یومِ آزادی: شہبازشریف کی ایوانِ وزیراعظم سے رخصتی

نگراں وزیراعظم کے نام کی سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کو خبر تھی

نگراں وزیراعظم کا جو معاملہ سیاسی و صحافتی حلقوں میںقیاس آرائیوں کا موضوع بنا ہوا تھا اور متعدد سیاسی، سفارتی اور عدالتی شخصیات کے نام اس حوالے سے گردش میں تھے، بالآخر بلوچستان سے علاقائی تعلق اور باعتبارِ زبان پشتون شناخت رکھنے والے بلوچستان عوامی پارٹی کے بانیوں میں شامل سینیٹر انوارالحق کاکڑ کی شکل میں ایک ایسی شخصیت پر اتفاق کی صورت میں انجام کو پہنچا جس کا پہلے کہیں کوئی ذکر نہ تھا۔

ملک کی پارلیمانی تاریخ میں ایک اور قومی اسمبلی نے اپنی میعاد مکمل کرلی، لیکن اس مرتبہ بھی کوئی وزیراعظم اپنی 5 برس کی آئینی مدت مکمل نہیں کرسکا، البتہ یہ ضرور ہوا کہ قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر پہلی بار اسمبلی کی تحلیل سے 16 ماہ پہلے وزیراعظم بن گئے۔ سبک دوش ہونے والی اس اسمبلی نے وزرائے اعظم تبدیل ہونے کی روایت تو برقرار رکھی لیکن 5 برس ایک سیاسی جماعت کی حکمرانی کی ریت توڑ ڈالی ہے۔ وزارتِ عظمیٰ کا بھرپور عرصہ گزارنے کے بعد شہبازشریف یوم آزادی کے یادگار دن وزیراعظم ہائوس سے رخصت ہوگئے لیکن’’اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا‘‘ جیسا بیان سائے کی مانند مستقل طور پر ان کا پیچھا کرتا رہے گا۔ ان کے وزارتِ عظمیٰ کے دور میں عوام براہِ راست بری طرح متاثر ہوئے۔ ان کی 16 ماہ کی حکومت میں جس ظالمانہ شرح سے مہنگائی میں اضافہ ہوا عوام اسے شاید ہی فراموش کرسکیں گے اور اس کے اثرات کا عوامی سطح پر یقیناً مسلم لیگ (ن) کو انتخابات کے موقع پر سامنا کرنا ہوگا۔ یہی صورت حال بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ رہے گی، ان کے الوداعی خطاب میں یہ جملہ ’’ہم کچھ نہیں کرسکے‘ اور اداروں کو ان کے دائرے میں نہیں رکھ سکے‘‘ مستقبل کا پتا دے رہا ہے کہ وہ غالباً آصف علی زرداری کے طرزِ سیاست سے کوئی الگ راہ لینے والے ہیں۔

جب قوم پاکستان کا 76واں یوم آزادی پورے جوش و خروش سے منا رہی تھی، وطنِ عزیزجمہوریت کے نئے اور انتہائی اہم مرحلے میں داخل ہوچکا تھا۔ وزیراعظم شہبازشریف سبک دوش ہوگئے اور نامزد نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے منصفانہ، آزادانہ اور شفاف عام انتخابات کرانے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے منصب کا حلف اٹھا لیا۔ وہ ملک کے آٹھویں نگراں وزیراعظم ہیں جو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرائیں گے۔ انہوں نے مختصر نگراں کابینہ کے ارکان کی تقرری کے لیے مشاورت شروع کردی ہے۔ نگراں وزیراعظم کے حوالے سے پچھلے کئی ہفتوں کے دوران ڈیڑھ درجن سے زیادہ نام سامنے آئے لیکن کہا جارہا تھا کہ شہبازشریف سرپرائز دے سکتے ہیں اورپھر ایسا ہی ہوا۔ قائد حزبِ اختلاف سے مشاورت میں سینیٹر انوارالحق کے نام پر اتفاق کے بعد صدر مملکت نے اس تجویز پر دستخط کردیے اور ملک کے آٹھویں نگراں وزیراعظم کا تقرر عمل میں آگیا۔ جس طرح ان کی تقرری ہوئی ہے اسی طرح نگراں کابینہ کے وزراء بھی آجائیں گے۔

نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے والد احتشام الحق کاکڑ نے اپنے کیریئرکا آغاز بطور تحصیل دار کیا تھا، جس کے بعد وہ مختلف سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ ان کے دادا قیام پاکستان سے قبل خان آف قلات کے معالج کے طور پرفرائض انجام دیتے رہے۔ انوارالحق کاکڑ 2018ء میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے۔ وہ بلوچستان سے بننے والے دوسرے نگراں وزیراعظم ہیں۔ ان سے پہلے میر ہزار خان کھوسو بھی نگراں وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ ملک کے سب سے کم عمر نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ 1971ء میں بلوچستان کے علاقے مسلم باغ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سن فرانسز ہائی اسکول کوئٹہ سے حاصل کی، جس کے بعد انہوں نے کیڈٹ کالج کوہاٹ میں داخلہ لیا، اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن بھی گئے۔ انہوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے سیاسیات اور سوشیالوجی میں ماسٹرزکیا۔ بلوچستان کی سیاست میں پہلی بار 2008ء میں آئے اور مسلم لیگ(ق)کے ٹکٹ پر کوئٹہ سے قومی اسمبلی کے رکن کے لیے امیدوار بنے، تاہم کامیاب نہ ہوسکے۔ اس کے بعد وہ مسلم لیگ(ن) میں شامل ہوگئے۔ نگراں وزیراعظم کی حیثیت سے ان کے انتخاب پر سیاسی جماعتیں مثبت ردعمل دے چکی ہیں، جبکہ عسکری قیادت سے بھی ان کے روابط خوش گوار بتائے جاتے ہیں، البتہ جب بلوچستان کے ایک سابق وزیراعلیٰ کو ان کے نگراں وزیراعظم بننے کی اطلاع ملی تو وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ انوا الحق کاکڑ جب سے سینیٹ کے رکن بنے ہیں‘ بہت متحرک نظر آئے ہیں۔ مختلف تھنک ٹینکس کے اسلام آباد میں منعقد ہونے والے سیمیناروں میں بحیثیت مقرر اکثر شرکت کرتے تھے، خارجہ امور اور جنوبی ایشیا کے معاملات پر ان کی مضبوط گرفت ہے۔ انہیں افغانستان پاکستان امور کا ماہر بھی سمجھا جاتا ہے۔

وزیراعظم شہبازشریف اور اپوزیشن لیڈر راجا ریاض احمد نے نگراں وزیراعظم کے لیے سینیٹر انوارالحق کاکڑ کے نام کی منظوری دی تھی جس کے بعد صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے سمری پر دستخط کیے۔ نگراں وزیراعظم کے لیے اُن کا نام کس نے پیش کیا اور یہ نام کہاں سے آیا‘ یہ ایک معما ہے، تاہم بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ جام کمال اس بارے میں باخبر تھے، انہوں نے جب کچھ عرصہ قبل اُس وقت کے وزیراعظم شہبازشریف سے ملاقات کی تھی تو انوارالحق کاکڑ اس ملاقات میں موجود تھے، اسی ملاقات میں سب کچھ طے ہوگیا تھا اور انہیں کہا گیا تھا کہ فیصلہ ہونے تک اپنے لب مکمل سی کر رکھیں۔ بہرحال اب فیصلہ سامنے آچکا ہے اور پاکستان کی حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد انوارالحق کاکڑ نے بطور نگراں وزیراعظم عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔ انوارالحق کاکڑ نے حلف برداری سے قبل بطور سینیٹر اپنا استعفیٰ چیئرمین سینیٹ کو بھجوایا جسے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے منظور کرلیا ہے، اب ان کی نشست خالی قرار دے دی گئی ہے۔

انوارالحق کاکڑ اچھے پڑھے لکھے انسان ہیں اور قوتِ برداشت بھی بہت ہے۔ دیکھنا ہے کہ بحیثیت وزیراعظم وہ یہ ذمہ داری کیسے نبھاتے ہیں۔ اب امتحان سر پر پڑا ہے تو پتا چلے گا کہ انتظامی طور پر وہ کیسے ہیں۔نگراں حکومت کو ملک میں مہنگائی اور امن و امان کے علاوہ ملکی ترقی کے لیے اہمیت کے حامل پروجیکٹ سی پیک پر توجہ دینا ہوگی۔ نگراں وزیراعظم کا تعلق چونکہ بلوچستان سے ہے لہٰذا یہ معاملہ اُن کے لیے حساس بھی ہوگا اور سنجیدہ توجہ کا حامل بھی سمجھا جائے گا۔ اس منصوبے کے مثبت اور کسی حد تک منفی دونوں پہلو ہیں۔ اس پروجیکٹ سے اسلام آباد کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ یہ پروجیکٹ پاکستان میں 25.4 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری لے کر آیا ہے۔ سی پیک ایک ایسے وقت میں پاکستان میں آیا، جب پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری بالکل نہیں آرہی تھی۔45 بلین ڈالر کے سی پیک کے جو ابتدائی پروجیکٹ تھے، ان سے توانائی اور انفرااسٹرکچر سیکٹرز میں بہت بہتری آئی، سی پیک نے روزگار کے 2 لاکھ 36 ہزار مواقع فراہم کیے، جن میں سے ایک لاکھ 55 ہزار پاکستانی مزدوروں کے حصے میں آئے، اس پروجیکٹ کی بدولت چینی سرمایہ کاروں کی دلچسپی پاکستان میں بڑھی اور ایک چینی کنسورشیم نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں 40 فیصد شیئر خریدے۔ ایک دوسرے گروپ نے 45 فیصد شیئر لیے ہیں۔ جبکہ دو چینی کمپنیاں فیصل آباد میں اسمارٹ فون بنانے کے لیے مینوفیکچرنگ پلانٹ لگا رہی ہیں۔ منفی پہلو یہ ہے کہ ان پروجیکٹس میں مقامی لوگوں کے مفادات کو یکسر نظرانداز کیا گیا۔ توانائی کی یہ صورتِ حال ہے کہ ہم اربوں روپیہ چینی توانائی کمپنیوں کو ادا کررہے ہیں چاہے وہ بجلی پیدا کریں یا نہ کریں، جس کی وجہ سے صرف چینی پاور کمپنیوں کا بل تقریباً 500 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اب یہ بات بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں جو بھی ملک پروجیکٹس لے کر آتا ہے، اس میں اُس کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ضرورت اس امر کی تھی کہ ہمارے حکمران چین سے صحیح طور پر بات چیت کرتے اور ایسے پروجیکٹس ملک کے لیے تجویز کرتے، جو ملک کی معاشی حالت کو بہتر کرتے اور ریوینو میں اضافہ کرتے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں نے اورنج لائن ٹرین جیسے پروجیکٹس تجویز کیے، جن سے ہمیں معاشی اور مالی طور پر نقصان ہوا۔

نگراں حکومت کو خارجہ محاذ سے جڑا ہوا ایک اور اہم مسئلہ حل کرنا ہوگا۔ بیرون ملک ایک گروپ ایسا بھی ہے جو تحریک انصاف کی محبت میں پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات دھر رہا ہے۔ یہ گروہ امریکیوں سے مسلسل رابطے میں ہے اور زور دے رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے خلاف پاکستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے خلاف امریکی کانگریس قرارداد لائے۔ یہ گروہ چاہتا ہے کہ امریکی کانگریس مین 9 مئی کو آتش زنی اور ہجوم پر حملہ کرنے والوں کے خلاف حکومتِ پاکستان کے تعزیری اقدامات کی مذمت میں مدد کریں۔ امریکیوں سے مسلسل پوچھا جارہا ہے کہ پاکستان کو 3 ارب ڈالر کی اقتصادی لائف لائن کیوں دی گئی؟ ان کا اشارہ پاکستان کے ساتھ آئی ایم ایف کے تازہ ترین اسٹینڈ بائی معاہدے کی طرف ہے۔ بدقسمتی سے امریکہ میں مقیم پاکستانیوں میں سے بہت سے معصوم لوگ جھوٹ اور پروپیگنڈے سے متاثر ہوئے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی لائی ہوئی یہ ’’تبدیلی‘‘ ملک کو روایتی سیاست اور بدانتظامی کے نہ ختم ہونے والے چکر سے نجات نہیں دلا سکی اورگورننس، اصلاحات، احتساب اور معاشی بحالی سمیت متعدد امور پر کام کرنے میں ناکام رہی۔ نگراں وزیراعظم کی حیثیت سے انوار الحق کاکڑ کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ مقررہ مدت کے اندر ملک میں منصفانہ اور غیرجانب دارانہ انتخابات کرائیں اور اپنی حکومت کی مدت میں ملکی معیشت اور امن وامان کے سنگین چیلنجز سے بھی نمٹنے کی صلاحیت بڑھائیں۔ نگراں وزیراعظم کی ذمہ داری بہت غیر معمولی ہے۔ انہیں آئی ایم ایف معاہدے کی کڑی شرائط پر عمل درآمد یقینی بنانا ہوگا اور معاشی بحالی کے سیاسی اور عسکری مشترکہ منصوبے پر پیش رفت بھی جاری رکھنی ہوگی۔ جدید تعلیم یافتہ، باصلاحیت اور مسائل کے حل کے حوالے سے منفرد سوچ رکھنے والی شخصیت ہونے کی بنا پر توقع ہے کہ نگراں وزیراعظم ذمے داریاں بحسن و خوبی نبھائیں گے۔ انوارالحق کاکڑ جو ایجنڈا آگے بڑھائیں اُس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ہر وقت بیک اَپ پلان بھی موجود اور تیار رکھا جاتا ہے۔ یہ بات سمجھ لی جائے کہ یہ نگراں وزیراعظم صرف 3ماہ کے لیے نہیں لائے گئے، منصوبہ بہت طویل اور خطرناک ہے۔

ایک بیک اَپ پلان عمران حکومت کے خلاف بھی بنا تھا۔ اس حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اپریل2022ء میں آئی لیکن فیصلہ دسمبر 2021ء میں ہی ہوگیا تھا کہ عمران حکومت مزید نہیں چل سکتی۔ یوں اپریل 2022ء کی تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارتِ عظمیٰ کا ہما شہباز شریف کے سر پر آبیٹھا۔ شہبازشریف نے 13جماعتی اتحاد کے ساتھ مل کر حکومت چلائی۔ اب یہ حکومت قومی اسمبلی کی آئینی مدت مکمل ہونے پر جاچکی ہے۔ شہباز حکومت کی 16ماہ کی کارکردگی کیسی رہی؟ اس پر ملا جلا ردعمل ہے۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ شہبازشریف نے انتہائی محنت اور لگن سے دن رات کام کیا۔لیکن ان کے سیکرٹریٹ میں عوام کے منتخب نمائندے حتیٰ کہ وزراء تک خوار ہوتے رہے۔ ایک رانا ثنااللہ خان کی وزارت ایسی تھی جہاں عام آدمی کو رسائی میسر رہی، لیکن اس وزارت نے جس طرح ہزاروں اسلحہ لائسنس جاری کیے، یہ اقدام ایک داغ کے طور رہے گا۔

نگراں حکومت کے لیے تیسرا سب سے بڑا مسئلہ اُس قانون سازی سے متعلق ہے جو پی ڈی ایم حکومت نے جاتے جاتے کی ہے۔ اب جو بل منظور ہوئے اور قانون کی شکل اختیار کر چکے ہیں ان پر عمل درآمد بہت بڑا سوال ہے۔ قانون سازی کا یہ طریقہ ایک شرم ناک عمل تھا۔ سبک دوش ہوتی ہوئی پارلیمنٹ سے 54 جامعات کے چارٹر منظور کرائے گئے، اور مفتی اعظم یونیورسٹی کے لیے مولانا فضل الرحمن بھی مستفید ہونے والوں میں شامل ہیں۔ قانون سازی کے اس طرزعمل نے پارلیمنٹ کی بالادستی کے اپنے دعوے کو سرنڈر کردیا۔