آزادی کا جشن اور ہمارا نظام انصاف

قوم کو عظیم تر بنانے کے ترانوں کی گونج میں ہم قوم کو قوم بنانا ہی فراموش کرگئے

وطنِ عزیز کے جشن آزادی کی تقریبات زور و شور سے جاری ہیں۔ ایک جانب موجودہ اپوزیشن کی جماعت کے افراد اس کو تقریباً یوم سیاہ کے طور پر منانا چاہتے ہیں تو دوسری جانب ایوانِ اقتدار میں مسلح افواج کی پریڈ، سپہ سالار کا خطاب اور وطنِ عزیز کی سلامتی، خودمختاری اور مکمل دفاع کا عزم جیسے مناظر ٹی وی اسکرینوں سے اہلِ وطن تک پہنچ رہے ہیں۔ اس تمام تناظر میں جو بات اصل میں یاد رکھنے کی تھی اور جس کا تذکرہ بار بار کیا جانا انتہائی ضروری تھا وہ فراموش کردیا گیا ہے۔ یہ ہماری قومی بدقسمتی ہے کہ قوم کو عظیم تر بنانے کے ترانوں کی گونج میں ہم قوم کو قوم بنانا ہی فراموش کرگئے۔ دنیا بھر میں اقوام دراصل اپنے کسی بھی وطنی نظریے سے کمٹمنٹ کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں۔ کہیں یہ نظریہ لسانی ہے تو کہیں یہ نظریہ کسی وطنی قومیت کے زیراثر کام کرتا ہے، کہیں کسی نظریاتی ریاست کا بھی وجود ملتا ہے، لیکن ان تمام قسم کی اقوام میں جو قدر مشترک ہے وہ کسی نظامِ عمرانی پر ان کا اجتماع ہے، اور اس نظام پر ان کا یقینِ کامل ان کو قوم کے قالب میں ڈھالتا ہے۔ یہ نظام ان کو آزادی، مساوات، عدل و انصاف جیسے بنیادی انسانی حقوق فراہم کرتا ہے۔ ریاست مدینہ سے لے کر جدید ریاستوں تک ان امور کو قوم کو قوم بنانے کی شاہ کلید قرار دیا جاتا ہے۔ ہر وہ قوم جو اپنا نظام عدل و انصاف کسی حد تک غیر جانب دارانہ رکھتی ہے، جہاں سزا و جزا کا کوئی نہ کوئی اصول کارفرما ہوتا ہے، وہاں معاشرے پھلتے پھولتے ہیں، افراد کا ریاست پر اعتماد بڑھتا ہے، اور گلی محلوں میں افراد آپ کو باہم دست و گریباں نظر نہیں آتے، کیونکہ انہیں یقینِ کامل ہوتا ہے کہ ان پر ظلم کی صورت میں ریاست کا طاقتور نظامِ عدل ان کو انصاف مہیا کرے گا۔ گزشتہ کالم میں ہم نے وطن سے ایک بڑی تعداد میں باصلاحیت افراد کے بیرونِ ملک جانے پر کچھ گزارشات پیش کی تھیں، اسی ضمن میں مزید عرض ہے کہ اصل میں نوجوانوں کا ریاست پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے، اور اس کی وجہ نظامِ عدل کی مکمل ناکامی ہے، اور ان کو کسی بھی ظلم کی صورت میں نظامِ عدل سے کسی بھی خیر کی کوئی توقع نہیں ہے۔

اس تمہید کا مقصد آپ کو ہرگز وطنِ عزیز سے برگشتہ کرنا نہیں بلکہ اس جانب توجہ مبذول کروانا ہے کہ خرابی کی جڑ کہاں ہے اور کس طرح اس سے نمٹا جاسکتا ہے۔ جشنِ آزادی سے قبل ایک خبر اخبارات اور ٹی وی اسکرینوں کی زینت بنی جس میں 8 سال کے بعد انسدادِ دہشت گردی کے مقدمے سے ڈاکٹر عاصم حسین، عثمان معظم اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی عدالت سے بریت تھی۔ اس مقدمے کا آغاز 2015ء میں ہوا جب رینجرز کے انسپکٹر عنایت حسین درانی نے ایک ایف آئی آر نارتھ ناظم آباد تھانے میں اپنی مدعیت میں درج کروائی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ ڈاکٹر عاصم حسین نے اپنے اسپتال میں دہشت گردوں کو پناہ دی اور ان کا علاج کیا جس کی معاونت عثمان معظم سمیت دیگر افراد نے بھی کی۔

جبکہ مقدمے میں نامزد ملزم عثمان معظم کا کہنا یہ ہے کہ 2015ء میں بنائے گئے قانون کہ جس میں کسی بھی فرد کو بغیر کسی الزام و ثبوت کے 3 ماہ کے لیے گرفتار کرنے اور فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف ان کی جدوجہد، سیمینار اور سپریم کورٹ میں اس کے خلاف درخواست دائر کرنے کی بناء پر ان کو اس مقدمے میں ملوث کیا گیا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان آٹھ سالوں میں مقدمہ نہیں چل سکا اور آخرکار فروری 2023ء میں سندھ حکومت نے عدالت سے مقدمہ واپس لینے کی درخواست کی، جس پر عدالت نے نوٹس جاری کیے اور بار بار نوٹس کے اجراء کے باوجود بھی رینجرز انسپکٹر مدعیِ مقدمہ عنایت حسین درانی پیش نہ ہوسکے اور عدالت نے ان ملزمان کو بری کردیا۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ہی کشمیر میں دادِ شجاعت دینے والے افراد کو قتل کرنے میں بھی رینجرز کا اہل کار ملوث پایا گیا جو کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را کے لیے کام کررہا تھا، جس کو آئی بی نے گرفتار کیا۔ اس مقدمے میں نامزد افراد ایک طویل عرصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے، ان کو حبس بیجا میں رکھا گیا، اور آٹھ سال کی طویل اذیت کے بعد معلوم ہوا کہ مدعی یعنی رینجرز ہی مقدمے کی پیروی سے بھاگ گئی۔

اب ایک اور مثال آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں کہ جس میں برطانیہ کے باشندوں نے ریاست برطانیہ اور برطانوی خفیہ ایجنسیوں پر مقدمہ کیا کہ ان کو سیکورٹی ایجنسیوں کی اطلاع پر یا ان کی آشیرباد سے امریکی حکام نے گوانتاناموبے میں نہ صرف قید کیا بلکہ ان پر اس دوران تشدد بھی ہوا، گو کہ اس تشدد میں برطانوی اہل کار شامل نہ تھے، لیکن ان کا دعویٰ تھا کہ ایک عرصے بعد گوانتاناموبے سے ان کی رہائی ان کی مکمل بے گناہی کا ثبوت ہے، لہٰذا ان کو گرفتار کروانے اور ان پر تشدد کو رکوانے میں ناکامی پر عدالت خفیہ ایجنسی اور ریاست کے خلاف کارروائی کرے۔ یہ برطانوی تاریخ کا ایک انوکھا مقدمہ تھا جس میں گوانتاناموبے جیسی جیل سے واپس آنے والے اپنی ریاست کو ہی مورد الزام نہ صرف ٹھیرا رہے ہیں بلکہ اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی عدالت سے کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ مقدمہ تقریباً 13 سال پرانا ہے جب پوری دنیا میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ جاری تھی اور برطانیہ اس جنگ کا صفِ اوّل کا اتحادی تھا۔ یہ مقدمہ کرنے والے تمام کے تمام مسلمان تھے، لیکن ریاست پر ان کا اعتماد ان کو ایک انوکھے مقدمے میں لے کر چلاگیا جس پر میڈیا میں بڑے تبصرے ہوئے، ان کو دہشت گرد قرار دیا گیا، عدالت کو کہا گیا کہ ان کا مقدمہ خارج کرکے ان کو جیل بھیج دے۔ لیکن عدالت نے وزارتِ داخلہ سمیت تمام ایجنسیوں کو بھی نوٹس جاری کردیے۔ اس مقدمے میں برطانوی وزارتِ داخلہ نے استدعا کی کہ یہ ریکارڈ انتہائی حساس ہے لہٰذا عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس سے قومی راز افشاء ہونے کا احتمال ہے، جس پر عدالت نے وزارتِ داخلہ کو مدعیانِ مقدمہ سے عدالت سے باہر معاملہ طے کرنے کا ایک موقع دیا۔ برطانوی وزارتِ داخلہ نے نہ صرف ان مسلمان ملزمان سے معافی مانگی بلکہ ان کو فی کس تقریباً ایک ملین پاؤنڈ ہرجانہ بھی ادا کیا تب ریاست کی اس مقدمے سے جان چھوٹی۔

مغرب میں اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے باوجود آج بھی ریاست مضبوط نظر آتی ہے، اس کی ایک بنیادی وجہ نظامِ عدل پر عوام کا اعتماد ہے۔ مسلمانوں کو کافروں کے ملک میں بھی اس بات کا یقین ہے کہ ریاست اُن کے خلاف کسی بھی ظلم و زیادتی کی صورت میں انہیں انصاف دے گی۔ اور دوسری جانب ایک اسلامی جمہوریہ میں ایک مسلمان کو بھی اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے آٹھ سال کا طویل آزما صبر درکار ہے کہ جہاں ایک جھوٹے مقدمے سے جان چھڑانے میں سیکڑوں پیشیاں بھگتنی پڑتی ہیں اور کثیر رقم خرچ ہوجاتی ہے۔

ریاست پاکستان سے مایوسی کی وجہ نہ تو بیرونی دشمن ہے، نہ معاشی حالات… بلکہ اصل اور بنیادی وجہ ہمارا نظامِ عدل ہے کہ جہاں سارا انصاف اور نظامِ انصاف صرف اشرافیہ کے لیے حرکت میں آتا ہے۔ جہاں خود اعلیٰ عدالتوں کے جج اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے ذلیل و خوار ہوں وہ عدالتیں کسی کو کیا انصاف مہیا کریں گی؟

پاکستان میں مایوسی کو اگر جڑ سے اکھاڑنا ہے تو نظامِ انصاف کو نئے سرے سے استوار کرنا ہوگا، ایک ایسا نظام کہ جہاں ہر فرد کو یقین ہو کہ اُس کے ساتھ اگر کوئی ظلم ہوا تو ریاست اور اس کا نظامِ عدل اُس کی پشت پر ہوگا۔ ورنہ قرآنی آیات کے حوالے، وطن سے باہر جانے سے پہلے سوچ لینے کے بل بورڈز بھی مل کر ہمارے اعلیٰ ترین اذہان کو بیرونِ ملک جانے سے نہیں روک سکتے۔ آج بھی ایسے سیکٹروں اعلیٰ اذہان موجود ہیں جو اپنے وطن واپس جانا چاہتے ہیں لیکن ان کے سامنے پنجاب میں ایک کڈنی ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ امریکی معالج ڈاکٹر سعید اختر کے ساتھ ہونے والا سلوک ان کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔

اگر پاکستان پر نئی نسل کا اعتماد برقرار رکھنا ہے تو صرف ایک کام کریں، اس ریاست میں نظامِ عدل کو واقعی نظام ِعدل بنادیں، تب ہی یہ ملک راتوں رات ترقی کرے گا۔ ورنہ نعرے لگانے، آزادی کے جشن منانے کو ہی ہم قوم کی ترقی کا ضامن سمجھ بیٹھے ہیں تو یہ ایک سراب ہے… محض سراب۔ قوم کو نظامِ عدل کی جتنی ضرورت آج ہے اتنی شاید پہلی کبھی نہ تھی۔ اس قوم کو اندر سے توڑا جارہا ہے، اسے جوڑنے کا واحد حل مستحکم نظامِ عدل ہے۔