شہباز حکومت کے سولہ ماہ کے دوران ایوانِ صدر اور وفاقی حکومت میں مکمل ٹھنی رہی، صدرِ مملکت نے ان سولہ ماہ میں جس بل پر بھی دستخط کیے حکومت کی خواہش پر نہیں بلکہ اپنی مرضی سے کیے۔ خیال تھا کہ شہباز حکومت ختم ہوجانے پر صدر اور نگران حکومت کے مابین ورکنگ ریلیشن بہتر ہوجائے گی، لیکن آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کے معاملے پر ایک نیا پنڈورا بکس کھل گیا ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کے سابق وزراء کے بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ یہ بیانات سیاسی نوعیت کے ہیں۔ پارلیمنٹیرین کی بہت بڑی اکثریت ایسی ہے جنہیں عوام کی تائید سے پارلیمنٹ میں پہنچنے کا موقع تو مل جاتا ہے تاہم انہیں پارلیمانی امور کی سوجھ بوجھ نہیں ہوتی، یہ کام سیکھتے سیکھتے ان کی آئینی مدت مکمل ہوجاتی ہے۔ بہت کم ارکان ایسے ہوتے ہیں جنہیں پارلیمانی امور پر مکمل عبور ہوتا ہے۔ جہاں تک آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کا معاملہ ہے یہ نہایت ہی باریک تکنیکی نکتہ ہے۔ اگرچہ صدرِ مملکت نے ایوانِ صدر میں اپنے پرنسپل سیکریٹری کی خدمات وفاق کو واپس کردی ہیں، لیکن یہ معاملہ یہاں رکے گا نہیں بلکہ مزید آگے بڑھے گا۔ اس کی وجہ صدر مملکت کا ٹویٹ اور تحریک انصاف کا عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان ہے۔ اگر یہ معاملہ عدالت میں پہنچا تو عدالت کا فیصلہ آئین میں دیے گئے انسانی حقوق کی روشنی میں ہوگا۔ قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ یہ قانون عدالت کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ بہرحال معاملہ چونکہ حساس ہے لہٰذا بہت سوچ سمجھ کر اس پر کچھ لکھا جانا بہتر ہے۔ ایوانِ صدر بھجوائے جانے والے بلز کا طریقِ کار اور کارروائی ایک مکمل قانونی اور آئینی عمل ہے جس میں ذرہ بھر کوتاہی ملک کے قانونی اور آئینی نظام کے لیے سوال کھڑا کرسکتی ہے۔ ایوانِ صدر میں صدرِ مملکت کی راہنمائی کے لیے قانونی اور آئینی ماہرین کی باقاعدہ ایک ٹیم ہوتی ہے جن سے مشاورت اور بریفنگ کے بعد صدر کسی بھی بل پر دستخط کرتے ہیں یا باقاعدہ اپنی رائے کے ساتھ پارلیمنٹ کو واپس بھجواتے ہیں۔ ان دنوں بلز کے معاملے میں ایوانِ صدر میں قانونی ماہرین کی کہیں کوتاہی نظر نہیں آرہی، فائلز ابھی بھی (سوموار تک) صدارتی چیمبر میں موجود تھیں، صدر نے آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ پر کوئی تحریری فیصلہ جاری نہیں کیا تھا، فائل 21 اگست تک سیکریٹری کے آفس میں واپس نہیں بھجوائی گئی۔ آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 8 اگست کی شام آفس بند ہونے کے بعد ایوانِ صدر کو موصول ہوا تھا۔ آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 9 اگست کو صدرِ مملکت کو بھجوایا گیا تھا۔ آرٹیکل 75 کے تناظر میں صدر کو بل کی 10 دن کے اندر منظوری دینے کا اختیار ہوتا ہے، آرٹیکل 75 کے تحت صدر کو بل 10 دن کے اندر واپس پارلیمنٹ کو دوبارہ غور کے لیے بھجوانے کا اختیار ہے۔ وزیراعظم نے ایڈوائس8 اگست کو بھیجی اور 17 اگست کو دس دن کی مدت پوری ہوجانی تھی۔ صدرِ مملکت نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل کی منظوری دی نہ ہی واپس پارلیمنٹ کو بھجوایا۔18 اگست کو اس کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہوا، لیکن دراصل اس معاملے پر سارا تنازع شاہ محمود قریشی کی گرفتاری کے بعد پیدا ہوا، اور صدر کو دو دن بعد ان پر اعتراض کرنے کا خیال آیا، اور خبر کی اشاعت کے بعد صدر علوی نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل سے اتفاق نہیں کرتا، میں نے اپنے عملے کو کہا کہ بل کو بغیر دستخط کے واپس بھیجیں۔ میں نے عملے سے کئی بار تصدیق کی کہ بلز بغیر دستخط کے واپس بھیج دیے گئے ہیں؟ مجھے آج معلوم ہوا کہ میرے عملے نے میری مرضی اور حکم کو مجروح کیا، اللہ سب جانتا ہے، میں اُن سب سے معافی مانگتا ہوں جو ان بلز سے متاثر ہوں گے، میں نے ان بلز پر دستخط نہیں کیے۔ صدر نے اس پر ردعمل دیا اور اپنے پرنسپل سیکریٹری وقار احمد کی خدمات واپس کردیں، لیکن سبک دوش پرنسپل سیکریٹری بھی اپنے مؤقف پر ڈٹ گئے کہ انہوں نے قانون کے برعکس کوئی کام نہیں کیا۔ یہیں سے اس کہانی کا ایک نیا موڑ شروع ہوا ہے۔ یہ بحث عدالت میں پہنچنے کا امکان ہے، کیونکہ صدر اور ان کے سبک دوش پرنسپل سیکریٹری کے مؤقف کے بعد سیاسی اور صحافتی حلقوں میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے، اور کہا جارہا ہے کہ صدر علوی کھل کر بات کریں، اگر بلز سے اختلاف تھا تو انہوں نے کیوں اپنے اعتراضات درج نہ کیے؟ ہاں یا نا کے بغیر بل واپس بھیجنے کا کیا مقصد تھا؟ میڈیا پر خبریں آنے کے باوجود وہ2 دن کیوں چپ رہے؟ صدرِ مملکت بولے بھی تو معاملہ اور الجھا دیا، جس صدرکو یہ نہیں پتا کہ ایوانِ صدر میں کیا ہورہا ہے وہ عہدے پر رہنے کا اہل ہی نہیں، کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ان کی ناک کے نیچے بلز پرکوئی اور دستخط کرتا ہے؟ صدر کی وضاحت ان کے صدارتی منصب سنبھالنے کی اہلیت پر سوالیہ نشان ہے۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے مطابق آرمی ایکٹ 31 جولائی کو مشترکہ اجلاس میں منظور ہوا تھا، صدر عارف علوی نے اس سلسلے میں ایک ممتاز آئینی ماہر اور وکیل سے صلاح مشورہ بھی کیا ہے اور وہ اس معاملے پر اپنے عملے کے خلاف قانونی کارروائی کرنے اور عدالت جانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ دوسری جانب وزارتِ قانون و انصاف نے صدر کے حالیہ ٹویٹ پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 75 کے مطابق کوئی بھی بل منظوری کے لیے صدر کو بھیجا جاتا ہے۔ وزارتِ قانون کا کہنا ہے کہ صدر کے پاس دو اختیارات ہوتے ہیں، صدر منظوری دیں یا مخصوص مشاہدات کے ساتھ معاملہ پارلیمنٹ کو بھیجیں۔ وزارتِ قانون کے مطابق آرٹیکل 75 کوئی تیسرا آپشن فراہم نہیں کرتا، موجودہ کیس میں صدر نے آرٹیکل 75 کی آئینی ضروریات پوری نہیں کیں، انہوں نے جان بوجھ کر بلز کی منظوری میں تاخیر کی۔ وزارتِ قانون وانصاف کا کہنا ہے کہ بلز کو بغیر مشاہدے یا منظوری واپس کرنے کا راستہ آئین میں نہیں دیا گیا، صدرِ مملکت کا اقدام آئین کی روح کے منافی ہے، صدر کے پاس بلز واپس کرنے کا طریقہ تھا تو اپنے مشاہدات کے ساتھ واپس کرسکتے تھے، صدر نے جیسے ماضیِ قریب میں بل واپس بھجوائے ویسے ہی یہ بھی بھجوا سکتے تھے، صدرِ مملکت بل واپس کرنے سے متعلق پریس ریلیز بھی جاری کرسکتے تھے۔ وزارتِ قانون نے اپنے ردعمل میں کہا کہ تشویش ناک بات ہے کہ صدر نے بدنام کرنے کے لیے اپنے ہی عہدیداروں کا انتخاب کیا، ان کو اپنے اعمال کی ذمہ داری خود لینی چاہیے۔
اس تمام صورتِ حال پر تجزیہ یہی ہے کہ اور اس بات کی تصدیق لازمی ایوانِ صدر ہی سے ہونی چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ تمام بل صدر عارف علوی کے سامنے رکھ دیئے گئے تھے؟ انہوں نے دونوں ایوانوں سے منظور 13 بل واپس کردیئے تھے جبکہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ سے متعلق کوئی ہدایات نہیں دی تھیں۔ قانون کے تحت یہ دونوں بل ہدایات نہ آنے پر اب قانون بن گئے ہیں۔ آرٹیکل 75 کے تحت اگر صدر 10 دن میں بل واپس نہ کریں تو یہ منظور سمجھا جائے گا۔
سائفر کے حوالے سے تحریک انصاف کے راہنما اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی گرفتاری ایسا واقعہ ہے جس نے سیاسی ماحول گرم کردیا ہے۔ سیکرٹ ایکٹ کا سیکشن 6 (اے) انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں، مخبروں یا ذرائع کی شناخت کے غیر مجاز انکشاف کو جرم قرار دیتا ہے جس پر تین سال تک قید اور ایک کروڑ روپے تک جرمانہ ہوگا۔ نیز اگر کوئی شخص سرکاری حیثیت میں حاصل شدہ معلومات افشا کرے گا جو پاکستان یا مسلح افواج کے لیے نقصان دہ ہوں یا ہوسکتی ہوں تو اسے پانچ سال تک قیدِ بامشقت کی سزا ہوگی۔آرمی ایکٹ کے مطابق کوئی بھی فوجی اہلکار ریٹائرمنٹ، استعفے یا ملازمت سے برطرفی کے دو برس بعد تک کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا۔ ان بلز پر صدر کے دستخطوں کی خبر کے ساتھ ہی تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی گرفتای ہوئی ہے اور انہیں سفارتی سائفر سے متعلق آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق ان کے خلاف 15 اگست کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 اور 9 کے علاوہ تعزیراتِ پاکستان کے سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ 7 مارچ 2022ء کو اُس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022ء کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا۔