ماہرؔ القادریؒ کی نعت گوئی

(دوسری قسط)

1954ء میں ماہرؔ القادریؒ نے حج کی سعادت حاصل کی، مدینہ منورہ میں حاضری دی، اپنے مشاہدات و تاثرات قلم بند کیے۔ اس سفر کی روداد کو ’’کاروانِ حجاز ‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع کیا:

کس بیم و رجا کے عالم میں طیبہ کی زیارت ہوتی ہے
اِک سمت شریعت ہوتی ہے، اِک سمت محبت ہوتی ہے

مارچ 1969ء میں ڈربن کے مسلمانوں کی دعوت پر جنوبی افریقہ کے دورے پر گئے، نیز آپ نے اس سفر میں مشرقی افریقہ، یورپ، ترکی، بیروت کی سیاحت کے علاوہ مکہ اور مدینہ کے سفر کی بھی سعادت حاصل کی۔ اگست 1976ء میں انہیں تیسری بار عمرہ کا اعزاز نصیب ہوا، اس سفر میں انہوں نے انگلستان کی سیاحت بھی کی۔آخری بار مئی 1978ء میں حجاز تشریف لے گئے، 12 مئی کو انہوں نے کعبۃ اللہ میں حاضری دی اور عمرہ ادا کیا، اسی رات کو جدہ شہر میں ایک مشاعرہ تھا، اس میں شرکت کی اور وہیں حرکتِ قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے۔ نماز جنازہ حرمِ کعبہ میں ادا کی گئی اور جنت معلیٰ میں دفن کیے گئے۔آپ کی نثر و نظم کی متعدد کتابیں شائع ہوئی ہیں، ہزاروں صفحات نثر کے ابھی باقی ہیں جنہیں کتابی صورت میں شائع کرنے کی ضرورت ہے جو اُردو زبان و ادب کے لیے قیمتی اثاثہ ہیں۔ آپ کی چند کتابوں کے نام درج کیے جاتے ہیں:

حمد و نعت:ظہورِ قدسی، ذکرِ جمیل۔ ناول: دُرِّ یتیم ﷺ۔ سفرنامہ : کاروانِ حجاز ( سفر نامہ حج)۔ سیرت: آخری رسول ﷺ۔ مذہبی کتب :خدا اور کائنات۔ نقشِ توحید۔ ابھی بہت سی تحریریں سیرتِ سرورِ عالمﷺ،دینِ اسلام کی ترجمانی اور دفاع،حمدیہ و نعتیہ،قومی و ملّی کلام رسائل و اخبارات کی فائلوں میں دفن ہے۔ کاش کوئی اس دفینہ کو نکال کر منظرِ عام پر لے آئے۔ یہ لوازمہ قومی زبان اُردو اور دینِ اسلام کی تفہیم و تشریح کے حوالے سے انتہائی قیمتی سرمایہ ہے۔

ماہرؔ مرحوم نے اپنے حمدیہ و نعتیہ مجموعے کا نام ’’ذِکرِ جمیل‘‘ رکھا، اس عنوان سے دو نعتیں لکھی ہیں۔ایک 7 اشعار اور دوسری 13ا اشعار پر مشتمل ہے۔ان میں سے ایک شعر ملاحظہ فرمائیے:

کیف و سَر مستی کا اِک پیغامِ رنگیں تیرا نام
اِنبساطِ رُوح کی دعوت تِرا ذِکرِ جمیل

ماہر القادریؒ کے مجموعۂ حمد و نعت ’’ ذکرِ جمیل ‘‘ کا مختصر تعارف درج کیا جاتا ہے: کتاب کا نام: ذکرِ جمیل۔ شاعر : ماہر القادری۔ مرتبہ: طالب ہاشمی۔ طبع جدید اشاعت اول: جنوری 1989ء، ناشر : طالب ہاشمی سیکرٹری بزمِ فاران، 118 ڈی، اعوان ٹاؤن ملتان روڈ لاہور۔ ضخامت: 192 صفحات۔ تَقدیم از پروفیسر حفیظ الرحمن احسنؔ۔ سخن ہائے گفتنی از طالب ہاشمی۔ انتساب از ماہرالقادری۔ مقدمہ از ماہرالقادری۔ کتاب کے آخر میں ایک تحریر’’ غریبوں کا والی غلاموں کے مَولا‘‘ ہے۔ 37 صفحات پر مشتمل، یہ چھ تحریریں شاملِِ کتاب ہیں۔ اس کتاب میں حمدیں 16، جن میں سے ایک مثنوی اور 15غزل کی ہیئت میں لکھی گئی ہیں۔ منظومات (نعتیہ) 42، جن میں ایک مسدس، 7 مثنویاں اور باقی غزل کی ہیئت میں کہی گئی ہیں اور نعتیں 24 شامل ہیں، جو غزل کی ہیئت میں کہی گئی ہیں۔

آں حضور محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے لے کر قیامت تک ہدایت و رہنمائی کا واحد مآخذ اور منبع، آپؐ کی لائی ہوئی تعلیمات ہیں۔آپؐ کی بات حرفِ آخر ہے جس پر چل کر انسان کامیاب و کامران ہوسکتا ہے، باقی سب طریقے باطل اور ابلیس کے طریقے ہیں جن میں ذلت و پستی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

(ترجمہ) ’’بیشک تمہاری رہنمائی کے لیے اللہ کے رسولؐ (کی زندگی) میں بہترین نمونہ ہے۔ یہ نمونہ اس کے لیے ہے جو اللہ تعالیٰ سے ملنے اور قیامت کے آنے کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتا ہے۔‘‘ (سُورہ اَحزَاب آیت نمبر 21)

نبیِ رحمت ﷺ کے ذریعے انسان نے اللہ کو جانا اور مانا، توحید کا علَم بردار ہوا۔ آپؐ کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا ؎

دشوار ہی نہیں یہ اَمرِ محال ہے
اللہ کے وجود کا عرفان ترے بغیر

………

نبی ؐ کا قول ہی ایمان کی بِنا ٹھہرا
خدائے قادر و بَرترکو کس نے دیکھا ہے

قرآن مجید اور احادیثِ نبوی میں آپؐ کے اخلاق کی بلندی کا اعلان کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:

’’ اور بے شک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو۔ ‘‘( سُورہ قَلَم آیت4)

’’ یعنی قرآن کے علاوہ آپؐ کے بلند اخلاق بھی اِس بات کا صریح ثبوت ہیں کہ کفار آپؐ پر دیوانگی کی جو تُہمت رکھ رہے ہیں وہ سراسرجھوٹی ہے، کیونکہ اخلاق کی بلندی اور دیوانگی، دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔‘‘(سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:’’اللہ کے نبی ﷺ کا اخلاق قرآن تھا۔‘‘(مسلم) ( یعنی قرآن مجید میں جن اعلیٰ اخلاقیات کی تعلیم دی گئی ہے وہ سب آپؐ کے اندر پائے جاتے تھے، آپؐ ان کا بہترین نمونہ تھے) مولانا ماہرؔ نے بہت خوبصورت ترجمانی کی ہے، اشعار ملاحظہ کیجیے:

اِنسان کو شائستہ و خود دار بنایا
تہذیب و تمدن تِرے شرمندۂ احساں

……

سادگی و خُلق میں جو آپ تھا اپنی نظیر
جس کو فرشِ خاک پر سوتے ہوئے دیکھا گیا

……

نام قرآن میں جس کے ہیں رؤف اور رحیم
جِس کی سیرت کو ملا معجزۂ خُلقِ عظیم

……

جس کے اخلاق کی ہر طرف ہے مہک
جس کے جلووں کی اَرض و سما میں چمک
جس کا انصاف محکم ہے اور بے لچک
جس کی تعلیم انسانیت کی زباں

اللہ تعالیٰ نے آپؐ کا مقام و مرتبہ تمام مخلوقات سے بلند و اعلیٰ رکھا ہے۔ انسانوں میں سے آپؐ ہی و ہ برگزیدہ ہستی ہیں جنہیں خالق کائنات نے معراج سے نوازا، جس کے ذریعے انسان کو عظمت ملی۔ماہرؔ القادری نے معراج کا ذکر اپنے اشعار میں کیا ہے:

معراج کی شب ایسے انوار نظر آئے
بے پردہ خدائی کے اسرار نظر آئے
تھا مسجدِ اقصیٰ میں جھرمٹ جو رسولوںؑ کا
اُن سب سے حسیں میرے سرکارؐ نظر آئے

……
بندہ ہے وہ بندہ کہ ہے اللہ کا محبوب
اِنسان وہ اِنسان کہ مقصُودِ جہاں ہے

دورِ حاضر میں ایک فکر اور نظریہ عام ہوتا جا رہا ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر ایمان لانے کا مقصد یہ ہے کہ زبانی اقرار ہی کافی ہے، آپؐ کو نبی اور رسول مان لینے ہی سے شفاعتِ رسول کے حق دار بن جائیں گے، یہی ہماری نجات کے لیے کافی ہے۔ جب کہ یہ نظریہ قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے سراسر خلاف ہے، اگر یہ نظریہ درست ہوتا تو دنیا کے تمام کافر زبانی اقرار کرلیتے۔ ایمان تو زبان سے اقرار کرنا، دل سے تصدیق کرنا اور اعضائے جسم سے عمل کر کے دکھانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے :

(ترجمہ) ’’جس نے اطاعت کی رسول کی تو یقیناََ اس نے اطاعت کی اللہ کی، اور جس نے منہ پھیرا، تو نہیں بھیجا ہم نے آپ کو ان کا پاسبان بنا کر۔‘‘ (سورہ النساء آیت نمبر80)

سیّدِ انسانیت حضرت محمد ﷺ نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے: ’’بہترین کلام اللہ کی کتاب (قرآن) اور بہترین سیرت (آں حضرت) محمدﷺ کی سیرت ہے (جس کی پیروی کی جانی چاہیے)۔‘‘ (مسلم، جابر)

حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں : ’’ ایمان کا مزہ چکھا اُس شخص نے جو اللہ کو رب ماننے اور اسلام کو اپنا دین ماننے اور محمدﷺ کو اپنا رسول تسلیم کرنے پر راضی ہوگیا۔‘‘ (بخاری و مسلم۔عباس)

ماہرؔ القادریؒ نے اپنے کلام میں بیان کیا ہے:
اللہ کا اِرشاد، محمدؐ کی زباں ہے
یہ ایسی حقیقت ہے جو دُنیا پہ عیاں ہے

……

تِری ذات سے محبت، ترے حکم کی اطاعت
یہی زندگی کا مقصد، یہی اصلِ دین و ایماں

……

کلامِ حق کی ہے تفسیر ماہرؔ
حدیثِ مصطفیٰ کیا دِل نشیں ہے

……

وہ آئے جن کے ہر نقشِ قدم کو رہنما کہیے
وہ آئے جن کے فرمانے کو فرمانِ خُدا کہیے

……

اُن کی محفل تجلّی کی روشن سحر
اُن کی محفل سے باہر دُھواں ہی دُھواں

……

وہ آئے اور آئے بھی قرآن لیے ہوئے
تنظیم ِکائنات کا ساماں لیے ہوئے

 

اللہ تعالیٰ نے قروآن مجید میں ارشاد فرمایا:

(ترجمہ)’’بڑا احسان فرمایا اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر جب اس نے بھیجا ان میں ایک رسول انہی میں سے، پڑھتا ہے ان پر اللہ کی آیتیں اور پاک کرتا ہے انہیں، اور سکھاتا ہے انہیں قرآن اور سنت، اگرچہ وہ اس سے پہلے یقیناً کھلی گمراہی میں تھے۔ ‘‘ (سورہ اٰل عمران، آیت نمبر 164)

(ترجمہ) ’’ وہی (اللہ) جس نے مبعوث فرمایا اُمیّوں میں ایک رسول انہی میں سے، جو پڑھ کر سناتا ہے انہیں اس کی آیتیں اور پاک کرتا ہے ان (کے دلوں) کو اور سکھاتا انہیں کتاب اور حکمت، اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘ (سورہ جمعہ آیت نمبر2)

درج بالا آیات میں وَالحِکْمَۃ سے مراد حکمت و دانائی کی باتیںہیں۔ حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر جب وَحی نازل ہوتی تو آپؐ اسے گھر والوں اور صحابہ کرام ؓ کو سناتے، اس کی تشریح بیان کرتے، اس کی وضاحت سمجھاتے اور اپنے عمل سے نمونہ پیش فرماتے، جو اب کتبِ احادیث اور سیرت کی کتابوں میں موجود اور محفوظ ہے۔ مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ؒ درج بالا آیت کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں:
’’…اب چوتھی مرتبہ انہیں اِس سورہ میں دُہرایا گیا ہے جس سے مقصود یہودیوں کو یہ بتانا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری آنکھوں کے سامنے جو کام کررہے ہیں وہ صریحاََ ایک رسول کا کام ہے۔ وہ اللہ کی آیات سنا رہے ہیں جن کی زبان، مضامین، اندازِ بیان، ہر چیز اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ فی الواقع وہ اللہ ہی کی آیات ہیں۔ وہ لوگوں کی زندگیاں سنوار رہے ہیں، اُن کے اخلاق اور عادات اور معاملات کو ہر طرح کی گندگیوں سے پاک کررہے ہیں، اور ان کو اعلیٰ درجے کے اخلاقی فضائل سے آراستہ کررہے ہیں۔ یہ وہی کام ہے جو اس سے پہلے تمام انبیائؑ کرتے رہے ہیں۔ پھر وہ صرف آیات ہی سنانے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ہر وقت اپنے قول اور عمل سے اور اپنی زندگی کے نمونے سے لوگوں کو کتابِ الٰہی کا منشا سمجھا رہے ہیں اور اُن کو اُس حکمت و دانائی کی تعلیم دے رہے ہیں جو انبیائؑ کے سوا آج تک کسی نے نہیں دی ہے۔ یہی سیرت اور کردار اور کام ہی تو انبیائؑ کا وہ نمایاں وصف ہے جس سے وہ پہچانے جاتے ہیں۔ پھر کیسی ہٹ دھرمی ہے کہ جس کا رسولِ برحق ہونا اُس کے کارناموں سے عَلانیہ ثابت ہورہا ہے اس کو ماننے سے تم نے صرف اس لیے انکار کردیا کہ اللہ نے اسے تمہاری قوم کے بجائے اُس قوم میں سے اٹھایا جسے تم اُمّی کہتے ہو۔‘‘ (تفہیم القرآن جلد پنجم، مفسر مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ، صفحہ 487)
ماہرؔ القادریؒ فرماتے ہیں:

محمد مصطفی کے مکتبِ عرفان سے ملتی ہے
خردمندی، فراست، حکمت و تدبیر و دانائی
……
جہل کی ظلمتیں سب گریزاں ہوئیں
علم و حکمت کی شمعیں فروزاں ہوئیں
آدمیّت کی قدریں نمایاں ہوئیں
جاہلوں کو کیا رشکِ اشراقیاں
……
قدم قدم پہ ہدایت، رَوِش رَوِش پہ نجات
نفس نفس کرمِ بے شمار کیا کہنا
……
کفر کی ظلمت کو فانوسِ تجلّا کر دیا
آدمیّت کا جہاں میں بول بالا کر دیا

’’حضرت عبداللہ ابنِ عمر رضی اللہ عنہٗ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے ارادے اور خواہشات اس شریعت کے تابع نہ ہوجائیں جو مَیں (محمد ﷺ) لے کر آیا ہوں۔‘‘
(مشکوٰۃ۔گلدستہ حدیث، از مولانا محمد یوسف اصلاحی، صفحہ 24)
(جاری ہے)