سیاسی بے یقینی بڑھ رہی ہے
قومی اسمبلی اپنی پانچ سال کی آئینی مدت پوری کرکے رخصت ہوچکی ہے، اب ملک میں عام انتخابات ہونے ہیں، لیکن کب ہوں گے؟ اس بارے میں ابھی کچھ واضح نہیں ہے۔ انتخابات کے التواء کا ایک سبب تو مشترکہ مفادات کونسل کا مردم شماری سے متعلق فیصلہ ہے۔ مردم شماری کے نتائج کو منظور کرکے وفاقی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں نے اپنے لیے تو گنجائش پیدا کرلی ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ نگران حکومت معاملات کو کیسے سنبھالتی ہے۔ اس وقت ملک جس معاشی اور سیاسی بحران کا شکار ہے اس کی وجہ سے عوام بہت بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں اور افراد نے اقتدار میں آنے سے پہلے دعوے تو بہت سے کیے تھے لیکن عملی طور پر ان کے فیصلوں کی وجہ سے گزشتہ تقریباً سوا سال کے دوران عوام پر معاشی بوجھ کئی گنا بڑھ گیا۔ اب نگران حکومت کو معاشی استحکام کے حوالے سے ایک بڑے چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا کیونکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے جن شرائط کے تحت ہمیں قرضہ دیا ہے وہ بھی ایک تلوار کی طرح نگران حکومت کے سر پر لٹک رہی ہوں گی۔ بہرحال انتخابات کو کب تک ٹالا جائے گا یہ ایک قانونی، سیاسی اور آئینی سوال بھی ہے جس کا جواب قانون اور آئین کے پاس تو بڑا واضح ہے، تاہم سیاسی فیصلہ کیا ہوگا؟ یہ ایک مشکل سوال ہے، اس کا جواب مثبت نتائج سے جڑا ہوا ہے۔ بہرحال سبک دوش ہونے والی یہ ملکی پارلیمانی تاریخ کی پہلی اسمبلی تھی جس میں ایک منتخب وزیراعظم کو عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں اقتدار سے الگ ہونا پڑا۔ عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے سبک دوشی کے بعد سیاسی اتحاد پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی کے اشتراک کے ساتھ شہبازشریف وزیراعظم بنے،16 ماہ کے اقتدار کے دوران حکومت کو چین نصیب ہوا نہ عمران خان ہتھیار ڈالنے پر تیار ہوئے، عمران خان کی خارجہ سیاست نے ماحول ایسا بنا دیا کہ پی ڈی ایم حکومت میں آکر پچھتائی اور قمر جاوید باجوہ بھی نیک نامی نہ کما سکے، اور غیر مقبولیت کے گڑھے میں گری ہوئی تحریک انصاف مقبولیت کے بام عروج تک پہنچ گئی۔ لیکن اس کے سیاسی عروج کو 9 مئی کے واقعات نے گہنا دیا، اور اب توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو تین سال کی قید اور سیاسی عہدے کے لیے نااہل قرار دیے جانے کے بعد ملکی سیاست ایک نئے موڑ پر آگئی ہے ۔کم از کم اگلے پانچ سال عمران خان کے لیے ویسے ہی رہیں گے جیسے گزرے ہوئے پانچ سال نوازشریف کے لیے رہے ہیں۔ سیاسی شطرنج پر پہلے نوازشریف کو شہہ مات ہوئی اور اب عمران خان اس کا شکار بنے ہیں، لیکن افسوس اس بات کا رہے گا کہ اس سب کے باوجود سیاست دان سبق نہیں سیکھ سکے اور اب بھی ’’اسی عطار کے لونڈے سے دوا لے رہے ہیں‘‘۔ ان میں کسی نے اپنے رویّے تبدیل کرنے اور اصلاح کرنے پر آمادگی اپنے عمل سے ابھی تک ظاہر نہیں کی، ہر سیاست دان یہی چاہتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے درخت کی چھائوں میں بیٹھنے کا موقع صرف اسی کو میسر آئے۔
آج کا سیاسی منظرنامہ بہت واضح ہے، اب بھی فیصلہ سیاست دانوں کے بجائے دیوار کے پیچھے بیٹھی ہوئی قوتیں ہی کررہی ہیں، پورا کھیل انہی کے ہاتھ میں ہے اور کچھ مہرے اقتدار کے لیے چن لیے گئے اور کچھ اپوزیشن کے لیے، اور ایک گروہ ایسا بھی چن لیا گیا ہے جو پریشر گروپ کے طور پر کام کرے گا اور اسے حکومت پر دبائو بڑھانے کے لیے استعمال میں لایا جائے گا۔ بندوبست یہ ہے کہ مستقبل میں کھٹا میٹھا سیاسی نظام لایا جائے گا۔
عام انتخابات کے حوالے سے صورتِ حال اب تک واضح نہیں جس کی وجہ سے سیاسی بے یقینی ختم ہونے میں نہیں آرہی اور یہ سوال ہر زبان پر ہے کہ انتخابات کب ہوں گے؟
پی ڈی ایم حکومت نے عین آخری مرحلے میں معاشی فیصلوں کا نہایت اہم قانونی اختیار تھماکر، مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں کے ذریعے مردم شماری کے نتائج کے مطابق عام انتخابات کرانے کی ذمہ داری دے کر نگران حکومت کو سیاسی طغیانی کے بھنور میں اتار دیا ہے، جب کہ الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ وہ الیکشن کی حتمی تاریخ دے گا۔ وہ تاریخ کب دے گا یہ اب اسی پر منحصر ہے۔
قومی اسمبلی کی مدت مکمل ہوجانے کے بعد اگلے ماہ ملک میں ایک اور تبدیلی آرہی ہے کہ چیف جسٹس عمرعطا بندیال اپنی مدت ملازمت مکمل ہوجانے پر ریٹائر ہوجائیں گے، ان کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ چیف جسٹس ہوں گے۔ چیف جسٹس بن جانے کے بعد ان کا نیا روپ سامنے آئے گا۔ جنہیں آج اُن کی آئین پسندی پر فخر ہے کل ان کی رائے کیا ہوگی؟ فی الحال اس موضوع کو یہیں چھوڑ دیتے ہیں، اور مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کی روشنی میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مشترکہ مفادات کونسل نے وزیراعظم کی زیر صدارت اپنے پچاسویں اجلاس میں ملک میں ہونے والی ساتویں مردم شماری کے نتائج کی متفقہ طور پر منظوری دے دی ہے جس کے بعد الیکشن کمیشن آئینی طور پر انتخابات سے پہلے نئی حلقہ بندیاں کرانے کا پابند ہے، جبکہ حکومتی حلقوں کی جانب سے انتخابات بروقت ہونے کی مسلسل یقین دہانیوں کے باوجود نئی حلقہ بندیوں کی صورت میں انتخابات کا کئی ماہ کے لیے مؤخر ہوجانا تقریباً یقینی ہے۔ انتخابات کے التوا کے خدشے کا اظہار سینیٹ میں بھی کیا گیا ہے اور سینیٹر مشتاق احمد نے بروقت انتخابات کی قرارداد بھی ایوان میں پیش کی ہے، پیپلزپارٹی بھی خدشے کا اظہار کررہی ہے، لیکن لگ رہا ہے کہ وہ وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہی ہے۔ پارٹی کے سینیٹرز نے نئی مردم شماری پر سندھ میں پائے جانے والے تحفظات کی وجہ سے بھی پرانی مردم شماری اور پرانی حلقہ بندیوں ہی کی بنیاد پر انتخابات کرائے جانے پر زور دیا تھا، لیکن مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں نئی مردم شماری کے نتائج کی نہ صرف متفقہ طور پر منظوری دی گئی بلکہ چاروں وزرائے اعلیٰ اور تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے مردم شماری کے نتائج سے مکمل اتفاق کیا۔ وزارتِ منصوبہ بندی اور پاکستان ادارہ شماریات کے حکام نے مردم شماری کے نتائج پر اجلاس کو تفصیلی بریفنگ دی جس میں بتایا گیا کہ ’’ساتویں مردم شماری کے مطابق پاکستان کی موجودہ مجموعی آبادی 24 کروڑ 14 لاکھ 90 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ ملکی آبادی کی سالانہ شرح نمو 2.55 فیصد رہی، بلوچستان کی آبادی کی شرح نمو سب سے زیادہ یعنی 3.2 فیصد رہی، اور گزشتہ 6 برسوں کے دوران ملکی آبادی میں ساڑھے 3 کروڑ افراد کا اضافہ ہوا۔‘‘ مردم شماری کے مطابق پنجاب کی آبادی 12 کروڑ 76 لاکھ 80 ہزار، سندھ کی آبادی 5 کروڑ 56 لاکھ 90 ہزار، صوبہ خیبر پختون خوا کی آبادی 4 کروڑ 80 لاکھ 50 ہزار، بلوچستان کی آبادی ایک کروڑ 48 لاکھ 90 ہزارنفوس پر مشتمل ہے، جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی آبادی 23 لاکھ 60 ہزار ہے۔ نئی مردم شماری کے مطابق سندھ میں آبادی کی شرح نمو 2.57، پنجاب میں 2.53، جبکہ صوبہ خیبر پختون خوا میں 2.38 فیصد رہی۔
مردم شماری کے نتائج سے متعلق فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن اب قانونی طور پر نئی حلقہ بندی کرنے کا پابند ہے جس میں کم از کم چارماہ لگیں گے۔ انتخابی قانون کے سیکشن 17(1) کے تحت الیکشن کمیشن کو قومی اسمبلی، ہر صوبائی اسمبلی اور مقامی حکومتوں کے انتخابات کے لیے علاقائی حلقوں کی حلقہ بندی کرنی ہے اور ہر مردم شماری کے نتائج شائع ہونے کے بعد نئے سرے سے حلقہ بندی لازمی ہوتی ہے۔ ایک اور عہدیدار نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انتخابی فہرستوں کو اپ ڈیٹ کرنے سمیت دیگر متعلقہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتخابات آئندہ برس مارچ یا اپریل تک ملتوی ہوسکتے ہیں۔ اس کا بظاہر مطلب یہ ہے کہ پنجاب اور خیبرپختون خوا کی طرح وفاق، سندھ اور بلوچستان میں بھی ایک توسیعی مدت کے لیے نگراں سیٹ اپ قائم کیا جائے گا۔ایک اہم قانونی پیچیدگی یہ ہے کہ نئی مردم شماری کے مطابق قومی اسمبلی میں صوبوں کا حصہ متعین کرنے کے لیے آئینی ترمیم ضروری ہوتی ہے جبکہ نگراں سیٹ اپ میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ وفاقی وزیر قانون نے اشارہ دیا ہے کہ قومی اسمبلی میں صوبوں کی نشستوں کا ازسرنو تعین نہیں کیا جائے گا۔
یہاں ایک آئینی اور قانونی نکتہ بھی دیکھ لیتے ہیں، اگلے سال مارچ میں سینیٹ کے انتخابات ہیں، اگر سینیٹ برقرار رکھنے کا فیصلہ ہے تو پھر قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اگلے سال 12 مار چ سے قبل ہونا لازمی ہیں تاکہ سینیٹ کے نصف ارکان، جن میں چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین بھی شامل ہیں، سبک دوش ہوں تو ان کی جگہ نئے ارکان سینیٹ کے لیے منتخب کرلیے جائیں، لیکن اگر انتخابات مارچ تک نہیں ہوتے تو پھر ایک نئی صورت ہوگی کہ چیئرمین سینیٹ اپنی آئینی حیثیت کھو دیں گے، اسی طرح صدر علوی جن کی مدت15ستمبر کو ختم ہورہی ہے، اپنے منصب سے الگ ہوجاتے ہیں اور ان کی جگہ پھر اسپیکر قومی اسمبلی قائم مقام صدر مملکت ہوں گے، اور اگر ملک میں عام انتخابات مارچ میں نہیں ہوتے تو صدر مملکت کا انتخاب اورپھر سینیٹ کے رہ جانے والے نصف ارکان ایوان مکمل نہ ہونے پر چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین منتخب نہیں کر سکیں گے۔ یوں جب تک نئے انتخابات نہیں ہوتے، یہ نصف ارکان محض سینیٹ کے ممبر تو رہیں گے اجلاس نہیں بلا سکیں گے۔ یوں یہ ایک نہایت دلچسپ صورتِ حال ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ ملک میں انتخابات کب ہوتے ہیں؟ پی ڈی ایم جماعتوں کے انتخابات کے بروقت انعقاد پر اتفاقِ رائے کے اظہار کے باوجود صورتِ حال قطعی غیر یقینی ہے۔ حکومت کی اپنی آئینی مدت سے تین روز پہلے تحلیل کے نتیجے میں الیکشن کمیشن تین ماہ میں یعنی نومبر کے پہلے عشرے میں عام انتخابات کرانے کا پابند ضرور ہے لیکن یہ معاملہ درحقیقت نئی یا پرانی مردم شماری کی بنیاد پر طے پانا ہے۔ اگر نئی مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات کرانے کا فیصلہ ہوتا ہے تو پھر نئی حلقہ بندیاں بھی آئینی تقاضا ہونے کی وجہ سے لازمی ہوں گی۔ ان پر اعتراضات اور ان کے تصفیے کے لیے بھی وقت درکار ہوگا جس کے باعث انتخابی عمل آئندہ سال تک ملتوی ہوجائے گا اور نگراں حکومت اپنی تین ماہ کی مقررہ مدت میں انتخابات کرانے کی ذمہ داری کی تکمیل سے قاصر ہوگی، اور یہی نگران حکومت عام انتخابات تک کام کرتی رہے گی جسے اب پارلیمنٹ میں منظور کیے جانے والے قانون کے مطابق ماضی کے مقابلے بہت زیادہ اختیارات دے دیے گئے ہیں۔
پیمرا نیا ترمیم شدہ قانون صحافتی تنظیموں کی تشویش
حکومت نے جولائی میں ملک میں الیکٹرانک میڈیا کی نگرانی کے ادارے پاکستان الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی (پیمرا) کے قوانین میں ترامیم کا نیا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا اور اگست میں واپس لے لیا جس پر صحافتی برادری نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے بل میں ’ڈس انفارمیشن‘ اور ’مس انفارمیشن‘ کا سیکشن شامل کیا گیا تھا، حکومت کے خیال میں نئی ترامیم متعارف کرانے کا مقصد خبروں کے مواد کی ساکھ بڑھانا، گمراہ کن اور غلط اطلاعات کو ختم کرنا تھا۔ بل کو بامقصد بنانے کے لیے فیک نیوز کی تعریف کو بھی اس کا حصہ بنایا گیا تھا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ صحافتی تنظیموں کو بھی بل میں نمائندگی دی گئی، لیکن بعد ازاں سب تنظیموں نے اس کی مخالفت کی اور سب سے پہلے پی ایف یو جے(ڈیموکریٹ) نے مخالفت کی۔ بل میں ڈس انفارمیشن کی تشریح یہ کی گئی ہے کہ ایسی خبر ’ڈس انفارمیشن‘ کہلائے گی جو کسی ذاتی، سیاسی یا مالی مفاد کی خاطر یا کسی کو ہراساں کرنے کے لیے دی گئی ہو۔ مجوزہ شق کے مطابق غلط معلومات سے مراد ’مصدقہ طور پر غلط، گمراہ کن، ہیرا پھیری، تخلیق شدہ یا من گھڑت معلومات ہیں جو کسی بھی شخص کی ساکھ کو نقصان پہنچانے، سیاسی، ذاتی یا مالی مفادات یا فائدے کے لیے یا ہراساں کرنے کے ارادے سے دوسرے شخص کے نقطہ نظر کو حاصل کرنے یا اسے مناسب کوریج اور جگہ دینے کی کوشش کیے بغیر پھیلائی یا شیئر کی جاتی ہیں‘۔ اس کے مطابق متعلقہ چینل متاثرہ شخص کا مؤقف بھی اسی نمایاں انداز میں نشر کرے گا یا کوریج دے گا جس طریقے سے اس کے خلاف ’ڈس انفارمیشن‘ پر مبنی خبر دی گئی ہوگی۔
مجوزہ بل کے مطابق ’مس انفارمیشن‘ کی تشریح: ’مِس انفارمیشن‘ سے مراد وہ مواد ہے جو جانچ کے بعد جھوٹ ثابت ہو یا نہ چاہتے ہوئے غلطی سے نشر ہوگیا ہو‘۔ میڈیا کے حقوق سے متعلق سرگرم تنظیموں کی سرگرمیوں پر مشتمل 2022ء کی ایک رپورٹ کے مطابق غلط معلومات نے حالیہ برسوں میں پاکستان میں سیاسی اور سماجی ترقی کے لیے سنگین خطرات پیدا کیے ہیں۔ ’ملک میں جھوٹے پیغامات کا پھیلاؤ، جو بعض اوقات مربوط مہمات اور اثر رسوخ کی کارروائیوں کے ذریعے کیا جاتا ہے اور سب سے نمایاں طور پر آن لائن دیکھا جاتا ہے۔ تحقیقی شواہد سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں غلط معلومات کی مختلف اقسام اور شکلوں نے حالیہ ماضی میں صحتِ عامہ، سیاسی استحکام، انسانی حقوق، صحافت اور امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے، خاص طور پر کوویڈ 19 وبائی امراض اور 2022ء میں سیاسی ہلچل اور اقتدار کی منتقلی کے دوران اس میں اضافہ ہوا ہے‘۔ بل میں ڈس انفارمیشن کی شق کے متعلق کہا گیا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ فیک نیوز پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور اس کا خاتمہ ضرور ہونا چاہیے، لیکن اس کو ختم کرنے کے لیے ایک جامع نظام ہونا چاہیے تاکہ صحافی کو غیرضروری طور ہدف نہ بنایا جائے۔ سوال یہ ہے کہ فیک نیوز کا تعین کون کرے گا؟ دنیا میں حکومتیں اکثر زبان بندی کے لیے ایسے قوانین کا استعمال کرتی ہیں۔ عالمی سطح پر صحافی اور ان کی تنظیمیں صحافتی اداروں کے اندر ’سیلف ریگولیشن‘ پر زور دیتی ہیں اور ان کا مؤقف رہا ہے کہ حکومت کو ان اقدامات سے دور رہنا چاہیے۔ فیک نیوز کا تعین حکومتی ذرائع کے پاس نہیں آزاد صحافیوں کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ پیش کردہ بل کے مطابق آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی کے زمرے میں آنے والی خلاف ورزی اس بل کے تحت ’سنگین خلاف ورزی‘ تصور ہوتی تھی، پیش کردہ بل میں ابتدائیہ کی شق پانچ میں ترمیم کرکے الیکٹرانک میڈیا کو ملازمین کی تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کا پابند بنانے کی ذمہ داری بھی دینے کی بات کی گئی ہے۔ ترمیم میں بروقت ادائیگی سے مراد الیکٹرانک میڈیا ملازمین کو دو ماہ کے اندر کی جانے والی ادائیگیاں ہیں۔ اس کے علاوہ اس بل میں یہ شق شامل کی گئی ہے کہ معمول کے پروگرام کے دوران اشتہار کا دورانیہ پانچ منٹ سے زیادہ نہیں ہوگا اور پروگرام میں دو وقفوں کا دورانیہ 10 منٹ سے کم نہیں ہوگا۔ پیمرا بل میں پیمرا قانون کے ابتدائیے سمیت 9 شقوں میں ترامیم کی تجویز دی گئی ہے۔ بل کے ابتدائیے میں خبر کی جگہ مصدقہ خبر، تحمل وبرداشت، معاشی وتوانائی کی ترقی، بچوں سے متعلقہ مواد کے الفاظ شامل کیے گئے ہیں۔ نئے بل کے مطابق بل کے ابتدائیے میں ترمیم کرکے عوام الناس کی تفریح، تعلیم اور معلومات کے دائرے کو وسیع کردیا گیا ہے اور الیکٹرانک میڈیا مصدقہ خبروں، معاشرے میں تحمل کے فروغ کا مواد اپنی نشریات میں استعمال کرے گا۔ اس مجوزہ بل کا اطلاق بظاہر پیمرا کے تحت چلنے والے الیکٹرانک چینلز پر ہوگا، سوشل میڈیا پر نہیں۔ البتہ مس انفارمیشن کا مسئلہ سوشل میڈیا پر بھی ہے۔ اس کے لیے حکومت نے واضح نہیں کیا کہ اس کا خاتمہ کیسے ممکن بنائے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بل سے الیکٹرانک میڈیا کو تو مزید جکڑا جا رہا ہے لیکن اس کی تیاری میں ملوث افراد، گروپس، جماعتوں یا اداروں کو روکنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔