مسلم میڈیا کی ضرورت

آپ انگریزی تعلیم یافتہ ہیں، اور ریل کے کسی اونچے درجہ میں سفر کررہے ہیں۔ اس وقت آپ کے اور آپ کے دوسرے ساتھیوں کے ہاتھ میں انگریزی اخبارات کا ہونا لازمی ہے۔یہ اخبارات کون سے ہوتے ہیں؟ یہی پانیرؔ، اسٹیٹسمینؔ، ٹائمس آف انڈیاؔ، ہندوستان ٹائمسؔ، لیڈرؔ، بمبئی کرانیکلؔ ہیں نہ، یا کوئی اور؟ اِن اخبارات میں سے کوئی مسلمانوں کا بھی اخبار ہے؟ کوئی واقعاتِ عالَم کومسلمان کی نقطۂ نظر سے بھی دیکھتاہے؟ کوئی آپ کی نمائندگی بھی کرتاہے۔ ریوٹرؔ ہو یا ایسوسی ایٹڈ پریسؔ، فری پریسؔ ہو یا کوئی اور۔ کوئی بھی نیوز ایجنسی آپ کے ہاتھ میں ہے؟ بہرحال خبریں ہوں، یا واقعات، جو آواز بھی آپ کے کانوں تک پہونچتی ہے، سب غیروں ہی کی پہونچائی ہوئی ہوتی ہے۔

انگریزی کو چھوڑئیے۔ آپ کہہ سکتے ہیں، کہ انگریزی میں مجبوری یہ ہے، کہ مسلمانوں کا کوئی اخبار ہی، کہنا چاہئے کہ موجود نہیں۔ اُردو کو لیجئے۔ اُردو میں تو آپ اپنے اخبارات کے وجود کی نفی نہیں کرسکتے۔ اس پر بھی، آپ کا محل کیاہے؟ جب چاہئے، ریل کا ذرا طویل سفر کرکے تجربہ کرلیجئے، ملاپ اور پرتاب اور تیج، کثرت سے آپ مسلمانوں کے ہاتھوں میں دیکھیں گے، آخر آپ کے روزنامے بھی تو لکھنؤ اور دہلی،لاہور اور بمبئی، سے نکل رہے ہیں، لیکن آپ کو اُنھیں چھوڑ کر بیگانہ نوازی کرتے ذرا غیرت نہیں آتی۔ آپ کے یہ پرچے بھلے نہ سہی بُرے، اور اعلیٰ نہ سہی ادنیٰ سہی، لیکن سوال یہ ہے ، کہ کیا یہ اُن سے بھی گئے گزرے ہیں، جن کی سرپرستی ، اغیارنوازی کرکے آپ فرمارہے ہیں؟ ’’لاکھ ناداں سہی کیا تجھ سے بھی ناداں ہوں گے‘‘؟ بیگانوں سے نفرت وبیزاری آپ یقینا نہ برتئے، لیکن آخر اپنوں کو چھوڑ کر، بیگانوں کو نوازنا، اپنی آنکھ، کان، دل، دماغ، کو اغیار کے اثرات وروایات کا تابع بنادینا، کس آئین ودانش وقانون خودداری کے مطابق ہے؟

اخبارات کا نام محض بطور مثال لے دیاگیا۔ زندگی کا کون سا شعبہ ہے، جس میں آپ دوسروں کے دست نگر نہیں؟ جس میں آپ نے اپنی خود داری مٹاکر، دوسروں کو اپنے اوپر حاکم ومختار نہیں بنالیاہے؟ جس میں آپ رفتہ رفتہ خود اپنے سے بیگانہ ہوکر نہیں رہ گئے ہیں؟……خیالات کی رَو یہاں تک پہونچی تھی، کہ ایک عارف کی زبان سے کلام پاک کی یہ آیت سننے میں آئی:-

ولا تکونوا کالذین نسوا اللہ فأنساہم أنفسہم۔

اے ایمان والو! کہیں اُن لوگوں کی طرح نہ ہوجانا، جنھوں نے پہلے اللہ کو بھلایا ، پس اللہ نے انھیں ایسا مسخ کردیا، کہ وہ خود اپنے کو بھی بھول گئے۔

یہ سارا نظارہ، اگرفأنساہم أنفسہم (اپنے آپ کو بھول بیٹھے) کی عملی تفسیر نہیں تو اور کیاہے؟ اور یہ سزا اور لازمی نتیجہ ہے نسوا اللہ (اللہ کو بھول جانے) کا!

(تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی ،
صدق جدید، لکھنؤ(۱۱؍مارچ ۱۹۳۲ء)

مجلس اقبال
عزیز تر ہے متاعِ امیر و سلطاں سے
وہ شعر جس میں ہو بجلی کا سوز و براقی

علامہ اقبال اپنے کلام میں مختلف مقامات پر مختلف انداز میں اپنے کلام کی حقیقت اور اہمیت کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ اس شعر میں بھی وہ بتارہے ہیں کہ اگر ایسا شعر جس میں جذبوں کو جلا بخشنے اور مشکلات کو حل کرنے کے لیے روشنی اور رہنمائی کا پیغام ہو تو ایسا شعر حقیقت میں بادشاہوں کے خزانوں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے، اس لیے کہ اس میں روشنی ہوتی ہے، حرارت ہوتی ہے اور حیات آفرینی کا درس ہوتا ہے۔ علامہ اپنے کلام کے سوزو گداز سے بخوبی آگاہ ہونے کی بنا پر بجا طور پر اپنے مخاطب کو متوجہ کرتے ہیں کہ میرے کلام کے معنی سمجھو اور اس میں بتائی گئی حکمت و دانائی سے فائدہ اٹھا کر اپنے دور کی مشکلات کا مقابلہ کرو۔