ہر سال کی طرح اس سال بھی 10محرم الحرام کو یوم عاشورہ آیا اور وہ سب ہوا جو ہم برس ہا برس سے دیکھ رہے ہیں، لیکن 10 محرم الحرام 1445ھ مطابق 29 جولائی 2023ء سیّد مشتاق علی مرحوم کے دنیا بھر میں پھیلے ان گنت شاگردوں کو زندگی بھر یاد رہے گا۔ اس روز ایک ایسے مثالی استاد نے اس عارضی دنیا سے دائمی دنیا کا سفر کیا جس کی مثال ماضی میں تو شاید مل جائے حال اور مستقبل میں ملنی بڑی مشکل ہے۔ سیّد مشاق علی مرحوم اللہ کے ان مقرب بندوں میں شامل تھے جنہیں دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ اللہ نے انہیں پیدا ہی اس لیے کیا ہے کہ وہ بحیثیت ایک مثالی استاد زندگی گزاریں۔ وہ ان عظیم اور صاحبِ کردار بلکہ کردار ساز اساتذہ میں شامل تھے جو اپنے اعلیٰ کردار، ایمان داری، جذبۂ خیر خواہی، خلوص و بے غرضی، محنت و سادگی کی اعلیٰ مثال قائم کرجاتے ہیں اور جن کی یادیں طویل عرصہ گزرنے کے باوجود حافظے سے محو نہیں ہوپاتیں۔ وہ ان باکردارانسانوں میں شامل تھے جو تمام عمر ایک مثالی انسان بن کر زندگی گزارتے ہیں اور جب عالم بالا کا سفر کرتے ہیں تو دور دور تک ان صفات کے حامل انسان نظر نہیں آتے۔ طویل عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی ان کے شاگرد اپنے دلوں میں ان کے لیے جو احترام آمیز جذبات رکھتے ہیں، اس کی وجہ شاید اکبر الٰہ آبادی کے اس شعر سے واضح ہوسکے:
صرف باتوں سے نہیں ہوتی عقیدت پیدا
آنکھ کچھ دیکھتی ہے تب وہ ادب کرتی ہے
سیّد مشتاق علی مرحوم کے شاگرد دنیا بھر میں پھیل چکے ہیں، خود ان سطور کے عاجز راقم کو ان سے شرفِ تلمذ حاصل رہا اور اسکول سے جدا ہوئے 42برس سے زائد عرصہ گزر چکا لیکن جب بھی ان سے ملاقات ہوئی یا جب بھی ان کا دل میں خیال آیا، ہمیشہ احترام آمیز جذبات سے دل معمور ہوا اور ہمیشہ علامہ اقبال کا یہ شعر حافظے کی لوح پر نمودار ہوا جو انھوں نے اپنے استادِ محترم مولوی سیّد میر حسن کے بارے میں کہا تھا:
مجھے اقبال اس سیّد کے گھر سے فیض پہنچا ہے
پلے جو اس کے دامن میں وہی کچھ بن کے نکلے ہیں
آج ہمارا معاشرہ خودغرضی، مادہ پرستی، حرص و ہوس، شہرت و ناموری کی خواہش، راتوں رات امیر بننے کی خواہش، حلال و حرام کی تمیز کا ختم ہوجانا اور اسی طرح کے جن امراض کا شکار ہوچکا ہے، اس معاشرے میں سید مشتاق علی مرحوم کی مثالی شخصیت ایک منارۂ نور کی حیثیت رکھتی تھی۔ وہ منارۂ نور جس سے شرفِ تلمذ حاصل کرکے نہ جانے کتنی نسلوں نے اپنی زندگیاں روشن کیں۔ شہر حیدرآباد کی خوش قسمتی تھی کہ سید مشتاق علی مرحوم نے یہیں رہنا منظور کیا اور اس شہر میں دوچار یا دس بیس نہیں تقریباً ساٹھ برس تک کئی نسلوں کو نہ صرف زیور علم سے آراستہ کیا بلکہ ان کی اخلاقی تربیت بھی کی۔ وہ نہ خود ٹیوشن پڑھاتے تھے اور نہ ٹیوشن کے عمل کو درست سمجھتے تھے۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ اسکول میں ہی اس قدر معیاری تعلیم دی جائے کہ ٹیوشن کا بوجھ طالب علم یا اس کے والدین پر نہ پڑے اور وہ ذاتی محنت سے امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کرسکے۔ اس مقصد کی خاطر ان کی پوری کوشش ہوتی کہ حیدرآباد کے بہترین اساتذہ ان کے اسکول میں جمع ہوجائیں۔ ان کی ایسی ہی ایک کوشش کے نتیجے میں استادِ محترم مولانا عبدالعلیم ندوی مرحوم ذیل پاک اسکول سے علامہ اقبال ہائی اسکول برائے تدریس تشریف لائے تھے (مولانا کی یادوں پر مشتمل راقم کا مفصل مضمون شائع ہوچکا ہے)۔ ایک روز راقم نے دیکھا تھا کہ مولانا کے ایک پرانے شاگرد ان سے ملنے اسکول آئے اور انھوں نے فرمایا کہ مولانا آپ اس عمر میں بھی اتنی محنت کرتے ہیں۔ مولانا فوراً گویا ہوئے کہ جب ادارے کے سربراہ (سید مشتاق علی صاحب) ادارے کے لیے اس قدر محنت کرتے ہیں تو ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ محنت سے طلبہ کو تعلیم دیں۔
سید مشتاق علی مرحوم نے طویل عرصے تک بطور ہیڈ ماسٹر حیدرآباد کے متعدد اسکولوں میں خدمات انجام دیں جن میں الفاروق اسکول اور علامہ اقبال ہائی اسکول قابلِ ذکر ہیں۔ اس طویل عرصے کے دوران میں انہوں نے بطور ایک مثالی استاد، نظم و ضبط کے پابند منتظم، بہترین رہنما، پاکیزگی و نظافت، پابندیِ اوقات، سادگی و خلوص کے پیکر کے طور پر شہرت حاصل کی۔ ان دنوں استادِ محترم چھریرے بدن کے تھے، قد نکلتا ہو، بال سیاہ اور بہت گھنے، بھنویں بہت بڑی، چہرے پر ہر وقت عینک، لباس صاف ستھرا، بش شرٹ اور پینٹ اور کبھی کبھی سیاہ شیروانی اور سفید شلوار قمیص میں بھی نظر آتے۔ راقم الحروف کی جب بھی ان سے گفتگو ہوتی ان کے چہرے پر فکرمندی کے آثار نظر آتے، جبکہ کبھی کبھی مسکراہٹ بھی نظر آتی، لیکن انھیں ہم نے کبھی قہقہہ مارتے یا گفتگو یا عمل میں کوئی ہلکی بات یا حرکت کرتے نہیں دیکھا۔ یوں لگتا کہ انھوں نے پختہ ارادہ کرلیا ہے کہ خود کو بحیثیت ایک مثالی استاد ثابت کریں گے اور اس ارادے میں وہ بجا طور پر کامیاب رہے۔ وہ اسکول اور طلبہ کے مفاد میں جو جو منصوبے بناتے، بڑی کامیابی سے ان کی تنفیذ (Implementation)بھی کرتے۔ راقم اکثر سوچتا کہ آخر استادِ محترم اس قدر فکرمند کس بات پر رہتے ہیں؟ اس کا جواب مجھے تقریباً 23 برس بعد ملا جب ان سے مورخہ 16 فروری 2013ء کو مفصل ملاقات ہوئی اور ان کے خیالات سننے کا موقع ملا(اس ملاقات کا ذکر آگے آئے گا)۔ انہوں نے مسلسل محنت، خلوص اور بہترین انتظامی صلاحیتوں کے نتیجے میں وہ بلند مقام حاصل کرلیا تھا جہاں تک بہت کم استاد پہنچ پاتے ہیں۔ وہ نظم و ضبط کے پابند اور سخت گیر منتظم کے طور پر شہرت رکھتے تھے لیکن ان کے شاگرد اس بات کی گواہی دیں گے کہ ان کی سخت گیری کا اصل مقصد طلبہ کا مفاد اور بھٹکے ہوئے طلبہ کو راہِ راست پر لانا ہی ہوتا تھا۔ وہ ان عظیم اساتذہ میں شامل تھے جن کی دی گئی سزا طلبہ کے لیے باعثِ زحمت نہیں بلکہ باعثِ رحمت ثابت ہوتی ہے۔ راقم الحروف جب کبھی سید مشتاق علی مرحوم کے بارے میں غور کرتا تو ان کی شخصیت میں دیگر اوصاف کے ساتھ ایک خاص وصف ایسا نظر آتا جو دنیا بھر کے اساتذہ میں انہیں منفرد مقام عطا کرنے کے لیے کافی ہے۔ وہ وصف ہے والدین پر کم سے کم بوجھ ڈال کر غریب سے غریب طلبہ کے لیے بہترین تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا۔ راقم الحروف کا زندگی میں ان گنت اساتذہ سے تعارف ہوا لیکن درج بالا صفت میں سید مشتاق علی مرحوم کا ہمسر تو دور رہا ان جیسا کوئی اور استاد نظر نہ آیا، اور موجودہ مفاد پرست معاشرے میں شاید کبھی نظر نہ آئے۔ ان کی اسی محنت کا نتیجہ تھا کہ اسکول اس قدر معروف ہوگیا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب چھٹی جماعت میں داخلہ لینے والوں کی تعداد اٹھارہ سو تک پہنچ گئی، جبکہ سید مشتاق علی صاحب کے اسکول سے ریٹائر ہونے کے بعد یہ تعداد گھٹ کر محض تین سو رہ گئی۔
سید مشتاق علی صاحب اسکول میں تعلیم و تربیت پر مسلسل توجہ دیتے اور اسکول کے تمام معاملات پرمکمل کنٹرول رکھتے تھے، لیکن وہ اسکول کو صرف اور صرف تعلیمی ادارہ ہی بنانے کے قائل نہیں تھے بلکہ طلبہ کی غیر نصابی سرگرمیوں پر بھی بھرپور توجہ دیتے۔ ان سرگرمیوں میں اولین سرگرمی کھیل (Sports) کی ہوتی۔ ان کی اسی توجہ کا نتیجہ تھا کہ تمام مشکلات اور قلیل وسائل کے باوجود علامہ اقبال ہائی اسکول کی کرکٹ اور ہاکی ٹیم نے ڈسٹرکٹ اور ریجنل چیمپین شپ میں بہترین ٹیموں کی حیثیت سے متعدد مواقع پر ٹرافیاں حاصل کیں۔ اسی طرح اسکول کی فٹبال ٹیم نے متعدد مواقع پر پورے حیدرآباد ڈویژن کی تمام ٹیموں میں بہترین ٹیم کی ٹرافی حاصل کی۔ طلبہ کی دیگر سرگرمیوں میں مقابلۂ تقاریر، بیت بازی، ربیع الاوّل کے مہینے میں سیرت النبیﷺ کے حوالے سے خصوصی پروگرام، مولانا عبدالعلیم ندوی مرحوم کا روزانہ اصلاحی خطاب، ہر سال میٹرک کے طلبہ کو نویں جماعت کے طلبہ کی جانب سے الوداعی پارٹی (Farewell Party) کے علاوہ ہر سال اسکول کا Inspection جس میں حیدرآباد کے تقریباً تمام اسکولوں کے ہیڈ ماسٹر شرکت کرتے،ہر کلاس کے طلبہ سے سوالات کرتے اور اپنی رائے اور قیمتی مشورے تحریری شکل میں پیش کرتے۔ان تمام سرگرمیوں کی نگرانی سید مشتاق علی صاحب کرتے۔
راقم الحروف 1976ء سے 1981ء تک مسلسل پانچ برس علامہ اقبال اسکول لطیف آباد نمبر9 حیدرآباد میں بحیثیت طالب علم ان کا شاگرد رہا۔ہمارا یہ اسکو ل انتہائی سادہ عمارتوں پر مشتمل تھا جہاں اساتذہ اور طلبہ غریب یا متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے` لیکن اعلیٰ تعلیمی معیار اور اخلاق و کردار کی تربیت کی وجہ سے یہ اسکول پورے حیدرآباد میں مشہور تھا۔ اسکول کی اس نیک نامی کے پیچھے اصل شخصیت ہمارے ہیڈ ماسٹر سیّد مشتاق علی صاحب کی تھی۔ ان کی کوشش ہوتی کہ ہر مضمون کے بہترین اساتذہ کو اسکول میں جمع کیا جائے، اور یہاں سے جو طلبہ علم و کردار کے زیورسے آراستہ ہوکر عملی میدانوں میں قدم رکھیں وہ اسکول کے لیے نیک نامی کا باعث ہوں۔ مشتاق صاحب سادہ مزاج لیکن اپنے ارادوں میں چٹانوں جیسی مستقل مزاجی رکھنے والے بزرگ تھے۔ وہ کردار کی اہمیت پر بہت زور دیتے اور صرف زبانی نصیحتوں ہی سے کام نہ لیتے بلکہ خود کو عملی نمونہ بنا کر پیش کرتے، اور ان کی شہرت فرض شناسی، اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں اور معیاری تعلیم و تربیت کے انتظام کے حوالے سے دور دور تک پھیل چکی تھی۔ راقم الحروف ان کا نام اسکول میں داخلے سے قبل سن چکا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہم روزانہ شام گورنمنٹ ہائی اسکول لطیف آباد نمبر6 کے میدان میں کھیلتے تھے۔ اس میدان کے ساتھ سڑک اور اس کے ساتھ بنگلوں کی قطار تھی۔ ان میں سے ایک بنگلے پر ’’دارالسلام‘‘ لکھا تھا، یہیں اکثر شام سید مشتاق علی مرحوم اپنی Honda 50 پر سوار ہوکر آتے اور انہی دنوں ان سے پہلی بار تعارف ہوا تھا۔ بعد میں علم ہوا کہ اس بنگلے میں ڈاکٹر عین الدین احمد رہتے تھے جو بچوں کے امراض کے ماہر تھے۔ سید مشتاق علی مرحوم کی یہ Honda 50 ایک طرح سے ان کے ساتھ لازم و ملزوم ہوچکی تھی۔ وہ لطیف آباد یا حیدرآباد میں جہاں بھی نظر آتے اسی Honda 50 پر نظر آتے۔1981ء کے بعد بھی راقم نے انہیں لطیف آباد یا حیدرآباد میں جہاں بھی دیکھا اسی Honda 50 پر دیکھا۔
1976ء میں راقم کا داخلہ علامہ اقبال ہائی اسکول کی چھٹی جماعت میں ہوا۔ بعدازاں علم ہوا کہ سید مشتاق علی صاحب بحیثیت ہیڈ ماسٹر اور بحیثیت سربراہِ ادارہ بہت سی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ہائی اسکول کے تعلیمی دور کی پہلی جماعت یعنی چھٹی جماعت اور آخری یعنی دسویں جماعت پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ چھٹی جماعت میں آپ انگریزی پڑھاتے جبکہ دسویں کا ذکر آگے آئے گا۔ ان کا طریقۂ تدریس اس قدر عمدہ ہوتا کہ وہ طلبہ جو بالکل ابتدا یعنی a,b,c,dسے انگریزی تعلیم کا آغاز کرتے، دسویں جماعت میں انگریزی لکھنے پڑھنے کے قابل ہوجاتے۔ خوب یاد ہے چھٹی جماعت کی ابتدائی کلاس ہی میں انہوں نے راقم کو کلاس کے مانیٹر (Monitor) کی ذمہ داری سونپی جو دسویں یعنی میٹرک تک راقم ہی نے نبھائی۔ اس فیصلے پر بعض طلبہ کو حیرت بھی ہوئی کیونکہ ہماری کلاس میں مشتاق صاحب کے بڑے صاحب زادے سید حسن آفاق بھی زیر تعلیم تھے۔ بعد کے ادوار میں تمام طلبہ پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ سید مشتاق علی مرحوم ایک بااصول اور فرض شناس استاد کی حیثیت سے اپنے بیٹے کو بھی وہی مقام دیتے ہیں جو دیگر طلبہ کو۔ یہ منظر بارہا دیکھا گیا کہ سزا دینے کے معاملے میں وہ اپنے بیٹے کو بھی کسی قسم کی رو رعایت یا دیگر طلبہ پر ترجیح دینے کے قائل نہیں تھے۔ طلبہ کو سزا دینے کے لیے ان کے ہاتھ میں لمبی چھڑی ہوتی لیکن دیکھا گیا کہ وہ نہ تو کسی طالب علم کے چہرے پر مارتے اور نہ ہی ضرورت سے زیادہ سزا دیتے۔ ان کی سزا عموماً چھڑی کی دو ضربیں ہوتیں اور وہ بھی طالب علم کی ران پر۔ طلبہ کو پابندیِ اوقات کا عادی بنانے کے لیے وہ اسکول کے آغاز کے وقت کے بعد گیٹ پر چھڑی لے کر کھڑے ہوجاتے اور دیر سے آنے والے طلبہ کو سزا بھی دیتے، لیکن یہ بھی دیکھا گیا کہ سزا دینے سے قبل وہ ہر طالب علم سے تاخیر کی وجہ ضرور دریافت کرتے، اور اگر وجہ مناسب ہوتی تو سزا نہ دیتے۔ اگر ان کے ہاتھ میں چھڑی نہ ہوتی تو سزا دینے کا یہ انداز ہوتا کہ داہنے ہاتھ سے شاگرد کے بائیں بازو پر زور کی چٹکی لیتے اور زبان سے اظہارِ خفگی بھی کرتے۔ ان کی سزا ضرورت سے زیادہ نہ ہوتی۔شاید انھیں علم تھاکہ ضرورت سے زیادہ سزا دینے والے اساتذہ تمام عمر طالب علم کے دل میں نفرت کا جذبہ پیدا کر دیتے ہیں،جبکہ سید مشتاق علی مرحوم کی سزا برائے اصلاح ہوتی۔
جیسا کہ اوپر ذکر آیا سید مشتاق علی مرحوم کی سزا طلبہ کے لیے باعثِ زحمت نہیں باعثِ رحمت ثابت ہوتی جس کا چشم دید گواہ خود راقمِ سطور ہے۔ کیونکہ اسکول کے پنج سالہ قیام کے دوران صرف ایک مرتبہ ان سے سزا حاصل کی اور یہ سزا باعثِ رحمت یوں ثابت ہوئی کہ آئندہ پانچ برسوں کے لیے نہ صرف راقم نے اپنا رخ درست کرلیا بلکہ 1981ء میں جب میٹرک کے امتحان کا نتیجہ نکلا تو الحمدللہ پورے اسکول میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ اس اعزاز کے بعد سید مشتاق علی مرحوم کے دستخط سے جو سرٹیفکیٹ ملا وہ راقم کے پاس اب تک محفوظ ہے۔ اب اس ابتدائی سزا کا واقعہ اور ان کے دیگر واقعات اپنی یادوں کے محفوظ خزانے سے نذرِ قارئین ہیں:
(1) جیسا کہ ذکر آیا سید مشتاق علی مرحوم چھٹی جماعت میں ہمیں انگریزی پڑھاتے تھے، عموماً گرمیوں کی دو ماہی چھٹیوں سے قبل گھر کا کام (Home Work) دیا جاتا تھا، یہی انہوں نے کیا۔ جب چھٹیوں کے بعد انہوں نے Home Work کی کاپیاں چیک کیں تو راقم کی کاپی میں ایک دانستہ غلطی پکڑلی اور بازو پر زور سے چٹکی لی اور زبان سے یہ جملہ ادا کیا: ’’کلاس کے مانیٹر ہو اور ایسی حرکت کرتے ہو‘‘۔ بس ان کے ایک جملے نے راقم کے لیے تازیانے کا کام کیا اور راقم نے پختہ ارادہ کرلیا کہ آئندہ کبھی ایسا کام نہ کروں گا کہ استادِ محترم کی خفگی یا سزا کا سزاوار بنوں۔ الحمدللہ راقم اس ارادے میں کامیاب رہا۔
(2) جیسا کہ ذکر ہوا استادِ محترم اسکول کے ہر معاملے پر کنٹرول رکھتے اور نظم و ضبط، معیاری تعلیم و تربیت پر بھرپور توجہ دیتے لیکن کلاس صرف چھٹی اور میٹرک کی لیتے۔ چھٹی کلاس میں تو وہ طلبہ کو راہِ راست پر رکھنے کے لیے سزا بھی دیتے لیکن میٹرک کے طلبہ کی ذہنی تربیت کے لیے وہ طلبہ کے ساتھ عام گفتگو (Open Discussion) کرتے اور اپنی مؤثر نصیحتوں سے انہیں فیض یاب کرتے۔ کبھی یہ دریافت کرتے کہ آپ میٹرک کے امتحان کی تیاری روزانہ کتنے گھنٹے کرتے ہیں، کبھی یہ دریافت کرتے کہ آپ کون سا اخبار روزانہ پڑھتے ہیں، کبھی یہ پوچھتے کہ اخبار میں کیا کیا پڑھتے ہیں، کبھی یہ دریافت کرتے کہ روزانہ شام کا وقت کون سا کھیل کھیلتے ہیں، کبھی یہ پوچھتے کہ آپ کو کون کون سے مصنفین اور ان کی کتب پسند ہیں یا کون سی کتاب آج کل پڑھ رہے ہیں، کبھی یہ دریافت کرتے کہ آپ نے پاکستان کے کون کون سے مقامات دیکھے ہیں۔ طلبہ سے ان سوالات کے جوابات سن کر استادِ محترم بڑے نپے تلے اور مؤثر الفاظ میں قیمتی نصیحتیں کرتے تاکہ آئندہ زندگی کی راہوں میں طلبہ کامیاب، باکردار اور قابل انسان کے طور پر اسکول کا نام روشن کرسکیں۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ ان کا فکری تعلق جماعت اسلامی کے ساتھ تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ کبھی جماعت کا ذکر نہ کرتے بلکہ ہر حیثیت میں ایک باکردار اور غیر جانب داراستاد کی مثال پیش کرتے، مثلاً اگر کوئی طالب علم کبھی یہ کہتا کہ میں روزنامہ جنگ پڑھتا ہوں تو وہ کبھی یہ نہ کہتے کہ جنگ نہیں جسارت پڑھا کرو، یا اگر کوئی طالب علم ترجمہ قرآن یا تفسیر کا ذکر کرتا تو کبھی یہ نہ کہتے کہ تفہیم القرآن پڑھا کرو۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مسالک اور تمام زبانیں بولنے والے شاگرد اُن کے لیے احترام آمیز جذبات رکھتے تھے۔
(3) اس زمانے میں لطیف آباد نمبر10 میں ماہ ربیع الاول میں مسلسل 14 روز تک بعد نماز عشاء جلسہ ہائے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم منعقد کیے جاتے تھے جن میں پورے پاکستان سے مقررین اور علمائے کرام شرکت کرتے، کبھی شاہ بلیغ الدین، کبھی مولانا نورانی،کبھی مولانا عبدالستار نیازی، کبھی مولانا کوثر نیازی، کبھی مولانا شاہ تراب الحق و دیگر حضرات شرکت کرتے۔ راقم بھی اہم مقررین کے خطبات سننے جاتا۔ ایک سال ایسا بھی آیا کہ راقم جب جلسہ گاہ پہنچا تو علم ہوا کہ اِس سال جلسہ نہیں ہوگا۔ کچھ دیر بعد دیکھا کہ استادِ محترم سامنے سے پیدل تشریف لارہے ہیں۔ راقم نے سلام کیا جس کے جواب کے بعد انہوں نے دریافت کیا: ’’یہاں اس وقت کیا کررہے ہو؟‘‘ جب راقم نے جلسے میں شرکت کا ذکر کیا تو فرمایا کہ اِس سال جلسہ نہیں ہوگا اس لیے سیدھے گھر جائو،کہیں اور نہیںجانا۔ راقم ان کے ارشاد کے مطابق گھر پہنچا، لیکن اس واقعے کو 45سال گزرنے کے باوجود اب تک یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ استاد ِمحترم ہماری تربیت اور ہمیں راہِ راست پر رکھنے کے لیے اسکول اور اسکول کے بعد بھی جس قدر توجہ دیتے کیا آج کے ماحول میں دور دور تک کوئی ایسا استاد نظر آتا ہے؟
(4) دورانِ تعلیم ایک روز ایک استاد نے راقم کو حکم دیا کہ اپنے والد صاحب سے کہو کہ کل ہیڈ ماسٹر صاحب سے ملنے کے لیے آئیں۔ دوسری صبح میری گزارش پر والد مرحوم اور بھائی صاحب ہیڈ ماسٹر صاحب کے پاس پہنچے۔ جب استادِ محترم کو یہ علم ہوا تو راقم کی جانب متوجہ ہوکر کسی قدرخفگی سے فرمایا کہ تم میرے پاس کیوں نہیں آئے اور اپنے والد صاحب کو یہاں آنے کی زحمت کیوں دی؟ اس کے بعد والد صاحب کی چائے سے تواضع کی اور کافی دیر تک مسکرا کر گفتگو کرتے رہے۔ اس موقع پر راقم کو پہلی مرتبہ علم ہوا کہ ہمارے والد محترم اورسید مشتاق علی صاحب سٹی کالج حیدرآباد میں ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے۔ یہاں یہ نکتہ قابلِ غور ہے کہ پورے پانچ سال میں والدِ محترم صرف ایک مرتبہ اسکول آئے اور اس موقع پر بھی استادِ محترم نے فرمایا کہ انھیں یہاں آنے کی زحمت کیوں دی؟ اس واقعے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ استادِ محترم والدین پر کس قدر کم بوجھ ڈالتے تھے، جبکہ آج کے والدین تو بچوں کی تعلیم کی خاطر کس قدر پریشان رہتے ہیں، یہ ہم سب کے علم میں ہے۔
(4) جیسا کہ ذکر ہوا 1981ء میں راقم نے علامہ اقبال ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان دیا، اس کے بعد کئی برس تک استادِ محترم سے ملاقات نہ ہوسکی۔ اس کے بعد کالج، یونیورسٹی تعلیم اور ملازمت کا سلسلہ برس ہا برس تک مختلف مقامات پر رہا۔ اسکول چھوڑے 15 برس ہوچکے تھے کہ ملازمت کے سلسلے میں دوبارہ حیدرآباد قیام کا موقع ملا۔ ایک روز بعد نماز عصر راقم مسجد اقصیٰ لطیف آباد نمبر6 سے نمبر7 کی طرف پیدل جارہا تھا کہ دیکھا سامنے سے استادِ محترم اپنی Honda 50 پر آرہے ہیں، راقم وہیں رک گیا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے موٹر سائیکل روک کر اسٹینڈ پر کھڑی کی، مسکرا کر گلے لگایا، خیر وعافیت پوچھی، موجودہ مشاغل کے بارے میں دریافت کیا اور آگے روانہ ہوگئے۔ یہ تھا ان کا شاگردوں سے برسوں بعد تعلق اور ان کی شفقت۔
(5) مورخہ 16 فروری 2013ء کو استادِ محترم شمس الدین صاحب نے اپنی بچی کی شادی کی تقریب میں عاجز کو مدعو کیا۔ راقم کراچی سے حیدرآباد پہنچا اور تقریب میں شریک ہوا۔ برس ہا برس بعد اسکول کے متعدد اساتذۂ کرام کی زیارت ہوئی۔ خوش قسمتی سے کھانے کی میز پر راقم کو سید مشتاق علی مرحوم کی معیت نصیب ہوئی اور خاصی دیر تک گفتگو کرنے اور تعلیم و تربیت کے موضوع پر ان کے ارشادات سننے کا موقع ملا۔ وہ پرائیویٹ اسکولوں کی لوٹ مار اور تعلیمی معیار کی پستی پر سخت نالاں تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ پرائیویٹ اسکولوں نے لوٹ مار کا ایسا ماحول بنادیا ہے کہ لوٹنے والا بھی خوش ہے، لُٹنے والا بھی خوش ہے، لیکن اصل نقصان بچوں کا ہورہا ہے۔ دورانِ ملاقات انہوں نے ایک ایسا جملہ کہا جس سے اندازہ ہوا کہ تعلیمی اداروں کی موجودہ صورتِ حال کو وہ کس فکرمندی سے دیکھتے ہیں، فرمایا: ’’میں آج بھی جب کسی چائے خانے یا کسی ورکشاپ پرکسی بچے کو کام کرتا دیکھتا ہوں تو میرا دل دُکھتا ہے اور یہی سوال ذہن میں آتا ہے کہ یہ غریب بچہ تعلیم سے کیوں محروم ہے؟‘‘۔ میں نے دیکھا یہ جملہ ادا کرتے وقت استادِ محترم کی آنکھیں نم تھیں۔ اس کے بعد استادِ محترم کی زیارت کو کئی برس گزرگئے البتہ مختلف ذرائع سے ہمیں علم ہوتا رہا کہ ضعیفی اور علالت کی بنا پر استادِ محترم کی صحت ٹھیک نہیں رہتی۔ خوش قسمتی سے مورخہ 5 اکتوبر 2019ء کو استادِ محترم سید مشتاق علی مرحوم اور پروفیسر عنایت علی خان مرحوم کے اعزاز میں گلشن اقبال کراچی کے ایک تعلیمی ادارے میں پروگرام رکھا گیا۔ اس موقع پر دیکھا کہ دور دور سے استادِ محترم کی زیارت کے لیے ان کے شاگرد جمع ہوئے تھے۔ انہیں حیدرآباد سے پروگرام میں شرکت کرنی تھی اس لیے آمد میں کچھ تاخیر ہوگئی لیکن تمام حاضرین ان کے لیے چشم براہ تھے۔ جب وہ تشریف لائے تو راقم نے دیکھا کہ ضعیفی اور کمزور صحت کی بنا پر چلنے میں دشواری ہورہی ہے۔ بہرحال ان کے متعدد شاگردوں نے اپنی تقاریر میں انہیں خراجِ تحسین پیش کیا اور اپنی اپنی یادوں کے چراغ جلائے۔ جب استادِ محترم نے خطاب کیا تو تعلیمی پستی کا بطور خاص ذکر کیا اور یہ بھی فرمایا کہ جب میں موجودہ تعلیمی صورتِ حال دیکھتا ہوں تو یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا یہ قوم پاگل ہوگئی ہے؟ یہ استادِ محترم سے آخری ملاقات تھی۔ اس کے بعد کئی بار دل میں ارادہ کیا کہ اب جب حیدرآباد جائوں گا تو استاد محترم کی عیادت اور ان کی زیارت کے لیے ضرور جائوں گا، لیکن ملازمتی و دیگر مجبوریوں کے سبب حیدرآباد نہ جاسکا اور یوم عاشورہ 29 جنوری 2023ء کو ان کے انتقال کی خبر ملی۔ بعد نماز عشاء ان کی رہائش گاہ کے نزدیک واقع محمدی مسجد لطیف آباد نمبر10 کے نزدیک میدان میں نماز جنازہ ہوئی اور میر فضل ٹائون کے قبرستان میں تدفین ہوئی۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ میر فضل ٹائون ہمارے اسکول سے متصل کالونی ہے۔ ان کے جنازے میں شاگردوں اور اہلِ تعلق کی کثیر تعداد نے شرکت کی اور یوں ایک مثالی، باکردار، خیر خواہ، ایمان دار، فرض شناس استاد ایک بامقصد زندگی گزار کر اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ ان کے انتقال کے بعد بار بار یہ خیال ذہن میں آرہا ہے کہ سید مشتاق علی مرحوم نے 92 سال میں سے تقریباً 60 سال تک حیدرآباد میں تعلیمی خدمات انجام دیں، انھوں نے پاکستا ن بنتے بھی دیکھا اور ایک صالح معاشرے کے قیام کے لیے زندگی بھر تمام صلاحیتوں کو استعمال کیا اور دولت، ناموری، مادی سہولیات سے بے نیاز ہوکر اپنی زندگی گزار دی، ان کے شاگردوں کی کثیر تعداد نے ان سے تلمذ کی برکت سے اپنی زندگیاں روشن کیں لیکن مجموعی طور پر معاشرہ ان کے خیالات کے برعکس رخ پر چلا اور چلتا جا رہا ہے، انھوں نے خواب کیا دیکھے تھے اور ان کی تعبیر کیا نکلی۔ ان خیالات کے بعد بار باریہ شعر حافظے کی لوح پر نمودار ہوتاہے:
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم، اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
بہر حال معاشرہ خواہ کسی رخ پر چلے،استادِ محترم اپنا فرض ادا کرکے اپنے رب کی بارگا ہ میں پہنچ گئے اور یقین ہے اپنی نیکیوں کے انعامات اپنے رب سے حاصل کر رہے ہوں گے۔دعا ہے اللہ انھیں جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے اور ہمیں ان کے نیک نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔
مختصر حالات زندگی
پیدائش سید مشتا علی: مئی 1931ء نرائن پور، الور (جے پور)
والد کا نام: سید یوسف علی کاظمی
بھائی بہن: چار بھائی، دو بہنیں
سب سے بڑے بھائی: سید گل شیر علی فوج میں تھے جنہیں 1965ء میں بہادری پر ستارۂ جرأت عطا کیا گیا۔
بڑے سے چھوٹے بھائی: سید شوکت علی زمیندار تھے۔
تیسرے نمبر پر سید مشتاق علی تھے جو 1958 ء تا 1966ء الفاروق اسکول ریشم گلی حیدرآباد میں بحیثیت ہیڈ ماسٹر رہے اور 1967 ء سے1991ء میں ریٹائرمنٹ تک علامہ اقبال ہائی اسکول لطیف آباد نمبر 9 میں بحیثیت ہیڈ ماسٹر خدمات انجام دیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ حیدرآباد میں الفلاح اسکول کی تمام شاخوں کے نگرانِ اعلیٰ کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے اور جب تک صحت نے اجازت دی معلمی کے فرائض انجام دیتے رہے۔
چوتھے بھائی: سید افتخار علی شعبہ تعلیم سے وابستہ رہے اور حیدرآباد میں مقیم ہیں۔
اولاد: پانچ بیٹے دو بیٹیاں:
-1 سید حسن آفاق (استاد آرمی پبلک کالج حیدرآباد)
-2 سید حسن اقبال (استاد ڈگری کالج لطیف آباد)
-3 سید حسن آفتاب (ڈائریکٹر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد)
-4 سید حسن خالد (پاکستان ایئر فورس)
-5 سید حسن بلال (ڈپٹی ڈائریکٹر نیب)
(تفصیل بشکریہ سید حسن آفتاب)