المیہ یہ ہے کہ قاتلانہ حملے کے فوراً بعد انہیں جب شدید زخمی حالت میں سول اسپتال سکھر لے جایا گیا تو وہاں تمام ڈاکٹروں سمیت پورا طبی عملہ غیر حاضر تھا
یومِ آزادی 14 اگست سے ایک دن قبل سکھر میں اپنے دفتر سے باہر نکلتے ہوئے معروف، دلیر، نڈر اور بے باک صحافی اور رپورٹر جان محمد مہر کو نامعلوم قاتلوں نے گولیاں مار کر شہید کردیا اور پھر فرار ہوگئے۔ شہید جان محمد مہر کا تعلق کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ اور اسی ادارے کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے سندھی نیوز چینل ’’کے ٹی این‘‘ سے تھا۔ سندھ میں دیگر شعبوں کی طرح سے صحافت کا پیشہ بھی بوجوہ خاصا بدنام ہوچکا ہے، تاہم جان محمد مہر کی شہرت اس حوالے سے بے حد اچھی اور نیک نامی کی حامل تھی۔ وہ بے خوف و خطر رپورٹنگ کرنے کی وجہ سے پسند کیے جاتے تھے۔ صوبہ سندھ میںکسی بھی دور میں صحافت کرنے کے لیے حالات سازگار اور مناسب نہیں رہے ہیں۔ صحافی برادری کو رپورٹنگ کی وجہ سے بے حد پھونک پھونک کر اور بڑی احتیاط کے ساتھ اپنے امور سرانجام دینے پڑتے ہیں۔ انہیں ہمہ وقت مقامی وڈیروں، بھوتاروں اور پولیس افسران یا بیوروکریٹس کی ناراضی کا خدشہ لاحق رہتا ہے کہ کہیں ان کی کسی خبر یا رپورٹ کے باعث مزاجِ شاہاں برہم نہ ہوجائیں، کیوں کہ ’’مزاجِ شاہاں تابِ سخن ندارد‘‘ کی سی صورتِ حال ہمہ وقت قائم اور برقرار رہتی ہے، اس لیے اخبارات اور نیوز چینلز سے وابستہ صحافی اور رپورٹر بڑے محتاط رہتے ہیں کہ مبادا ’’انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو‘‘۔ اس کے باوصف رپورٹرز اور صحافی اکثر اپنی دی گئی خبروں کی وجہ سے ظلم و ستم اور تشدد کا نشانہ بنتے رہتے ہیں اور انہیں جرمِِ حق گوئی کی پاداش میں اوپر بیان کردہ عناصر کسی نہ کسی طور سے نشانۂ عبرت بنانے کی اپنی مذموم سعی میں لگے رہتے ہیں۔ صحافی اور رپورٹر نہ صرف جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنائے جاتے ہیں بلکہ بسا اوقات انہیں بے دردی کے ساتھ قتل تک کردیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ماضی تا حال ایسے صحافیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔
ابھی ایک ہفتہ پیشتر ہی خیرپور میرس کے قصبہ احمد پور کے ایک صحافی اصغر کھنڈ کو نامعلوم قاتلوں نے گولیاں مار کر شہید کیا تھا۔ ان کی شہادت کے خلاف سندھ کے اہلِ صحافت سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے کہ جان محمد مہر جیسے دلیر اور بے باک صحافی کو بھی قتل کرکے انہیں سماج دشمن عناصر نے یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ اگر وہ جرمِ حق گوئی سے باز نہ آئے تو انہیں ہمیشہ کے لیے نشانۂ عبرت بنا دیا جائے گا۔ اس کے باوجود سندھ بھر کے صحافی یہ پختہ عزم اور ارادہ کیے ہوئے ہیںکہ
لکھتے رہیں گے جنوں کی حکایت ِ خوں چکاں
ہر چند کہ اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
اگر ماضی میں صحافیوں پر تشدد اور انہیں قتل کرنے والے ملزمان گرفتاری اور سزا کے عمل سے گزرتے تو ایک مرتبہ پھر جان محمد مہر جیسا باصلاحیت، نڈر اور دلیر صحافی قتل نہ ہوتا۔ ایس ایس پی سکھر سنگھار ملک نے جان محمد مہر کی شہادت کے فوراً بعد بلاتحقیق ہی یہ بیان داغ دیا کہ ’’یہ قتل ذاتی دشمنی کا شاخسانہ ہے‘‘۔ اُن کے اس بیان کی مقتول صحافی کے اہلِ خانہ اور صحافی برادری نے مذمت اور تردید کی تو بہ امر مجبوری موصوف کو یہ بیان واپس لینا پڑا۔
صحافی برادری کے مطابق جان محمد مہر کی شہادت کے پسِ پردہ اصل عناصر کو بے نقاب کیا جانا بے حد ضروری ہے۔ شہید گزشتہ تیس برس سے پیشۂ صحافت سے وابستہ تھے۔ 2002ء میں انہوں نے ’’کے ٹی این‘‘ سے وابستگی اختیار کی۔ انہیں بے باک اور جامع رپورٹنگ کی وجہ سے بہت پسند کیا جاتا تھا۔ ان کے ورثا میں دو بیٹیاں اور ایک اہلیہ ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ قاتلانہ حملے کے فوراً بعد انہیں جب شدید زخمی حالت میں سول اسپتال سکھر لے جایا گیا تو وہاں تمام ڈاکٹروں سمیت پورا طبی عملہ غیر حاضر تھا۔
سکھر سندھ کا تیسرا بڑا شہر ہے، اور یہاں جب صحت کی سہولیات کا یہ ابتر حال ہے تو دیگر شہروں کے سرکاری اسپتالوں کی حالتِ زار کا اندازہ بہ خوبی کیا جاسکتا ہے۔ بعدازاں جان محمد مہر کو سکھر کے ایک نجی اسپتال لایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے ان کی موت کا اعلان کیا۔ یہ المناک خبر سندھ بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور صحافی برادری سمیت عام لوگ بھی افسردہ اور دکھی ہوگئے، کیوں کہ جان محمد مہر اپنی بے باک، جان دار اور شان دار رپورٹنگ کے باعث بہت پسند کیے جاتے تھے۔ ماضیِ قریب میں اجے کمار اور اصغر کھنڈ کے بہیمانہ قتل کے بعد جان محمد مہر کے یوم آزادی سے ایک دن قبل ہونے والے قتل نے ثابت کردیا کہ سندھ میں ہر شخص کی جان، مال، عزت اور آبرو دائو پر لگی ہوئی ہے۔ ہر فرد غیر محفوظ اور شدید احساسِ عدم تحفظ سے دوچار ہے۔ جس دن ساری قوم جشنِ آزادی منا رہی تھی اسی دن جان محمد مہر شہید کے آبائی قصبہ چک ضلع شکارپور میں ان کی نمازِ جنازہ ادا کی جارہی تھی جس میں ہر طبقۂ فکر سے وابستہ افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ تمام اہلِ سندھ مقتول صحافی کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا پُرزور مطالبہ کررہے ہیں تاکہ آئندہ کوئی اور صحافی جرمِ بے گناہی اور حق گوئی کی پاداش میں اپنی جان سے نہ جاسکے۔