نواب اکبر بگٹی نے استعفیٰ کیوں دیا تھا؟

وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تحریر کیے گئے استعفے کا متن بلوچستان کے بحران کا پس منظر سمجھنے کے لیے تاریخی دستاویز

فروری 1973ء میں نواب اکبر بگٹی بلوچستان کے وزیراعلیٰ بنادیئے گئے۔ سردار عطا اللہ مینگل کی حکومت ذوالفقار علی بھٹو نے توڑ دی۔ اس کے بعد نیشنل عوامی پارٹی (نیپ)کی قیادت جیل میں ڈال دی گئی، فوجی آپریشن شروع ہوگیا، اور بلوچوں نے افغانستان جانا شروع کردیا۔ 6ماہ کے بعد نواب بگٹی کے خلاف شدید ردعمل پیدا ہوگیا اور اُن کے لیے مشکلات شروع ہوگئیں۔ ملٹری آپریشن بلوچ علاقوں میں تیزی سے شروع ہوگیا۔ جو کچھ بھٹو کررہے تھے نواب کو اس کا علم ابتدا میں نہ تھا۔ بعد میں بھٹو اور نواب بگٹی کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہوگئے، نواب بگٹی کو اندازہ ہوگیا کہ بھٹو ان کی حکومت کی آڑ میں فوجی آپریشن کررہا ہے۔ اب نواب نے فیصلہ کرلیا کہ حکومت چھوڑ دیں گے۔ بھٹو ان کو مناتا رہا لیکن نواب اب بھٹو کے جال میں مزید پھنسنا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے تفصیل سے اپنا استعفیٰ لکھ دیا۔ بھٹو نے نواب بگٹی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ استعفیٰ نہ دیں۔ انہوں نے کراچی میں 31 دسمبر کو بگٹی صاحب کو دعوت دی، اس دعوت میں نصرت بھٹو بھی موجود تھیں۔ نواب بگٹی نے بھٹو کو زبانی بتادیا کہ وہ فیصلہ کرچکے ہیں۔ دعوت میں نواب نے لکھا ہوا استعفیٰ جیب میں رکھا ہوا تھا۔ دعوت کا دور چل رہا تھا، کھانے کے بعد نواب نے 12 بجے سے چند منٹ پہلے اپنا استعفیٰ جیب سے نکالا اور ٹھیک 12 بج کر 10 منٹ پر بھٹو کو تھمادیا اور کمرے سے نکل گئے۔ بیگم بھٹو اور بھٹو نے بڑی منت سماجت کی، لیکن نواب نے سلام کیا اور واپسی کی راہ لی۔ مذکورہ استعفے کا متن نذرِ قارئین ہے:

…………

’’مائی ڈیئر پرائم منسٹر! میں نے باقاعدہ طور پر اپنا رسمی استعفیٰ تو اُس وقت پیش کردیا تھا جب ہماری ملاقات کراچی میں ہوئی تھی، استعفے کے بارے میں آپ کو متعجب نہیں ہونا چاہیے تھا، کیونکہ میں آپ سے کئی بار اس کا ذکر کرچکا تھا۔ اب آپ نے استعفے کی وجہ پوچھی ہے، تو میں اس امر کی وضاحت کے لیے اپنی سی کوشش کررہا ہوں۔

میں بلوچ ہوں اور مجھے بلوچوں کے مستقبل کی فکر لاحق رہی ہے۔ برصغیر کی آزادی کا سورج طلوع ہونے والا تھا تو اُس وقت ایک نوجوان کی حیثت سے مجھے گمان تھا کہ پاکستان بلوچوں کے لیے جنت نشان ہوگا، چنانچہ میں بلوچستان کو پاکستان کا حصہ بنانے کے لیے کوشاں ہوگیا، جب کہ ریاست قلات کی اسمبلی ہمارے دوست میر غوث بخش بزنجو کی کاوشوں سے آزاد بلوچستان کے قیام کے لیے سرگرم ہوئی، مگر بلوچستان کے شاہی جرگے نے نواب جوگیزئی اور میری کوششوں سے پاکستان کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ پورے مغربی پاکستان کو ون یونٹ بنایا گیا تو میری دیرینہ خواہشات کو شدید دھچکا لگا اور بلوچوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا، اور اُن لوگوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا جو ون یونٹ کے خلاف تھے۔ بلوچوں کو دھڑکا لگا تھا کہ ان کا وجود، ان کی سرزمین اور ان کی ثقافت پنجاب کی آبادی، تعلیمی برتری، مالی وسائل، آجرانہ مہارت، بیوروکریسی اور افواج پر کنٹرول، سیاسی اقتدار، توسیع پسندی اور کثیر آبادی کی بنا پر پنجاب کو حاصل ہوجانے والے پریشر کے بوجھ تلے دب جائے گی، مٹ جائے گی، یہ وہ مشترکہ مسئلہ تھا جس کے لیے میں نے بلوچستان نیپ سے اتحاد کرلیا۔ ہماری مشترکہ جدوجہد کا چراغ مصائب و مسائل کی آندھیوں میں بھی جلتا رہا۔ بالآخر ایوب خان اور ان کے ون یونٹ کا خاتمہ ہوگیا۔ میں نے مشترکہ جدوجہد کے دوران اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا۔ ایسا اس لیے نہیں تھا کہ میں کوئی انفرادیت پسند ہوں، میرے اس رویّے کے پس منظر میں بعض وزنی دلائل اور معاملات تھے، میں نے ون یونٹ کے خلاف جدوجہد میں اپنا پورا زور اس لیے صرف کردیا کہ مجھے بلوچوں کی بہتری مقصود تھی، یہ مقصد ہرگز نہ تھا کہ نیپ کے کچھ رہنمائوں کی خواہشات کا آئینہ دار ’’جنوبی پشتونستان‘‘ قائم ہو۔ میری نیپ میں شمولیت کی وجہ خالصتاً نظریاتی تھی، کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ بلوچستان کا مستقبل ان سے وابستہ ہے، کسی اور انتظام میں نہیں۔

نیپ سے نظریاتی اختلافات کی وجہ سے اُس وقت میں نے ایک الگ لائحہ عمل اختیار کرنے کا فیصلہ کیا جب مجھے احساس ہوا کہ انتخابات میں ہماری مشترکہ کوششوں سے ہمیں ترقی پسند، خود مختار اور روبہ ترقی صوبہ بلوچستان کے لیے جو قوت حاصل ہوئی، وہ ہر محاذ پر بکھر رہی ہے۔ اقتدار کا نشہ بعض حضرات کو انتہا پسندی کی جانب دھکیل رہا تھا۔ اس کے بعد آپ اور ان کے درمیان کشیدہ تعلقات انہیں اُس راستے پر لے آئے جو کہ میرے خیال میں بلوچوں کے لیے خودکشی کے مترادف تھا۔ سیاسی شعور میں ناپختگی اور بلوچستان کے مخصوص سیاسی عوامل سے نابلد ہونے کی وجہ سے وہ سیاسی تباہی کے غار کی جانب بڑھے چلے جارہے تھے۔

اس سیاسی پس منظر میں کچھ ذاتی وجوہ کا عمل دخل بھی رہا۔ اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہمارے دوست بزنجو نے مجھ سے بھی فریب کاری سے کام لینے کی کوشش کی، میں نے درگزر سے کام لیا۔ اتنا ضرور ہوا جب انہوں نے میرے عزیز دوست صادق شہید اور میری مشترکہ مساعی کو نظرانداز کردیا تو نیپ سے میری ہمدردیوں میں فرق آگیا… میں نے ایک پریس کانفرنس میں نیپ سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ اس کے بعد میرے سابق رفیق میرے سادہ لوح بھائی کو اپنی کابینہ میں شامل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ میرے بھائی کا خیال تھا وہ بلوچوں کے لیے بالعموم اور اپنے قبیلے کے لیے بالخصوص کچھ کرسکیں گے۔ لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ میرے سابق رفیقوں کی خواہشات کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔ ان کا پہلا نشانہ میرے قبیلے کو تقسیم کرنا اور اس میں میری حیثیت کو ختم کرنا تھا۔ یہ ان کی غلط فہمی تھی۔ قبیلے نے میرا ساتھ دیا اورنیپ کے آلہ کار (میرے بھائی) کو رد کردیا۔ انہوں نے دبائو، لالچ اور سیاست سے کام لیا، مگر ناکام رہے۔ وہ میرے بھائی کو بندوقوں کی چھائوں میں ڈیرہ بگٹی لائے۔ اس حرکت سے قبیلے کے بزرگ اشتعال میں آگئے اور میری عدم موجودگی میں ہی میرے بھائی سے استعفیٰ طلب کرنے لگے۔ اس پر میرے سابق دوست میرے قبیلے، گھر بار اور بچوں کے ساتھ زیادتیوں پر اتر آئے۔

نظریاتی اور سیاسی اختلافات نے قبائلی اور ذاتی دشمنیوں کی صورت اختیار کرلی۔ اس صورتِ حال میں مَیں پاکستان واپس آیا اور کشیدگی ختم کرنے کی اپیل کی۔ آپ نے میرے اس رویّے کا خیر مقدم کیا اور مجھے گورنر بنانے کی پیش کش کردی۔ میں نے مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا پر پیش کش قبول کرلی:

(1) میں نہیں چاہتا تھا بلوچ انتہا پسند راستے پر چلیں۔ اس راہ پر چلنا ان کے لیے خودکشی کے مترادف ہوگا۔

(2) میں بلوچوں اور پٹھانوں کے مابین منافرت اور کشیدگی ختم کرنا چاہتا تھا۔

(3) بلوچستانیوں کے استحصال اور صوبے کے ذرائع و وسائل کے اپنے ہی رہنمائوں کے ہاتھوں غلط استعمال کا خاتمہ کرنا چاہتا تھا۔

(4) برسوں سے بلوچستان کے باسی جبرو استبداد کی چکی میں پس رہے تھے۔ یہ سلسلہ ان کے اپنے لیڈروں نے بھی جاری رکھا۔ اس کا خاتمہ ضروری تھا۔

(5) عدل و انصاف، راست روی اور معقولیت کا خاتمہ ہوچکا تھا۔

(6) میں چاہتا تھا ان صفات اور ضروریات کا دور دورہ ہو۔ ترقی پسند اور ترقی یافتہ بلوچستان کی تعمیر سے پہلوتہی کی جارہی تھی۔ اس صورت کا خاتمہ ضروری تھا۔

(7) بلوچوں کا اپنے منتخب رہنمائوں پر سے اعتماد ختم ہوچکا تھا، میں اس اعتماد کو بحال کرنا چاہتا تھا۔

(8) ذاتی اور قبائلی زیادتیوں کا ازالہ کرنا چاہتا تھا۔

میں نے یہ حقائق اس لیے تفصیلاً بیان کردیئے ہیں کہ آپ کو میرے استعفے کا جواز سمجھ میں آسکے۔ جب تک آپ کی تائید و حمایت حاصل رہی، میں کچھ نہ کچھ کرنے میں کامیاب ہوتا رہا۔ میں نے ذاتی اور قبائلی زیادتیوں کا ازالہ کیا۔ میں نے عوام میں احساس پیدا کیا کہ ضروری نہیں ان کے رہنما جابر اور تشدد کرنے والے ہی ہوسکتے ہیں۔ وہ غیر جانب دار اور راست رو ہوسکتے ہیں، بے جا پابندیوں سے آزاد معاشرے کی داغ بیل بھی ڈال سکتے ہیں۔ میں نے بلوچوں اور پٹھانوں کے تعلقات کو کسی حد تک خوش گوار بنایا، یہ بلوچستان کے عظیم تر مفاد میں تھا۔ میں نے صوبے میں صاف ستھری انتظامیہ قائم کی اس مشکل کے باوجود کہ ہمارے ہاں بعض لوگ عجیب و غریب روایات اور عادات کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں اور یہ مختلف سطحوں پر موجود ہیں۔ عام شہری میں تحفظ کا احساس پیدا کیا، تاہم بعض معاملات میں مَیں کامیابی سے ہم کنار ہوسکا۔

بلوچوں کا مفاد پاکستان سے وابستہ ہے۔ یہ بنیادی اصول تھا جو میں نے نیپ سے اتحاد کرتے وقت اختیار کیا۔ میں اپنے اس مؤقف پر آپ کی طرف سے ہمیشہ عدم اعتماد کا شکار رہا۔ آپ نے اس ضمن میں میری مکمل تائید نہ کی۔ میں نے محمد امین کھوسو سے درخواست کی تھی کہ اس مسئلے پر نیپ کے لیڈروں سے بات چیت کریں، مگر آپ نے انہیں ایسا کرنے سے باز رکھا۔ چند ماہ بعد میں نے دوبارہ کوشش کی۔ بات چیت آگے بڑھ رہی تھی کہ آپ نے ان سے بذاتِ خود بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے اس سے یہ تاثر لیا کہ اس اقدام کا مقصد میری کاوشوں کو کامیاب نہ ہونے دینا ہے۔ جب میں نے تیسری بار ان سے بالواسطہ طور پر رابطہ قائم کیا، تو آپ نے ان کو فوری طور پر گرفتار کرکے پنجاب بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔ اُس وقت سے آپ نے اور پنجاب کے گورنر نے اُن سے ملنے پر پابندی لگا رکھی ہے، حالانکہ وہ بلوچستان حکومت کے قیدی ہیں۔ ان لیڈروں نے وقتاً فوقتاً جیل میں بھی میری تجاویز پر ردعمل ظاہر کیا، مگر آپ کی عدم توجہی کی وجہ سے بات پروان نہ چڑھ سکی۔ میں محسوس کرتا تھا جو کچھ آپ کرتے ہیں وہ مجھ پر آپ کی بے اعتمادی کا مظہر ہے… اس کے بعد نیپ نے تشدد کا راستہ اختیار کرلیا۔ ٹیلی فون ایکسچینج جلائے گئے، لائنیں کاٹ دی گئیں، ٹرکوں اور بسوں پر حملے ہوئے، مسافروں کو لوٹا گیا، ہراساں کیا گیا اور ایک وقت آیا کہ سول مسلح دستوں اور فوج پر بھی حملے شروع ہوگئے۔ نیپ نے بھرپور تخریب کاری شروع کردی۔ آپ کی ہدایت پر سول حکام کی مدد کے لیے مسلح افواج کو طلب کرلیا گیا کہ گورنر نے فوج بلانے کی سفارش کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں آپ کے احکام کا پابند تھا، مگر سول حکام کی مدد کے بجائے فوج نے میرے پوچھے بغیر کارروائی شروع کردی۔ اس کے نتیجے میں ایک طرف تو وسیع جانی اور مالی نقصان ہوا، لارنگ خان اور دوسرے بے خطا آدمیوں کو بے دردی سے قتل کردیا گیا، اور یوں ایسی صورت پیدا ہوگئی جو میرے قابو سے باہر تھی، دوسری طرف ایسے اقدامات کیے گئے کہ مجھے یقین ہوگیا آپ کو مجھ پر کوئی اعتماد نہیں۔ آپ نے تو مجھے یہ تک کہہ دیا کہ فوج کو مجھ پر کوئی بھروسا نہیں اور آزادانہ طور پر اقدامات کرنا چاہتی ہے۔

بے اعتمادی کی خلیج سیاسی محاذ پر مزید واضح اور نمایاں تھی۔ آپ اپنے وزیروں اور سینئر افسروں کو نیپ کے رہنمائوں سے بات چیت کے لیے بھیجتے رہے اور مجھے نظرانداز کردیا گیا۔ بہت سے وزیروں، ارکان صوبائی اسمبلی، سیاست دانوں، سرداروں اور دوسرے افراد کی جھولیاں آپ انعام و اکرام سے بھرتے رہے۔ اس سے میرا کام بری طرح متاثر ہوتا رہا۔ آپ نے اپنے بااعتماد وزیروں اور ساتھیوں کو اسمبلیوں کے ضمنی اور سینیٹ کے انتخابات کے سلسلے میں کوئٹہ بھیجا۔ آپ کو چاہیے تھا کہ یہ کام بلوچستان میں اپنے نمائندے پر چھوڑ دیتے۔ اس صوبے میں پیپلزپارٹی کے لیے آپ کی مسلسل تشویش کے اظہار نے مجھ پر واضح کردیا کہ میری حیثیت ’’ڈنگ ٹپائو‘‘ (Stop Gap Arrangement) ہی کی ہے۔

انتظامی امور کے بارے میں بھی آپ نے مجھ پر اعتماد نہ کیا۔ مجھے مناسب موقع پر بعض افراد کی ناگزیر گرفتاری سے بھی روکا گیا۔ میں اس مہینے (نومبر) کی آٹھ تاریخ تک شدومد کے ساتھ اناج کی بین الصوبائی نقل و حمل پر پابندی ختم کرنے پر زور دیتا رہا، مگر سنی ان سنی کردی گئی۔ صوبے میں مجھے جو ضروری اشیا درکار ہیں، ان کا انتظام و انصرام آپ کے مشیروں کے ہاتھ میں ہے۔ دوسری مصیبت یہ کہ انہیں آپ کا قرب اور اعتماد حاصل ہے، مجھے نہیں۔ 2 نومبر کی کانفرنس میں مجھے یہ سن کر انتہائی دکھ ہوا کہ بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے کچھ بھی پیش رفت نہ ہوئی۔ جب تک میں اس عہدے پر ہوں، مشکلات و مصائب کا ازالہ میری ذمہ داری ہے، مگر آپ کی کھلی اور غیر مشروط تائید و حمایت کے بغیر میرے لیے کچھ کرنا مشکل بہت مشکل ہے۔

ہمارے درمیان بے اعتمادی کی فضا پیدا کرنے میں آپ کے چیف سیکورٹی افسر مسٹر سعید احمد خان کا زبردست عمل دخل ہے۔ اس افسر نے میرے خلاف مقدمات کا جال بچھانے کے لیے خفیہ طور پر تیاریاں کیں، بعض بلوچ کارکن جیلوں میں تھے، انہیں زبردست تشدد کا نشانہ بناکر جھوٹے مقدمات میں میرے خلاف گواہ بننے پر مجبور کیا گیا۔ لوگوں کے منہ میں باتیں ڈال کر، انہیں اقبالی مجرم قرار دیا اور میرے خلاف شہادتیں حاصل کیں، یہ آپ کی میری ملاقات سے ایک ماہ پہلے کی بات ہے۔ میں نے ملاقات کے دوران آپ کو بتایا تو آپ نے لاعلمی کا اظہار کیا، آپ کے اعتماد کے سائے میں سعید احمد خان کے قدم اس راستے پر بڑھتے رہے۔ ان جعلی اور جھوٹی داستان طرازیوں کا ریکارڈ تلف نہ کیا گیا، بلکہ میرے خلاف شہادتیں دینے والے نام نہاد اقبالی مجرم جھوٹ بولنے کا انعام وصول کرتے رہے، مجھے یقین ہوگیا اس منصوبے کو آپ کی پوری سرپرستی اور تائید حاصل ہے اور یہ کہ آپ یہ ’’پونجی‘‘ اس لیے جمع کررہے ہیں کہ میری خدمات کی ضرورت نہ رہے، تو کام آئے۔

چند دن قبل انٹر سروسز انٹیلی جنس نے بلوچستان کے ایک پولیس افسر کو ترغیب دی کہ کراچی میں سردار عطا اللہ کے گھر کی تلاشی لینے والی ٹیم میں شامل ہو، انٹر سروسز انٹیلی جنس والے اصرار کرتے تھے کہ سردار عطا اللہ خان کے بھائی سردار مہر اللہ کراچی میں کسی گھر میں چھپے ہوئے ہیں، ان کی شب و روز کڑی نگرانی کی جارہی ہے۔ کوئی پولیس افسر گرفتاری کا وارنٹ لے کر آئے۔ حکومتِ بلوچستان نے ایک پولیس افسر کو وارنٹ گرفتاری دے کر بھیج دیا۔ پھر واضح کردوں یہ وارنٹ گرفتاری کا تھا، تلاشی کانہیں۔ کراچی پولیس کے ایک ڈی ایس پی کی سرکردگی میں پولیس پارٹی انہیں لے کر سردار عطا اللہ کے گھر پہنچی، ان کے پاس گھر کی تلاشی کے وارنٹ نہیں تھے، لیکن انہوں نے گھر کی تلاشی لینا چاہی۔ سردار کے بیٹے نے بلوچوں کی روایت کے تحت گھر کی تلاشی دینے سے انکار کیا۔ بلوچستان کے پولیس افسر نے بھی تلاشی لینے سے انکار کیا تھا۔ اس پر پولیس پارٹی مردانہ گیسٹ ہائوس پر ہی ایک نظر ڈال سکی جو ایک الگ عمارت میں واقع ہے۔ میں نے واضح احکام جاری کیے تھے کہ کسی کے گھر پر چھاپہ نہ مارا جائے، مجھے اچھی طرح معلوم تھا سردار عبدالرحمن، سردار عطااللہ کے کراچی اور کوئٹہ کے گھروں میں رہتا رہا ہے، اس کے باوجود گھر پر چھاپہ نہیں مارا گیا۔ ایک بلوچ کی حیثیت سے میں اس امر سے بخوبی آگاہ ہوں کہ بلوچ زنان خانے کی تلاشی کو انتہائی گستاخی اور بے عزتی سمجھتے ہیں۔ انٹر سروسز انٹیلی جنس نے میری منشا اور علم کے بغیر میری حکومت کو اس ’’دھندے‘‘ میں بھی ملوث کر ڈالا۔ اگر مجھے آپ کا پورا پورا اعتماد حاصل ہوتا، تو یہ کچھ ہرگز نہ ہوتا۔

یہ میرا مشاہدہ ہے، اندازہ اور تجربہ بھی کہ سردار دائود خان بڑی تیزی سے پٹھانوں میں مقبول ہورہے ہیں، اور نیپ اپنے بلوچ دشمن پروگرام کے باوجود بلوچوں میں مقبول ہورہی ہے۔ میرے نزدیک یہ کوئی پسندیدہ صورت حال نہیں، میں سمجھتا ہوں، ایسا شخص اس سیلاب کو روک سکتا ہے جس پر آپ کو مجھ سے زیادہ اعتماد حاصل ہو۔ میں نہ تو قومی اسمبلی کا رکن ہوں، نہ صوبائی اسمبلی کا، میرا حلقہ انتخاب آپ کے اعتماد کی وسعتیں ہیں، اگر وہ مجھے حاصل نہیں، اگر میں آپ کا اعتماد کھوچکا ہوں، جیسا کہ ہے، تو میرے پاس اس عہدے پر فائز رہنے کا کوئی جواز نہیں۔ میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ آئینی اختیارات کے ساتھ ساتھ حقیقی اختیارات بھی ایک ہی ہاتھ میں ہونے چاہئیں۔ آئین جس کو جو اختیار دے، وہی اس کو بروئے کار لائے۔

میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کی دوستی کا قدردان رہوں گا۔ میری خواہش اس کے سوا کچھ نہیں کہ میں آخر دم تک اپنے عوام کی خدمت کرتا رہوں۔ ایک عام شہری کی حیثیت سے اپنی توانائیاں اسی کام کے لیے صرف کرتا رہوں۔ جو کچھ آپ نے اب تک میرے لیے کیا ہے، اس کے لیے میں آپ کا شکرگزار ہوں۔ ذاتی حیثیت میں جب بھی آپ نے میری خدمات کی ضرورت محسوس کی، تو مجھے حاضر فرمائیں گے۔

آپ کا مخلص
محمد اکبر بگٹی