ایشیا کپ اور افغان سیریزایک بہتر اور متوازن ٹیم

پاکستان کرکٹ بورڈ یا سلیکشن کمیٹی کے نئے سربراہ سابق کپتان انضمام الحق نے ایشیا کپ اور پاک افغان سیریز کے لیے پاکستان کی اٹھارہ رکنی کرکٹ ٹیم کا اعلان کردیا ہے۔ پاکستانی ٹیم کو اسی ماہ اگست میں سری لنکا کا دورہ کرنا ہے جہاں وہ پہلے افغانستان سے تین ون ڈے انٹرنیشنل میچوں کی سیریز کھیلے گی۔ دونوں ٹیموں کے درمیان سیریز کا پہلا میچ 22اگست، دوسرا 24اگست اور تیسرا 26اگست کو کھیلا جائے گا۔ اگرچہ اس ون ڈے سیریز کا میزبان افغانستان ہی ہے، لیکن حال ہی میں افغانستان نے سری لنکا میں اپنے پچھلے میچزمیں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اسی مہینے ایشیا کپ بھی سری لنکا میں ہے، اسی کو بنیاد بنا کر افغانستان نے سری لنکا میں ہی کھیلنے کو ترجیح دی ہے۔ پاکستان نے ایشیا کپ اور افغان سیریز کے لیے اپنے اسکواڈ کا جو اعلان کیا ہے اس میں بابراعظم کپتان، شاداب خان نائب کپتان، جبکہ دیگر کھلاڑیوں میں حارث رئوف، فخر زمان، فہیم اشرف، عبداللہ شفیق، محمد نواز، محمد حارث، اما م الحق، افتخار احمد، آغا سلمان، نسیم شاہ، محمد وسیم جونیئر، محمد رضوان، طیب طاہر، شاہین شاہ آفریدی، اسامہ میر اور شعود شکیل شامل ہیں۔ فہیم اشرف کی واپسی دو برس کے بعد ہوئی ہے۔ اگرچہ اس وقت بہت سے لوگ فہیم اشرف کی شمولیت پر اعتراض کررہے ہیں اور ان کے بقول عامر جمال کو ٹیم میں ہونا چاہیے تھا اوران کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے، جبکہ فہیم اشرف دو برس سے میدان میں نہیں اور انہوں نے زیادہ کرکٹ بھی نہیں کھیلی اور نہ ہی ان کی کارکردگی بہت اچھی رہی ہے۔

اس اسکواڈ سے شان مسعود کو ڈراپ کردیا گیا ہے۔ اسی طرح تجربہ کار سرفراز احمد کی جگہ نوجوان وکٹ کیپر محمد حارث کو موقع دیا گیا ہے۔ اس اٹھارہ رکنی اسکواڈ میں سعود شکیل ہی وہ واحد کھلاڑی ہیں جن کا نام صرف افغانستان سیریز کے لیے ہے، ان کو ایشیا کپ میں شامل نہیں کیا گیا ہے، وہ افغان سیریز کے بعد واپس آجائیں گے۔ ابھی پاکستان کے ورلڈ کپ اسکواڈ کا اعلان ہونا باقی ہے۔ اگرچہ ورلڈ کپ میں موجودہ ٹیم ہی کے بیشتر ارکان شامل ہوں گے، البتہ دو تین تبدیلیاں متوقع ہوسکتی ہیں۔ ان میں سرفراز احمد بھی ہیں جو حارث کی جگہ متبادل وکٹ کیپر ہوسکتے ہیں، وہ تجربہ رکھتے ہیں اور ان کو تجربے کی بنیاد پر اسکواڈ کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔ تجربے میں محمد حارث کا مقابلہ سرفراز احمد سے نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ محمد حارث زوردار شاٹ کھیلنے میں مہارت رکھتے ہیں مگر ورلڈ کپ جیسے اہم مقابلوں میں تجربہ بھی خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ سلیکشن کمیٹی کے سربراہ انضمام الحق کے بقول جو بھی کھلاڑی پُرفارم کرے گا وہی ٹیم میں ہوگا، اور جو پُرفارم نہیں کرے گا اس کی جگہ کوئی اور لے سکتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ جن لوگوں کو ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا وہ اب ٹیم کا حصہ نہیں ہوں گے، غلط ہے۔

پاکستان کرکٹ کے سامنے بڑا ہدف ہی ورلڈ کپ ہے اور سب کی نظریں بھی اسی پر ہیں، اور اسی کو بنیاد بناکر کرکٹ ٹیم اور کھلاڑیوں پر توجہ دی جارہی ہے۔ پاکستان کو افغان سیریز کے بعد ایشیا کپ کھیلنا ہے جس کا میزبان پاکستان ہے مگر اس کے میچز سری لنکا میں شیڈول ہیں۔ یہ ایشیا کپ کا 16ایڈیشن ہے جس کا آغاز 30اگست سے ہوگا۔ پاکستان نے آج تک صرف دو بار ہی ایشیا کپ اپنے نام کیا ہے۔ ایک مرتبہ 2000ء میں معین خان کی قیادت میں، اور دوسری مرتبہ 2012ء میں۔ پاکستان کی مجموعی طور پر ایشیا کپ میں کوئی مثالی کارکردگی نہیں رہی ہے۔ بھارت نے سات اور سری لنکا نے چھ مرتبہ ایشیا کپ اپنے نام کیا ہے۔

اس وقت پاکستان کے مختلف کھلاڑی دنیا میں مختلف سطح کی لیگز کھیل رہے ہیں۔ بابراعظم، نسیم شاہ، محمد نواز اور فخر زمان لنکا پریمئر لیگ کھیل رہے ہیں، جبکہ شاہین آفریدی، حارث رئوف اور شاداب خان دی ہنڈرڈ لیگ میں اِن ایکشن ہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم اور بورڈ کو پوری امید ہے کہ پاکستان ایشیا کپ سمیت ورلڈ کپ میں بھی اچھی کارکردگی دکھائے گا، کیونکہ پاکستان کرکٹ ٹیم کا کمبی نیشن اچھا ہے اور ٹیم کے کھلاڑی بھی نہ صرف فارم میں ہیں بلکہ ان کی فٹنس بھی خاصی بہتر ہے۔ پچھلے چند برسوں میں ہماری ٹیم کی جیت کا مارجن بھی خاصا بہتر ہے اور دنیائے کرکٹ میں پاکستانی ٹیم کو مضبوط اور میچوں کو اپنے حق میں تبدیل کرنے والی ٹیم سمجھا جاتا ہے۔

آئی سی سی نے ورلڈ کپ کے شیڈول میں کچھ تبدیلیاں بھی کی ہیں جس کے بعد پاکستان اور بھارت کا جو میچ 15اکتوبر کو ہونا تھا وہ اب 14 اکتوبر کو ہوگا۔ اسی طرح کُل 9 میچوں کے شیڈول میں تبدیلیاں کی گئی ہیں جن میں پاکستان کے تین میچ شامل ہیں۔ دوسری جانب میگا ایونٹس کے پیش نظر پی سی بی نے بھی ٹیکنیکل کمیٹی کا مشورہ مان کر چھیڑ چھاڑ کرنے سے گریز کیا ہے۔ افغانستان سے ون ڈے سیریز اورایشیا کپ کے لیے مکی آرتھر کو ڈائریکٹر برقرار رکھا گیا ہے، اینڈریوپیوٹک بیٹنگ، جبکہ مورنی مورکل بولنگ ہوں گے۔ جبکہ ماہر نفسیات مقبول بابری بھی ٹیم کا حصہ ہوں گے۔

حکومتِ پاکستان نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کو بھارت جانے کی اجازت دے دی ہے اور حکومت کے بقول ہم کرکٹ جیسے کھیل میں سیاسی معاملات کو نہیں لانا چاہتے اور کھیل کو کھیل کی بنیاد پر ہی آگے بڑھانے کے خواہش مند ہیں۔ پاکستانی شائقین کو پاک بھارت ٹاکرے کا بڑی بے چینی سے انتظار ہے اوریہ میچ کرکٹ کی دنیا میں ایک بڑے میچ کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ ایک ایسا مقابلہ ہے جو ساری دنیا میں ہی دیکھا جاتا ہے اور اس میں خاصی شدت اور تنائو بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ورلڈ کپ میں ان دو ٹیموں کی موجودگی ان مقابلوں میں ایک بڑی رونق کے طور پر دیکھی جائے گی، اور اگر پاک بھارت ٹاکرا نہ ہو تو اس ورلڈ کپ کی اہمیت کم ہوجائے گی۔ پاک بھارت میچ کی عملی حیثیت ورلڈ کپ کے فائنل کی سی ہے، اور اسی بنیاد پر بہت بڑی تعداد میدان میں اور میدان سے باہر اس میچ کو دیکھنے کے لیے بے تاب ہے۔ شعیب اختر، شعیب ملک، یونس خان، وسیم اکرم سمیت دیگر سابق کھلاڑیوں کا خیال ہے کہ ہماری ٹیم اس وقت بہت بہتر ہے اور ورلڈ کپ جیتنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ خاص طور پر بابراعظم، محمد رضوان، شاہین شاہ آفریدی، حارث رئوف، شاداب خان، افتخار احمد، فخر زمان، نسیم شاہ جیسے کھلاڑیوں کی موجودگی اور ان کی جاری شاندار کارکردگی کی بنیاد پر پاکستان کرکٹ ٹیم سے بہت زیادہ توقعات ہیں اورپوری قوم ان کھلاڑیوں سے ورلڈ کپ جیتنے کی توقع رکھتی ہے۔