13 جماعتی سیاسی اتحاد کی حکومت سولہ ماہ تک عوام کا خون نچوڑنے کے بعد سبک دوش ہوگئی ہے، اور جناب انوارالحق کاکڑ کی قیادت میں نگران حکومت نے ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ جناب کاکڑ ملک کے آٹھویں جب کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے دوسرے نگران وزیراعظم ہیں۔ ان سے قبل غلام مصطفی جتوئی، بلخ شیر مزاری، معین قریشی، ملک معراج خالد، محمد میاں سومرو، جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو اور سابق منصفِ اعلیٰ ناصرالملک نگران وزیراعظم رہ چکے ہیں جن میں سے جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو کا تعلق بھی بلوچستان سے تھا۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والےدوسرے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ ملک کے اب تک کے کم عمر ترین نگران وزیراعظم ہیں۔ وہ کوئٹہ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کوئٹہ ہی سے حاصل کرنے کے بعد انٹرمیڈیٹ کے لیے کیڈٹ کالج کوہاٹ میں داخلہ لیا، بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں یونیورسٹی آف بلوچستان سے حاصل کیں اور پھر قانون کی اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن چلے گئے، مگر سیاست میں دلچسپی کے سبب تعلیم ادھوری چھوڑ کر واپس آگئے اور عملی سیاست میں مصروف ہوگئے۔ سیاست کا آغاز نواز لیگ سے کیا مگر 1999ء میں نوازشریف کا تختہ الٹے جانے کے بعد جنرل پرویزمشرف کی سرپرستی میں بننے والی ق لیگ میں چلے گئے۔ 2008ء میں ق لیگ کے ٹکٹ پر کوئٹہ سے قومی اسمبلی کے لیے انتخاب میں حصہ لیا مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ 2013ء میں بلوچستان میں نواز لیگ اور قوم پرست جماعتوں کی مخلوط حکومت بنی تو انوارالحق کاکڑ 2015ء سے 2018ء تک وزیراعلیٰ ثناء اللہ زہری کی حکومت کے ترجمان کے فرائض ادا کرتے رہے۔ 2018ء میں بلوچستان سے آزاد حیثیت میں سینیٹر منتخب ہوئے تاہم بعد ازاں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) میں شامل ہوگئے۔ ان کا شمار ’’باپ‘‘ کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ پانچ سال تک سینیٹ میں ’باپ‘ کے پارلیمانی لیڈر کا کردار بھی ادا کرتے رہے، تاہم پانچ ماہ قبل جماعت کی قیادت نے اپنا پارلیمانی قائد تبدیل کرلیا۔ بطور سینیٹر ان کی چھ سالہ مدت مارچ 2024ء میں ختم ہونا تھی تاہم نگران وزیراعظم مقرر ہونے کے بعد اپنی غیر جانب دارانہ حیثیت کے اظہار کی خاطر انہوں نے ’باپ‘ اور سینیٹ کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے جسے منظور کرکے ان کی نشست خالی قرار دے دی گئی ہے۔ یوں جناب وزیراعظم کے سیاسی ماضی کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ’’چلو تم اُدھر کو، ہوا ہو جدھر کی‘‘ کے اصول پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ ہوا کا رخ پہچاننے کی صلاحیت سے مالامال ہیں اور بدلتے وقت کے ساتھ بلاتاخیر قبلہ تبدیل کرنے میں بھی مہارت کے حامل ہیں۔
نگران وزیراعظم کی خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ عمومی طور پر ان کے تقرر کا خیرمقدم کیا گیا ہے، اس پختہ عوامی تاثر کے باوجود کہ ان کا انتخاب سیاست دانوں نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کیا گیا ہے۔ انہیں خوش دلی سے قبول کرلیا گیا ہے اور خیبر پختون خوا کی عوامی نیشنل پارٹی اور خود ان کے اپنے صوبے کی بلوچستان نیشنل پارٹی کے سوا کسی جانب سے ان کے انتخاب کو متنازع بنایا گیا ہے نہ بہت زیادہ ہدفِ تنقید۔ البتہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے اس ضمن میں نواز لیگ کے قائد سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کو جو خط لکھا ہے، اس میں شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ’جبری گمشدگیوں‘ کے معاملے کی طرف متوجہ کیا ہے کہ معاملات کے سیاسی حل کے بجائے بندوق کا استعمال کیا جارہا ہے۔ انہوں نے میاں نوازشریف کو طعنہ دیا ہے کہ ہمیں تو جنرل ایوب سے جنرل پرویزمشرف تک مظالم یاد ہیں مگر آپ نے ان تمام مظالم اور جنرل باجوہ کے غیر آئینی اقدامات کو اتنی جلدی فراموش کردیا ہے۔ گوادر نام کی یونیورسٹی کے لاہور میں قیام، گوادر کے ہوائی مستقر کے نام اور مردم شماری کے اعداد و شمار سمیت کئی امور پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے یہ نہایت اہم اعتراض بھی نوازشریف کے نام اپنے خط میں کیا ہے کہ اتحادی ہونے کے باوجود ہم سے مشورہ کیا گیا ہے نہ ہمیں اعتماد میں لیا گیا ہے اور ایک ایسے شخص کو نگران وزیراعظم مقرر کردیا گیا ہے جس سے ہمارے لیے سیاست کے دروازے بند کردیئے گئے ہیں۔ میاں نوازشریف تو معلوم نہیں اس خط کے جواب میں کیا طرزِعمل اختیار کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس خط کے بعد نگران وزیراعظم کی ذمہ داریوں میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے، انہیں اپنے فرائضِ منصبی ادا کرتے ہوئے خط کے مندرجات کو بہرحال پیش نظر رکھنا اور اٹھائے گئے نکات کے ازالے اور صورتِ حال کی اصلاح کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔
آئین کی رو سے تو نگران وزیراعظم کی بنیادی ذمہ داری ملک میں صاف، شفاف، منصفانہ اور غیر جانب دارانہ انتخابات کو مقررہ مدت میں یقینی بنانا ہے جس کے لیے انہوں نے پختہ عزم کا اظہار بھی کیا ہے کہ الیکشن کمیشن سے ہر ممکن تعاون کریں گے، تاہم سبک دوش ہونے والی حکومت جاتے جاتے 26 جولائی کو مجلس شوریٰ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں جلدبازی میں کی گئی قانون سازی کے ذریعے نگران حکومت کے اختیارات میں جس طرح کا اضافہ کر گئی ہے اور اس کے بعد اقتدار کے آخری دنوں میں آٹھویں مردم شماری کے اعداد و شمار کی منظوری دے کر نئی حلقہ بندیوں کا جو پنڈورا باکس کھولا ہے، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نگران کاکڑ حکومت آئین میں دی گئی 90 روز کی مدت سے خاصا زیادہ طول کھینچے گی، جب کہ ملک کے دو صوبوں پنجاب اور خیبر پختون خوا میں پہلے ہی نگران صوبائی حکومتیں آئین سے ماورا کام کررہی ہیں، اس صورتِ حال کو کسی بھی طرح قابلِ ستائش قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ان حالات میں نگران وزیراعظم کا فرض ہے کہ وہ ذاتی اقتدار کو طول دینے کی خاطر آئین کی پامالی سے گریز کریں اور کوئی ایسا تاخیری حربہ استعمال نہ کیا جائے جس کی وجہ سے پہلے سے بحرانوں میں گھرا پاکستان مزید مسائل سے دوچار ہو جائے۔ ملک و قوم کا مفاد اور درپیش مسائل کا حل اس عمل میں پوشیدہ ہے کہ نگران حکومت جلد از جلد صاف، شفاف اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنائے اور اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے سپرد کیا جائے، تاکہ مسائل اور بحرانوں سے نجات کی راہ تلاش کی جا سکے۔
(حامد ریاض ڈوگر)