ـ5 اگست 2009 اور بھارت سے مذاکرات کی بھیک

کشمیر میں جاری مظالم پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کررکھی ہے

5 اگست 2019ء کو کشمیر کو بھارت کا حصہ قراردینے کے بعد سے نریندر مودی نے نہ صرف کشمیر بلکہ پورے ہندوستان میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کررکھا ہے۔ مودی حکومت نے دنیا کی نظروں میں دھول جھونکنے اور عدالت کو گمراہ کرنے کے لیے بھارتی سپریم کورٹ میں اپنے دعوے میں کہا ہے کہ آرٹیکل 370کے نفاذ کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے، تجارت اور صنعت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کی ایک تنظیم ہیومن رائٹس فار جموں اینڈ کشمیر فورم جس میں مقبوضہ کشمیر کی ہائی کورٹ کے دو ریٹائرڈ چیف جسٹس، سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جسٹس، ایک سابق سیکرٹری اور سابق سیکرٹری خارجہ سمیت چار سینئر ترین بیوروکریٹ شامل ہیں، نے مودی حکومت کے ان دعووں کو سراسر جھوٹ اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت جو دعوے کررہا ہے ان کے برعکس مقبوضہ وادی کی زمینی صورتِ حال قطعاً مختلف ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ میں بھی آرٹیکل 370 کے خاتمے کے خلاف ایک حاضر سروس بھارتی بیوروکریٹ نے درخواست دائر کی تھی جسے اب چار سال بعد سماعت کے لیے مقرر کرکے 5 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا ہے، جو 2 اگست 2023ء سے روزانہ کی بنیاد پر اس کیس کی سماعت کررہا ہے۔

شہبازشریف نے اپنے 15، 16ماہ کے دورِ حکومت میں دوسری بار بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو سنجیدہ اور بامقصد مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے پاکستان اور بھارت کو بلاوجہ کی کشمکش اور مخاصمت سے نکلنے کا مشورہ دیا ہے، شہبازشریف نے کہا ہے کہ اگر بھارت اپنا رویہ تبدیل کرکے مذاکرات کی میز پرآنے کے لیے تیار ہو تو وہ ہمیں بھی تیار پائے گا، لیکن اس کے لیے بھارت کو کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکنا ہوں گی۔ کشمیر سمیت تمام تنازعات کے منصفانہ حل کے لیے مذاکرات ناگزیر ہیں۔ شہبازشریف کا یہ کہنا بھی بالکل درست ہے کہ بھارت نے 2019ء کے متنازع آرٹیکل سے کشمیر کی اصولی حیثیت کو پامال کیا ہے۔

ہمارے حکمران سال ہا سال سے بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہے ہیں اور بھارت مستقل ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میں نہ مانوں کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔ بھارتی قیادت کے رویّے نے ثابت کردیا ہے کہ اس سے بات کرنا بھینس کے آگے بین بجانے سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ خود شہبازشریف کا ماننا ہے کہ جموں و کشمیرکا تنازع اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر سب سے پرانا اور حل طلب مسئلہ ہے، بھارت کے 5 اگست 2019ء کے غیر قانونی اقدامات سے کشمیر کے حالات بدترین رخ اختیار کرچکے ہیں۔

ہماری حکومت نے گزشتہ سال اپنی اعلان کردہ قومی سلامتی پالیسی میں بھی مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے عزم کا اظہار کیا تھا اورکہا تھا کہ ’’پاکستان کشمیر سے متعلق اپنی پوزیشن پر قائم ہے اور وہ کشمیر کے تنازع کے منصفانہ حل کا مطالبہ کرتا رہے گا۔ ایک ایسا حل جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور شدہ قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ہو۔‘‘ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل گوتریس نے بھی اپنے بیان میں اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل کیا جائے گا، مگر آج تک ان بیانات پر عمل نہیں ہوسکا جو گزشتہ 76سالوں سے دیے جارہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر گزشتہ 76سال سے جنوبی ایشیا کے امن کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے، پورا خطہ بارود کے ایک ڈھیر پر ہے، ذرا سی چنگاری اس کو ایک لمحے میں جلا کر راکھ کرسکتی ہے، لیکن آگ کو دیوتا سمجھ کر اس کی پوجا کرنے والا مودی خطے کو جنگ کی آگ کے شعلوں کے حوالے کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اہلِ کشمیر76 سال سے پاکستان کی تکمیل، سالمیت اور بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، مگر ہمارے حکمران ہر دو چار سال بعد ایک پالیسی بیان دے کر اسے بھلا بیٹھتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے بھی عملاً کچھ نہیں کیا۔

بانیِ پاکستان قائداعظم ؒ نے کشمیرکو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا، مگر 76 سال سے ملک پر مسلط حکمرانوں نے کشمیر کی آزادی کے بلند بانگ دعووں اور وعدوں کے باوجود ہمیشہ قوم کو مایوس کیا۔ مودی حکومت نے 48 ماہ قبل کشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کردیا تھا اور اُسی دن سے کشمیر میں مکمل لاک ڈائون ہے۔ ہر گھر پر ایک فوجی بندوق تانے کھڑا ہے، بازار ویران اور مارکیٹیں بند ہیں۔ ہر طرف خوف کے سائے ہیں اور سراسیمگی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، تعلیمی اداروں اور اسپتالوں پر فوج کا قبضہ ہے، ساری کشمیری قیادت جیلوں میں قید ہے یا گھروں پر نظربند ہے، قائدِ حریت سید علی گیلانی علیہ الرحمہ کا جنازہ فوج کی نگرانی اور رات کے اندھیر ے میں پڑھا کر انہیں زبردستی حیدر پورہ کے قبرستان میں دفن کردیا گیا۔ معیشت تباہ ہوگئی ہے، کھیتوں اور کھلیانوں میں فصلیں اور باغات اجاڑ دیئے گئے ہیں، ہر روز لوگوں کو گھروں سے اٹھا لیا جاتا ہے اور زمین دوز فوجی ٹارچرسیلوں اور عقوبت خانوں میں انہیں بدترین تشدد اور اذیت کا نشانہ بنایا جارہا ہے، اب تک لاکھوں کشمیریوں کو آزادی کے مطالبے کی پاداش میں شہید کردیا گیا ہے۔ مائوں، بہنوں، بیٹیوں کی عزتیں پامال اور تارتار ہیں۔ ان 48ماہ میں 20ہزار سے زائد کشمیری نوجوانوں کو کشمیر میں قائم فوجی ٹارچر سیلوں سے بھارت کی جیلوں میں منتقل کیا جاچکا ہے اور کشمیر میں آبادی کے تناسب کو بدلنے کے لیے 30 لاکھ ہندوئوں اور 10لاکھ دیگر غیر مسلموں کو جن میں اکثریت شیوسینا، آرایس ایس اور بی جے پی کے مسلم دشمنی میں اندھے بدمعاشوں اور غنڈوں کی ہے، آباد کیا جارہا ہے۔ کشمیری زبان کے بجائے ہندی کو دفتروں میں رائج کردیا گیا ہے۔ بھارت کشمیر سے آنے والے دریائوں پر بند باندھ کر ان کا رخ موڑ رہا ہے جس سے پاکستان کے دریا خشک اور زمینیں بنجر ہوجائیں گی اور ملک ایک صحرا کا منظر پیش کرے گا۔ لیکن اس سب کے باوجود پاکستان خاموش ہے، حکمرانوں کی غفلت اورلاپروائی کی وجہ سے کشمیر میں جاری مظالم پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کررکھی ہے۔

کشمیر کی آزادی کے لیے آخری گولی اور آخری سانس تک لڑنے کا اعلان کرنے والوں نے چار سال میں ایک قدم بھی نہیں اٹھایا۔ حکومت کی ہر حرکت مشکو ک ہوگئی ہے۔ حکومت کا فرض تھا کہ پانچ اگست کے بھارتی اقدام کے بعد قومی قیادت کے ساتھ بیٹھ کر مسئلہ کشمیر پر مشترکہ لائحہ عمل بناتی اور اس پر عمل درآمد کے لیے اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتی۔ کشمیری اور پاکستانی عوام حکومت کی طرف سے جہاد کے اعلان کا انتظار کررہے ہیں، چاہیے تو یہ تھا کہ اقوام متحدہ سے واپسی پر سابق وزیراعظم آزادیِ کشمیر کا واضح روڈمیپ دیتے، مگر ٹیپو سلطان کے راستے پر چلنے کا نعرہ لگانے والے سابق وزیراعظم 27 ستمبر کی تقریر کے بعد چپ سادھ کر بیٹھے رہے اور اقوام متحدہ کی تقریر کے الفاظ انہیں ڈھونڈتے رہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت بھی اسی ڈگر پر چل رہی ہے۔ حکومت قومی قیادت کے ساتھ مل بیٹھ کر فیصلہ کرے کہ مودی کے اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے کو ناکام بنانے اور کشمیریوں کو بھارتی مظالم سے نجات دلانے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ جماعت اسلامی مظلوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ ہم تحریکِ آزادیِ کشمیر کی پشتیبانی جاری رکھیں گے۔

کشمیر کی آزادی کے لیے مودی سے مذاکرات کی بھیک مانگنے کے بجائے باغیرت اور جرأت مند قیادت کی ضرورت ہے، مگر ان حکمرانوں کی صفوں میں کوئی محمود غزنوی، ٹیپو سلطان اور محمد بن قاسم نظر نہیں آتا۔ سابق وزیراعظم آزاد کشمیر نے روتے ہوئے پاکستانی حکمرانوں سے پوچھا تھا کہ ہم کب تک اپنے معصوم بچوں اور جوانوں کے لاشے اٹھاتے رہیں گے؟ صدرِ آزاد کشمیر حکمرانوں کے رویّے سے مایوس ہیں۔ اسلام آباد کے بنگلوں میں بیٹھ کر حکمرانی کرنے والوں کے دل میں کشمیریوں کا درد ہوتا تو چار سالہ معصوم بچے اور اس کے نانا کی تصویر ان کی غیرت اور ایمان کو جگانے کے لیے کافی تھی۔کشمیری پاکستان کی محبت اور آزادی کے لیے اپنی جانیں اور عصمتیں قربان کررہے ہیں۔ مائوں کے سامنے ان کے معصوم جگر گوشوں اور نوجوان بیٹوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا جاتا ہے اور بیٹوں اور بھائیوں کے سامنے ان کی مائوں اور بہنوں کی عصمت دری کی جاتی ہے۔ معصوم بچے دودھ نہ ملنے کی وجہ سے روتے اور بلکتے ہیں۔ مودی نے بابری مسجد کو رام مندر اور کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کے دو وعدے پورے کردیے اور اب وہ آزاد کشمیر پر حملہ کرنے کی باتیں کر رہا ہے، جبکہ ہمارے حکمرانوں نے قوم سے کیا گیا کوئی ایک وعدہ پورا نہیں کیا۔

چار نسلوں سے کشمیریوں کا استحصال ہورہا ہے جس میں 5 اگست 2019ء کے بعد اضافہ ہوگیا ہے، جبکہ ہمارے حکمران قدم بقدم پیچھے ہٹ رہے ہیں اور کوئی اقدام کرنے کے بجائے تقریریں کررہے اور محض دکھلاوے کے لیے پالیسیاں بنا رہے ہیں۔ ہم جنگ نہیں چاہتے مگر کشمیر میں اور ایل او سی پر بھارت نے جنگ برپا کررکھی ہے اور وہ یہ جنگ مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔ حکمران دنیا کو بتانے کے بجائے بزدلوں کی طرح مودی کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ حکمرانوں کو تو سچ بولنے کی توفیق نہیں۔ سچ یہ ہے کہ چوبیس کروڑ پاکستانی عوام اور ڈیڑھ کروڑ کشمیری اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ یہ جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔

قوم نے فیصلہ کیا ہے کہ حکمرانوں کی بے حسی اور کشمیر سے لاتعلقی کے باوجود کشمیر کی آزادی کی تحریک جاری رہے گی۔ ہمارا اب بھی مطالبہ ہے کہ کشمیر کے یک نکاتی ایجنڈے پر اوآئی سی کا اجلاس اسلام آباد میں بلایا جائے۔ خاموشی کو توڑا اور دنیا کو کشمیریوں پر ہونے والے مظالم سے آگاہ کیا جائے۔ جب تک آپ سانپ کو رسّی اور دشمن کو دوست سمجھتے رہیں گے، نقصان اٹھائیں گے۔ قراردادیں کوئی راستہ نہیں۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل سیکڑوں قراردادیں پاس کرچکی ہیں جس پر بھارت ٹس سے مس نہیں ہوا۔ اب قراردادوں سے بات بہت آگے بڑھ چکی ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قراردادیں فرار کی راہیں ثابت ہوئی ہیں۔ حکومت نے بہت وقت ضائع کردیا، اب اسے مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ان کے پاس اب زیادہ وقت نہیں رہا۔