پاکستان کے بارے میں ایک بنیادی پیش پا افتادہ بات یہ ہے کہ یہ اسلامی مملکت ہے جس کی اپنی ایک تہذیب ہے، اور پاکستان اس لیے وجود میں آیا ہے کہ اس تہذیب کی بقا اور استحکام کے فریضے کو زندگی کی ساری توانائیوں کے ساتھ پورا کرے۔ اب یہ تہذیب ایک مذہبی تہذیب ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ایک مذہب کے، انسانوں پر عمل اور ردعمل سے پیدا ہوئی ہے اور تمام بنیادی انسانی رشتوں کو متعین کرتی ہے۔ انسانی رشتوں کی چار مرکزی اور بنیادی شکلیں ہیں: خدا اور انسان کا رشتہ، انسان اور کائنات کا رشتہ، انسان اور انسان کا رشتہ اور انسان کا خود اپنے نفس سے رشتہ۔ یہ رشتے مثبت اور منفی دونوں ہوتے ہیں، یعنی جب ہم خدا اور انسان کے رشتے کا ذکر کرتے ہیں تو اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ یہ رشتہ لازمی طور پر مثبت ہوتا ہے۔ مثبت رشتہ خدا کا اقرار کرتا ہے، منفی رشتہ انکار۔ لیکن رشتے دونوں ہوتے ہیں۔ ان معنوں میں کوئی بھی تہذیب خدا اور انسان کے رشتے کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ یہی حال دوسرے انسانی رشتوں کا ہے۔ آپ فطرت، انسان اور اپنے نفس کے بارے میں مثبت یا منفی کوئی بھی رویہ اختیار کرسکتے ہیں۔ اب یہ تہذیب پر مبنی ہے کہ وہ کس رشتے کو کس طرح محسوس کرتی ہے۔ تہذیبوں کے اختلافات اسی احساس کے اختلاف سے پیدا ہوتے ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی تہذیب اسلامی تہذیب ہے تو اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ خدا، فطرتِ انسان اور نفس کے بارے میں ایک خاص طرح محسوس کرتی ہے اور اپنی ہیئت کے تمام مظاہر میں ایک بنیادی طرزِ احساس کا اظہار کرتی ہے۔ اس طرزِ احساس کے بغیر یہ تہذیب نہ اپنے تمام اجزا کو مجتمع کرسکتی ہے اور نہ ماضی، حال اور مستقبل کے تسلسل میں انھیں زندہ اور فعال طور پر قائم رکھ سکتی ہے۔ اس بحث کا ادب سے یہ تعلق ہے کہ ادب تہذیبی طرزِ احساس کا لفظی اظہار ہے جو ہمیشہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ تہذیب اپنے طرزِ احساس میں کتنی زندہ اور فعال ہے۔ دوسرے لفظوں میں ادب تہذیبی طرزِ احساس کا اظہار بھی ہے اور اس کی زندگی، توانائی کا پیمانہ بھی۔ یہی حال دوسرے فنونِ لطیفہ کا ہے۔ یہ جہاں تہذیب کی داخلی قوت سے پیدا ہوتے ہیں وہاں ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ قوت کس حد تک زندہ ہے۔ میں نے جب یہ کہا تھا کہ ادب تہذیب کا ایک فطری عنصر ہے تو اس سے جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں، میری مراد یہ تھی کہ خود تہذیب کی روح نے اپنے اظہار کے لیے اس آئینے کی تخلیق کی ہے۔ پاکستانی ادب اگر وہ ادب ہے تو پاکستانی تہذیب کے آئینے کے سوا اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ اب ہم ایک نازک بحث کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ میرا ارادہ ہے کہ میں ابھی تھوڑی دیر میں ممکنہ وضاحت کے ساتھ اسے آپ کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کروں، لیکن اس سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ اس بحث کو آج کے موضوع سے جوڑ کر ایک بات مکمل کرلوں۔ ہمیں یہ تو معلوم ہوگیا کہ ادب کا ہماری تہذیب سے کیا تعلق ہے، لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں ہوا کہ اس بحث میں مملکت کا کیا مقام ہے۔ مجھے عرض کرنے دیجیے کہ مملکت کا قیام اگر ایک تہذیب کو قائم کرنا اور اس کی بقا اور استحکام کا فریضہ انجام دینا ہے تو پاکستانی مملکت کا مقصد اسلامی تہذیب کی اس شکل کو محفوظ رکھنا ہے جو پاکستان کو معرضِ وجود میں لائی۔ یقیناً مملکت کے فریضے کی یہ بحث ہم اعلیٰ ترین مقصد کی روشنی میں کررہے ہیں اور اس میں قیامِ امن، فراہمیِ روزگار، ملکی پیداوار میں اضافہ اور نظم ونسق وغیرہ کے مسائل چھوڑ دیے گئے ہیں۔ مملکت تہذیب سے متعلق اپنا فریضہ ہمیشہ تہذیب کے ظاہری عوامل کی حفاظت کی صورت میں ادا کرتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں مملکت تہذیب کے ظاہر کی حفاظت کرتی ہے۔ جب کہ ادیب اس کے باطن کی نگہبانی کرتے ہیں۔ اس طرح ادیب اور مملکت تہذیب کے داخل و خارج یا اس کے جسم اور روح کی حفاظت کے مشترک مقصد میں ایک دوسرے کے معاون ہوتے ہیں اور یوں اپنی اپنی حدود میں وہ اعلیٰ ترین فریضہ انجام دیتے ہیں جس کے بغیر کوئی ہیئت ِ اجتماعیہ مہذب کہلانے کی مستحق نہیں ہو سکتی۔
سلیم احمد(اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام دوسری کُل پاکستان اہلِ قلم کانفرنس منعقدہ اسلام آباد
25-26 نومبر 1980ء کی پہلی نشست سے خطاب)
[ بیاد ،سلیم احمد، روایت ،مرتبین: محمد سہیل عمر، جمال پانی پتی۔ ص 372-371]
مجلس اقبال
اندھیری شب ہے، جدا اپنے قافلے سے ہے تُو
ترے لیے ہے میرا شعلہ نوا قندیل
علامہ اقبال امت ِ واحدہ یا ملّتِ اسلامیہ کی متحدہ قوت سے کٹے ہوئے مسلمانوں کو تلقین کرتے ہیں کہ میرے کلام سے رہنمائی حاصل کرو، اس لیے کہ غلامی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اپنے ملّی قافلے سے کٹ کر تم قدم قدم پر ٹھوکریں کھا رہے ہو۔ ایسے میں میرے کلام کی روشنیاں چراغِ راہ بن کر تمہاری رہنمائی کرتی اور تمہارے دلوں کو ایمانی جذبوں اور آزادی کے لطف سے روشناس کراتی ہیں۔ یوں وہ اپنے اشعار کو اندھیری راہ میں جذبے اور روشنیاں بخشنے والے چراغ قرار دیتے ہیں۔