناتیاں پیش رو کے نقش قدم پر ہیں۔ قدوس بزنجو کے لگائے گئے پرنسپل سیکریٹری عمران گچکی کا تبادلہ کرکے قدوس بزنجو ہی کے سابق پرنسپل سیکریٹری لال جان جعفر تعینات کردیے گئے۔ پیش ازیں لال جان جعفر کورس پر گئے تھے۔