پھر چلا مسافر (بھارت کے چار اسفار) حصہ اول، دوم، سوم، چہارم

سفر وسیلۂ ظفر ہے جو کامیابی کی کلید ہے۔ سفر انسانی زندگی کا خاصہ ہے، اس سے کسی طور مفر ممکن نہیں۔ سفر انسان میں بہت سی خوبیوں کو جنم دیتا ہے۔ سفر وسیع القبی، وسیع النظری، جذبۂ تعاون، انسانی زندگی کو سنوارنے، نکھارنے، سلجھانے اور مرتب کرنے کی کوشش بھی ہے اور دوسری تہذیبوں سے آشنا ہونے کا ذریعہ بھی۔ سفر میں تاریخ اور جغرافیہ کے نئے انکشافات سے بھی آگہی ہوتی ہے۔ سفرنامہ اردو کی قدیم صنف ہے۔ سفر اپنے عہد کا عکاس ہوتا ہے اور تہذیبی، سماجی، سیاسی، جغرافیائی، علمی، ادبی، لسانی احوال جاننے اور سمجھنے کا ذریعہ بھی۔

معلوماتی ادب کے لیے سفر اور سفرنامہ بہترین ذریعہ ہیں۔ اردو میں سید فدا حسن اور یوسف خان کمبل پوش کے سفرنامے بہت مشہور ہوئے۔ یونانی مؤرخ ہیروڈٹس کو دنیا کا پہلا سفرنامہ نگار کہا جاتا ہے، جبکہ قدیم سفرناموں میں ابن بطوطہ اور ابن جبیر اندلسی کے تراجم سے اس کا سلسلہ شروع ہوا۔ محمد حسین آزاد کا سفرنامہ ایران، شبلی نعمانی کا سفرنامہ روم، مصر و شام اس کی بہترین مثالیں قرار دی جاسکتی ہیں۔

’’پھر چلا مسافر‘‘ بھارت کے چار اسفار پر مبنی ڈاکٹر مشتاق احمد مانگٹ کا دلچسپ، عمدہ، تاریخ اور مشاہدے کا خوب صورت مرقع ہے جو نئی منازل اور زمینوں سے روشناس کراتا ہے۔ ڈاکٹر مشتاق مانگٹ اپنے حافظے سے ہی کام نہیں چلاتے بلکہ مشاہدات کو اپنے سفر کا حصہ بناتے ہیں کہ پڑھنے والا اس میں ڈوب ڈوب جاتا ہے اور ایک خاص لذت اور سرشاری سے شادکام ہوتا ہے۔

’’پھر چلا مسافر‘‘ کا پہلا حصہ 1996ء میں انڈیا کے پہلے سفر پر مشتمل ہے۔ یہ سفر ایک ہفتے کے دورانیے پر مشتمل تھا جس میں مسافر اکیلا ہی چلا تھا اور یہ سفر ’دہلی‘ تک محدود تھا، کہیں دوسری جگہ جانا نہیں ہوا تھا۔ البتہ دہلی کو انہوں نے اچھی طرح دیکھا اور پرکھا۔ اس حصے میں تاریخی مقامات قرول باغ، جامع مسجد دہلی، دہلی کے آٹھ دروازے، مرزا غالب کی حویلی، دہلی کا اردو بازار، لال قلعہ دہلی، فتح پوری مسجد، بہائی مرکز، مقبرہ ہمایوں، نظام الدین محبوب اولیا، امیر خسرو، نئی دہلی، قطب مینار، مسجد قوت الاسلام وغیرہ کا تذکرہ شامل کیا۔

دوسرا سفر 1999ء میں سید وقاص جعفری اور اپنے ایک دوست عمر فاروق کے ہمراہ کیا۔ یہ ایک طویل دورانیے کا سفر تھا جس میں شمالی اور جنوبی بھارت جانا ہوا۔ چنئی، ممبئی، پونا، راجستھان بھی گئے۔ اس حصے میں سید وقاص جعفری کی سدابہار تحریر ’’بھارت یاترا‘‘ بھی شامل ہے جس میں دہلی کے سفر اور سیر کی روداد میں تاج محل، گوالیار، بھوپال، ناگپور، مہاراشٹر، حیدرآباد، تلنگانہ، تامل، چتوڑ، ممبئی، سورت، اورنگ آباد، سومناتھ اور محمود غزنوی، احمد آباد، دوارکا، گودھرا، اندور، اشوک نگر اور الور کا تذکرہ خوب صورت انداز میں کیا گیا ہے۔

تیسرا سفر 2000ء میں معروف ماہر تعلیم اور شاعر سید انجم جعفری اور ساجد منظور کے ساتھ کیا گیا ہے۔ یہ سفر بھی دو ہفتے یعنی پندرہ روز کے دورانیے پر مشتمل تھا۔ اس سفر میں وہ جہاں شمالی پنجاب گئے وہیں ریاست پٹیالہ میں اپنے آبائی شہر سرہند بھی گئے اور سید انجم جعفری کے گائوں ’’کاریہ‘‘ بھی۔ سید انجم جعفری کے آبا اکبر بادشاہ کے زمانے میں یہاں آکر آباد ہوئے۔ اس سفر میں ممبئی، پونا، گجرات، ہریانہ، میرٹھ، روہتک، حصار، مظفر نگر، پانی پت، ابراہیم لودھی، کلپنا چاولہ، دیوبند، رڑکی، تھانہ بھون، گنگوہ، کیتھل، سہارن پور، تھانیسر، مولانا جعفر تھانیسری، انبالہ، چندی گڑھ، پنجاب کی تاریخ اور تقسیم کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس میں بعض اُن شہروں کا بھی تذکرہ ہے جن کے پاس سے وہ گزرے ہیں۔

چوتھا اور آخری سفر 2005ء میں یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے طلبہ کے وفد اور ڈاکٹر عرفان شیخ کے ساتھ کیا گیا۔ یہ سفر بذریعہ دوستی بس ہوا جو لاہور سے دہلی تک پروٹوکول سے چلتی تھی لیکن آج کل اس کا سلسلہ بند ہے۔ یہ سفر لاہور سے دہلی اور پھر دہلی سے آگرہ تک بس کے ذریعے ہوا، جس میں مختلف صنعتی اور تعلیمی اداروں کا دورہ شامل تھا۔ اس میں اٹاری، امرتسر، جلیانوالہ باغ، بٹالہ، دریائے بیاس، کپورتھلہ، کرتارپور، جالندھر، بابا گورونانک، مقبرہ اکبر کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

یہ اسفار لاہور سے دہلی تک بذریعہ بس بھی کیے گئے اور بذریعہ جہاز بھی، اور دہلی سے آگے بذریعہ ٹرین بھی۔ یہ سفرکسی پیشہ ور سفرنامہ نگار کے نہیں بلکہ ایک سچے سفرنامہ نگار کے ہیں۔ عجائب و غرائب دیکھنے کی سچی خواہش اور تڑپ، تجسس، تفحص، بے باکی و صاف گوئی، صداقت نگاری اور سلاستِ اظہار ان اسفار میں نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر مشتاق مانگٹ نے جو دیکھا، برتا اور سنا اسے من و عن درج کردیا۔ سفر نامہ نگار کا اسلوبِ بیان پیچیدہ اور ادق نہیں بلکہ سیدھا، صاف ستھرا، بے تکلف، شوخی اور سادگی پر مبنی ہے جس میں زندگی مکمل طور پر رواں دواں، سرگرمِ عمل، بھرپور اور پوری طرح جلوہ گر نظر آتی ہے۔ یہ اسفار جہاں بھارت کے سماج، تہذیب ، تاریخ اور جغرافیے کو سمجھنے کا وسیع، غیر متعصبانہ موقع فراہم کرتے ہیں وہیں پر جنوبی اور شمالی ہند تک (شمال سے جنوب تک) ایک نئے تناظر میں معاشی حقائق، شرحِ خواندگی اور معاشرتی فاصلوں کا خوب صورت اور دلچسپ احاطہ کرتے ہیں۔ نیز تقسیم ہند کے دکھ جھیلنے والی نسل، اس کے سماجی و نفسیاتی اثرات نئی نسل تک پہنچے ہیں اور زندگی ان کے درمیان راستہ بناتے ہوئے اپنا سفر طے کرتی چلی گئی۔ ایک ایسے عالم میں جب لاکھوں لوگ بلاامتیازِ مذہب و ملّت کاٹ دیئے گئے، مصنف اور اس کا خاندان بھی اس المیے اور دکھ سے گزرا، ان کے دکھ کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔ یہ دکھ دراصل ایک پوری نسل کا دکھ ہے جو دنیا سے گزر گئی۔ یہ ایک ایسے شخص کا سفرنامہ ہے جس نے اپنی دنیا آپ پیدا کی، اپنی محنت، جستجو، جدوجہد اور حوصلے کو اپنا ہم سفر بنایا، اور اس ہمت اور حوصلے میں اپنے قارئین کو شریک کیا۔

اس سفرنامے میں مسافر اپنے ملنے والوں سے جہاں مکالمہ کرتا ہے وہیں پر ان گنت داستانوں اور تہذیب و تمدن کی جھلک دکھاتا ہے۔ ’’پھر چلا مسافر‘‘ عام سفرناموں سے ہٹ کر لکھا گیا ایک خوب صورت، دلچسپ اسلوب کا حامل سفرنامہ ہے جو پڑھنے والے کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ ان سفرناموں سے حاصل ہونے والی آمدن بے سہارا اور یتیم بچوں کی کفالت کے لیے وقف کی گئی ہے۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ، پاکستان بھر میں دیہاتی علاقوں کے غریب اور یتیم بچوں میں تعلیم عام کرنے کے مشن پر کاربند ادارہ ہے، اور ڈاکٹر مشتاق احمد مانگٹ روشنی کے چراغ جلانے کے لیے نیکی کے اس سفر میں اُس کے ہم سفر اور ہم قدم ہیں۔ بھارت کے یہ اسفار مسلم انڈیا کی تاریخ کا سفر ہے۔ یہ سفر کسی تاریخی المیے سے کم نہیں۔ لیکن مصنف نے یہ سفر ازراہِ سبق اور نصیحت بھی کیے اور بنظر غائر مطالعے اور جائزے سے اپنے ملک و قوم کو ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ مل کر ان کے شانہ بشانہ چلنے پر آمادہ و مائل کرنے کے لیے بھی۔

ان چاروں اسفار کو ’’پھر چلا مسافر‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے، لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان چار اسفار کو الگ الگ نام دیا جاتا اور الگ عنوان سے طبع کیا جاتا جس سے ان اسفار کی قدر و قیمت مزید بڑھ جاتی۔