بھارت کا مجموعی سیاسی اور عوامی ماحول عدالت کو آزاد روی کی اجازت دیتا ہوا نظر نہیں آتا
بھارتی سپریم کورٹ میں آرٹیکل 370 کے خآتمے کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کا آغاز ہوگیا ہے۔ اب تک کی سماعت میں معروف بھارتی وکیل کپل سبل نے درخواست گزاروں کی طرف سے اپنے جان دار دلائل پیش کیے ہیں۔ اس دوران دو درخواستیں ایسی بھی آئی تھیں جن میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے خلاف دائر درخواستوں کو مسترد کرنے کی اپیل کی گئی تھی، ان میں ایک درخواست کشمیری پنڈت نے بھی دائر کی تھی۔
بھارت کے آئین میں مقبوضہ جموں وکشمیر کو خصوصی شناخت دینے والی دفعہ 370 اور اس کی ذیلی شق35Aکو ختم ہوئے چار سال ہوگئے ہیں، اس دوران بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنے برسوں پرانے مقاصد اور اہداف کی تیز رفتاری کے ساتھ تکمیل کی، جن میں مقبوضہ جموں و کشمیر کو الگ شناخت دینے والے قوانین کا خاتمہ اور یہاں کے باشندوں کو بھارت کے باقی حصوں سے الگ کرنے والے، ان کو روزگار اور تعلیم کا حق اور تحفظ دینے والے قوانین میں ترمیم یا مکمل تبدیلی شامل ہے۔ ان قوانین کے خاتمے کے بعد بھارت جموں وکشمیر کی ریاست کو مرکز سے کنٹرول کررہا ہے اور لیفٹیننٹ گورنر دہلی کے نام پر اختیارات استعمال کررہا ہے۔ اسٹیٹ سبجیکٹ کا قانون ختم ہونے کے بعد بھارتی باشندوں کو کشمیر کی شہریت،یہاں روزگار حاصل کرنے اور زمین وجائداد خریدنے کا حق حاصل ہوگیا ہے۔یہ وہ منصوبہ ہے جس کے ذریعے بھارت اپنے اصل اہداف یعنی کشمیر کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا تشخص تبدیل کرسکتا ہے۔
بھارت کشمیر کی اسلامی شناخت کو مسخ کرکے اس کی ہندو شناخت کو اُبھارنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس کی ایک مثال ہندو تہذیب کی علامت امرناتھ یاترا کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا بھی ہے۔ رواں برس یاتریوں کی ایک ریکارڈ تعداد نے کشمیر کا رخ کیا جن میں نریندر مودی کے بھائی پنکج مودی بھی شامل تھے۔ یاترا کے پہلے 31 دنوں میں چار لاکھ لوگ امرناتھ گپھا کی یاترا کرچکے ہیں۔ اسی طرح کشمیر میں ہندو دور کی علامتوں کو غیر ضروری طور پر اُبھارا جارہا ہے اور کشمیر میں اسلامی تہذیب کی سب سے مضبوط علامت جامع مسجد کو چار سال سے بند رکھا گیا ہے۔ اس مسجد کے سب سے مرکزی منتظم میرواعظ عمر فاروق اتنی ہی مدت سے گھر میں نظربند ہیں۔ گھر میں طویل مدت تک نظربندی کا یہ فارمولا سید علی گیلانی پر آزمایا جا چکا ہے جنہیں دس سال تک گھر میں نظربند رکھا گیا اور معمول کے علاج معالجے اور نمازِ جمعہ کی ادائیگی تک کی اجازت نہیں تھی۔ اسی عالم میں ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ اب یہی فارمولا میرواعظ عمر فاروق پر آزمایا جارہا ہے۔ اس طرح بھارت کشمیر کی قیادت کے ایک حصے کو ختم کرنے کے لیے اس طریقے کو اپنائے ہوئے ہے۔ آرٹیکل 370کے خاتمے کے بعد کشمیریوں سے احتجاج کا حق چھین لیا گیا اور احتجاج کرنے والے ہر پُرامن شہری کو جیل میں بند کیا گیا جن میں جواں سال لڑکے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ انسانی حقوق کی بات کرنے والوں اور آزاد صحافیوں کو بھی جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ اظہارِ رائے پر بدترین پابندیاں عائد کی گئیں اور بھارت نواز سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں میں بھی رکاوٹ ڈالی جارہی ہے۔ 13 جولائی کو کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کو گھر میں نظربند کرنے کی وڈیو وائرل ہوئی جس میں انہیں گیٹ کو تالا لگاکر بند کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے کیونکہ وہ مزارِ شہدا جانا چاہتی ہیں۔ حریت پسند سیاست کی بساط مکمل طور پر لپیٹ دی گئی ہے۔ ہر گھر کے باہر فوجی پہرہ ہے اور نجی محفل میں بات کرنے پر لوگوں کو اُٹھا لیا جاتا ہے۔
اس قبرستان نما امن کو بھارت نے سپریم کورٹ میں اپنے بیانِ حلفی کی صورت میں پانچ اگست کے فیصلے کے جواز کے لیے پیش کیا، مگر سپریم کورٹ نے اس بیانِ حلفی کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ اُس کے مطابق معاملے کی نوعیت سیاسی اور آئینی بھی ہے۔ چار سال بعد 2 اگست سے بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بینچ نے مقدمے کی سماعت کا آغاز کیا ہے۔ اس بینچ کی سربراہی چیف جسٹس ڈی وائی چندراچد کررہے ہیں۔ درخواست گزاروں کی وکالت بھارت کے معروف وکیل اور کانگریس کے راہنما کپل سبل کررہے ہیں۔ یہ سماعت روزانہ کی بنیاد پر جاری رہے گی۔ پہلے دن کی سماعت پر ہی سپریم کورٹ نے درخواست گزاروں کے وکیل سے پوچھا کہ یہ آرٹیکل تو عارضی تھا، یہ مستقل کس طرح ہوگیا؟ کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے بعد تو اسے ختم ہوجانا تھا۔ جس پر وکیل کپل سبل نے کہا کہ اس کے لیے کشمیر اسمبلی کی درخواست لازمی تھی مگر اسمبلی یہ درخواست کیے بغیر ختم ہوگئی، یوں اس کے خاتمے کے لیے کشمیریوں کی رائے کی شرط پوری نہیں ہوئی۔ عدالت نے مرکزی وکیل کپل سبل کو دس گھنٹے کا وقت دیا تھا جو انہوں نے اپنے مسکت اور جان دار دلائل سے پورا کیا۔ کشمیریوں کی اجازت کے بغیر ہونے والے فیصلے کی قانونی بنیاد میں یہی مستقل کمزوری ہے۔ مودی حکومت نے جب یہ فیصلہ لیا تو اُس وقت کشمیر میں جمہوری نظام کی بساط مکمل طور پر لپیٹ دی گئی تھی اور کشمیر کا نظام لیفٹیننٹ گورنر کے نام سے دہلی کا نامزد کردہ فرد جو شناخت کے اعتبار سے بھی غیر کشمیری تھا، چلا رہا تھا۔ یوں یہ فیصلہ لیتے وقت بھارتی حکومت نے خود اپنی آئینی ضرورتوں اور تقاضوں کو بھی کلیتاً نظرانداز کردیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آرٹیکل 370 تو کبھی حریت پسند کیمپ کا موضوع ہی نہیں رہا مگر چار برس سے اب سب اسی آرٹیکل کا ذکر کررہے ہیں۔ اس آرٹیکل کی روح تو پچاس کی دہائی میں ہی نکل گئی تھی، بھارت میں ایک مخصوص ذہن نے اس آرٹیکل کو تسلیم ہی نہیں کیا اور اس کے خاتمے کی کوششیں ہمیشہ جاری رہیں۔ بھارت کا اصل مقصد کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنا اور اس کی اسلامی شناخت کو مسخ کرنا ہے۔ ایسے میں بھارتی سپریم کورٹ سے کس فیصلے کی توقع کی جاسکتی ہے؟ اب تو یہ معاملہ نریندر مودی کی انا کا بن گیا ہے، اور ایسے میں جب انتخابات سر پر ہیں مودی عدالت کو کوئی انقلابی فیصلہ کرنے کی اجازت دیں گے؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ عدلیہ عوامی ضمیر کو مطمئن کرے گی یا آئین اور انصاف کا تقاضا پورا کرے گی۔ افضل گورو کیس میں عوامی ضمیر کو مطمئن کیا گیا تھا۔ اس وقت انتخابات کی آمد آمد ہے۔ نریندر مودی لنگر لنگوٹ کس کر تیسری بار وزیراعظم بننے کے لیے میدان میں اُتر آئے ہیں۔ منی پور اور ہریانہ میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف پے درپے ہونے والے تشدد کے واقعات اور بلڈوزر کے ذریعے مسلمانوں کے گھر اور دکانیں گرانے کی مہم شروع کرکے انتخابات کا ماحول بنانے کی تیاری ہورہی ہے تو ایسے میں بھارت کی اعلیٰ عدلیہ عوامی ضمیر کو مطمئن کرنے کا راستہ بھی اپنا سکتی ہے۔ اسی لیے کشمیر سے تعلق رکھنے والے درخواست گزاروں کو فیصلہ اپنے حق میں آنے کی موہوم سی امید ہے۔ محبوبہ مفتی اور عمرعبداللہ نے پُرجوش انداز میں سپریم کورٹ پر اعتماد کا اظہار کیا ہے مگر بھارت کا مجموعی سیاسی اور عوامی ماحول عدالت کو آزاد روی کی اجازت دیتا ہوا نظر نہیں آتا، کیونکہ بھارتی حکومت نے اس فیصلے کو کشمیر میں تشدد کے خاتمے اور قومی سلامتی کے ساتھ جوڑ کر عام آدمی کے جذبات کے ساتھ منسلک کردیا ہے۔