نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کی پیش نظر اور ان کی کارکردگی کے بارے میں ماہر معیشت ڈاکٹر شاہدحسن صدیقی سے خصوصی گفتگو
پاکستان کی معیشت تیزی سے زوال پذیر ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستانی قوم کی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ روپے کی قدر مسلسل گررہی ہے، ڈالر ایک بار پھر بے قابو ہوکر تین سو روپے تک پہنچ چکا ہے، آئی ایم ایف کا شکنجہ بھی سانس نہیں لینے دے رہا ہے، اب کھاتے پیتے متوسط گھرانوں کے لیے بھی مشکلات بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں، ملک میں سیاسی غیر یقینی کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ آئندہ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا؟ یہ سوال ہر شخص کی زبان پر ہے لیکن اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے قرضوں کی معیشت کے ذریعے ریاست کو بھکاری بنادیا ہے۔ ان ملک دشمن حکمرانوں نے ہمیں اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ آگے کھائی اور پیچھے کنواں والا معاملہ ہے۔ وطنِ عزیز میں اس وقت ایک لائی گئی حکومت جاچکی ہے اور اب نگراں حکومت بن چکی ہے، اور یہ کب تک ہے؟ اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔اسی تناظر میں آئی ایم ایف پروگرام کے باعث نگراں وزیر خزانہ کی تقرری بھی اہم ہے، اور اب نگراں وفاقی کابینہ میں شمشاد اختر نے نگراں وزیر خزانہ کا منصب سنبھالا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون ہیں اور اس سے قبل ان کی کیا کارکردگی رہی ہے؟
ڈاکٹر شمشاد اختر اس سے قبل 2 جنوری 2006ء سے تین سال تک اسٹیٹ بینک کی گورنر کے طور پر خدمات انجام دے چکی ہیں، اور اپنی اُس تقرری سے قبل جنوری 2004ء سے ایشیائی ترقیاتی بینک کی ڈائریکٹر جنرل برائے جنوب مشرقی ایشیا بھی رہ چکی ہیں۔ لیکن اِس بار موجودہ نگراں حکومت نے ڈاکٹر شمشاد اختر کو ایک مرتبہ پھر نگراں وزیر خزانہ مقرر کیا تو پاکستان کے مالیاتی حلقوں میں یہ خبر انتہائی تشویش اور حیرت سے سنی گئی، کیونکہ اس سے قبل2018ء میں بھی وہ نگراں وزیر خزانہ تعینات ہوئی تھیں اور اُن کی کارکردگی سوالیہ نشان رہی ہے۔
ممتاز ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی منفرد اور آسان زبان میں تجزیہ پیش کرتے ہیں اور معیشت کو تاریخ اور حال کی روشنی میں بڑی عمیق نظر سے دیکھتے ہیں۔ پاکستان، مشرق وسطیٰ، یورپ اور افریقہ کے مالیاتی اداروں میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ اِس وقت آپ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس (کراچی) کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو ہیں۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر صاحب ’’اسلامک بینکنگ‘‘ جیسی قابلِ قدر کتاب کی تصنیف کے ساتھ ساتھ پاکستانی اور بین الاقوامی اخبارات و جرائد میں کئی سو مقالے و مضامین بھی تحریر کرچکے ہیں۔ وہ ٹی وی چینلز پر روزانہ کی بنیاد پر قوم اور حکمرانوں کو بتانے اور سمجھانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ جب ہم نے نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کے پس منظر اور اُن کی کارکردگی کے حوالے سے ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی سے جاننے کی کوشش کی تو آپ کا کہنا تھا:
”یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے کہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے اپنے پچھلے دور میں قومی دولت لوٹنے والوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے اپنے اختیارات سے نہ صرف تجاوز کیا بلکہ آئین و قانون کی بھی پروا نہیں کی۔ ڈاکٹر شمشاد اختر ماضی میں بھی نگراں وزیر خزانہ رہ چکی ہیں انہوں نے نگراں وزیر خزانہ کی حیثیت سے قومی خزانے سے لوٹی گئی دولت کو معمولی ٹیکس کی ادائیگی پر قانونی تحفظ فراہم کرنے اور ملک سے لوٹ کر باہر منتقل کی گئی دولت کو پاکستان واپس لانے کے بجائے باہر ہی رکھنے کی وہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم جو شاہد خاقان عباسی کے دور میں جاری کی گئی تھی اور ڈاکٹر شمشاد اختر کے دور میں ختم ہورہی تھی توسیع کردی، حالانکہ نگراں وزیر خزانہ کی حیثیت سے انہیں اس کا قطعی اختیار حاصل نہیں تھا۔ ہم نے جون 2018ء میں کہا تھا کہ نگراں حکومت اور اس کی وزیر خزانہ شمشاد اختر کو اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم انصاف،قانون اور اسلامی تعلیمات کے منافی ہے اور اس سے قومی سلامتی و مفادات کو نقصان پہنچے گا۔“
میں نے کہا ”یہ تو آپ تشویش میں مبتلا کررہے ہیں“، تو اس پر آپ کا کہنا تھا:
”آپ ریکارڈ اٹھاکر دیکھ لیں کہ یہ بات روزنامہ جسارت میں 19جون 2018ء کو شائع ہوئی تھی۔ اس کے بعد ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ نگراں حکومت اور ڈاکٹر شمشاد اختر نے نگراں وزیر خزانہ کی حیثیت سے سپریم کورٹ کو لوٹی گئی دولت کیس میں اصل حقائق سے آگاہ کرنے کے بجائے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں توسیع کردی۔ یہ بات 28 جولائی کو اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔ ڈاکٹر شمشاد اختر کو فوجی ڈکٹیٹر پرویزمشرف نے اسٹیٹ بینک کا گورنر مقرر کیا تھا۔ ڈاکٹر شمشاد اختر نے گورنر اسٹیٹ بینک کی حیثیت سے 7مئی 2008ء کو نفع نقصان میں شرکت کے بینکوں کے کھاتوں کو دی جانے والی شرح منافع کے ضمن میں سرکلر جاری کیا تھا جس میں دی ہوئی شرح منافع افراطِ زر کی شرح سے بھی کم تھی، حالانکہ خود اسٹیٹ بینک کے مطابق یہ شرح استحصال کے زمرے میں آتی ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر شمشاد اختر کے دور میں جاری کردہ یہ سرکلر آئینِ پاکستان کی شق 3 کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی۔ یہی نہیںیہ سرکلر بینکنگ کمپنیز آرڈیننس کی شق 26الف4سے بھی متصادم تھا۔ مگر انہوں نے اس سرکلر کو جاری کرنا ضروری سمجھا۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کی گورنر کی حیثیت سے شمشاد اختر اور اُس وقت کے وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ شوکت ترین نے جو خط 20 نومبر 2008ء کو آئی ایم ایف کو بھیجا تھا اُس میں دانستہ غلط بیانیاں کی گئی تھیں۔ اس خط میں ڈاکٹر شمشاد اختر اور شوکت ترین کے دستخط موجود ہیں۔ جس کے بعد کیے گئے اقدامات کے نتیجے میں پاکستان کو کئی سو ارب ڈالر کا اضافی نقصان ہوا اور ہم نے اس کو کم سے کم ایک درجن مرتبہ پاکستان کی تاریخ کا بڑا دھوکہ قرار دیا تھا۔ اس سودے کی شرائط اور اس کے بعد کے اقدامات کے نتیجے میں معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے اور مالی سال 2009ء میں افراطِ زر کی شرح 20.8فیصد ہوگئی جو کہ ایک سال پہلے صرف 12فیصد تھی۔ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ ڈاکٹر وقار مسعود کو اب وزیراعظم کا نگراں مشیر خزانہ مقرر کیا گیا ہے جو مالی سال 2008ء میں ڈاکٹر شمشاد اختر کے دور میں اسٹیٹ بینک کے بورڈ میں شامل تھے۔ ڈاکٹر وقار مسعود مختلف حکومتوں میں وزارتِ خزانہ میں متعدد عہدوں پر فائز ہوئے اور ان کے دور میں اسٹیٹ بینک اور وزارتِ خزانہ میں غلط کاریاں ہوتی رہیں مگر وہ ان میں رکاوٹ نہ بنے۔ یہ بات افسوس ناک ہے کہ وطنِ عزیز میں جو لوگ ٹیکس چوری کرنے والوں اور قومی دولت لوٹنے والوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے قانون توڑتے ہیں یا نیا قانون بناتے ہیں ان کو مختلف حکومتوں کے دور میں عہدے بھی دیئے جاتے ہیں ، ان میں سے کچھ کو قومی اعزازات سے بھی نوازا جاتا ہے، چنانچہ 2022ء اور 2023ء میں جس بڑی تعداد میں سویلین افراد کو قومی اعزازات دیئے گئے ہیں اس سے ان اعزازات کی اہمیت نہ صرف ختم ہوئی بلکہ اُن لوگوں کو بھی تکلیف ہوئی جو ان اعزازات کے جائز حق دار تھے۔ کیونکہ فہرست میں جو لوگ شامل تھے متعدد اشخاص نے کوئی کارنامہ سرانجام نہ دیا تھا۔ میں مختصراً صرف یہ بتا سکتا ہوں کہ اگر ڈاکٹر شمشاد اختر اور نگراں کابینہ میری تجویز کے مطابق وزیراعظم ہائوس میں ایک اسپیشل سیل بنائیں جہاں ایک سینئر آدمی کو تعینات کیا جائے جو ایف بی آر کے ساتھ مستقل رابطے میں رہے اور اُن اثاثوں کی تفصیل جو ملک میں موجود ہیں جو ٹیکس چوری سے بنائے گئے ہیں اور ملک کے قانون کے مطابق ان سے ٹیکس وصول کیا جاسکتا ہے بغیر عدالتوں میں گئے اور مقدمات قائم کیے، تو اس سے تقریباً ایک ہزار ارب روپے اضافی آمدن ہوسکتی ہے۔ اگر یہ قدم نہیں اٹھاتے تو یہ ایک تو قانون سے انحراف ہے کہ چوروں سے پیسہ لینے کے لیے قانون توڑ رہے ہیں، اور اگر یہ قدم اٹھا لیتے ہیں تو چند ہفتوں میں سو دو سو ارب روپے ملنے کی صورت میں ہم آئی ایم ایف کے پاس جاسکتے ہیں اور اُس سے مطالبہ کرسکتے ہیں کہ اضافی آمدن کے بعد اب پیٹرول کے نرخوں یا بجلی کے نرخوں میں کمی کی اجازت دیں۔ یہ ان کو کرنا پڑے گا اور اس کے لیے کوئی قانون بنانے کی ضرورت نہیں بلکہ قانون پہلے سے موجود ہے۔ اس وقت کھلی منڈی سے ڈالر خرید کر بینکوں کے بیرونی کرنسی کے کھاتوں میں رقوم جمع کراکر اربوں ڈالر پاکستان سے باہر جارہے ہیں، دوسری چیز جو کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اب اسٹیٹ بینک کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ ہو کہ علاج معالجے اور سوائے تعلیم کے کوئی پیسہ باہر نہیں جائے گا تو اس سے بھی کئی ارب ڈالر کی بچت ہوگی جس سے روپے کی قدر میں استحکام آئے گا، اور اس سے پیٹرول، بجلی اور گیس کے نرخ کم ہوسکتے ہیں جس کے سبب عوام سُکھ چین کا سانس لے سکتے ہیں۔ اگر یہ دونوں قدم نہ اٹھائے گئے تو ہماری مشکلات میں اضافہ ہوگا اور جب ہم 2024ء میں آئی ایم ایف کے پاس قرضوں کے لیے جائیں گے تو اُس کی شرائط پاکستان کی سلامتی اور پاکستان کے مفادات کے خلاف ہوں گی۔ چنانچہ اس صورت حال سے بچنے کے لیے ان دو اقدامات پر فوری عمل درآمد کی ضرورت ہے۔“
اس ضمن ایک اور سوال کے جواب میںڈاکٹر شاہد حسن کا کہنا تھا :
”اسلامی بینکاری کے لیے آپ کا پوچھا گیا سوال انتہائی اہم ہے۔ شرعی عدالت کا 28 اپریل 2022ء کا فیصلہ غیر آئینی اور غیر اسلامی ہے، اور اس سے سودی نظام کو تقویت ملے گی۔ اس لیے ہم نے اسلامی نظریاتی کونسل، سپریم کورٹ، دینی و مذہبی جماعتوں اور اہم علما کرام کو تفصیل کے ساتھ اسلامی ماہر معیشت کی حیثیت سے بتایا تھا کہ یہ فیصلہ سودی نظام کو فروغ دے گا۔ ہمارے ساتھ ایک پروگرام میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز صاحب بھی تھے، ہم نے اُن سے کہا کہ آپ نے اس فیصلے کی ایک سے زیادہ مرتبہ حمایت کی ہے مگر اس میں فلاں فلاں خرابیاں ہیں… تو انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ ان تحفظات کو دور کرنا بہت ضروری ہے۔ ہم نے ایک خط بھی اسلامی نظریاتی کونسل کو لکھا تھا مگر اب تک کوئی معنی خیز کارروائی نہیں ہوئی۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ وزارتِ خزانہ اور مذہبی امور کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کو یہ حکم دیں کہ وہ اس پر ایک میٹنگ بلائے اور اپنی حتمی رائے سے آگاہ کرے۔ اور ہماری تجویز پر اگر عمل درآمد نہیں ہوتا تو اسلامی نظریاتی کونسل کو تحلیل کیا جائے اور دوسری کونسل قائم کی جائے۔ اسٹیٹ بینک کو بھی چاہیے کہ اس نے دباؤ پر سپریم کورٹ سے جو اپیل واپس لی تھی اس کو دوبارہ داخل کرے، کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہمیں خدشہ ہے کہ2075ء تک سودی نظام خدانخواستہ پاکستان میں فروغ پا جائے گا۔“