انسان کئی اعتبار سے بہت دلچسپ واقع ہوا ہے۔ اس کے دلچسپ ہونے کی ایک صورت یہ ہے کہ یہ اپنی کامیابیوں کا سہرا اپنے سر باندھتا ہے اور اپنی ناکامیوں کا ذمے دار دوسروں کو ٹھیراتا ہے۔ انسان کے اس رجحان میں اس کی بداخلاقی کا پورا منشور پوشیدہ ہے، ایسا منشور جو اخلاقیات کے ایک بڑے حصے کو لطیفہ بنا کر رکھ دیتا ہے۔ ایسا لطیفہ جسے سن کر نہ ہنسی آتی ہے، نہ رونا، بس چھینک آتی ہے۔
کامیابی یا ناکامی کی صورت میں انسان دو حیثیتوں میں اپنا ردِعمل ظاہر کرتا ہے:
-1 بحیثیت ایک فرد
-2 بحیثیت گروہ یا اجتماع کے
ایک فرد کی حیثیت سے اگر کوئی مذکورہ بالا رجحان کے تحت اپنا ردِعمل ظاہر کرے تو یہ افسوسناک بات ہوگی، لیکن اگر کسی معاشرے کا بڑا یا موثر گروہ مندرجہ بالا رجحان کے تحت اپنا ردِعمل ظاہر کرنے لگے تو یہ افسوس کی نہیں تشویش کی بات ہوگی، کیوں کہ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ معاشرے کا ایک قابل ذکر طبقہ حقیقی اخلاقیات کے ایک بڑے حصے کا منکر ہوگیا ہے۔ معاشرے کے ایک بڑے طبقے کا حقیقی اخلاقیات سے منکر ہوجانا اس لیے خطرناک ہے کہ اگر ایک رجحان معاشرے کے ایک بڑے طبقے میں بہت عرصے تک برقرار رہے تو پھر وہ ایک تعصب اور بالآخر ایک قدر (Value) بن جاتا ہے۔ قدر چاہے مثبت ہو یا منفی، اس کی ٹوٹ پھوٹ کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ کیوں کہ قدر وہ شے ہوتی ہے جس سے انسان کے بے شمار مفادات وابستہ ہوتے ہیں جس سے اس کے وجود کی معنویت متعین ہوتی ہے۔
کامیابی اور ناکامی پر مندرجہ بالا ردِعمل کا اظہار اگر دنیوی کامیابی یا ناکامی کے سلسلے میں ہو تو معاملہ صرف تشویش تک محدود رہتا ہے، تاہم اگر یہ رجحان دنیوی معاملے کے بجائے مذہبی رویوں کی تبلیغ یعنی صداقت کی تبلیغ کی کامیابی اور ناکامی کے سلسلے میں بھی اظہار میں آنے لگے تو پھر معاملہ تشویش کے بجائے ماتم تک پہنچ جانا چاہیے، بلکہ اگر یہ رجحان بہت پھیل جائے اور اسے پھیلے ہوئے خاصا وقت گزر جائے تو پھر دوا تو کیا دعا بھی بے کار ہوجاتی ہے، کیوں کہ موت کے آثار کے غالب آجانے کے بعد دعا بھی قبول نہیں ہوتی۔
گفتگو کے اس طویل ابتدائیے کا مقصد دراصل پاکستانی معاشرے میں پرورش پانے والے ایک اہم رجحان کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا ہے تاکہ ہم اس پر انفرادی اور اجتماعی طور پر غور کرسکیں اور اس کے تدارک کی کوئی صورت نکال سکیں۔ میرے خیال میں اس ابتدائیہ کو پڑھ لینے کے بعد آپ کے لیے ذیل میں قدرے تفصیل سے زیر بحث آنے والے مسئلے کی نوعیت اور اہمیت کو سمجھنا آسان ہوجائے گا۔
اس وقت پاکستانی معاشرے میں دینی حوالے سے جتنی بھی مثبت قوتیں کام کررہی ہیں ان کے افراد سے اکثر و بیشتر یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ جناب ہمارے معاشرے میں لوگ اتنے بگڑ چکے ہیں کہ وہ اوّل تو ہماری بات سننے کو تیار نہیں، اور اگر تیار ہیں تو ان پر ہماری تبلیغ کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس لیے اگر ہم معاشرے کے اندر کوئی تبدیلی لانے میں ناکام ہیں تو اس کی ذمے داری ہمارے بجائے معاشرے پر عائد ہوتی ہے۔ ان حضرات کا خیال ہے کہ ہم نے اپنی کوششوں میں کوئی کوتاہی نہیں کی، ہم نے حق کا پیغام اپنی تمام توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرے تک پہنچایا ہے اور ہماری انہی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ معاشرے کے کافی افراد تبدیل ہوئے ہیں۔ یعنی کامیابی کا سہرا ہمارے سر اور ناکامی کی ذمے داری معاشرے کے سر۔
اس پورے بیان کا لب لباب یہ ہے کہ معاشرے کا جو حصہ تبدیل نہیں ہوا ہے وہ خیر، صداقت اور حسن کی قدروں کو قبول کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوگیا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا معاشرہ ایک غیر صحت مند معاشرہ ہے۔ کون سی بیماری ہے جو اسے لاحق نہیں؟ لیکن اس کے باوجود یہ کہنا کہ یہ صداقت کو قبول کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوگیا ہے ایک سفاک بات ہے۔ کیوں کہ دنیا کا کوئی بھی معاشرہ صداقت کو قبول کرنے کی صلاحیت سے محروم نہیں ہوتا، اور جب وہ خیر یا صداقت کو قبول کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے تو وہ فنا ہوجاتا ہے۔ ایک معاشرہ کیا بڑی بڑی تہذیبیں فنا ہوجاتی ہیں۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہمارا معاشرہ اتنا بیمار ہوچکا ہے کہ اب کوئی دوا کارگر نہیں ہوسکتی۔ بیماری اگر ایک خاص مرحلے سے آگے بڑھ جائے تو واقعی دوا کارگر نہیں ہوتی، ممکن ہے ہمارا معاشرہ بھی اس مرحلے پر آگیا ہو۔
تاہم اس مسئلے کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ ممکن ہے بیماری اس حد سے نہ بڑھی ہو بلکہ ہماری دوا ہی میں کھوٹ آگیا ہو۔ شاید اس میں پانی کی مقدار اتنی بڑھ گئی ہو کہ شفا بخش اجزا بے اثر ہو کر رہ گئے ہوں، یعنی ممکن ہے ہماری صداقت ہی اتنی کمزور ہو کر رہ گئی ہو کہ معاشرے پر اثر انداز نہ ہوپارہی ہو۔ شاید نہیں یقیناً ایسا ہی ہے۔
اس مسئلے کے اہم ترین اور بنیادی پہلو کی وضاحت کے لیے اس مسئلے سے متعلق ایک صورتِ حال کی وضاحت ضروری ہے۔
یہ خیال بہت عام ہے کہ جب ہم ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہیں تو دراصل ہم ایک دوسرے کے ساتھ کسی نہ کسی پیغام کا ابلاغ کرتے ہیں۔
یہ بات جتنی درست نظر آتی ہے اس سے کہیں زیادہ غلط ہے۔ میرے خیال میں جب ہم ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں تو کسی پیغام کے بجائے کسی صداقت کا ابلاغ کرتے ہیں۔ پیغام جو لفظوں کی صورت میں ہوتا ہے اس صداقت کے ابلاغ کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ ابلاغ معنی کا بھی نہیں ہوتا۔ اگر معنی کے پس پشت صداقت کی قوت نہ ہو تو بڑے بڑے معنی بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں۔
اس بات کا تجربہ کم و بیش ہر شخص کو ہوتا ہے کہ ایک شخص مخصوص الفاظ پر مشتمل ایک پیغام دیتا ہے تو اس کا اثر نہیں ہوتا، لیکن جب دوسرا شخص ان ہی الفاظ پر مشتمل پیغام کو دوسرے تک منتقل کرتا ہے تو اس کا اثر ہوتا ہے۔ اگر ہم یہ تسلیم کرلیں کہ ابلاغ الفاظ اور معنی کا ہوتا ہے تو پھر دونوں صورتوں میں پیغام کا اثر یکساں ہونا چاہیے۔ یہ کیا چیز ہے جو ایک پیغام کو موثر بناتی ہے؟ یہ صرف صداقت ہے اور کچھ نہیں۔ میرے نزدیک جس کے اندر جتنی زیادہ صداقت ہوتی ہے اُس کا پیغام اتنا ہی زیادہ موثر اور دیرپا ہوتا ہے۔
پانچ چھے ہزار سالہ انسانی تاریخ کے پس منظر میں حضورؐ کی بعثت تو حال ہی کی بات معلوم ہوتی ہے، لیکن سیدنا عیسیٰؑ کی بعثت کو ہزاروں برس ہوگئے ہیں۔ آپ کے ماننے والوں نے آپؑ کے پیغام میں بے شمار تبدیلیاں بھی کر ڈالی ہیں مگر آپ کا پیغام آج تک زندہ ہے۔ اس کے برعکس گزشتہ تین ہزار سال میں سیکڑوں فلسفی پیدا ہوئے اور ایک آدھ صدی میں مکمل طور پر رد ہوکر رہ گئے۔ حالاں کہ انہوں نے ہر بال کی کھال اُتار دی ہے۔ چناں چہ یہ کیا بات ہے کہ ایک روایت تبدیل بلکہ مسخ ہونے کے باوجود بھی کروڑوں لوگوں کے قلوب میں جاگزیں ہے اور ایک روایت تردید در تردید کے ایک طویل سلسلے کے سوا کچھ بھی نہیں!
خیر یہ تو ایک بڑی بات ہے۔ قائداعظم کی مثال لیجیے، آپ کو معلوم ہے کہ قائداعظم اکثر انگریزی میں تقریریں کیا کرتے تھے۔ وہ لوگ جو انگریزی کا ایک لفظ بھی نہیں جانتے تھے اُن کی تقریروں پر جھوم جھوم جاتے تھے۔ ایسے لوگوں سے جب پوچھا گیا کہ صاحب! جب آپ قائداعظم کی زبان نہیں سمجھتے تو ان کی تقریروں پر کیوں جھومتے ہیں؟ جواب آپ کو معلوم ہی ہوگا، لوگوں نے کہا کہ قائداعظم کی تقریر تو واقعی ہماری سمجھ میں نہیں آتی ہے مگر یہ بات ہم جانتے ہیں کہ وہ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں سچ کہہ رہے ہیں۔
الفاظ جب صداقت سے محروم ہوجاتے ہیں تو صرف شور بن کر رہ جاتے ہیں۔ بقول شاعر
ہوتی ہے صداقت میں خامشی کی گہرائی
صرف شور ہے حرفِ بے صداقت میں
حرفِ بے صداقت سے صرف شور ہی نہیں ایک اور چیز پیدا ہوتی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جسے میں اپنی اصطلاح میں روحانی آلودگی (spiritual pollution) کہتا ہوں۔ گاڑیوں کے شور کی آلودگی یعنی Noise Pollution سے سماعت متاثر ہوتی ہے۔ روحانی آلودگی سے سماعتِ حق کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ انسان اگر حق کی سماعت کی صلاحیت سے محروم ہوجائے تو باقی باتوں کی سماعت کے کوئی معنی نہیں رہتے۔
دنیا میں خیر اور شر دونوں کے پھیلائو اور اثراندازی کا سبب یا بنیادی اصول ایک ہی ہے یعنی صداقت۔ آپ خیر پر سچا یقین رکھیں گے تو آپ کا خیر پھیلے گا اور موثر ہوگا، آپ شر پر سچا یقین رکھیں گے تو آپ کا شر بھی پھیلے گا اور موثر ہوگا۔ مغرب مشرق کے گھر آنگن میں یوں ہی نہیں آگیا، مغرب نے اپنے شر پر پوری شدت اور گہرائی سے یقین کیا۔ اب ان کا یقین کمزور پڑ رہا ہے تو مشرق ہی میں نہیں خود ان کے اپنے معاشروں میں ان کے نظام خیال کے خلاف شدید ردعمل پیدا ہورہا ہے۔
ایک مخصوص معنی میں خیر اور شر کے درمیان ایک ارتباطِ باہمی یعنی correlation ہوتا ہے، اس لیے ان میں سے کسی ایک کی کمزوری یا قوت دوسرے کی کمزوری اور قوت پر اثرانداز ہوتی ہے۔ میرے ذہن میں اکثر یہ سوال اُبھرتا ہے کہ اکثر انبیا عرب کی سرزمین ہی پر کیوں پیدا ہوئے۔ اگرچہ میرے پاس اس سوال کا کوئی منطقی جواب نہیں ہے، لیکن بہرحال میرے ذہن میں اس سوال کا یہ جواب آتا ہے کہ عرب کے باشندوں کے خمیر میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ وہ اپنے خیر اور شر پر دُنیا کی دیگر تمام اقوام کے مقابلے میں زیادہ ثابت قدمی کے ساتھ قائم رہ سکتے ہیں۔ وہ دوسروں کے مقابلے پر خیال (Idea) کو زیادہ وقت تک خالص (Pure) رکھ سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ شاید ان کا شر باقی اقوام کے مقابلے پر سب سے زیادہ معیاری تھا اس لیے وہاں تواتر کے ساتھ خیر نازل کیا گیا۔ اس پس منظر میں مَیں اکثر کہا کرتا ہوں کہ جس میں بگڑنے کی صلاحیت نہیں ہوتی اس میں سنورنے کی صلاحیت بھی نہیں ہوتی۔ جو جتنا زیادہ بگڑنے کا امکان رکھتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ سنورنے کا امکان بھی اپنے اندر رکھتا ہے۔ سیدنا عمرؓ اگر اپنے منفی جذبے میں شدید نہ ہوتے اور اس کے تحت حضورؐ کے قتل جیسے عظیم جرم کا خیال نہ کرتے تو شاید وہ، عمر فاروقؓ نہ بن سکتے جس پر پوری انسانی تاریخ کو بجا طور پر ناز ہے۔ میں یہ کوئی کلیہ یا صداقت بیان نہیں کررہا ہوں۔ یہ محض میرا ایک خیال ہے جو سو فی صد غلط ہوسکتا ہے۔
اس ناچیز کی رائے میں ہمارے یہاں خیر کی قوتوں کی بے اثری کا ایک اور سبب بھی ہے، اور وہ یہ کہ ان قوتوں کے عمل اور ردِعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خیر کو پھیلانے کی ٹھیکے دار بن گئی ہیں، خیر سب کچھ برداشت کرسکتا ہے مگر کسی کی فوقیت نہیں۔ ٹھیکیداری کے جذبے میں اکثر و بیشتر خیر سے زیادہ اہم خیر پھیلانے والے کی شخصیت بن جاتی ہے۔ یہ شخصیت ایک فرد کی بھی ہوسکتی ہے اور کسی اجتماع کی بھی۔ نتیجتاً ہمارے مفادات خیر کے مفادات بن جاتے ہیں۔ ہمارے رویّے خیر کے رویّے قرار پاتے ہیں۔ اور یوں خیر یا صداقت کا دائرئہ اثر محدود تر ہونے لگتا ہے۔ اس صورتِ حال میں ایک دوطرفہ ردعمل وجود میں آتا ہے۔ ایک طرف خیر کا دائرہ محدود ہونے لگتا ہے اور دوسری طرف صداقت سے محروم ہوکر الفاظ شر میں ڈھل کر روحانی کثافت پھیلانے کا سبب بننے لگتے ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ہر روز صداقت سے محروم اربوں الفاظ فضا میں تحلیل ہوتے ہوں اس معاشرے میں روحانی کثافت کے پھیلائو کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ ہمارا معاشرہ ایک ایسا ہی معاشرہ ہے۔
چناں چہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا پیغام موثر ہو تو ہمیں سمجھنا ہوگا کہ پیغام کی ترسیل کے کوئی معنی نہیں۔ معنی ہیں تو صرف صداقت کی ترسیل کے۔ اگر آپ کے اندر یہ صداقت ہوگی تو آپ کے پیغام کی راہ روکنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہوگا، اور اگر آپ کے اندر یہ صداقت نہیں ہوگی تو پھر آپ کا پیغام الفاظ کی ایک منظم ترتیب کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ اور الفاظ کی منظم ترتیب نے آج تک کسی دل پر دستک نہیں دی۔ اس مختصر سرسری بحث کے پس منظر میں آپ سے یہ سوال پوچھنا غیر مناسب نہیں ہوگا کہ آپ کا ذاتی انتخاب کیا ہے؟ پیغام یا صداقت…؟ ہمارے مستقبل کا دارومدار آپ کے اس انتخاب پر ہے۔