جہاں آفاق ملتے ہیں بلادِ شرق و غرب پر نظمیں

اس موضوع پر غور کرتے وقت جو سوال سب سے پہلے ذہن میں ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا غالب کے ذہن میں بھی شہر کا کوئی منظم تصور تھا؟ اور اگر وہ منظم ہی سہی، کیا ان کے ذہن میں شہر سے وابستہ کوئی تصور تھا؟ یا شہر کے تئیں ان کی شاعری بالکل خاموش ہے؟ ان سوالوں کے جواب کے لیے جب ہم غالب کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں کئی ایسے اشعار نظر آتے ہیں جن میں شہر اور بستی جیسے الفاظ کا براہِ راست استعمال ہوا ہے جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ غالب کی اردو شاعری شہر کے تئیں بالکل خاموش نہیں ہے۔ اب یہ منظم تھا یا غیر منظم، اس کا اندازہ مزید مطالعے سے ہی ہوگا۔

زمانۂ حاضر میں اس موضوع پر ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے کام کو آگے بڑھایا ہے اور بلادِ شرق و غرب پر نظمیں لکھی ہیں۔ شاعر نے ان تمام شہروں کی سیاحت اور وہاں قیام ہی نہیں کیا بلکہ ان کو اپنے اندر اترتے محسوس کیا اور ان کو نظموں کے روپ میں رنگ دیا ہے۔ مختلف خطوں اور شہروں پر لکھی گئی ان نظموں میں وہاں کے باسیوں کے خصائص لطیف انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔ ان نظموں کا اسلوب پیچیدہ اور ڈرامائی نہیں بلکہ سادہ اور شگفتہ زبان استعمال کی گئی ہے۔ ان نظموں کو اگر ٹھیک سے پڑھ لیا جائے تو ان شہروں میں پہلی مرتبہ جانے والا اجنبی پن محسوس نہیں کرے گا۔ اس کتاب میں تاریخی اور مذہبی اہمیت کے حامل شہروں کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ کتاب عمدہ کاغذ پر شائع کی گئی ہے۔ ہر صاحبِ علم کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے، ہاں البتہ چھوٹی سی کتاب کی قیمت بہت زیادہ ہے، ناشر کو پر ضرور غور کرنا چاہیے۔