مرنا تو ہے، مگر مرنا کون چاہتا ہے؟ کوئی بھی نہیں۔ سبھی زیادہ سے زیادہ جینا چاہتے ہیں۔ بس میں ہو تو جیے ہی چلے جائیں۔ ایسا چونکہ ممکن نہیں اِس لیے کوشش کی جاتی رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ جینا ممکن بنایا جائے۔ ایک زمانے سے انسان اِس امر کے لیے کوشاں ہے کہ کسی نہ کسی طرح موجودہ اوسط عمر سے دُگنی یا تِگنی میعاد تک دنیا میں رہنے کا اہتمام کیا جائے۔
بڑھاپے کو ٹالنے کا عمل تیز کرنے کے لیے دنیا بھر میں تحقیق بھی جاری ہے اور دوائیں بھی بہت بڑے پیمانے پر فروخت ہورہی ہیں۔ اِسے ہم اینٹی ایجنگ کلچر کہہ سکتے ہیں۔ اینٹی ایجنگ یعنی بڑھاپے کو ٹالنے والی دوائیں۔ اِن دواؤں کے رسیا وہ لوگ ہیں جو دن رات اس کوشش میں مصروف رہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ جوان اور پُرکشش دکھائی دیں۔ ایک دور تھا کہ صحت مند دکھائی دینا کافی سمجھا جاتا تھا۔ انسان چاہتا تھا کہ صحت مند رہے تاکہ بیماریاں دور رہیں اور کام میں بھی الجھن محسوس نہ ہو۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ بیماری سے تو محفوظ رہتے ہیں تاہم اُن میں وہ چُستی اور پھرتی دکھائی نہیں دیتی جو کسی بھی کام کو ڈھنگ سے کرنے کے لیے ناگزیر ہوا کرتی ہے۔
اینٹی ایجنگ تھراپی فی زمانہ مقبول ترین طریق ہائے علاج میں سے ہے۔ دنیا بھر میں کروڑوں مال دار افراد اینٹی ایجنگ تھراپی کے ذریعے بڑھاپے کو ٹالنے کی تگ و دَو میں مصروف رہتے ہیں۔ چہرے کے مُردہ خلیوں سے نجات پانے کے لیے کرائی جانے والی سرجری اب عام ہے۔ اِسے عرفِ عام میں ’’کھال کِھنچوانا‘‘ کہتے ہیں۔ کسی زمانے میں مشہور اور صاحبِ حیثیت افراد اور بالخصوص شوبز کے لوگ اس طریقِ علاج کے ذریعے چہرے کو تر و تازہ رکھنے کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ اب معاملہ عام ہوچکا ہے۔ کوئی بھی خطیر رقم خرچ کرنے کے لیے تیار ہو تو کھال کِھنچواکر چہرے کو تر و تازہ کرسکتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اینٹی ایجنگ کلچر زندگی کا حصہ ہوکر رہ گیا ہے۔ اِس میں دوائیں بھی شامل ہیں اور سرجری وغیرہ بھی۔ ساتھ ہی ساتھ خوراک پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ جنہیں اپنی صحت کی فکر لاحق رہتی ہے اور جو بڑھاپے کو تادیر ٹالتے رہنا چاہتے ہیں وہ ماہرین کی مشاورت سے ایسی خوراک کو اپنے معمولات کا حصہ بناتے ہیں جو جسم کو کم سے کم الجھن سے دوچار کرتی ہیں۔ زور لذت سے زیادہ غذائیت پر دیا جاتا ہے۔ عرفِ عام میں اِسے ڈائٹنگ کہتے ہیں۔
انسان زیادہ کیوں جینا چاہتا ہے؟ اِس سوال کے بہت سے جواب ہوسکتے ہیں۔ آسان ترین اور فطری جواب یہ ہے کہ اِس دنیا کی رنگینیاں دامن گیر رہتی ہیں۔ انسان مرتے دم تک اِس امید کا حامل رہتا ہے کہ شاید موت کچھ ٹل جائے اور دنیا میں مزید کچھ دن رہنے کا موقع مل جائے۔
بہت جینا اچھی بات سہی، تاہم ایسا بہت جینا کس کام کا جسے بروئے کار لانے کے بارے میں انسان نے سوچا ہی نہ ہو؟ حبابؔ ترمذی نے خوب کہا ہے ؎
محبت کا ہے بس اِک لمحہ کافی
ہزاروں سال جینے کی ہَوس کیا؟
ہزاروں سال جینے کی ہوس اُنہیں مبارک جو زندگی کو صرف مقدار کا معاملہ سمجھتے ہیں اور اِسی پیمانے سے جانچتے پرکھتے ہیں۔ جنہیں کچھ کرنا ہوتا ہے اُن کے لیے تین چار عشروں کی زندگی بھی بہت ہوتی ہے۔ بہت سے اہلِ علم و فن بھری جوانی میں دنیا سے چلے گئے مگر اپنے نقوش چھوڑ گئے۔ جنہیں کچھ کرنا ہوتا ہے وہ بہت چھوٹی عمر سے عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں اور آرام کے بارے میں سوچے بغیر کام کرتے چلے جاتے ہیں۔ اُنہیں کھانے پینے کا ہوش رہتا ہے نہ پہننے اوڑھنے کا۔ وہ اپنے کام میں اِس قدر منہمک ہوتے ہیں کہ اُنہیں اپنے ماحول کا بھی کچھ ہوش نہیں رہتا کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔ اُنہیں اِس بات سے بھی کچھ غرض نہیں ہوتی کہ لوگ اُن کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ اُن کے سر پر صرف اور صرف کام کی دُھن سوار رہتی ہے۔ اِس معاملے میں ہمارے سامنے علم و فن کی دنیا کے علاوہ شوبز کی دنیا کی بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ سعادت حسن منٹو تقریباً 44 سال کی عمر میں دنیا سے چلے گئے تاہم اپنے نقوش چھوڑ گئے۔ اور یہ نقوش بھی ایسے ہیں کہ مٹائے نہ مٹیں۔ ناصرؔ کاظمی اِس دور کے اہم شعرا میں سے ہیں۔ وہ 46 سال کی عمر میں دنیا سے چلے گئے۔
ہم اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو 80 سال یا اِس سے زیادہ طوالت کی عمر پانے پر بھی کچھ نہیں کرپاتے، اور دوسری طرف بہت سے افراد محض پچیس تیس سال کی عمر تک بھی اِتنا کر گزرتے ہیں کہ دیکھیے اور دانتوں تلے اُنگلی دبائیے۔ آپ نے کیا سوچا ہے؟ کچھ خاص کیے بغیر طویل عمر پانے کی خواہش ہے یا اوسط عمر کی حدود میں رہتے ہوئے کچھ ایسا کر جانا ہے کہ نام زندہ رہے؟
خیر، یہ تو اخلاقیات کی بحث ہے کہ زیادہ جینے میں کچھ فائدہ ہے بھی یا نہیں۔ بدیہی حقیقت یہ ہے کہ آج کا انسان زیادہ سے زیادہ جینا ممکن بنانے کی تگ و دَو میں لگا ہوا ہے۔ اب یہ باضابطہ علم و فن کے درجے میں ہے۔ دنیا بھر میں ایسے انسٹی ٹیوٹ بہت بڑی تعداد میں ہیں جن میں جسم کو نقصان پہنچانے اور بڑھاپے کی طرف مائل کرنے والے اجزا کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے جسم میں خلیے، جو ہمارے جسمانی وجود کی اکائی ہیں، کمزور پڑتے چلے جاتے ہیں۔ خلیوں کے کمزور پڑنے سے ہم بھی کمزور ہوتے جاتے ہیں۔ اِسی کو بڑھاپا کہتے ہیں۔ پرتگال سے تعلق رکھنے والے ’’بایو جیرونٹولوجی‘‘ کے ماہر جوآؤ پیڈرو ڈی میگلہیز (Joao Pedro de Magalhaes) کہتے ہیں ’’اگر ہم سالموں کی سطح پر بڑھاپے کو ختم کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو انسان ممکنہ طور پر 20 ہزار سال تک بھی زندہ رہ سکتا ہے! جی ہاں، 20 ہزار سال۔ جوآؤ پیڈرو ڈی میگلہیز یونیورسٹی آف برمنگھم (انگلینڈ) کے انسٹی ٹیوٹ آف انفلیمیشن اینڈ ایجنگ میں مالیکولر بایو جیرونٹولوجی کے پروفیسر ہیں۔ متعدد جانداروں کے جنین کے تجزیے کی بنیاد پر میگلہیز اس نتیجے تک پہنچے کہ عمر کا بڑھنا یا جسم کا ڈھلنا دراصل جنین کی سطح پر ایک پروگرامنگ ہے، یعنی یہ سوفٹ ویئر کا معاملہ ہے نہ کہ ہارڈ ویئر کا۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہوتا کیسے ہے؟ میگلہیز کہتے ہیں کہ ہم یہ مفروضہ قائم کرسکتے ہیں کہ سائنس دان جینز یعنی جنین کی نوعیت تبدیل کرکے ہمارے خلیوں کو reprogram کرسکتے ہیں اور اِس کے نتیجے میں جسم کے ڈھلنے کی رفتار نمایاں طور پر بہت کم ہوجائے گی۔ مثلاً بوہیڈ وھیلز، ہاتھی، چوہے اور چند دوسرے جاندار ایسی جینز رکھتے ہیں جو سرطان کے خلاف مزاحمت کرکے یا پھر ڈی این اے کی مرمت کے ذریعے عمر بڑھاتی ہیں۔ ہم اِن تمام جانداروں کی جینز کا تجزیہ کرکے تحقیق و تجزیے کے نتائج کو اپنے مفاد میں بروئے کار لاسکتے ہیں۔ اِس کے لیے ایسی ٹیکنالوجی درکار ہوگی جو اِس وقت میسر نہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنے حیاتیاتی ڈھانچے کو اس طور تبدیل کریں کہ سرطان ختم ہوجائے اور جینیاتی سوفٹ ویئر پروگرام کو نقصان پہنچانے والے افعال سے نجات پالیں تو عمومی صحت کے حوالے سے حاصل ہونے والے نتائج انتہائی حیران کن ہوں گے۔
زندگی کا دورانیہ بڑھانے کی کوششیں عشروں سے جاری ہیں۔ ’’کرایونکس‘‘ بھی ایک ایسا ہی شعبۂ علم و فن ہے جس کا بنیادی تصور یہ ہے کہ انسان کو مرنے پر محفوظ کرکے بعد میں، جب مطلوب ٹیکنالوجیز دستیاب ہوں، دوبارہ زندہ کیا جاسکتا ہے! اِس مقصد کے تحت متعدد افراد کے جسم، فاضل رطوبتیں خارج کرکے، منجمد حالت میں محفوظ کردیئے گئے ہیں۔ منفی 55 سینٹی گریڈ پر محفوظ کیے گئے یہ اجسام انتہائی مالدار افراد کے ہیں جنہوں نے خطیر رقم خرچ کرکے اپنے آپ کو (یعنی اپنے مُردہ اجسام کو) محفوظ کروایا ہے تاکہ بعد میں جب متعلقہ یا مطلوب ٹیکنالوجی میسر ہو تو دوبارہ زندہ کیا جائے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ مُردوں کو دوبارہ زندگی دینے کی کوششوں کو کامیاب بنانے والی ٹیکنالوجیز 2050ء تک میسر ہوگی۔
ایک دنیا یہ دیکھنے کے لیے بے تاب ہے کہ جن افراد کی نعشیں محفوظ کی گئی ہیں وہ دوبارہ زندہ کیے جاسکیں گے یا نہیں۔ جن لوگوں نے اپنے مُردہ اجسام محفوظ کروائے ہیں وہ دراصل یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اُن کی موت کے نصف صدی بعد کی دنیا کیسی ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی ٹائم مشین کو زحمتِ کار دیئے بغیر یہ لوگ ٹائم ٹریول یعنی مستقبل کا سفر کرنا چاہتے ہیں۔
عمر کا تعلق دورانیے سے ہے، زندگی کا نہیں۔ زندگی کا تعلق بنیادی طور پر معیار سے ہے، مقدار سے نہیں۔ کوئی سو، ڈیڑھ سو یا دو سو سال زندہ رہنا چاہے تو اُس کی مرضی، مگر سوال یہ ہے کہ اِتنا جی کر وہ کرے گا کیا؟ اگر ڈھنگ سے گزاری جائے تو محض چالیس پچاس سال کی زندگی بھی بہت ہوتی ہے۔ عمومی مشاہدہ ہے کہ انسان آٹھ یا نو عشروں کی زندگی پائے تو آخر میں جسم زیادہ پریشان کن نہ بھی ہو تو حافظہ الجھنیں پیدا کرتا ہے۔ آج کی ہنگامہ خیز دنیا میں اگر کوئی سو سال مکمل کرے تو اُس کے ذہن میں اتنا کچھ بھرچکا ہوگا کہ وہ بہت اچھے حالات میں زندگی بسر کرنے پر بھی حافظے کے ہاتھوں پریشان ہی ہوگا۔ جوآؤ پیڈو ڈی میگلہیز نے تو 20 ہزار برس کی بات کی ہے، ذرا سوچیے اگر کوئی محض 200 سال بھی زندہ رہ جائے تو اُس کے حافظے کے بھرے ہوئے ہونے کے باعث ذہنی حالت کیا ہوگی! اگر جسم اچھی حالت میں ہوگا تب بھی بھرے ہوئے حافظے کے ہاتھوں ذہن سوہانِ روح ہوچکا ہوگا۔
آج بھی ہم ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں جن کا جسم اگر 80 یا 90 سال کی عمر میں بھی بہت اچھا ہو تو ذہنی حالت بہرکیف قابلِ رحم ہوجاتی ہے۔ یہ ہے طویل عمر کا سب سے خطرناک منفی پہلو۔ اللہ نے ہمارے لیے جو کچھ بھی طے کیا ہے وہ ہمارے لیے بہترین ہے۔
اینٹی ایجنگ تھراپی کے ذریعے اپنے آپ کو دنیا میں زیادہ سے زیادہ رکھنا اُس وقت کارگر رہتا ہے جب انسان کے پاس کرنے کے لیے کچھ ہو، یا وہ کچھ ایسا کرکے جانا چاہتا ہو کہ لوگ یاد رکھیں۔ یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ یہاں جتنا بھی قیام ہے وہ اللہ کے کرم کی علامت ہے۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ اللہ کے کرم کی علامت ہمارے لیے آخرت میں بڑی زحمت نہ بنے۔ اِس دنیا میں گزارا جانے والا وقت بھلائی کے کاموں میں کٹے تو اچھا ہے۔ ایسے میں اوسط عمر والی زندگی بھی بہت ہے۔ اگر خیر کے ساتھ جینے کی توفیق نہ ہو تو سو دو سو سال جینے کی خواہش بے معنی ہے کیونکہ ایسی زندگی تو ہمارے لیے آخرت میں الجھنیں ہی پیدا کرے گی۔