ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم مبہم اصطلاحوں میں گفتگو کرنے کے بجائے صاف الفاظ میں لوگوں سے گفتگو کریں اور انہیں بتائیں کہ اسلامی انقلاب سے ہماری مراد کیا ہے، اور یہ کہ اسلامی انقلاب کے بنیادی مقاصد کیا ہوں گے؟
مسلم دنیا کے بیشتر حصوں میں ’’اسلامی انقلاب‘‘ ایک ایسی اصطلاح ہے جو لاکھوں نہیں کروڑوں مسلمانوں کے لہو کو گرما دیتی ہے، ان کے دلوں کو تڑپا دیتی ہے اور ذہنوں میں خیالات اور تصورات کا ایک طوفان اٹھا دیتی ہے۔ اس کو سنتے ہوئے کروڑوں مسلمانوں کے دلوں میں ان کی شاندار تاریخ بلکہ ماضی کا مبہم سا احساس انگڑائی لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس احساس میں ایک ایسی سچائی اور خوبصورتی کی آمیزش ہے کہ جو ان پر سحر کی کیفیت طاری کردیتی ہے۔
ایران کے انقلاب سے پہلے اسلام مخالف قوتیں کہا کرتی تھیں کہ اب اسلام کسی معاشرے کی ہیئتِ اجتماعیہ میں تبدیلی لانے کے لیے بنیادی قوتِ محرکہ نہیں بن سکتا۔ مگر ایرانی انقلاب نے یہ بات غلط ثابت کردی۔
افغانستان کے طویل جہاد اور الجزائر میں آنے والی حیران کن تبدیلی نے اس جذبے کو جس میں احساس اور خیال کا گہرا عکس بھی موجود ہے، اور بھی پختہ کردیا ہے کہ اسلام آج بھی نہ صرف یہ کہ کروڑوں مسلمانوں کے شب و روز کو بدلنے والی قوت ہے بلکہ اس میں وہ توانائی بھی موجود ہے جو مسلمانوں کو باطل قوتوں سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔
اسلامی دنیا میں اسلامی انقلاب کی اصطلاح نے ایک طویل سفر طے کیا ہے، اور اس سفر کے نتیجے میں یہ اصطلاح لاکھوں مسلمانوں کے جذبات سے نکل کر ان کے شعور میں داخل ہوگئی ہے۔
جدید دور میں اسلامی معاشرے کے قیام کے حوالے سے دنیا کے کئی خطوں میں مسلمان مفکرین نے ایک ایسا فکر انگیز لٹریچر بھی تیار کیا ہے جو اسلامی معاشرے کے خدوخال کو بڑی وضاحت سے بیان کرتا ہے۔ اس لٹریچر نے عالمگیر سطح پر جو اثرات مرتب کیے ہیں ان کو دیکھ کر اِس کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ اثرات صرف ان بڑی شخصیتوں کی فکر کا نتیجہ نہیں ہوسکتے، بلکہ اس فکرکی پرورش اور پھیلائو پر اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی سایہ فگن ہے۔ اس عظیم الشان لٹریچر پر کوئی شخص، اور خاص طور پر مجھ جیسا کم فہم اور اسلامی اصولوں سے تقریباً ناواقف اور ان پر بہت ہی کم عامل شخص کیا اضافہ کرسکتا ہے؟…
مگر میں کبھی کبھی دوسرے لوگوں اور خاص طور پر اپنے نوجوان دوستوں کے ساتھ گفتگو کے دوران محسوس کرتا ہوں کہ اُن کے ذہن میں اسلامی انقلاب کا تصور واضح نہیں ہے۔ وہ ایک ایسے ابہام کا شکار ہیں کہ جس کی وضاحت بھی محال ہے۔ انہیں جدید فکر کے پس منظر میں جب بعض سوالات کا سامنا ہوتا ہے تو ان کا یہ ابہام مزید گہرا ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس تصور کے بنیادی خدوخال کو ممکنہ حد تک ایسی وضاحت سے بیان کیا جائے کہ اس اصطلاح کے سلسلے میں کوئی ابہام پیدا نہ ہو۔ اپنے اس مضمون میں میری یہی کوشش ہوگی۔ لیکن یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ میرے یہ خیالات بنیادی طور پر میرے اپنے نہیں ہیں بلکہ یہ میرے ٹوٹے پھوٹے ادھ کچرے مطالعے کا نتیجہ ہیں۔ میں نے صرف اتنا کیا ہے کہ ان کو ایک خاص صورت دے کر ان کا اطلاق ایک نئے پس منظر میں کردیا ہے۔
ابتدا یہاں سے کرتے ہیں کہ اسلامی انقلاب آئے گا تو کیا ہوگا؟ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کون سی تبدیلیاں رونما ہوں گی؟ پہلی چیز تو یہ ہوگی کہ اقتدار اسلام پسند قوتوں کے ہاتھ میں آجائے گا۔ یہ قوتیں کیا کریں گی؟ اسلامی نظام نافذ کریں گی۔ اسلامی نظام کے خدوخال کیا ہوں گے؟ ملک میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات نافذ ہوں گے، عدل قائم ہوگا، ظلم و زیادتی کا خاتمہ ہوجائے گا، کسی کے حقوق پر کوئی ڈاکا نہیں ڈال سکے گا۔ آپ اس خاکے میں مزید تفصیلات کا اضافہ خود کرلیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب چیزیں مقصود بالذات ہیں، یا ان کا اور کوئی مقصد بھی ہے؟ یہ ایک بنیادی سوال ہے۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ ان میں سے کچھ چیزیں مقصود بالذات بھی ہیں، اس کے ساتھ ان کا دوسرا مقصد بھی ہے۔ مگر یہ بات ذرا تفصیل طلب ہے۔ بات یہ ہے کہ مذہب کی روح انسان کے بنیادی رشتوں کو مستحکم سے مستحکم تر اور خوبصورت سے خوبصورت تر بنانا ہے۔ بنیادی طور پر انسانی زندگی چند رشتوں سے عبارت ہے۔ انسان کے فکر و عمل کو انہی بنیادی رشتوں کے گرد محوِ طواف رہنا چاہیے۔
یہ بنیادی رشتے چار ہیں:
(1) انسان کا خدا سے رشتہ اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے خدا کے تمام رسولوں اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ
(2) اس کا اپنی ذات سے تعلق
(3) دوسرے انسانوں سے تعلق
(4)کائنات سے تعلق
ہم عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ ہمیں ایسا کرنے کا حکم ہے۔ مگر اس کا مقصد انسان اور خدا کے رشتے کو مستحکم بنانا ہے تاکہ انسان اپنی حقیقت یا فطرت سے زیادہ سے زیادہ قریب رہے۔ اس پس منظر میں اسلامی انقلاب کا مقصد ان بنیادی رشتوں کو مستحکم بنانا ہے۔ ہمارے فکر وعمل کو ان رشتوں کی کائنات کے گرد طواف کرنا چاہیے۔
اسلامی ریاست ایسا ماحول پیدا کرنے کی پابند ہوگی جو اِن رشتوں کو مستحکم کرنے میں مدد دے، اور ایسے ہر طرح کے حالات کی مزاحمت کرے گی جن سے کسی بھی درجے میں ان رشتوں کے کمزور ہوجانے کا اندیشہ لاحق ہوگا۔ اسلامی معاشرے اور ریاست پر غور کرتے ہوئے یہ خیال اکثر ذہن میں آتا ہے کہ آخر وہ کون سا آئیڈیل ہوگا جس کے حصول کے لیے کوئی اسلامی معاشرہ اجتماعی طور پر کوشش کرے گا؟
میری رائے میں متذکرہ بالا رشتے ہی وہ اعلیٰ ترین آئیڈیل ہیں جن کے لیے کسی اسلامی ریاست کو جدوجہد کرنی چاہیے۔ یعنی واضح الفاظ میں اسلامی معاشرے کی آئیڈیل جاپان کی طرح کی سائنسی اور تکنیکی ترقی یا اس کی طرح کی ہر آن ترقی پر مائل معیشت، یا امریکہ کی طرح فوجی قوت بننا نہیں ہوسکتا۔
متذکرہ بالا آئیڈیل کے مقابلے میں یہ بہت پست آئیڈیل ہیں۔ مجھے احساس ہے کہ بعض لوگ اس پر معترض ہوں گے، اس لیے آیئے ہم اسلامی انقلاب کے دوسرے لیکن پہلے مقصد سے گہرے طور پر منسلک اور تقریباً اس کی طرح کی اہمیت کے حامل مقصد کی وضاحت کردیں۔
مغربی فکر نے انسانیت کو جو سب سے ہولناک نقصان پہنچایا ہے وہ یہ ہے کہ اُس نے انسانی زندگی میں حقیقتوں، خیالات، تصورات اور اشیاء کی ترتیب کو بدل کر رکھ دیا ہے، بلکہ کئی صورتوں میں الٹ کر رکھ دیا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بیشتر انسان ٹوپی کی جگہ جوتے اور جوتوں کی جگہ ٹوپی پہن رہے ہیں۔ دماغ کی جگہ پیٹ نے لے لی ہے۔ لوگ اس بات پر تقریباً ایمان لے آئے ہیں کہ دنیا میں ہمیشہ سے اشیاء اور خیالات و تصورات کی ترتیب یہی تھی، اور اگر یہ نہیں تھی تو پہلے سب کچھ غلط تھا اور اب سب کچھ درست ہے۔ ہمارا دور انسانی تاریخ کا سب سے ترقی یافتہ دور ہے، اس لیے ہم اپنے بزرگوں کے مقابلے پر زیادہ فہیم اور صاحبِ علم ہیں۔
غرض یہ کہ کون سی دستارِ فضیلت ہے جو ہم اپنے سروں پر سجائے نہیں پھرتے! اور اس دستارِ فضیلت میں سب سے اہم ہے خیالات و تصورات اور اشیاء کی وہ فہرست یا ایجنڈا جسے مغربی فکر نے تقریباً پوری دنیا میں ایک معیار بناکر رکھ دیا ہے۔ اس معیار سے صرفِ نظر کرکے زندگی گزارنے والا بے وقوف کہلاتا ہے۔ مگر آپ غور سے دیکھیں تو محسوس کریں گے کہ یہ معیار صریحاً ایک مادی انسان کا معیار ہے۔
تمام مذہبی معاشروں میں انسانی تعلقات سے لے کر زندگی کے ہر شعبے میں حفظِ مراتب کا ایک نظام موجود رہا ہے۔ اس نظام کی بقا پورے معاشرتی نظام کی بقا کے لیے ناگزیر تھی، بلکہ معاشرتی نظام سے پہلے خود وجودِ انسانی کی اصل صورت میں بقا کے لیے بھی ناگزیر تھی۔ اس نظام کی خلاف ورزی کرنے والے کے لیے یہ خطرہ موجود ہوتا تھا کہ وہ زندیق بن جائے گا۔ یہ صرف اسلام ہی کی خاصیت نہیں تھی بلکہ دنیا کے تمام بڑے مذاہب کی تعلیمات میں یہ تصورات کارفرما تھے۔ یہ اور بات ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ مذاہب مسخ ہوتے گئے جس کے نتیجے میں یہ تمام تصورات بھی یا تو فنا ہوگئے یا ان مذاہب کی دیگر تعلیمات کی طرح مسخ ہوگئے۔
یہ صرف مغرب کی جدید تہذیب ہے جس نے مذہب کو مسترد کرتے ہوئے ایک ایسا معاشرتی نظام اور ایک ایسا انسان پیدا کرنے کی کوشش کی جو تاریخ میں ایک بالکل علیحدہ نظام اور انسان کی حیثیت رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر تمام مذہبی معاشروں میں انسانوں کی درجہ بندی اس طرح ہوتی تھی:
(1) پیغمبر
(2) ان کی تعلیمات کے ورثاء اور انسان کی روحانی جہت میں کوشش کرنے والے لوگ
(3) تخلیقی اور ذہنی کام کرنے والے لوگ
(4)دستکاری یا اس جیسے پیشوں میں کاوش کرنے والے لوگ
(5)صرف محنت کرنے والے لوگ
اس فہرست میں بیکار اور عزت سے محروم کوئی نہیں تھا۔ معاشرے میں سب کی ایک اہمیت اور مقام تھا اور اسی اعتبار سے ان کی توقیر کی جاتی تھی۔ مگر ترتیب یہی تھی اور معاشرے کے آئیڈیلز اس ترتیب کے اعتبار سے تشکیل پذیر ہوتے تھے۔ مگر مغربی فکر نے اس فہرست کو کچھ کاٹ دیا اور کچھ الٹ پلٹ کردیا، اور اب ہم خواہ زبان سے کچھ کہیں مگر عملی سطح پر مغربی بن چکے ہیں۔
ہماری مذہبیت کا یہ عالم ہے کہ ہماری شخصیتیں خانوں میں تقسیم ہوگئی ہیں۔ نماز کا الگ خانہ ہے اور مال بنانے کا الگ خانہ۔ ان دونوں میں کوئی ربط نہیں۔ ہماری کوششوں کا مرکزی نکتہ ترقی کرنا ہے، اور اب تو ہمارے درمیان ایسے لوگوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے جو ترقی کے مغربی تصورات کے خلاف بات کرنے والے کو ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والا قرار دیتی ہے اور سمجھتی ہے کہ یہ اپنی محرومی اور Frustration کی وجہ سے ایسی باتیں کررہے ہیں۔ چنانچہ اسلامی انقلاب کا ایک مقصد معاشرے میں منصفانہ، سماجی و معاشی نظام قائم کرنا ہی نہیں ہے بلکہ زندگی میں تصورات و خیالات اور اشیاء کی درجہ بندی کا وہ نظام بحال کرنا بھی ہے جو مذہبی روح کے زیادہ سے زیادہ قریب ہو۔ منصفانہ نظام کا قیام بھی ایک انقلاب ہوگا، مگر آدھا انقلاب۔ پورا انقلاب وہی ہوگا جس میں ہر چیز اپنے اصل مقام پر ہو۔ اس ترتیب کو بحال کیے بغیر آپ سچا مذہبی انسان پیدا کرنے میں (ہزار کامیابیوں کے باوجود) ناکام رہیں گے۔
یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ ہم رات دن سنت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدینؓ کی زندگی کو مثالی اور اپنے لیے نمونۂ عمل قرار دیتے رہتے ہیں مگر کاوش یہ رہتی ہے کہ کسی طرح ڈیفنس میں کوئی کوٹھی یا بنگلہ تعمیر کرلیں۔ کوئی اعلیٰ سرکاری منصب حاصل کرلیں۔ میں ایسے کئی ’’مومن‘‘ سرمایہ داروں کو بھی جانتا ہوں جو روزے نماز کے سلسلے میں جس تندہی کا مظاہرہ کرتے ہیں اسی تندہی سے اپنے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کا خون چوستے ہیں اور انکم ٹیکس بچاتے ہیں۔ یہ ایک بدترین منافقت ہے اور کسی اسلامی معاشرے میں ایک لمحے کے لیے برداشت نہیں کی جاسکتی۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اسلام جائز طریقوں سے دولت کمانے کو منع نہیں کرتا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اسلام یہ کہاں کہتا ہے کہ آپ کی زندگی کا مرکز دولت ہے، اور یہ کہ آپ اسے ہر چیز کا معیار بنالیں۔ اسلامی تصورِ زندگی میں دولت کا انکار نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ زندگی میں اس کا ایک خاص مقام اور اہمیت ہے۔ جب تک دولت اس مقام اور اس اہمیت پر رہے، ٹھیک ہے۔ لیکن اگر وہ زندگی میں اپنے حقیقی مقام اور اہمیت سے زیادہ کا مطالبہ کرے تو جائز ہونے کے باوجود ناجائز ہے۔
اصل مسئلہ دولت کے سلسلے میں داخلی رویّے کا ہے، یعنی یہ کہ آپ اسے کتنی اہمیت دیتے ہیں…؟ کیا وہ مذہب اور انسان سے زیادہ اہم ہے؟ اگر ہاں، تو وہ ایک شیطانی قوت ہے، اور اگر نہیں، تو پھر اس کی حیثیت انسانی زندگی میں ایسی سہولت کے سوا کچھ نہیں جس کی وجہ سے انسانی رشتے خوبصورتی سے ہم کنار رہتے ہیں۔ لیکن اگر وہ انسانی رشتوں کو توڑنے والی اور جوڑنے والی قوت ہو تو پھر اس پر تھوک دینا ہی مناسب ہے۔ مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ بڑے بڑے مذہب پرستوں کے یہاں دولت وجۂ افتخار اور انسانوں کو ناپنے کا پیمانہ بنی ہوئی ہے۔ اور یہ رجحان آج کے اسلامی معاشرے کے لیے نہیں، کل کے اسلامی معاشرے کے لیے بھی ایک خطرہ ہے اور اسلامی انقلاب کے قائدین کو اس صورتِ حال سے عہدہ برآ ہونا ہوگا، اور اس کام کے لیے غیرمعمولی بصیرت درکار ہوگی۔
میری رائے میں اسلامی انقلاب کے ان مقاصد کو ابھی سے اپنے لوگوں کے ذہنوں میں حکمت کے ساتھ رفتہ رفتہ راسخ کرنا ہوگا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ پوری مہم دوسرے اصولوں کے مطابق چلائیں اور جب اقتدار آپ کے پاس آجائے تو پھر آپ لوگوں سے کہیں کہ ہمارے اصل مقاصد وہ نہیں تھے، یہ ہیں۔ یقین رکھیے لوگ آپ کی بات ماننے سے انکار کردیں گے۔ یہ انسان کی گنجائش کا مسئلہ ہے۔ آپ عام لوگوں سے چار دن میں اپنا ذہن بدلنے کا مطالبہ نہیں کرسکتے۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم مبہم اصطلاحوں میں گفتگو کرنے کے بجائے صاف الفاظ میں لوگوں سے گفتگو کریں اور انہیں بتائیں کہ اسلامی انقلاب سے ہماری مراد کیا ہے، اور یہ کہ اسلامی انقلاب کے بنیادی مقاصد کیا ہوں گے؟ لوگوں کے ذہن جتنے واضح ہوں گے معاشرے اور انقلابی قوتوں کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا۔ مبہم خیالات میں انسان مختلف کیفیتوں کا شکار رہتا ہے۔ اگر کسی خاص وجہ سے اس کی ایک کیفیت زیادہ واضح ہوجائے تو اس کی زندگی کا رخ بدل جاتا ہے۔ ہمیں اپنے اوپر، اپنے پیغام کے اوپر اور مسلم عوام کے اوپر اعتبار کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کی ابتدائی تاریخ اسلامی انقلاب کے ان بنیادی مقاصد کے لیے ایک بیّن دلیل کے طور پر موجود ہے۔