لوبھئی، بالآخر ڈاکٹر ابرار احمد بھٹی صاحب نے ہماری نوکِ پلک سنوار دی۔ دائیں آنکھ کی نچلی پلک اندر کو مُڑ گئی تھی۔ اس کی نوکیں چبھتی تھیں، جلن مچتی تھی اور پپوٹا بھاری ہوجاتا تھا۔ آنکھیں آنسو بھری اور پلکیں بوجھل گھنی رہا کرتیں۔ جیسے جھیلیں بھی ہوں، نرم سائے بھی ہوں۔ اب یہ سب شاعرانہ صفات رخصت ہوگئیں۔ الحمدللہ ہم سنوارے گئے۔ داغؔ دہلوی بھی شاید اسی شر کا شکار تھے، جسے ہمارے جدید اطبا زبانِ فرنگ میں ‘Entropion’ کہتے ہیں۔ یہ نہ کہیں تو کیا کہیں؟ ’پپوٹا اُلٹنا‘ کہنے لگیں گے تو مریض پلکیں پَٹ پَٹا، پَٹ پَٹا کر مشکوک نظروں سے دیکھا کریں گے کہ ’ڈاک صاب‘ تو مرض کے لاطینی نام ہی سے لاعلم ہیں، علاج کیا خاک کریں گے؟ علاج تو لسانِ لاطینی کی وہ ادق ادق اصطلاحیں بول کر ہی کیا جاسکتا ہے، جنھیں سن کر ٹھیک ٹھاک بندہ بھی بولا جائے کہ یااللہ یہ مجھے کون سی ولایتی اذیت لاحق ہوگئی؟ ٹھیٹھ دیہاتی کو ٹھنڈ لگ جانے سے اُس کی ناک بہنے لگے تو بتاتے ہیں ’’میاں تمھیں توInfluenza’ـ’ ہوگیا ہے کہ مخفف جس کا ‘Flue’ ہے‘‘۔ یہ سنتے ہی دھاکڑ قسم کا دہشت زدہ دیہاتی گھبرا کر ایسی بلند آہنگ چھینک مارتا ہے کہ اس کی دھمک سے قطار میں منتظر بیٹھے کئی کمزور مریضوں کی ناف ٹل جاتی ہے۔ نہ جانے ناف ٹلنے کو لاطینی میں کیا کہتے ہیں۔ ’دھاکڑ‘ وہ ہوتا ہے جسے دیکھتے ہی دل پر ’دھاک‘ بیٹھ جائے۔
ہاں تو حضرتِ داغؔ جیسے عاشقِ زار کو جو تکلیف تھی وہ یہ تھی کہ
دل میں عاشق کے، تصور سے کھٹک ہوتی ہے
ان حسینوں کی غضب نوکِ پلک ہوتی ہے
اس بہانے سے بہائے سرِ محفل آنسو
کہہ دیا اُن سے کہ آنکھوں میں کھٹک ہوتی ہے
’نوک پلک‘ کے بامحاورہ معنی ہیں آنکھ ناک کی خوب صورتی یا موزونیت۔ نوک پلک سے درست ہونے کا مطلب لیا جاتا ہے ہر طرح سے ٹھیک ٹھاک ہونا۔ کسی شخص کی آنکھ، ناک، کان، چہرہ وغیرہ سب کچھ متناسب ہو تو اُس کی نوک پلک ٹھیک قرار دی جاتی ہے۔ کاتب حضرات اور خطاط صاحبان، بے چارے، آج کل توکمپیوٹر اور ’کاتبِ تقدیر‘ کا لکھا پڑھ رہے ہیں، مگر جب خود خطاطی کرتے تھے تو ایک ایک حرف کی نوک پلک سنوارا کرتے تھے۔ ’نوک پلک‘ پر مولوی نورالحسن نیرمرحوم نے ایک دلچسپ اقتباس بلاحوالہ نقل کیا ہے۔ ہم بھی یہ اقتباس جوں کا توں آپ کے حوالے کیے دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں: ’’سارا صحیفۂ قدرت ایک ہی کاتب کا لکھا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ کہیں دائرے اور کشش اور نقطے اور حرکات و سکنات اور شوشے اورنوک پلک میں ذرا تفاوت نہیں‘‘۔
’صحیفۂ قدرت‘ کی کتابت کا یہ احوال پڑھ کر ہمیں بشیر بدرؔکا شعر یاد آگیا:
خدا کی نظموں کی کتاب ساری کائنات ہے
غزل کے شعر کی طرح ہر ایک فرد فرد ہے
اس شعر میں ’نظموں‘ کا لفظ درست تلفظ سے پڑھ لینے میں کامیاب ہوجانے والے اکثر نظامت کار نظم کا تلفظ ’نَظَم‘ کرتے ہیں۔ ظ پر زبر کے ساتھ۔ اگر ’نظم و ضبط‘ بولنا ہو تو ’ضبط‘ کا تلفظ بھی ’ضَبَط‘ کرجاتے ہیں۔ ب پر زبر کے ساتھ۔ جب کہ نظم، بزم، عزم، گرم اور ضبط سب کے دوسرے حرف پر جزم ہے، لہٰذا دوسرا حرف ساکن رہے گا۔ لغت دیکھ لیا کریں تو تلفظ درست ہوجائے۔ مگر اب اہلِ ابلاغ میں لغت دیکھنے کا رواج نہیں رہا۔ دیکھا دیکھی بولنے کا رواج ہے۔ یہ نہیں دیکھتے کہ جس کی دیکھا دیکھی بول رہے ہیں وہ خود غلط بول رہا ہے۔
غلط گو خواتین و حضرات ذرائع ابلاغ پرپہنچ کر ’اینکر‘ یا ’اینکر پرسن‘ کہلاتے ہیں۔ اے صاحبو! انگریزی لفظ ‘Anchor’کا مطلب تو لنگر ہوتا ہے۔ ’اینکر‘ کا لفظ برادر عبدالخالق بٹ کے سپرد کردیجے۔ وہ متعدد اقوام کی زبان گُدّی سے کھینچ لائیں گے اور بتائیں گے کہ یہ ہمارا ’لنگر‘ ہی تھا جو فرنگی اُٹھا کر ولایت لے گئے، پَر وہاں پہنچتے ہی اُن کی زبان لڑکھڑا گئی اور ’لنگر‘ کو ’اینکر‘ بولنے لگے۔ جیسے ہمارے امیرالبحر کا بیڑا غرق کرکے انھوں نے اپنا ایڈمرل بنا لیا۔ انگریزی ذرائع ابلاغ کی تقلید میں اُردو ذرائع ابلاغ پر اپنے آپ کو ’اینکر‘ کہلوانے والے جو فریضہ سرانجام دیتے ہیں اُس کے لیے ہماری زبان میں ’رابطہ کار‘ اور ’نظامت کار‘ جیسے مہذب الفاظ موجود ہیں۔ لنگر بازی کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اینکرپرسن ہوتا ہی کیا ہے؟ بیچ کا بچولی ہوتا ہے۔ نشری مذاکرے میں (جس کے لیے ان لوگوں کو ‘Talk Show’ کے سواکوئی لفظ نہیں سوجھتا) وہ شرکا کو باہم مربوط کرنے اور ایک نظم کے تحت باری باری بولنے کا موقع دینے کا کام کرتا ہے۔ تو اس ضروری اور مفید شخص کو ’رابطہ کار‘ یا ’نظامت کار‘ کیوں نہ کہا جائے؟ بزبانِ فرنگ ’مردِ لنگرباز‘ یا ’زنِ لنگرباز‘ ہی کہنے پر کیوں اصرار کیا جائے؟
’لنگر بازی‘ ہمارے بچپن میں لڑکوں کا پسندیدہ کھیل تھا۔ لنگر صرف لوہے کی اُس زنجیر یا اُس رسّے ہی کو نہیں کہا جاتا جس کے ساتھ بھاری بوجھ باندھ کر کشتی یا بحری جہاز کو دریا اور سمندر میں ساحل کے قریب روک رکھا جاتا ہے۔ لنگر کے بہت سے مطالب ہیں۔ ان میں سے ایک مطلب شاقول، ساہول، لٹکن یا پنڈولم (Pendulum)بھی ہے۔ ہمارے بچپن میں لڑکے مانجھے میں پتھر باندھ کر اپنے لیے ایک ایک لٹکن بنا لیتے جسے لنگر کہا جاتا۔ یہ لنگر باہم لڑائے جاتے تھے۔ جس کا لنگر ٹوٹ جاتا وہ شکست کھا جاتا۔ اسی کھیل کو لنگر بازی کہا جاتا تھا۔
انسانی دھڑ کے نچلے حصے کو بھی لنگرکہتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے لنگوٹ بھی لنگر کہلاتا ہے۔ ’لنگر لنگوٹ کَسنا‘ یوں تو پہلوانوں کا کُشتی لڑنے کے لیے تیار ہونا ہے، مگر کسی کام کی تکمیل کے لیے پوری تیاری کے ساتھ کوئی اُٹھ کھڑا ہو تب بھی کہا جاتا ہے کہ ’’وہ لنگر لنگوٹ کَس کے چل پڑا‘‘۔ رحمٰن کیانی نے اپنی معرکہ آرا مسدس ’’جنگ نامہ‘‘ میں بھارتی سینا کی کشمیر پر فوج کُشی کی تیاریوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا:
بندوقچی بنے تو کہیں توپچی بنے
لنگر لنگوٹ کَس کے بڑے اوپچی بنے
’اوپچی‘ مسلح یعنی ہتھیار بند بانکے سپاہی کو کہتے ہیں۔جیسا کہ قدرؔ نے اپنے محبوب کو قرار دیا:
مارے غصے کے چڑھی ہیں آنکھیں
اوپچی بن کے وہ جلاد آیا
’لنگر اُٹھانا‘کھڑی کشتی یا جہاز کا رسّا کھول کر اُسے رواں یا روانہ کردینا ہے۔ لیکن خشکی یا فضائی رخصتی کو بھی مجازاً ’لنگر اُٹھانا‘کہہ دیا جاتا ہے۔ ’’ہم آج تھک گئے، اللہ نے چاہا تو کل لنگر اُٹھائیں گے‘‘۔ اسی طرح ’لنگر ڈالنا‘ اگرچہ کشتی یا جہاز کا کسی مقام پر پڑاؤ کرنا ہے، لیکن جب مہمان بلائے جان ہوجائے تب بھی یہی سننے میں آتا ہے کہ ’’اُس نے تو لنگر ڈال دیا ہے‘‘۔ ایک اور لنگر ہے جو بانٹا جاتا ہے۔ بالعموم مزاروں اور خانقاہوں کے زائرین، فقرا اور مساکین میں کھانا تقسیم کرنے کو ’لنگر بانٹنا‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی مخیر شخص محلے میں بھی دیگ پکاکر صلائے عام کردے کہ جو چاہے آئے اور کھانا لے جائے تو یہ عمل بھی لنگر بانٹنا ہی کہا جائے گا۔ بعض حکومتیں جوانوں کو روزگار فراہم کرنے میں ناکام ہوجاتی ہیں تو اُن کے لیے ’لنگر خانہ‘ کھول کراپنے لیے ’توشہ خانہ‘ کھول بیٹھتی ہیں۔
کالم اختتام کو پہنچا تو ہماری نظر آغاز پر پڑ گئی۔ نظر پڑتے ہی ہم نے خود کو خوب شاباش دی۔ اپنی پیٹھ آپ ٹھونکی کہ واہ وا، شاباش لڑکے، واہ وا۔ آج کا کالم لکھ کر تو تم نے اُردو زبان کو ایک نیا محاورہ دے دیا ہے: ’’پلکوں سے لنگر اُٹھانا‘‘۔