(پہلا حصہ)
قرارداد لاہور کے بعد سے غیر مسلم طلبا کے رویے تبدیل ہوگئے ،معروف دانشور ،اردو ڈائجسٹ کے مدیر الطاف حسن قریشی سے تفصیلی مکالمہ
عہد ساز، صحافی، نابغہ روزگار، فکر انگیز شخصیت، معروف دانشور، منفرد انٹرویو نگار، وقائع نگار، کالم نویس، شاعر الطاف حسن قریشی اور اُن کا اُردو ڈائجسٹ صرف ہماری نسل کی نہیں بلکہ ہمارے بزرگوں کے خوش گوار ماضی کی بھی یاد ہے۔بقول احمد جاوید: آپ اردو پڑھنے والی کئی نسلوں کے معلم،مربی بلکہ محسن ہیں۔نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں ۔
الطاف حسن قریشی سے میری ملاقات اردو ڈائجسٹ کے صفحات کے علاوہ دو ایک بار کراچی میں ہوئی۔ ہمیشہ محبت اور اپنائیت کے ساتھ ملے۔ ٹیلی فون پر رابطہ ہوا۔ آپ کا انٹرویو کرنے میں تھوڑی جھجک بھی تھی کہ میں ایک ایسے شخص کا انٹرویو کرنے جارہا تھا جو خود مشاہیر کے انٹرویو کرکے شہرت کی بلندیوں پر تھا۔ خیر میں نے آپ سے انٹرویو کا ذکر کیا۔ آپ نے کہا میں زیادہ تر انٹرویو دینے سے گریز ہی کرتا ہوں، چونکہ میں ورکنگ جرنلسٹ ہوں اور بہت عرصے سے لکھ رہا ہوں، میرے خیال میں کوئی پہلو ایسا رہا نہیں جس پر لکھا نہ ہو۔ لیکن میں نے کہا: جب گفتگو کا سلسلہ شروع ہوگا تو نئی باتیں قارئین کو ضرور پڑھنے کو ملیں گی، جس پر آپ ہنسے۔ اور ملنسار طبیعت کے مالک تو ہیں ہی، تیار ہوگئے۔ پھر ٹیلیفون پر ہی گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا، لیکن پس منظر میں ترجمان القرآن کے مدیر سلیم منصور خالد کا بھی اہم کردار تھا۔ آپ سے انٹرویو کا پہلا دور تقریباً دو گھنٹے پر مشتمل رہا۔ دورانِ انٹرویو کئی بار سوچا کہ گفتگو کو اب اگلے مرحلے تک موقوف کردینا چاہیے، لیکن مجھ سے پہلے الطاف صاحب ہی پوچھ لیتے: تھکے تو نہیں؟ میں ہنستا اور پھر نیا سوال کرلیتا، اور اس دوران نوّے سال سے زیادہ عمر میں آپ کی صاف، گونج دار آواز ایسی کہ میں بار بار دل ہی دل میں واہ واہ کرتا رہا۔ لیکن ابھی گفتگو کے کئی پہلو باقی تھے، اور پھر آئندہ کا وقت لیا اور مزید دو گھنٹے کے لگ بھگ گفتگو کا سلسلہ چلا۔ میں نے آپ سے پوچھا: ”آپ کا اس طرح کا تفصیلی انٹرویو کبھی ہوا؟“
الطاف صاحب نے کہا: ”میں نے کسی کو اس نقطہ نگاہ سے انٹرویو نہیں دیا۔ میں نے کہا: ”کہا جاسکتا ہے کہ یہ آپ کا پہلا باقاعدہ تفصیلی انٹرویو ہے؟“ ”ہاں کہہ سکتے ہیں۔ میں زیادہ تر انٹرویو دینے سے گریز ہی کرتا ہوں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید اس سے قبل میرا ایک انٹرویو ”چٹان“ میں بھی چھپا تھا۔ ممتاز لیاقت صاحب ہوتے تھے جو اردو ڈیسک پر کام کرتے تھے، پھر وہ چلے گئے تھے“۔ الطاف صاحب کا ایک انٹرویو ڈاکٹر طاہر مسعود نے بھی 1987ء میں ”الجامعہ“ کے لیے کیا تھا جو آپ کی زندگی کا پہلا انٹرویو تھا، لیکن وہ تعلیم کے پس منظر میں تھا۔ الطاف حسن قریشی لکھنے، لکھانے والے آدمی ہیں، بقول ڈاکٹر جعفر احمد: جتنا آپ نے لکھا ہے اتنا کسی نے نہیں لکھا۔
الطاف حسن قریشی ستارۂ امتیاز، کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز اور آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی دونوں کے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈز کے وصول کنندہ ہیں۔ 1960ء کی دہائی کے اوائل میں مشہور انگریزی ماہنامہ ریڈرز ڈائجسٹ کی طرز پر اردو ڈائجسٹ کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا جس میں سیاسی تجزیے، سیاسی رہنماؤں، مذہبی اسکالرز، ماہرینِ تعلیم، سماجی اور ثقافتی شخصیات، مزدور رہنماؤں کے انٹرویو کے علاوہ مضامین، شاعری، کہانیاں، دنیا کے مشہور کلاسک ناولوں، مختصر کہانیوں اور ادب کا ترجمہ شامل ہوتا تھا۔ خاص طور پر آپ کے مختلف شعبوں کی ممتاز شخصیات کے ساتھ طویل اور فکر انگیز انٹرویوز پاکستان کے ادب اور سیاست کی تاریخ ہیں، اور ان انٹرویوز کو تحریر کی صورت میں لانے میں آپ کا صرف حافظے پر بھروسا تھا۔ آپ دورانِ انٹرویو نہ ریکارڈنگ کرتے تھے اور نہ ہی نوٹس لیتے تھے، اور کبھی کسی نے تردید بھی نہیں کی کہ آپ نے سیاق و سباق سے الگ لکھا ہے۔ ان میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، اے کے بروہی، جسٹس ایس اے رحمٰن، مولوی تمیزالدین خان، مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی ، شیخ الجامعہ کراچی ڈاکٹراشتیاق حسین قریشی، جسٹس اے آر کارنیلیس، نورالامین سابق وزیراعلیٰ مشرقی پاکستان، اور مولانا غلام رسول مہر جیسی شخصیات شامل ہیں۔
1966ء میں مشرقی پاکستان کے سفر کے بعد آپ نے پانچ اقساط میں ”محبت کا زم زم بہہ رہا ہے“ کے عنوان سے مضمون لکھا جس پر آپ کو تنقید کا بھی سامنا رہا۔
آپ نے جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ جب اردو ڈائجسٹ کے اداریے میں لکھا کہ ”لوگ کہتے ہیں شیر اپنا شکار کسی کے حوالے نہیں کیا کرتا“، اس پر آپ مارشل لا حکومت میں گرفتار کرلیے گئے۔ ضیاالحق کے بہت قریب بھی رہے لیکن اپنی بات کرتے رہے۔ صدر جنرل ضیا الحق صاحب کے تین انٹرویو ان کے دور میں اردو ڈائجسٹ میں شائع ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کا انٹرویو بھی کیا اور بھٹو کے جبر کا شکار بھی ہوئے۔
آپ نے 23 مارچ 1970ءکو ملتان سے اور پھر کچھ ہی عرصے بعد کراچی سے بھی روزنامہ جسارت جاری کیا ، جس کاانتظام جلد ہی کراچی کے احباب کے سپرد کر دیا کہ اتنا بوجھ اٹھانا ممکن نہ رہا تھا۔
پیرانہ سالی کے باوجود متحرک ہیں اور آپ کا قلم ہماری سیاسی، سماجی تاریخ تسلسل سے تحریر کررہا ہے اور روزنامہ جنگ کے صفحات پر آپ کے مضامین پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے حوالے سے قریب قریب ساٹھ برس سے زائد عرصے پر محیط آپ کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ”مشرقی پاکستان ٹوٹا ہوا تارا“ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ 1408 صفحات کی یہ ضخیم کتاب سقوط سانحہ مشرقی پاکستان کی ایک تاریخی دستاویز قرار دی جاسکتی ہے۔ یہ اُن غلطیوں کا تذکرہ ہے جن سے ہمارے حکمرانوں اور مقتدر اشرافیہ سے سبق نہیں سیکھا۔ اس کتاب کو ہر محب وطن پاکستانی کو بار بار پڑھنا چاہیے۔ اسی طرح آپ کی کتابوں میں ”مشاہیر کے انٹرویوز“ جس کا میں نے ذکر بھی کیا، ”ملاقاتیں کیا کیا“، اور ”جنگِ ستمبر کی یادیں“ بھی اہم ہیں۔آپ کی دیگر کتابیں ”مقابل ہے آئینہ“، ”چھ نکات کی سچی تصویر“، ”مزید ملاقاتیں“، ”نوک زباں“ کے عنوان سے ہیں۔
ہمارے استاد، محبت کرنے والے، بلند پایہ کتابوں کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود نے خود بڑے انٹرویو نگار ہیں۔حسن قریشی کی شخصیت اور صحافت پر پاکستان کے پچاس سے زائد معروف اہلِ قلم اور اہلِ دانش کے مضامین ترتیب دیئے ہیں۔
الطاف حسن قریشی کے انٹرویو کو پیش کرنے میں سلیم منصور خالد صاحب کا شکریہ جتناادا کیا جائے کم ہے۔ گفتگو کی تسویدکو انہوں نے خود دیکھا،الطاف صاحب کو بھی دکھایا تاکہ کہنے اور لکھنے میں کچھ کمی بیشی ہوگئی ہوتو وہ درست ہوجائے۔
الطاف حسن قریشی سے آپ کی ابتدائی زندگی، خاندان، اردو ڈائجسٹ، بین الاقوامی و ملکی سیاست، سیاست دان، صحافت، قیام پاکستان، مشرقی پاکستان اور پھر بنگلادیش بننا، حمود الرحمٰن کمیشن، فوجی و سیاسی آمروں اور حکمرانوں، جسارت اور اس کے کردار، مولانا مودودی، قائداعظم سمیت اہم شخصیات، اور دوقومی نظریہ سمیت کئی اہم موضوعات پر گفتگو کی ہے جو یقیناً تاریخ اور سیاست کے طالب علموں، عملی سیاست دانوں اور اردو ڈائجسٹ کے قارئین کے لیے بھی مفید اور اہم ہوگی۔ الطاف حسن قریشی کی زندگی کا پہلا تفصیلی انٹرویو نذرِ قارئین ہے۔
سوال: اپنی جائے پیدائش اور اس ماحول کے بارے میں ذرا تفصیل سے بتائیے جس میں آپ نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
الطاف حسن قریشی: میری اور میرے بیشتر بہن بھائیوں کی جائے پیدائش ہابڑی ہے۔ وہ ضلع کرنال میں مسلم راجپوتوں کی ایک چھوٹی سی بستی تھی جو چاروں طرف سے ہندو بستیوں میں گِھری ہوئی تھی۔ ہمارے زمانے میں تاریخ پیدائش اور جائے پیدائش کا اندراج میونسپل کمیٹی میں نہیں ہوتا تھا اور عموماً اسکول میں داخلے کے وقت مسلمان بچوں کی عمر کم لکھائی جاتی تھی کہ امتحان میں دو چار بار فیل ہوجانے کی صورت میں سرکاری ملازمت کی عمر نکل نہ جائے۔ 1947ء کے آغاز میں میٹرک کے امتحان کا فارم پُر کرنے کا وقت آیا، تو میرے محترم استاد جناب نعمت اللہ خان نے میری رہنمائی فرمائی اور تاریخ پیدائش 3 مارچ 1932ء اور جائے پیدائش سرسہ درج کروائی۔ اُن کا مشورہ تھا کہ ہابڑی کے بجائے سرسہ لکھنا زیادہ مناسب ہے جہاں تم پندرہ سال سے رہائش پذیر ہو۔ اِس طرح سرکاری کاغذات میں میری تاریخ پیدائش 1930ء کے بجائے 1932ء اور جائے پیدائش ہابڑی کے بجائے سرسہ محفوظ ہوگئی۔ فارم بھرتے ہوئے ایک دلچسپ لطیفہ بھی ہوا کہ مَیں نے اپنے نام الطاف حسن قریشی کے ساتھ تخلص کے طور پر ’رہبر‘ لکھا جسے استاد محترم نے اصلاح کرکے’راہ طور‘ بنادیا۔ میٹرک کے سرٹیفکیٹ میں ’راہ طور‘ ہی درج ہے۔
مَیں نے ابتدائی تعلیم پرائمری اسکول سرسہ میں حاصل کی جو چار جماعتوں پر مشتمل تھا اور میونسپل کمیٹی کے زیرِانتظام چل رہا تھا۔ اس کے بعد گورنمنٹ ہائی اسکول سے میٹرک کیا اور اسی سال پاکستان منصہ شہود پر جلوہ گر ہوا۔ دورانِ تعلیم ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو آج بھی سبق آموز ہے۔ ہوا یہ کہ چوتھی جماعت میں ایک لڑکا عبدالرؤف داخل ہوا جو عمر میں ہم سے آٹھ دس برس بڑا تھا۔ مَیں اسے بخوبی جانتا تھا کہ وہ ہمارے شہر کے ایک صاحبِ ثروت اور دین دار شخصیت جناب عبدالحکیم سے وابستہ تھا۔ اُن کی جوتوں کی بہت بڑی دکان تھی جس کے چبوترے پر عبدالرؤف چھوٹی چھوٹی چیزیں بیچتا تھا۔ ہماری اس سے جامع مسجد میں بھی ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ اسے دیر سے تعلیم حاصل کرنے کا خیال آیا اور وہ چوتھی جماعت میں داخل ہوگیا۔ ہم ایک ساتھ پڑھتے رہے۔ پرائمری کے امتحانات سے فارغ ہوجانے پر زیادہ وقت عبدالرؤف کی صحبت میں گزرنے لگا۔
یہ مجلسِ احرار کے شباب کا زمانہ تھا جو حکومتِ الٰہیہ کے نصب العین کی داعی تھی اور انگریزی استعمار کو عوامی طاقت کے ساتھ للکار رہی تھی۔ اس کے نزدیک انگریزی کافروں کی زبان تھی اور مسلمانوں پر اس کی تعلیم دینی اعتبار سے حرام تھی۔ سرسہ میں احراری قائدین آتے رہتے تھے۔ اس ماحول میں میرے کلاس فیلو عبدالرؤف نے میرے ذہن میں یہ بات بٹھانا شروع کی کہ ہمیں انگریزی تعلیم کے بجائے قرآن حفظ کرنا چاہیے۔ اس کی باتوں سے اثر قبول کرتے ہوئے مَیں نے پانچویں جماعت میں داخلہ نہیں لیا اور اُن قاری صاحب سے قرآن حفظ کرنا شروع کردیا جن سے میرے بڑے بھائی افروغ حسن نے قرآن حفظ کیا تھا۔ والد صاحب ان دنوں سرکاری کام کی زیادتی کے باعث دو ماہ تک گھر نہیں آئے تھے اور ہمارے خاندان میں پہلے سے قرآن حفظ کرنے کی اچھی روایت موجود تھی، اس لیے میرے بڑے بھائیوں اور والدہ صاحبہ کو میرے اس فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ پانچویں جماعت میں داخلے کی آخری تاریخ بھی نکل گئی تب والد صاحب تشریف لائے، تو انھیں میرے اسکول چھوڑنے پر بہت دکھ ہوا۔ مَیں زیادہ وقت مسجد ہی میں گزار رہا تھا۔ والد صاحب مجھے مسجد سے گھر لے آئے اور دیر تک سمجھاتے رہے کہ انگریزی سے نابلد ہونے کے سبب مَیں اچھی ملازمت حاصل نہیں کرسکا اور آج بڑھاپے میں گاؤں گاؤں کھیتوں کی پیمائش کرنے پر مجبور ہوں۔ والد صاحب کی باتیں سن کر مجھے اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا۔ اب مشکل سوال یہ تھا کہ اسکول میں داخلہ کیونکر لیا جائے؟ والد صاحب اسکول کے ہیڈماسٹر سے ملے اور ان کی خدمت میں سارے حالات بیان کیے۔ انہوں نے اپنے غیرمعمولی اختیارات استعمال کرتے ہوئے مجھے پانچویں جماعت میں داخلے کی اجازت دے دی، لیکن مَیں اُس وقت ایک بڑے نفسیاتی مسئلے سے دوچار تھا۔
تین چار ہفتوں کی برین واشنگ سے میرے اندر یہ عجیب احساس جاگزیں ہوگیا تھا کہ مَیں انگریزی زبان سیکھ نہیں سکوں گا۔ مَیں خاصی دیر اس ذہنی کشمکش سے دوچار رہا۔ تب میرے بڑے بھائی اعجاز حسن نے مجھے انگریزی پڑھانے کا ذمہ لے لیا اور ایک دو مہینوں میں مجھے خاصی شُدبُد حاصل ہوگئی۔ ہمارے انگریزی کے استاد جناب لَون سنگھ کے پڑھانے کے انداز نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ ان دونوں اصحاب کی محنت سے مَیں پانچویں جماعت کے انگریزی کے امتحان میں اوّل آیا جس نے میرے اندر ایک ایسا اعتماد پیدا کیا جس کی بدولت مَیں میٹرک کے امتحان میں اپنے اسکول میں فرسٹ آیا۔ اُس زمانے میں میٹرک کے تمام تر مضامین کا امتحان انگریزی میں لیا جاتا تھا۔ بعدازاں پنجاب یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے امتحان میں بھی اوّل آیا۔
سوال: آپ کے بچپن کی کوئی ایسی خاص بات جو آج بھی آپ کے لیے اہمیت رکھتی ہو؟
الطاف حسن قریشی:بچپن کی باتیں تو بہت سی ہیں، لیکن ایک بات جو مجھے اکثر یاد آتی ہے، وہ یہ ہے کہ میرے والد محترم شیخ عبدالغفار صاحب، جو محکمہ نہر میں پٹواری تھے،علامہ محمد اقبال اور مولانا ظفر علی خان کے بہت شیدائی تھے، وہ اکثر دورے پر باہر ہی رہتے اور جب ایک دو ماہ بعد کچھ دنوں کے لیے آتے، تو ان کا معمول ہوتا کہ تہجد کی نماز کے بعد وہ مجھے اور بڑے بھائی اعجاز کو جگاتے اور ہم سے قرآن کی یاد کی ہوئی سورتیں سنتے۔ پھر وہ شاعرِ مشرق اقبالؔ اور مولانا ظفر علی خان کے اشعار سناتے۔ یہ بھی کہتے جاتے کہ ’’میری اولاد میں سے بھی کوئی مولانا ظفر علی خان جیسا بےباک صحافی بنے جس کی تحریر میں تلوار کی سی کاٹ ہو۔ یہ بھی کہتے کہ مَیں پٹواری ہوں اور مولانا ظفر علی خان کے والد بھی پٹواری تھے، اس لیے میری خواہش اور دعا ہے کہ میرے بیٹوں میں سے کوئی مولانا ظفر علی خان کے نقشِ قدم پہ چلنے والا صحافی بنے۔‘‘
والد صاحب کی باتیں سن کر مَیں سوچتا رہتا کہ کہاں مولانا ظفر علی خان اور کہاں ہم پس ماندہ علاقے کے باسی، یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوگا! بعدازاں اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب پیدا کیے کہ ہم دونوں بھائی صحافت کے شعبے میں آئے اور اسی کے خاص فضل سے معروف بھی ہوئے۔
سوال: جب آپ کی شعور کی زندگی شروع ہوئی تو اُس وقت ہندوستان میں سیاسی اور سماجی سطح پر کیا موضوعات زیر بحث آرہے تھے؟
الطاف حسن قریشی: میری پیدائش سے ایک عشرے بعد قراردادِ لاہور 23 مارچ 1940ء میں منظور ہوئی۔ ہمارے خاندان میں اخبار بینی کا بہت شوق تھا، اس لیے سیاسی مسائل اور قومی معاملات سے میرا ذہنی رشتہ بچپن ہی میں قائم ہوگیا تھا، چنانچہ اُس وقت جو تنازعات مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان چل رہے تھے، ان کے بارے میں اپنے ہم جماعتوں اور دوستوں سے تبادلہ خیال کرتا رہتا۔
سرسہ میں درجنوں ہندو اور سکھ لڑکے پہلی جماعت سے ساتھ پڑھتے آئے تھے۔ ان کے گھروں میں کبھی کبھار جانا بھی ہوجاتا، لیکن قراردادِ لاہور کی منظوری کے بعد سے بیشتر غیرمسلم طلبہ کے رویّے تبدیل ہوتے چلے گئے اور وہ بیک زبان یہ کہنے لگے کہ قراردادِ لاہور انگریزوں کی ملی بھگت سے منظور ہوئی ہے جو ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ اس موضوع پر ان سے میری بحث ہوتی رہتی۔ مَیں دلیل دیتا کہ انگریزوں کی تو سب سے بڑی کوشش یہ ہے کہ ہندوستان تقسیم نہ ہونے پائے تاکہ ایشیا میں ان کے مفادات کا اطمینان بخش تحفظ ہوتا رہے۔
پاکستان کے قیام کا تاریخی مرحلہ بھی آ پہنچا۔ ہم اُس وقت سبزی منڈی کے علاقے میں رہ رہے تھے، اُسی کو ’مہاجر کیمپ‘ قرار دے دیا گیا۔ تحصیل ’’سرسہ‘‘ کے بارے میں عام خیال یہ تھا کہ مسلم اکثریت پر مشتمل یہ پٹی ضلع فیروزپور سے جا ملتی ہے جس میں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہے، اس لیے ضلع فیروزپور اور تحصیل سرسہ پاکستان کا حصہ بنیں گے۔ بدقسمتی سے ریڈکلف بائونڈری ایوارڈ میں فیروزپور کا ضلع بھی ہندوستان کے حوالے کردیا گیا، چنانچہ ہمارا علاقہ بھی ہندوستان کا حصّہ بن گیا۔ ہمارے ساتھ پڑھنے والے طلبہ ہمارے جانی دشمن ہوگئے جو ایک مدت سے فوجی ٹریننگ لے رہے تھے۔ وہ ہمارے کیمپ پر کئی بار حملہ آور بھی ہوئے، لیکن ہم نے بھی اچھے خاصے دفاعی انتظامات کررکھے تھے، اس لیے وہ اپنے ارادوں میں ناکام رہے۔ میرے بھائی اعجاز حسن نے جو کیمپ کے معاملات کے انچارج تھے، نوجوانوں کی ایک ٹیم تیار کی جو دیسی اسلحہ بھی بناتی اور حملہ آوروں پر خوف بھی طاری کیے رکھتی تھی۔ خوش قسمتی سے ہمارے کیمپ کی حفاظت کے لیے گورکھا انفنٹری تعینات ہوئی جو مسلمانوں کے لیے ہمدردی کے جذبات رکھتی تھی۔
سوال: کیا آپ کو اسکول کے زمانے ہی میں دو قومی نظریے کی اہمیت کا احساس ہو گیا تھا؟
الطاف حسن قریشی: جی ہاں! دو قومی نظریے کی مکمل تشریح قراردادِ لاہور کی منظوری کے موقع پر اپنے خطبۂ صدارت میں قائدِاعظم نے فرما دی تھی کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں جن کے مذہبی عقائد اور معاشرتی رویّے مختلف ہیں اور ان کی تاریخ اور ہیروز بھی یکسر مختلف ہیں، چنانچہ ایک الگ قوم کی حیثیت سے مسلمانوں کا الگ وطن ہونا ضروری ہے۔
سوال: کیا قائدِاعظم محمد علی جناح کی آپ زیارت کر سکے تھے؟
الطاف حسن قریشی: مَیں اس اعزاز سے محروم رہا، البتہ اخبارات میں ان کے بیانات غور سے پڑھتا اور ان کی ریڈیو سے نشر ہونے والی تقریریں بھی باقاعدگی سے سنتا تھا۔
سوال: آپ کی شخصی تہذیب و تربیت کس ماحول میں ہوئی اور اس میں کن کن لوگوں نے کردار ادا کیا؟
الطاف حسن قریشی:ہمارا ایک مذہبی گھرانا تھا اور میرے نانا اور دادا دونوں ہی حافظِ قرآن تھے۔ ہماری روزمرہ کی زندگی میں قرآن اور سنت کا ذکر رہتا۔ ہماری جامع مسجد کے قاری صاحب کی قرأت بڑی اثرانگیز تھی۔ ہم سب بھائیوں کا یہ معمول تھا کہ روزانہ اسکول جانے سے پہلے ایک گھنٹہ قاری صاحب سے قرآن پڑھتے اور شام کو بھی اسلامی تعلیم انہی سے حاصل کرتے۔ ہماری جامع مسجد بہت وسیع تھی جو دہلی کی عالیشان جامع مسجد کے نقشے پر تعمیر ہوئی تھی۔ شہر کے مذہبی حلقوں نے ’تعلیم القرآن‘ کے نام سے ایک دینی مدرسہ قائم کررکھا تھا جس میں قرآن اور حدیث کے علوم پڑھائے جاتے تھے اور اساتذہ میں بلندپایہ علما تھے۔ اسی طرح ہمارے اردگرد کے مسلم علاقوں میں مذہب سے لگاؤ بڑا نمایاں تھا جس میں حکیم عبداللہ کی شخصیت غیرمعمولی اہمیت کی حامل تھی۔ ان کے والد بھی ولی اللہ تھے اور یہی روحانیت ان کے اندر بھی رچی بسی تھی۔ وہ سرسہ سے پندرہ بیس میل کے فاصلے پر واقع روہڑی قصبے میں حکمت کرتے تھے اور ان کی ہمہ گیر شخصیت سے مسلمانوں کے علاوہ غیرمسلم بھی بڑے متاثر تھے۔ ان سے ہمارے خاندان کا قریبی تعلق تھا جو پاکستان بن جانے کے بعد مزید گہرا ہوگیا تھا۔
ہماری والدہ ماجدہ فردوسی بیگم بڑی دین دار، پرہیزگار اور سادہ زندگی گزارنے والی خاتون تھیں۔ انھوں نے ہم سب بہن بھائیوں کی تربیت میں غیرمعمولی کردار ادا کیا۔ آگے چل کر دین کا گہرا شعور مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے حاصل ہوا۔ میرے بڑے بھائی حافظ افروغ حسن جماعتِ اسلامی کے قیام کے بعد ہی اس کے رکن بن گئے تھے۔ ان کے پاس ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ باقاعدگی سے آتا اور گاہے گاہے مجھے بھی اس کے مطالعے کا موقع مل جاتا۔
سوال: سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری ؒصاحب کی تقریروں اور جلسوں کے حوالے سے آج بھی ان کا ذکر ہوتا ہے، اُن سے متعلق کوئی واقعہ یاد ہو؟
الطاف حسن قریشی: بیسویں صدی کے دوسرے اور تیسرے عشرے میں مجلسِ احرار کے مرکزی رہنما اور بے مثال خطیب سیّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کا طوطی بولتا تھا۔ انہوں نے انگریزوں کی دہشت ختم کرنے میں غیرمعمولی کردار اَدا کیا۔ ان کی تلاوت میں جادو کا اثر تھا اور ان کی تقریر سننے ہزاروں لوگ جمع ہوتے جن پر ایک سحر طاری ہوجاتا۔ مدرسہ تعلیم القرآن کے منتظمین نے انھیں سالانہ اجلاس کی تقریب میں آنے کی دعوت دی۔ یہ غالباً 1944ء کا زمانہ تھا۔ وہ سرسہ آئے اور والدِ بزرگوار کی دعوت پر ہمارے گھر قیام فرمایا۔ اس طرح مجھے دو دن ان کی خدمت میں حاضر رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ ان کی باتوں میں غضب کی شگفتگی تھی۔ علمی گفتگو بھی کرتے اور ساتھ ساتھ چٹکلے بھی چھوڑتے چلے جاتے۔ رات کے جلسے میں تاخیر سے گئے۔ انھیں ہلکا سا بخار تھا۔ ان کے ہمراہ احسان شجاع آبادی بھی آئے تھے۔ وہ بھی اعلیٰ درجے کے خطیب تھے۔ بخاری صاحبؒ سے پہلے انھوں نے خطابت کے جوہر دکھائے۔ رات کے دس بجے سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری صاحبؒ نے تقریر کا آغاز کیا اور فجر کی اذان پر اختتام ہوا۔ ان کی تقریر کا موضوع حکومتِ الٰہیہ کا قیام تھا۔ اس انتہائی سنجیدہ موضوع پر وہ حکمت بھری باتوں میں لطیفے بھی چھوڑتے رہے۔ مجمع آخری وقت تک گوش بر آواز رہا۔ بدقسمتی سے مَیں ان کی لچھے دار تقریر سے بہت زیادہ متاثر نہیں ہوا، کیونکہ مَیں سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی مرتب، منظم اور مدلل تحریریں پڑھنے اور ذہن میں اترنے والی تقریریں سننے کا عادی ہوچکا تھا۔
سوال: انسانی شخصیت کی تشکیل میں اس کے دوست اور اساتذہ اہم کردار ادا کرتے ہیں، اس ضمن میں آپ اپنے کن دوستوں اور اساتذہ کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں؟
الطاف حسن قریشی: یقیناً کچھ اساتذہ ایسے تھے جنھوں نے میری ذہنی اور فکری تشکیل میں بہت حصّہ لیا۔ ان میں ایک ہمارے عربی کے استاد تھے۔ سردار محمد علی ان کا اسمِ گرامی تھا۔ شعر و اَدب پر انھیں بے پناہ عبور حاصل تھا۔ میرے اندر شعر و ادب کا ذوق پیدا کرنے میں ان کا سب سے بڑا کردار ہے۔ وہ ہمیں ایک ایک نکتہ سمجھاتے اور ہر ہر لفظ کی معنویت اور ماہیت بڑی تفصیل سے بیان کرتے۔ اشعار کی خوبصورتی، ان کے اوزان، ان کے معانی اور ان کی گہرائیاں اور نزاکتیں بڑی سلاست سے سمجھاتے تھے۔
ایک دوسرے استادِ محترم، جن کا مجھ پر بہت بڑا احسان ہے، ان کا اسمِ گرامی چودھری نظام الدین تھا۔ وہ نویں جماعت تک ہمیں ریاضی پڑھاتے رہے۔ ریاضی کے علاوہ اردو ادب پر ان کی بڑی دسترس تھی۔ ہمارے اسکول میں اکثریت ہندو اور سکھ اساتذہ کی تھی جبکہ مسلمان اساتذہ تعداد میں بہت کم تھے جن سے ہمارا ربط ضبط سب سے زیادہ رہتا تھا۔ نظام الدین صاحب تبدیل ہوکر ہمارے اسکول آئے تو اپنے بیوی بچے ساتھ نہیں لائے۔ انھوں نے مکان کرائے پر لے لیا اور محنتی طلبہ کو صبح شام آنے کی دعوت دینے لگے۔ اکثر صبح کا ناشتہ مَیں ان کے ساتھ کرتا۔ ان نشستوں میں وہ ادب کے رموز بیان کرتے اور سیاسی موضوعات پر گفتگو فرماتے تھے۔
ایک دن مَیں ان سے پوچھ بیٹھا کہ آپ کے نزدیک آج کا سب سے بڑا ادیب کون ہے؟ انھوں نے برجستہ جواب دیا ’’سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ان کے قلم میں بلا کی تاثیر ہے۔ وہ قاری کو اپنے ساتھ بہا کر لےجانے کی بے پناہ قدرت رکھتے ہیں۔‘‘ محترم استاد کے یہ چند تحسینی کلمات میرے لیے مولانا مودودی کی تحریروں کا باقاعدگی اور شوق سے مطالعہ کرنے کا باعث بنے۔ پھر مجھے شعوری طور پر ان کی تحریروں کی خوبیوں، اور ان کی قوتِ استدلال اور حسن بیان کی اثرآفرینی کا اندازہ ہوتا گیا۔
میرے تیسرے استاد جناب شہاب الدین کا بھی میری ذہنی نشوونما میں بڑا کردار ہے۔ وہ ہمیں دسویں جماعت میں جغرافیہ پڑھاتے تھے۔ وہ علی گڑھ یونیورسٹی سے تازہ تازہ ماسٹرز کرکے آئے تھے اور تحریکِ پاکستان کے پُرجوش حامی تھے۔ ہمیں فارغ اوقات میں تفصیل سے بیان کرتے کہ برِصغیر کے مسلمانوں کی بقا کے لیے پاکستان کا قیام کس قدر ضروری ہے اور اس کی تشکیل سے اسلامی دنیا میں کس قدر عظیم انقلاب رونما ہوگا۔ وہ شہر سے چند میل دور ایگریکلچر فارم میں اپنے ایک رشتے دار کے ہاں قیام پذیر تھے جہاں مَیں صبح سیر کے لیے جاتا اور وہاں گاہے گاہے استادِ مکرم سے بھی ملاقات ہوجاتی۔ ہم کبھی ناشتہ بھی اکٹھا کرتے جس کے دوران اہم اور تازہ مسائل پر سیرحاصل بات چیت ہوتی۔ ان کے پڑھانے سے قبل میرے لیے جغرافیے کا مضمون بہت ہی بورنگ تھا اور رَٹّا لگاکر امتحان میں مشکل سے پاس ہوتا۔ شہاب الدین صاحب نے ہمیں جغرافیہ اس قدر دلچسپ طریقے سے پڑھایا کہ وہ میری زندگی میں ایک شاداب عنوان کے طور پر سرایت کر گیا۔ ’’قدرتی جغرافیہ‘‘ جس میں کبھی دلچسپی نہیں لی تھی، وہ میرا سب سے پسندیدہ مضمون بن گیا۔ ملکوں اور شہروں کی اس قدر پہچان ہو گئی کہ مَیں آنکھیں بند کر کے دنیا کا نقشہ کھینچ لیتا اور کون سا شہر کس براعظم اور کس ملک میں واقع ہے، اس کی نقشے پر درست نشان دہی کر سکتا تھا۔ جغرافیے کی مدد سے لوگوں کے مزاج اور اُن کی تاریخ کا پتا لگانے کا ہنر بھی مجھے آتا گیا۔ یہ معلوم کرنا بھی بہت آسان ہو گیا کہ کس ملک کی قدرتی پیداوار کیا کیا ہیں اور ان کے تجارتی معاہدے اور سیاسی رویّے کس کس نوعیت کے ہو سکتے ہیں، اور عالمی سیاست میں وہ کس حیثیت کے مالک ہیں۔
سوال: آپ کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کی فکر اور شخصیت پر مولانا مودودیؒ کا گہرا اثر ہے، لیکن اس کے بارے میں ذرا تفصیل سے بتائیے۔
الطاف حسن قریشی: آپ کا اندازہ بالکل درست ہے۔ مَیں جب لاہور آیا، تو میری پہلی کوشش مولانامودودیؒ کی خدمت میں حاضری دینا تھی۔ میرے بڑے بھائی جناب گل حسن چوبرجی کوارٹرز میں رہائش پذیر تھے۔ ہم بہن بھائی ان کے پاس آ کر ٹھیرے تھے۔ غالباً 24 دسمبر 1947ء کی شام مولانا سے ملاقات کے لیے مَیںاچھرہ کی جانب چل پڑا۔ راستہ پوچھتے پوچھتے 5۔اے ذیلدار پارک پہنچا، تو رات خاصی گزر چکی تھی، چنانچہ مولانا سے ملاقات نہ ہو سکی۔ وہاں پر موجود ایک صاحب نے بتایا کہ رحمٰن پورہ کی مسجد میں، جو یہاں سے بالکل نزدیک ہے، کل مغرب کے بعد مولانا درسِ قرآن دیں گے، وہاں آپ کی ملاقات یقینی طور پر ہو جائے گی۔
مَیں اگلی شام اُس مسجد میں جا پہنچا جہاں مولانا مودودیؒ درسِ قرآن دینے والے تھے۔ ان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے اپنے بڑے بھائی حافظ افروغ حسن کا حوالہ دیا، تو فوراً ہی پہچان گئے اور اُن کا حال دریافت کرتے رہے۔ مَیں نے بتایا کہ وہ ہارون آباد میں خیریت سے ہیں۔ اس درسِ قرآن کے بعد مَیں جب تک لاہور میں رہا، ان کے درس اور ان کی عصری مجلس میں شریک ہوتا رہا۔ اس طرح مجھے ان سے براہِ راست فیض پانے کے بہت مواقع ملے۔
سوال: ان ملاقاتوں کی کوئی ایسی بات یا مولانا کی شخصیت کا کوئی ایسا پہلو جس کا تذکرہ آپ کے نزدیک بہت اہم ہو؟
الطاف حسن قریشی: میرے لیے سب سے اہم ان کی شفقت کا پہلو تھا۔ میری عمر یہی کوئی سترہ اٹھارہ سال تھی جب ان سے پہلی بار ملا قات ہوئی تھی، مگر جماعتِ اسلامی کے امیر، اسلام کے زبردست مفکر اور بلندپایہ نثرنگار ہونے کے باوجود انھوں نے ایک اجنبی لڑکے کی بات بڑی اپنائیت سے سنی۔ وہ منظر مجھے آج بھی سرشاری عطا کرتا ہے۔ مَیں اس اعتبار سے اپنے آپ کو بہت خوش نصیب تصوّر کرتا ہوں کہ مَیں مولانا کی شفقت اور نظرِ عنایت سے برابر فیض یاب ہوتا رہا۔
مَیں نے انھیں تقریر کرتے ہوئے بھی بارہا سنا۔ ان کے خطاب کا خاص وصف یہ تھا کہ اس میں جذباتیت ذرّہ برابر نہیں تھی۔ وہ ایک ایک لفظ سوچ سمجھ کر ادا کرتے۔ ممتاز قانون دان اے۔کے۔ بروہی صاحب نے اپنے مضمون میں لکھا کہ’’ ــایسا لگتا ہے جیسے ان کے سامنے کتاب کھلی رکھی ہو اور وہ اسے دیکھ کر پڑھ رہے ہوں۔‘‘ ان کی تقریر میں گہرا ربط اور بلا کی ہمواری ہوتی اور تکرار اور تضاد سے یکسر پاک۔ آواز کبھی بلند اور کبھی دھیمی کرلینا ان کے مزاج میں شامل نہیں تھا۔ وہ اشتراکیت کے ماننے والوں سے شدید کشمکش کے دوران بھی ہمیشہ اپنی شخصیت، اپنے قلم، اپنی زبان اور اپنے سماجی رویوں میں ایک وقار اور توازن قائم رکھتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ معاشرے میں سیاسی تبدیلی کا پُرامن عمل کھلی فضا میں اور جمہوری قدروں کے مطابق پروان چڑھنا چاہیے۔
مجھے اپنا ایک ذاتی واقعہ یاد آتا ہے جب اشتراکیت اور اسلام کے عَلم برداروں کے درمیان کشمکش انتہا کو پہنچ گئی اور سول اور عسکری بیورو کریسی میں اشتراکی حلقے اپنا اثررسوخ بڑھانے لگے، تو مَیں نے سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے تخلیے میں بات کی کہ ماہنامہ ’اردو ڈائجسٹ‘ جسے اللہ نے بڑی مقبولیت عطا کی ہے، اس کے اثرات ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ فوج اور بیوروکریسی کے اعلیٰ افسروں سے میرے اچھے تعلقات ہیں۔ میری خواہش ہے کہ جس طرح کمیونسٹوں نے اپنے نظریاتی مقاصد کی آبیاری کے لیے خفیہ سیل بنا رکھے ہیں، اسی طرح ہمیں بھی ان میں اپنے خفیہ سیل قائم کرنے چاہئیں۔
مولانا اپنے مزاج کی مناسبت سے بڑے تحمل سے میری بات سنتے رہے۔پھر انھوں نے نپے تلے الفاظ اور پُرسکون لہجے میں فرمایا ’’آپ اچھے جذبےاور ایک گونہ فکر مندی کے ساتھ آئے ہیں، لیکن میں کسی خفیہ اور زیرزمین کارروائی پر یقین نہیں رکھتا۔ ہم ایک سیاسی جماعت ہیں اور جمہوریت پر یقین رکھنے والی سیاسی جماعت کھلے عام کام کرتی ہے۔ اس بنا پر کسی قسم کی سازباز ہمارے عقیدے اور جماعتِ اسلامی کے دستور کے خلاف ہے۔ ہمارے راستے میں چاہے کتنی مشکلات آئیں، کتنی ہی بڑی رکاوٹیں کھڑی کی جائیں اور ہمیں کیسی ہی کڑی آزمائشوں سے واسطہ پڑے، میں خفیہ تنظیم اور زیرزمین طریقے کبھی اختیار نہیں کروں گا اور نہ کبھی اپنے کارکنوں کو ایسی کوئی ہدایت دوں گا، بلکہ میں انھیں ایسی ہر غلط حرکت اور ہر سوچ سے پوری سختی سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا۔‘‘
سوال: مولانا مودودی ؒ کی شخصیت اور افکار سے متاثر ہونے کے باوجود آپ جماعتِ اسلامی کے باقاعدہ رکن نہیں بنے، اس کی کیا وجہ رہی؟
الطاف حسن قریشی: جماعتِ اسلامی میں باقاعدہ اس لیے شامل نہیں ہوسکا کہ پہلے 12 سال سرکاری ملازمت میں گزر گئے۔ یہاں سرکاری ملازمت کا بھی ایک واقعہ سناتا چلوں۔ یہ 1948ء کی بات ہے جب میں محکمہ انہار میں سگنیلر ملازم ہوا۔ اُس وقت میری سرکاری عمر ساڑھے سولہ سال تھی۔ میری تعیناتی مرالہ ہیڈورکس ہوئی۔ چند ماہ بعد میں لاہور آیا، تو ’مطالبہ دستورِ اسلامی‘ کے بڑے بڑے پوسٹر دیواروں پر لگے دیکھے جو مجھے بڑے پسند آئے۔ واپسی پر دو درجن کے لگ بھگ پوسٹر مرالہ لے آیا۔ کم عمری کی وجہ سے میرا ذہن ابھی کچا تھا۔ میں نے اپنے ایگزیکٹو انجینئر کے ہیڈ آفس کی دیوار پر بھی چار پانچ پوسٹرز چسپاں کردیے۔ اس وقت جماعتِ اسلامی اور حکومت میں اَن بن جاری تھی۔ ایگزیکٹو انجینئر نے اپنے عملے سے پوچھا: کس نے یہ پوسٹرز لگائے ہیں؟ گارڈ نے بتایا کہ سگنیلر الطاف حسن قریشی نے یہ کام کیا ہے۔
ایکسیئن صاحب نے مجھے بلا بھیجا اور پوچھا: کیا تم نے یہ پوسٹر لگائے ہیں؟ میں نے جواب دیا جی ہاں! میں نے لگائے ہیں، کیونکہ میں جماعتِ اسلامی کے اس مطالبے کو درست سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک میں اسلامی نظام نافذ ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں آپ بھی اس میں حصّہ لیں اور پورے مرالہ ڈویژن کو اس مطالبے میں شامل کردیں۔ وہ میرے چہرے پر نظریں جمائے میری باتیں سنتے رہے اور میری بات ختم ہونے پر تحکمانہ لہجے میں بولے کہ الطاف! زیادہ باتیں کرنے کی ضرورت نہیں۔ تم ابھی فیصلہ کرلو کہ ملازمت کرنی ہے یا سیاست۔ یہ دونوں کام ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔
پہلے تو میں نے سوچا کہ صاف صاف کہہ دوں کہ ملازمت اپنے پاس رکھیں اور میرا استعفیٰ منظور کرلیں، لیکن دوسرے لمحے خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو رزق عطا کیا ہے، اسے لات مارنا اچھا نہیں۔ ایکسیئن صاحب سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ مَیں آئندہ احتیاط سے کام لوں گا اور کسی شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔
سرکاری ملازمت کے بعد قدرت مجھے صحافت میں لے آئی۔ اس پیشے میں آنے کے بعد بھی یہی مناسب سمجھا کہ سیاسی جماعت کی باقاعدہ ممبرشپ نہیں لینی چاہیے تاکہ آزادی سے صحافتی فرائض ادا کرتا رہوں، چنانچہ ہم نے اپنی صحافت سیاسی سرگرمی کے بجائے تہذیبی رُخ پر استوار کی اور طرزِ بیان اور طرزِ فکر میں ایک ایسا توازن قائم رکھا کہ ہر طبقۂ فکر اس سے اثر قبول کرتا رہا۔ اس کے علاوہ میری انٹرویو نگاری نے بہت ساری دلچسپیوں کا ایک نیا باب کھول دیا۔
میں بڑی بڑی شخصیتوں سے انٹرویو لیتے وقت ایسے سوال پوچھتا جن سے کسی خاص جماعت سے وابستگی کا تاثر نہیں ملتا تھا، تاہم 1964ء سے کھل کر سیاسی موضوعات پر لکھنا شروع کیا جب مَیں پہلی بار مشرقی پاکستان گیا۔ پھر 1966ء میں شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نکات کا پانچ قسطوں میں جائزہ لیا۔ اسی دوران جماعت ِ اسلامی کا معتدل اور متوازن مؤقف قومی تناظر میں پیش کرتا رہا، چنانچہ جماعتِ اسلامی کا پیغام جو پہلے صرف ’’ترجمان القرآن‘‘ یا ’’ایشیا‘‘کے قارئین تک محدود تھا، ایسے ایسے طاقت ور حلقوں تک پہنچتا رہا جن میں جماعتِ اسلامی کا نام لینا بھی ایک جرم تصوّر ہوتا تھا۔
سوال: آج آپ کے خیال میں سرکاری ملازمت نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیسا تھا؟
الطاف حسن قریشی:میں آج بھی یہ سمجھتا ہوں کہ وہ ہر اعتبار سے ایک درست فیصلہ ثابت ہوا، کیونکہ اس ملازمت کے دوران میں الحمدللہ میں نے ادیب فاضل کیا جس کا معیار اُس وقت ایم۔اے۔ اردو کے برابر تھا۔ پھر ایم۔اے۔ پولیٹیکل سائنس میں پنجاب یونیورسٹی میں فرسٹ آیا۔ اس کے بعد علومِ اسلامیہ میں بھی ماسٹرز کیا۔ ان تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کی کفالت بھی کرتا رہا۔ اردو ڈائجسٹ، ہفت روزہ زندگی اور روزنامہ جسارت کے ذریعے ہم قرآن و سنت اور مولانامودودی، علامہ اقبال اور قائداعظم کا پیغام پھیلانے میں شب و روز لگے رہے۔ اس پورے عمل میں وہ تجربات بہت کارآمد ثابت ہوئے جو مَیں نے سرکاری ملازمت کے زمانے میں حاصل کیے تھے۔
محکمہ انہار میں پنجاب سگنیلرز ایسوسی ایشن تقسیمِ ہند سے پہلے قائم تھی۔ پاکستان بنا تو جناب شمس الاسلام نے اسے متحرک رکھا۔ مَیں نے جب 1952ء میں گریجویشن کی، تو جنرل سیکرٹری شپ کا بار میرے کاندھوں پر آن پڑا۔ دو سال بعد ون یونٹ قائم ہوا اور ہماری ایسوسی ایشن کا دائرہ پورے مغربی پاکستان تک وسیع ہو گیا۔ اب اس کے اجلاس پورے مغربی پاکستان میں مختلف مقامات پر ہونے لگے۔ اس سے پہلے معمول یہ تھا کہ کسی غیراہم جگہ پر سالانہ اجلاس ہوتا اور اس میں منظورشدہ قراردادیں افسرانِ بالا کو بھیج دی جاتیں جن کا کوئی خاطرخواہ نتیجہ نہیں نکلتا تھا۔ ہمارے زیادہ تر سگنیلرز دور دَراز علاقوں میں کام کرتے تھے جہاں اسکول ہوتے نہ دوسری بنیادی سہولتیں۔ وہ شدید احساسِ محرومی کا شکار تھے۔ مَیں نے ایسوسی ایشن کے سرکردہ لوگوں سے مشاورت کے بعد ایک فعال پالیسی اختیار کی اور ہم ہر ایگزیکٹو انجینئر اور سپرنٹنڈنٹ انجینئر کے صدر مقام پر ایسوسی ایشن کے اجلاس منعقد کرنے لگے جن میں ان اعلیٰ افسروں کو مہمانِ خصوصی کے طور پر دعوت دی جاتی تھی۔ یوں چھوٹے موٹے مسائل موقع ہی پر حل ہو جاتے۔ اس طرح ہمارے پس ماندہ سگنیلرز میں اعتماد بھی پیدا ہوا اور ان پر ترقی کے راستے بھی کھلنے لگے۔
محکمہ انہار کا سربراہ حکومت کا سیکرٹری ہوتا ہے۔ چھوٹے درجے کے ملازمین کی اُس تک رسائی ناممکن تھی۔ مَیں نے ایک اجلاس لاہور میں منعقد کیا جس میں سیکرٹری صاحب مدعو کیے گئے جن کا بڑا دبدبہ تھا۔ ان کی خدمت میں انگریزی میں سپاسنامہ پڑھا گیا، تو وہ ہکا بکا رہ گئے اور ایسوسی ایشن کی صلاحیتوں سے بےحد متاثر ہوئے۔ ادھر سگنیلرز حضرات خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ ان سے محکمے کا سربراہ خطاب کررہا ہے۔ وہ یقیناً ان کی زندگی کا ایک ناقابلِ فراموش واقعہ تھا۔ انھوں نے ایسوسی ایشن کو باقاعدگی سے سالانہ چندہ ادا کرنے کی روایت بھی قائم کی اور جمع شدہ وسائل مختلف مقامات پر اجلاس کے انعقاد پر خرچ کیے جاتے رہے۔ مجھے کوئی چھے برس تواتر کے ساتھ ایسوسی ایشن کا جنرل سیکرٹری منتخب کیا جاتا رہا۔ میری ملازمت کے آخری دنوں میں یحییٰ خان نے پے کمیشن قائم کیا جس کے سربراہ فاضل جسٹس اے آر کارنیلیس مقرر ہوئے۔ اُن سے ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے توجہ سے وفد کی گزارشات سنیں۔ ان کے ہمدردانہ رویّے اور بیوروکریسی کے بارے میں ان کے باغیانہ خیالات سے مَیں بہت متاثر ہوا اور ان کے ساتھ ایک پائیدار ذہنی رشتہ قائم ہوگیا جو آئندہ زندگی کے سفر میں بہت کام آیا۔
مجھے سگنیلرز کے حالات معلوم کرنے اور ان سے رابطہ قائم رکھنے کے لیے پورے مغربی پاکستان کے دورے کرنا پڑتے تھے، چنانچہ تمام ہیڈورکس پر جانے اور آبپاشی کے وسیع نظام کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ مَیں نے لوگوں اور افسروں سے ملنے اور ان سے مذاکرات کرنے کا ڈھنگ بھی سیکھا۔ اس طرح میرا ذہنی افق وسیع ہوتا گیا اور عملی صلاحیت بڑھتی گئی۔ یہی تجربات تعلیمی مراحل طے کرنے میں بھی بہت کام آئے۔ ایم۔اے۔ پولیٹیکل سائنس کے فائنل ایئر میں ہمارے لیے خصوصی مقالہ Dissertation لکھنا لازمی تھا۔ وزیراعظم جناب سہروردی نے اعلان کردیا تھا کہ فروری 1959ء میں عام انتخابات منعقد ہوں گے، چنانچہ مَیں نے جماعتِ اسلامی کے انتخابی منشور پر مقالہ لکھنے کی بورڈ آف اسٹڈیز سے منظوری لے لی۔ دریں اثنا ملک میں مارشل لا نافذ ہوگیا، چنانچہ انتخابات کے موضوع پر تمام مقالے منسوخ ہوگئے اور جلدی میں نیا موضوع تلاش کرنا پڑا۔ میرے محکمے میں Irrigation Research Institute کے نام سے ایک ادارہ موجود تھا۔ مَیں نے اس پر مقالہ لکھنے کا فیصلہ کیا جو ہنگامی صورتِ حال کے باعث منظور بھی ہو گیا۔
مَیں نے ایک ماہ کی قلیل مدت میں اپنا مقالہ مکمل کر لیا جسے میرے محکمے کے ایک اچھے اسٹینوگرافر اور میرے محترم دوست جناب محمد طفیل نے بڑی نفاست سے ٹائپ بھی کر دیا۔ مَیں اسے لے کر اپنے ڈیپارٹمنٹ پہنچا، تو سامنے پروفیسر ڈاکٹر فریٹرز کھڑے تھے جو ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ تھے۔ وہ ہٹلر کی قید میں رہ چکے تھے اور یہودی ہونے کی وجہ سے ان پر بڑا تشدد ہوا تھا، چنانچہ کبھی کبھی ان کا ذہنی توان بگڑ جاتا تھا۔ مَیں اُن سے ایک فاصلے ہی پررہتا تھا۔ پروفیسر صاحب نے پوچھا تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟ مَیں نے کہا ایم۔اے۔ کا مقالہ ہے۔ اُنھوں نے مجھ سے لے لیا اور کھڑے کھڑے اس کی ورق گردانی کرتے رہے۔ پھر مجھے اپنے ساتھ اپنے کمرے میں لے گئے۔ کہنے لگے: مقالے کا موضوع بہت مشکل تھا، مگر تم نے اسے دلچسپ بنا دیا ہے۔ تھوڑی محنت سے اسے مزید سہل اور عمدہ بنایا جا سکتا ہے۔ تم روزانہ گیارہ بجے میرے پاس آ جایا کرو، مَیں اسے مزید بہتر بنانے میں تمہاری مدد کروں گا۔ میرے کلاس فیلو ڈاکٹر فریٹرز کی مجھ پر اس مہربانی پر بہت حیران ہوئے، کیونکہ وہ شاذونادر ہی کسی طالبِ علم کو اتنی لفٹ دیتے تھے۔
پروفیسر صاحب روزانہ مجھے ڈیڑھ گھنٹہ دیتے اور تحقیق کے جملہ آداب سکھاتے۔ مَیں نے ایک ڈیڑھ مہینے میںجو سیکھا، وہ زندگی بھر کام آیا۔ وہ بتاتے رہے کہ چھوٹے اور عام فہم جملے مقالے کی روانی اور قدر و قیمت میں اضافہ کرتے ہیں۔ مَیں نے ان سے یہ بھی سیکھا کہ متن اور حاشیے میں کیا فرق ہے اور حوالوں کا مسلمہ معیار کیا ہے۔ میرے دوست نے یہ مقالہ پانچ بار ٹائپ کیا جس کی بدولت یہ بہت نکھر گیا۔ اس مقالے کے ایکسٹرنل ممتحن اُسی ادارے کے سربراہ مقرر ہوئے جس پر مَیں نے مقالہ لکھا تھا۔ پروفیسر فریٹرز نے بعد میں بتایا کہ تمہارے ایکسٹرنل ایگزامنر کہہ رہے تھے کہ مَیں بھی اس سے بہتر مقالہ نہیں لکھ سکتا تھا۔ اُن کا یہ تبصرہ میرے لیے یقیناً بڑی خوشی اور اِفتخار کی بات تھی۔
سوال: آپ نے صحافت کی طرف آنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اُس دور میں زیادہ تر معروف اہلِ علم اور عظیم ادیب ہی اس پیشے میں پیش پیش رہے ہیں۔
الطاف حسن قریشی:میرے ساتھ عجب معاملہ ہوا۔ میری خواہش معلم بننے کی تھی، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرے والد صاحب کی یہ دعا بارگاہِ الٰہی میں قبول ہو چکی تھی کہ میرا کوئی بیٹا مولانا ظفر علی خان کے نقشِ قدم پر چلنے والا صحافی بنے۔ اس کا راستہ یوں کھلا کہ جب میرے بڑے بھائی اعجاز حسن قریشی جرمنی سے پی۔ایچ۔ڈی کرکے آئے، تو اُنھیں پنجاب یونیورسٹی میں کوئی معقول ملازمت نہیں ملی۔ مجھے بھی یونیورسٹی میں فرسٹ آنے کے باوجود لیکچررشپ کا حصول مشکل نظر آ رہا تھا، کیونکہ ہماری کوئی تگڑی سفارش نہیں تھی۔ ہم دونوں بھائیوں نے 1959ء کے وسط میں ’ـلاہور مسلم کالج‘ کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا جو ایک ہی سال میں خاصا مشہور ہو گیا۔
یہ 1960ء کے شروع کی بات ہے کہ ایک دن ملک ظفر اللہ خان صاحب بھائی اعجاز حسن سے ملنے آئے۔وہ معروف صحافی ملک نصراللہ خاں صاحب کے بڑے صاحبزادے تھے اور اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے تاسیسی ناظم اعلیٰ تھے۔ بھائی اعجاز جماعتِ اسلامی کے ترجمان اخبار روزنامہ ’’تسنیم‘‘ میں مختلف حیثیتوں میں کام کرتے رہے تھے، اس لیے ملک ظفر اللہ خاں سے اچھے تعلقات استوار ہو گئے تھے۔ مارشل لا کی وجہ سےروزنامہ ’’تسنیم‘‘ اور سہ روزہ ’’کوثر‘‘ بند ہوگئے تھے، اس لیے وہ ایک منصوبہ لے کر آئے تھے۔ انھوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ Readers Digest کی طرز پر ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ عوام کے اندر بہت مقبول ہوسکتا ہے۔ مَیں اس کا منصوبہ لے کر آیا ہوں۔ ہمارا پہلا جواب یہ تھا کہ چونکہ ہمارا صحافت سے کوئی تعلق نہیں رہا، اس لیے اس منصوبے کا بار شاید ہم نہ اٹھا سکیں۔
ہمارے پہلے ردِعمل کے باوجود جناب ظفراللہ خاں سے ملاقاتیں جاری رہیں اور اس منصوبے کے مختلف پہلوئوں پر سوچ بچار ہوتا رہا۔چند ہفتوں بعد ہمارے اندر یہ احساس پیدا ہونے لگا کہ ہماری اردو صحافت اور ادب پر اشتراکی اور سیکولر ادیبوںاور صحافیوںکا قبضہ ہےیا پھر ایسے افراد کا کنٹرول ہے جو فحاشی پھیلا رہے ہیں۔ اس اعتبار سے ہم پر یہ ذمےداری عائد ہوتی ہے کہ قاری کو پڑھنے کے لیے ایک ایسا ماہنامہ دیا جائے جو فکری اور ثقافتی آلائشوں سے پاک ہو، جس کی زبان آسان ہو اور جس میں پورے خاندان کے لیے دلچسپی کا سامان پایا جاتا ہو۔ اسے ماں بیٹی، بہن ،بھائی اورباپ بیٹے کے سامنے کسی حجاب کے بغیر پڑھا جا سکتا ہو۔ اس کے علاوہ اس میں اسلام اور پاکستان کی محبت رچی بسی ہو اور اس کے ذریعے اردو زبان کا دامن وسیع کیا جا سکتا ہو۔ ان اعلیٰ مقاصد کے ساتھ ہم نے’’ اردو ڈائجسٹ‘‘ نومبر 1960ء میں جاری کیااوراللہ تعالیٰ نے اسے وہ مقبولیت عطا کی جو ہمارے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں تھی۔ قدم آگے ہی بڑھتے گئے اور مقاصد کے دائرے میں وسعت پیدا ہوتی گئی۔
ہم نے عظیم شخصیتوں کے انٹرویو لینے کا سلسلہ شروع کیا جس کے ذریعے ایوب خان کی آمریت کا فکری سطح پر مقابلہ کیا جاتا رہا۔ اس انتہائی سخت گیر دورِ حکومت میں حکمران طبقے پر براہِ راست تنقید کی جا سکتی تھی نہ اُن مسائل پر بحث کی گنجائش تھی جو معاشرے کی آزادانہ نشوونما کے لیے ضروری تھے۔ وہ تمام بنیادی ایشوز انٹرویوز میں سوال جواب کی شکل میں شائع ہونے لگے۔ اس طریقے سے اردو ڈائجسٹ جمہوریت کی آبیاری کے لیے مستقل مزاجی سے بنیادی کام سرانجام دیتا اور قومی حمیت کو بھی مہمیز لگاتا رہا۔ ہم نے اُن باہمت لوگوں کی داستانیں بڑی تعداد میں شائع کیں جنہوں نے اپنے اپنے ملکوں میں فسطائیت کا ڈٹ کر مقابلہ کر کے عوام کو بااختیار بنا دیا تھا۔اللہ تعالیٰ نے ہماری حقیر سی کوششیں بارآور کیں اور پاکستان میں ایوبی آمریت کا خاتمہ ہوا۔ (جاری ہے)