پاک افغان دو طرفہ تجارتی تعلقات

آئی آر ایس پشاور کے زیر اہتمام سیمینار کا انعقاد

پشاور میں متعین امارتِ اسلامی افغانستان کے قونصل جنرل حافظ محب اللہ نے کہا ہے کہ پاکستانیوں نے انصار بن کر اپنے افغان مہاجرین بھائیوں کی جو مدد کی، دنیا کی کوئی قوم اس کی مثال پیش نہیں کرسکتی، اگر پاکستان کی مدد شاملِ حال نہ ہوتی تو افغانوں کے لیے وقت کی دو سپر پاورز سوویت یونین اور امریکہ کو شکست دینا ممکن نہیں تھا، اگر پاکستان اور افغانستان مل کر اتنا بڑا کارنامہ سرانجام دے سکتے ہیں تو دونوں برادر پڑوسی ممالک کے لیے تجارت اور ترقی میں مل کر پیش رفت کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز (آئی آر ایس) پشاور کے زیراہتمام قاضی حسین احمد آڈیٹوریم میں پاک افغان دو طرفہ تجارتی تعلقات کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے بطور مہمانِ خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جب کہ اس موقع پر پاک افغان چیمبر کے ڈائریکٹر اور اباسین کالم رائٹرز ایسوسی ایشن کے صدر ضیاء الحق سرحدی، سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ایگزیکٹو ممبر شاہدحسین، اور آئی آر ایس کے چیئرمین ڈاکٹر محمد اقبال خلیل نے بھی اظہارِ خیال کیا۔

حافظ محب اللہ نے کہا کہ آج کی یہ کوشش دوستانہ اور بالخصوص دو طرفہ تجارتی مراسم میں بہتری کی جانب ایک مؤثر قدم ہے جس پر آئی آر ایس قابلِ مبارک باد ہے۔ انہوں نے کہا کہ روس اور امریکہ کی افغانستان میں جارحیت کا مقصد افغانوں کے جذبۂ حریت اور اسلام سے ان کی عقیدت کو نقصان پہنچانا تھا۔ روس اور امریکہ نے افغانستان میں کوئی ترقیاتی کام نہیں کیے بلکہ ہمارے انفرااسٹرکچر کو نقصان پہنچایا گیا، ہماری زراعت، ڈیموں کی تعمیر، کاروبار اور معیشت کی بہتری پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، کیونکہ اُن کا مطمح نظر ہماری ترقی نہیں بلکہ ہمیں اپنا غلام بنانا تھا۔ اگر امریکہ کے 20 سالہ قیام میں تعلیم اور صحت پر توجہ دی جاتی تو آج ہمیں تعلیم اور صحت کے لیے دربدر کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑتیں۔ اشرف غنی کا افغانستان کے ایک تہائی علاقے پر کنٹرول تھا لیکن ساری دنیا نے اس کی حکومت کو تسلیم کررکھا تھا، جبکہ آج افغانستان کے چپے چپے پر امارتِ اسلامی کی ایک مستحکم حکومت ہے لیکن دنیا اسے اپنے دوغلے کردارکی وجہ سے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

حافظ محب اللہ نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان اگر عزم اور ارادہ کرلیں تو انہیں دنیا کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ دونوں برادر ممالک ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کو قدرت نے بے پناہ قدرتی وسائل دیئے ہیں، پاکستان ان سے استفادہ کرسکتا ہے، جب کہ پاکستان افغانستان کی خوراک سمیت بعض دیگر ضروریات پوری کرسکتا ہے۔ یہود اور نصاریٰ ہمارے درمیان رخنہ ڈالنا چاہتے ہیں، ہمیں مل کر اس سازش کو ناکام بنانا ہوگا۔ اگر ہم مل کر دو بڑی طاقتوں کو شکست دے سکتے ہیں تو تجارت اور کاروبار میں بھی ایک دوسرے کی سہولیات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دو طرفہ تجارت میں جو چھوٹے موٹے مسائل حائل ہیں انہیں دونوں جانب کے کاروباری طبقے کی مشاورت سے بات چیت کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ آئی آر ایس اس طرح کی تعمیری اور مثبت سرگرمیاں مستقبل میں بھی جاری رکھے گا جس سے دونوں پڑوسی ممالک کو مشترکہ مفادات کے حصول میں مدد ملے گی۔

ضیاء الحق سرحدی نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 1965ء اور2010ء کے پاک افغان ٹرانزٹ معاہدوں کے وقت بارڈر پر دو تین محکمے ہوتے تھے، اب درجنوں محکمے ہیں لیکن مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھتے جارہے ہیں۔ ماضی میں پانچ ہزار روپے کی فیس میں مال محفوظ طریقے سے سرحد پار پہنچ جاتا تھا لیکن اب درجنوں پھاٹکوں پر رشوت روزمرہ کا معمول ہے، دونوں جانب کے حکام کو ان مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔ چند سال پہلے تک پاکستان کا افغان تجارت میں حصہ50 فیصد تک تھا اور اس وقت افغان تجارت کا کل حجم 5 ارب ڈالر ہے۔ پچھلے چند سالوں کے دوران 70 فیصد افغان کارگو ایرانی بندرگاہوں بندرعباس اور چا بہار منتقل ہوچکی ہے جس کا نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑرہا ہے۔ افغانستان میں ایک مستحکم حکومت کے قیام کے بعد دونوں ممالک کو مشترکہ تجارت پر توجہ دینی چاہیے، اس ضمن میں گزشتہ دنوں ازبکستان، افغانستان اور پاکستان کے درمیان طے پانے والا سہ فریقی ریلوے ٹریک منصوبہ سنگِ میل ثابت ہوسکتا ہے۔ ضیاء الحق سرحدی نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت بین الاقوامی قوانین کے تحت ہورہی ہے، اس ضمن میں ماضی میں کئی معاہدے ہوئے ہیں۔ 1965ء اور 2010ء کے ان معاہدوں میں جو خامیاں ہیں ان کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں برادر پڑوسی ممالک کو قریب لانے کے لیے آئی آر ایس جو کردار ادا کررہا ہے وہ لائقِ تحسین ہے۔ اسی طرح پشاور میں قائم افغان قونصل خانہ دو طرفہ تجارت میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ماضی میں علم وخبر کے نام سے ایک رپورٹ باقاعدگی سے شائع ہوتی تھی جس میں ٹرانزٹ اور ایکسپورٹ کے دو طرفہ مال کا اندراج ہوتا تھا۔ وہ ایک مستند دستاویز ہوتی تھی۔ اس دستاویز کی وجہ سے تاجروں کو خاصی آسانی ہوتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جولائی 2022ء سے جون 2023ء تک افغانستان کو پاکستان کی کُل 968.43 ملین ڈالر کی ایکسپورٹ ہوئی جس میں فارما، میڈیسن مصنوعات، چاول، تیل، پلاسٹک، چربی، چیونگم، بسکٹ، کیک، کھانے پینے کی مصنوعات، ایلومینیم وغیرہ شامل ہیں، اور اسی طرح جولائی 2022ء سے جون 2023ء تک افغانستان سے پاکستان کی کُل 893 ملین ڈالرز کی امپورٹ ہوئی جس میں فریش فروٹ، ڈرائی فروٹ، سبزیاں، انگور، سیب، خوبانی، اسٹرابیری، لوہے اور اسٹیل کا اسکریپ، کوئلہ، جیمز، سوپ اسٹون، کاٹن، دھاتیں وغیرہ شامل ہوئیں۔ ضیاء الحق سرحدی نے کہا کہ SRO121 کو ختم کیا جائے تاکہ لوزکارگو ماضی کی طرح پاکستان ریلوے کے ذریعے کراچی سے پشاور، چمن تک آسکیں، اور خالی کنٹینر شپنگ لائنز کے حوالے کیے جائیں۔ اس اقدام سے افغان تاجروں کو کروڑوں روپے کا ڈیٹینشن چارج ادا نہیں کرنا پڑتا ہے۔

شاہد حسین نے کہا کہ پاک افغان تجارت نہ صرف دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے بلکہ یہ دونوں جانب خاص کر سرحدی صوبوں کے عوام کے بھی وسیع تر مفاد میں ہے۔ کسی ملک کی معیشت تجارتی سرگرمیوں سے بہتر ہوتی ہے جس کے اثرات پورے معاشرے پر پڑتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان میں ٹرانزٹ ٹریڈ اور دو طرفہ تجارتی روابط دہائیوں سے قائم ہیں۔ ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت افغانستان بیرونی دنیا سے تجارت کرتا ہے، جبکہ دو طرفہ تجارت میں ایک دوسرے کے ملک سے برآمد، درآمد کرنے والی اجناس لائی اور لے جائی جاتی ہیں۔ اگر یہاں مال باقی ممالک سے منگوایا جائے تو وہ مہنگا پڑتا ہے اور اس کا دونوں برادر ممالک کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔ مشترکہ منڈیوں کے قیام کے ذریعے مشترکہ اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ پاک افغان تعلقات میں مسائل عارضی اور سطحی ہیں، دشمن طاقتیں ان کو ہوا دے کر دونوں برادر ممالک کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ دونوں جانب کی آزادانہ نقل و حرکت سے دوطرفہ تجارت کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔

ڈاکٹر محمد اقبال خلیل نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ دونوں برادر پڑوسی ممالک مذہب، تاریخ، ثقافت اور زبان کے مشترکہ رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تجارتی تعلقات کا مستقبل روشن ہے۔ مسائل اپنی جگہ موجود ہیں لیکن یہ نہ پہلے اور نہ اب دو طرفہ تعلقات پر اثرانداز ہوں گے۔ بیرونی عناصر ان دو طرفہ تعلقات کو خراب کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ یہ عناصر دونوں برادر ملکوں کے مشترکہ دشمن ہیں۔ یہ دنیا تجارت کی دنیا ہے۔ یورپ تجارت کے لیے ایک ہوا ہے۔ چین تجارت کی بنیاد پر دنیا بھر میں پائوں پھیلارہا ہے۔ ہمیں بھی ان قوتوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ پاکستان اورافغانستان دنیا کے اہم ترین جیو اسٹرے ٹیجک مقام پر واقع ہیں۔ ان دونوں ملکوں کی قربت سے پورے خطے کی قسمت بدل سکتی ہے۔ یہاں ترقی کےبے پناہ مواقع ہیں۔ اس خطے میں معاشی انجن بننے کے بھرپور مواقع موجود ہیں۔ 2012ء میں پاک افغان تجارت عروج پر تھی، اب یہ گھٹ کر 20 فیصد رہ گئی ہے۔ ہمیں مل کر اس شرح کو اوپر لے کر جانا ہے۔ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی ترقی افغانستان کے امن و استحکام اور وہاں کاروباری سرگرمیوں سے منسلک ہے۔ سڑکوں اور ریلوے نیٹ ورک کے ذریعے ان دوطرفہ تعلقات کو بلندیوں تک پہنچایا جاسکتا ہے جس کے لیے دونوں ممالک کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقے کو کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔ آئی آر ایس کی ان سرگرمیوں کا بنیادی مقصد دونوں طرف موجود غلط فہمیوں کا خاتمہ اور دونوں برادر ممالک کے عوام کو قریب لاتے ہوئے ایک دوسرے کے وسائل سے استفادے کی راہ ہموارکرنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔

مقررین کی ان آراء سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پاک افغان تعلقات میں مسائل عارضی اور سطحی ہیں، دشمن طاقتیں ان کو ہوا دے کر دونوں برادر ممالک کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں جانب مسائل اپنی جگہ موجود ہیں لیکن انہیں دو طرفہ تعلقات پر اثرانداز نہیں ہونا چاہیے۔ درحقیقت بیرونی عناصر ان دو طرفہ تعلقات کو خراب کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ یہ عناصر دونوں برادر ملکوں کے مشترکہ دشمن ہیں۔ موجودہ دنیا تجارت کی دنیا ہے جس کی واضح مثال یورپی یونین کا قیام ہے، حالانکہ یہی یورپی ممالک کل تک دو عالمی جنگوں میں اپنا اور دنیا بھرکا بے تحاشا جانی اور مالی نقصان کرچکے ہیں۔ چین تجارت کی بنیاد پر بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کے ذریعے دنیا بھر میں پائوں پھیلارہا ہے۔ ہمیں بھی ان قوتوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ پاکستان اور افغانستان دنیا کے اہم ترین جیو اسٹرے ٹیجک مقام پر واقع ہیں۔ ان دونوں ملکوں کی قربت سے پورے خطے کی قسمت بدل سکتی ہے۔ سڑکوں اور ریلوے نیٹ ورک کے ذریعے ان دوطرفہ تعلقات کو بلندیوں تک پہنچایا جاسکتا ہے، جس کے لیے دونوں ممالک کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقے کومل جل کر کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔