(تیسرا اورآخری حصہ)
ماہر القادریؒ کی حمدیہ اور نعتیہ شاعری ایک سچے مسلمان اور عاشقِ رسولؐ کی شاعری ہے۔ آپ کی شاعری کیفیات، احساسات اور جذبات کی شاعری ہے، جو سیرتِ سرورِ عالمﷺ سے رہنمائی لیتی ہوئی وجود میں آئی ہے۔ تاثر و کیفیات کی مدھم اور دھیمی لہریں بین السطور سفر کرتی ہیں، یوں شاعر کے ساتھ قاری بھی ہم سفر ہوجاتا ہے۔ شاعر اپنے تجربے میں قاری کو بھی شامل کرلیتا ہے۔ حمدیہ و نعتیہ شاعری عام شاعری سے مختلف ہے، کیونکہ یہ مقدس شاعری ہے جو شاعری کی معراج ہے۔ یہ رتبہ اور مقام مقدر والوں کو ملتا ہے یا پھر انہیں ودیعت کیا جاتا ہے، جو عجز و اخلاص سے اپنے رب سے مانگتے ہیں۔ اللہ کی عطا سے اُن کی آرزو و خواہش پوری ہوتی ہے۔ پھر وہ اس سے وہ کام لیتے ہیں جس کی تاکید اللہ کے رسولﷺ نے کی ہے، یعنی دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت اور دفاع۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’…چوتھی صفت ان مستثنیٰ قسم کے شاعروں کی یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ شخصی اغراض کے لیے تو کسی کی ہجو نہ کریں، نہ ذاتی یا نسلی و قومی عصبیتوں کی خاطر انتقام کی آگ بھڑکائیں، مگر جب ظالموں کے مقابلے میں حق کی حمایت کے لیے ضرورت پیش آئے تو زبان سے وہی کام لیں جو ایک مجاہد تیر و شمشیر سے لیتا ہے۔ ہر وقت گھگھیاتے ہی رہنا اور ظلم کے مقابلے میں نیازمندانہ معروضات ہی پیش کرتے رہنا مومنوں کا شیوہ نہیں ہے۔ اسی متعلق روایات میں آتا ہے کہ کفار و مشرکین کے شاعر اسلام اور نبیﷺ کے خلاف الزامات کا جو طوفان اُٹھاتے اور نفرت و عداوت کا جو زہر پھیلاتے تھے اس کا جواب دینے کے لیے حضورﷺ خود شعرائے اسلام کی ہمت افزائی فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ کعب بن مالک ؓ سے آپؐ فرمایا:’’ان کی ہجو کہو، کیونکہ اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، تمہارا شعر ان کے حق میں تیر سے زیادہ تیز ہے۔‘‘ حضرت حسان بن ثابتؓ سے فرمایا: ’’ان کی خبر لو اور جبریل تمہارے ساتھ ہے‘‘۔ ’’کہو روح القدس تمہارے ساتھ ہے۔‘‘ آپؐ کا ارشاد تھا کہ ’’مومن تلوار سے بھی لڑتا ہے اور زبان سے بھی۔‘‘
(تفہیم القرآن، جلد سوم، از مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، صفحہ 549۔550، ادارہ ترجمان القرآن لاہور)
فخرِ کونین رحمتِ عالَم سرورِ کائنات محمد رسول اللہ ﷺ اللہ کے آخری رسول اور نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(ترجمہ) ’’لوگو! محمدﷺ تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبییّن ہیں، اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔‘‘ (سورہ اَحزاب، آیت نمبر40)
(سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، قرآنِ مجید مع مختصر حواشی ؒ، ادارہ ترجمان القرآن (پرائیویٹ) لمیٹڈ، صفحہ 1071)
عقیدۂ ختمِ نبوت و رسالت کا یہ تقاضا اور مطالبہ ہے کہ مسلمان، حضرت محمدﷺ کے ہر قول و فعل، آپؐ کے کردار و گفتار کو ہدایت و رہنمائی کے لیے کافی سمجھے، آپؐ کی بات کو پہلی اور آخری بات سمجھے۔
ختم نبوت کے حوالے سے ماہرالقادری کے اشعار ملاحظہ کیجیے:
ذاتِ نبیؐ پہ ختم ہے کون و مکاں کا ہر شرف
آپ رسولِ جزو و کل، آپ امامِ اِنس و جاں
اُن کا گر اقرار نہ ہو گا، تکمیلِ توحید نہ ہو گی
عینِ ایماں اُن کی اُلفت صلی اللہ علیہ وسلم
امن ناممکن محمدؐ کی غلامی کے بغیر
جن کی رحمت، جن کی شفقت اس جہاں میں عام ہے
مبارک ہو نبیؐ آخری تشریف لے آئے
مبارک ہو جہاں کی روشنی تشریف لے آئے
مبارک رہبروں کے پیشوا تشریف لے آئے
مبارک صدرِ بزمِ انبیاؑ تشریف لے آئے
مبارک خاتم پَیغمبراں تشریف لے آئے
مبارک ہو امیرِ کارواں تشریف لے آئے
وہ آئے جن کے آنے کو گلستاں کی سحر کہیے
وہ آئے جن کو ختم الانبیاءؐ خیرالبشر کہیے
اللہ کی ہیں آخری حجت مِرے حضورؐ
سارا جہاں مجاز، حقیقت مِرے حضورؐ
یہ بھی ماہرؔ انہی کا ہے لطف و کرم
وصفِ ختم الرُّسُل اور میری زباں
نبوت کا خطابِ عام ہے سارے زمانے سے
وہ شرقی ہو کہ غربی ہو، شہری ہو کہ صحرائی
ذات پر جس کی اتمامِ نعمت ہوا، ساتھ ہی ختم دورِ نبوت ہوا
ہر شرف آپؐ ہی کو ودیعت ہوا، قاسمِ کوثر و سلسبیل و جَناں
آپؐ کا قول و عمل تفسیر ہے قرآن کی
اتباعِ مصطفی معراج ہے اِنسان کی
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(ترجمہ) ’’اے نبی ؐ، لوگوں سے کہہ دو کہ ’’ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری (محمدؐ) پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔‘‘
(سورۂ اٰلِ عمران، آیت نمبر 31، ترجمۂ قرآنِ مجید مع مختصر حواشی، مترجم مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ، صفحہ152)
حضرت عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے آپؐ سے کہا ’’میں آپؐ سے بہت محبت کرتا ہوں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا ’’جو تم کہتے ہو اس پر غور کرلو‘‘۔ اُس نے تین بار کہا کہ ’’بخدا میں آپؐ سے محبت کرتا ہوں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا ’’اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو فقر و فاقہ کا مقابلہ کرنے کے لیے ہتھیار فراہم کرلو، جو لوگ مجھ سے محبت کرتے ہیں ان کی طرف فقر و فاقہ سیلاب سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ بڑھتا ہے۔‘‘ (ترمذی)
ایک سچا مسلمان جب ابلیسی ماحول میں ہو، تو شیطان کے چیلے اُسے ہر طرف سے تنگ کریں گے، اُس کی راہ میں روڑے اٹکائیں گے، حلال ذرائع مفقود ہوجائیں گے۔ ایسے ماحول میں عاشقِ رسولؐ کو ثابت قدمی اور استقامت سے اپنا سفر جاری رکھنا ہوگا تب فلاح ملے گی۔ محبت و عقیدت اور خوشی کے ساتھ حضرت محمدﷺ کی پیروی و اطاعت کرتا رہے۔ مولانا ماہرؔ فرماتے ہیں:
ایمان کی ہے جان محبت رسولؐ کی
ہے فرضِ عین سب پہ اطاعت رسولؐ کی
قرآن کی شرح آپؐ کا خُلقِ عظیم ہے
اللہ کی کتاب ہے سیرت رسولؐ کی
قول و عمل نبیؐ کا ہے، معیارِ زندگی
فطرت کا آئینہ ہے شریعت رسولؐ کی
اللہ تعالیٰ نے کفار کے ارادوں کا جواب دیتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے :
(ترجمہ)’’یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘ (سورۂ صَفّ، آیت نمبر 8)
تشریح:’’یہ بات نگاہ میں رہے کہ یہ آیات تین ہجری میں جنگِ اُحُد کے بعد نازل ہوئی تھیں جبکہ اسلام صرف شہر مدینہ تک محدود تھا، مسلمانوں کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہ تھی، اور سارا عرب اِس دین کو مٹا دینے پر تلا ہوا تھا۔ اُحُد کے معرکے میں جو زک مسلمانوں کو پہنچی تھی، اس کی وجہ سے اُن کی ہوا اکھڑ گئی تھی، اور گرد و پیش کے قبائل اُن پر شیر ہوگئے تھے۔ اِن حالات میں فرمایا گیا کہ اللہ کا یہ نور کسی کے بجھائے بجھ نہ سکے گا بلکہ پوری طرح روشن ہوکر اور دنیا بھر میں پھیل کر رہے گا۔ یہ ایک صریح پیشن گوئی ہے جو حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی۔ اللہ کے سوا اُس وقت اور کون یہ جان سکتا تھا کہ اسلام کا مستقبل کیا ہے؟ انسانی نگاہیں تو اُس وقت یہ دیکھ رہی تھیں کہ یہ ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ ہے جسے بجھا دینے کے لیے بڑے زور کی آندھیاں چل رہی ہیں۔‘‘
(تفہیم القرآن جلد پنجم، مترجم و مفسر مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ، صفحہ 476،477)
مولانا ظفر علی خان اس آیت کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتے ہیں:
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
نبیِ رحمت پیغمبرِ اعظم آں حضرت محمد مصطفیﷺ نے اسلام کی ترویج و اشاعت، تحریر و تقریر کے ساتھ کی۔ ابلیس اور اس کے پیروکاروں کی سازشوں اور جارحانہ حملوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ آپؐ نے کفر کو زیر کرنے اور اسے شکست سے دوچار کرنے، اُن کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے دس سالوں میں 26 غزوات اور 57 سریہ لڑے اور کفار کو کمزور کرکے رکھ دیا۔ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلائی اور اسلامی نظامِ حکومت و قانون قائم کیا جس سے ہر طرف امن و امان اور سلامتی کا دَور دَورہ ہوا، انسانیت نے سُکھ، چین کا سانس لیا۔ علامہ ماہرؔ القادریؒ ان معرکوں کا ذکر کرتے ہوئے اشعار کہتے ہیں:
بدر کے میداں میں خود آ کر وہ رُوحِ کائنات
ہم مسلمانوں کو رازِ زندگی سمجھا گیا
کہیں بدر و خندق میں فوجیں لڑائیں
کہیں صلح کا سلسلہ بن کے آئے
قبا کی مسجدِ اقدس، یہ بدر ہے یہ اُحد
نبیؐ کے دَور کی ہر یادگار کیا کہنا
عَزمِ محمدؐ کا پَرتو ہیں
فَتحِ مکہ، نُصرتِ خیبر
اِک کملی والے کے گھر سے
دُنیا کو تہذیب ملی ہے
کفر کے چھکے چھوٹ گئے تھے
بدر میں جب تلوار چلی ہے
اُس کے جلووں کی ضرورت آج بھی دُنیا کو ہے
جو زمانہ میں اُجالا ہر طرف پھیلا گیا
رسولِ رحمت ﷺ نے جو درسِ جہاد دیا وہ انسانوں کے لیے رحمت و سکون کا باعث بنا۔ پھر مسلمان حکمرانوں نے یہ جدوجہد چھوڑ دی، جس کی وجہ سے مسلمان غلام بن گئے۔ آج تعداد میں دو ارب سے زیادہ، ستاون ممالک، بہترین فوج، سمندر، تیل، معدنیات اور ایٹمی طاقت کے حامل ہونے کے باوجود مسلمان غلام ہیں۔آج کفار ظلم و جبر اور جارحیت کے ذریعے ہم پر غالب ہیں، نیز ہم پر خونیں جنگ مسلط کر رکھی ہے جس میں کروڑوں انسان ہلاک ہوچکے ہیں، اور ہم مسلمان کو دفاع کا حق بھی نہیں دیتے۔آئیے ہم اس غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے حضور پاکﷺ کی غلامی قبول کرلیں، جو رحمت ہی رحمت ہیں۔
محمدؐ عربی رحمتِ تمام و کمال
کہ شرق و غرب میں جاری ہے جن کا فیضِ عمیم
ماہرؔ القادریؒ نے ’’ذکرِ جمیل‘‘ اشاعت اوّل 1944ء کے دیباچے میں تحریر کیا:
’’آخری تمنا ہے کہ ’’ذکرِ جمیل‘‘ کا کچھ حصہ دربارِ اقدس میں حاضر ہوکر اپنی زبان سے عرض کردوں اور اس کے بعد اُسی جانِ حیات کے سامنے دم نکل جائے جس کے قدموں پر جان نچھاور کرنے کے لیے دی گئی تھی۔‘‘ ماہرؔ نے سچے دل اور خلوصِ نیت سے یہ دُعا کی جو اللہ کے ہاں سندِ قبولیت سے ہم کنار ہوئی:
مَرحبا اُلفتِ سردارِؐ دو عالم کے طفیل
آن پہنچا ہوں کہاں کشف و کرامت کے بغیر